Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

موسیٰ علیہ السلام اور فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اور فرعون کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اللہ کے کلیم نے فرمایا کہ اے فرعون میں رب العالمیں کا رسول ہوں ۔ جو تمام عالم کا خالق و مالک ہے ۔ مجھے یہی لائق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارہ میں وہی باتیں کہوں جو سراسر حق ہوں ب اور علی یہ متعاقب ہوا کرتے ہیں جیسے رمیت بالقوس اور رمیت علی القوس وغیرہ ۔ اور بعض مفسرین کہتے ہیں حقیقی کے معنی حریض کے ہیں ۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ مجھ پر واجب اور حق ہے کہ اللہ ذوالمنین کا نام لے کر وہی خبر دوں جو حق و صداقت والی ہو کیونکہ میں اللہ عزوجل کی عظمت سے واقف ہوں ۔ میں اپنی صداقت کی الٰہی دلیل بھی ساتھ ہی لایا ہوں ۔ تو قوم بنی اسرائیل کو اپنے مظام سے آزاد کر دے ، انہیں اپنی زبردستی کی غلامی سے نکال دے ، انہیں ان کے رب کی عبادت کرنے دے ، یہ ایک زبردست بزرگ پیغمبر کی نسل سے ہیں یعنی حضرت یعقوب بن اسحاق بن حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد ہیں ۔ فرعون نے کہا میں تجھے سچا نہیں سمجھتا نہ تیری طلب پوری کروں گا اور اگر تو اپنے دعوے میں واقعہ ہی سچا ہے تو کوئی معجزہ پیش کر ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٠] لقب فرعون کی حقیقت اور فرعون کی سلطنت کی وسعت :۔ اس دور میں مصر کے ہر بادشاہ کا لقب فرعون ہوا کرتا تھا اور ان کا اصلی نام الگ ہوا کرتا تھا۔ فرعون کے لقب کے پیچھے یہ تصور کار فرما تھا کہ سب سے بڑے دیوتا سورج کی روح بادشاہ کے جسم میں حلول کر جاتی ہے اس لحاظ سے وہ بادشاہ اس زمین میں اسی سبب سے بڑے دیوتا یا مہا دیو کا جسمانی مظہر ہوتا ہے اسی بنا پر تمام فراعنہ زمین پر اپنی خدائی کا دعویٰ بھی رکھتے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی زندگی میں دو فرعونوں سے پالا پڑا تھا ایک وہ فرعون جس نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی پرورش کی تھی اور اس کا نام رعمسیس تھا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے بھاگ کر دس سال کا عرصہ سیدنا شعیب (علیہ السلام) کے زیر تربیت رہے اس دوران یہ فرعون مرچکا تھا اور اس کا بیٹا تخت نشین ہوچکا تھا۔ ان کے زمانہ کا صحیح صحیح تعین بہت مشکل ہے کیونکہ تاریخوں میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے تاہم یہ زمانہ سوا ہزار قبل مسیح سے لے کر ڈیڑھ ہزار قبل مسیح کے درمیان ہی ہوسکتا ہے جس فرعون کے سامنے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اپنے معجزات لے کر گئے تھے یہ وہی رعمسیس کا بیٹا تھا جس کی سلطنت بڑی وسیع تھی جو شام سے لے کر لیبیا تک اور بحر روم کے سواحل سے حبش تک پھیلی ہوئی تھی یہ فرعون اس وسیع علاقے کا صرف بادشاہ ہی نہ تھا بلکہ معبود بھی بنا ہوا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ مُوْسٰي يٰفِرْعَوْنُ اِنِّىْ رَسُوْلٌ۔۔ : فرعون مصر کے ہر بادشاہ کا لقب تھا، جیسا کہ روم کے بادشاہ کا قیصر اور فارس کے بادشاہ کا لقب کسریٰ تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے اس کے عزت والے نام کے ساتھ نہایت نرمی کے ساتھ مخاطب فرمایا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھیجتے وقت تلقین فرمائی تھی۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (٤٤) اس فرعون کا نام منفتاح بن رمسیس ثانی یا ولید بن ریان بتایا جاتا ہے، مگر یہ بات کسی قابل اعتماد ذریعے سے ثابت نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری آیت میں فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے کہا کہ میں رب العلمین کا رسول ہوں، میرے حال اور منصب نبوت کا تقاضا یہی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی بات بجز سچ کے منسوب نہ کروں، کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کو جو پیغام حق تعالیٰ کی طرف سے دیئے جاتے ہیں وہ ان کے پاس خدائی امانت ہوتے ہیں، اس میں اپنی طرف سے کمی بیشی کرنا خیانت ہے اور تمام انبیاء (علیہم السلام) خیانت اور ہر گناہ سے پاک اور معصوم ہیں۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ تم لوگوں کو میری بات پر اس لئے یقین کرنا چاہیے کہ میری سچائی تم سب کے سامنے ہے، میں نے کبھی نہ جھوٹ بولا ہے اور نہ بول سکتا ہوں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ مُوْسٰي يٰفِرْعَوْنُ اِنِّىْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝ ١٠٤ ۙ- رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، - العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :85 لفظ فرعون کے معنی ہیں”سورج دیوتا کی اولاد ۔ “ قدیم اہل مصر سورج کو ، جو ان کا مہا دیو یا ربِّ اعلیٰ تھا ، رغ کہتے تھے اور فرعون اسی کی طرف منسوب تھا ۔ اہل مصر کے اعتقاد کی رو سے کسی فرماں روا کی حاکمیت کے لیے اس کے سوا کوئی بنیاد نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ رغ کا جسمانی مظہر اور اس کا ارضی نمائندہ ہو ، اسی لیے ہر شاہی خاندان جو مصر میں برسرِ اقتدار آتا تھا ، اپنے آپ کو سورج بنسی بنا کر پیش کرتا ، اور ہر فرماں روا جو تخت نشین ہوتا ، ”فرعون“ کا لقب اختیار کر کے باشندگانِ ملک کو یقین دلاتا کہ تمہارا ربِّ اعلیٰ یا مہادیو میں ہوں ۔ یہاں یہ بات اور جان لینی چاہیے کہ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ کے قصّے کے سلسلہ میں دو فرعونوں کا ذکر آتا ہے ۔ ایک وہ جس کے زمانہ میں آپ پیدا ہوئے اور جس کے گھر میں آپ نے پرورش پائی ۔ دوسرا وہ جس کے پاس آپ اسلام کی دعوت اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ لے کر پہنچے اور بالآخر غرق ہوا ۔ موجودہ زمانہ کے محققین کا عام میلان اس طرف ہے کہ پہلا فرعون رعمسیس دوم تھا جس کا زمانہ حکومت سن١۲۹۲ ء سے سن١۲۲۵ ءقبل مسیح تک رہا ۔ اور دوسرا فرعون جس کا یہاں ان آیات میں ذکر ہو رہا ہے ، منفتہ یا منفتاح تھا جو اپنے باپ رعمسیس دوم کی زندگی ہی میں شریک حکومت ہو چکا تھا اور اس کے مرنے کے بعد سلطنت کا مالک ہوا ۔ یہ قیاس بظاہر اس لحاظ سے مشتبہ معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی تاریخ کے حساب سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تاریخ وفات ١۲۷۲ قبل مسیح ہے ۔ لیکن بہر حال یہ تاریخی قیاسات ہی ہیں اور مصری ، اسرائیلی اور عیسوی جنتریوں کے تطابق سے بالکل صحیح تاریخوں کا حساب لگانا مشکل ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani