105۔ 1 جو اس بات کی دلیل ہے کہ میں واقعی اللہ کی طرف سے مقرر کردہ رسول ہوں۔ اس معجزے اور بڑی دلیل کی تفصیل بھی آگے آرہی ہے۔ 105۔ 2 بنی اسرائیل جن کا اصل مسکن شام کا علاقہ تھا، حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں مصر چلے گئے تھے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ فرعون نے ان کو غلام بنا لیا تھا اور ان پر طرح طرح کے مظالم کرتا تھا، جس کی تفصیل پہلے سورة ، بقرہ میں گزر چکی ہے اور آئندہ بھی آئے گی۔ فرعون اور اس کے درباری امراء نے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو ٹھکرا دیا تو حضرت موسیٰ نے فرعون سے دوسرا مطالبہ کیا کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردے تاکہ یہ اپنے آبائی مسکن میں جاکر عزت اور احترام کی زندگی گزاریں اور اللہ کی عبادت کریں۔
[١١١] سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے فرعون سے مطالبات :۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے پاس پہنچ کر اسے دو باتیں ارشاد فرمائیں ایک یہ کہ میں اللہ رب العالمین کا فرستادہ ہوں اور میرے اس بیان کی صداقت کے طور پر مجھے دو معجزے بھی عطا کیے گئے ہیں لہذا تم اپنی خدائی سے دستبردار ہو کر ایمان لے آؤ (جیسا کہ بعض دوسری آیات قرآنی میں اس کی وضاحت موجود ہے) اور دوسری یہ کہ بنی اسرائیل کو آزاد کر کے میرے ہمراہ روانہ کردو تاکہ میں انہیں یہاں سے فلسطین کی طرف لے جاؤں) ان دو آیات میں کئی امور قابل غور اور وضاحت طلب ہیں مثلاً :- ١۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ کیسے جرأت ہوئی کہ ایک اتنی عظیم الشان سلطنت کے مالک جابر اور متکبر بادشاہ کے سامنے نڈر ہو کر اسے ایمان لانے کی بھی دعوت دے دی اور بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ بھی کردیا بالخصوص ان حالات میں کہ وہ ان مصریوں کا ایک آدمی قتل کر کے یہاں سے بھاگے تھے اور انہیں اس بات کا خطرہ بھی تھا کہ کہیں فرعونی مجھے اسی سابقہ جرم میں گرفتار کر کے قتل نہ کردیں۔- فرعون کے سامنے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی بےمثال جرات کی وجوہ :۔ اس کا صحیح جواب تو یہی ہے کہ انبیاء و رسل کو جو ذمہ داری سونپی جاتی ہے انہیں اپنی جان پر کھیل کر بھی ذمہ داری ادا کرنا ہی پڑتی ہے چناچہ کئی انبیاء (علیہم السلام) اسی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے شہید بھی کردیئے گئے تاہم رسولوں کی حد تک ان کی جان بچانے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ خود اپنے ذمے لے لیتے ہیں اور سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے جب فرعون کے پاس آنے سے پیشتر اپنی جان کا خطرہ محسوس کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ یقین دہانی کرا دی تھی کہ وہ تجھے قتل نہ کرسکیں گے پھر آپ کو چند باتوں کی تائید مزید بھی حاصل تھی ایک یہ کہ آپ فرعون کے دربار کے ماحول سے پوری طرح واقف تھے اور اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ یہیں گزار کر گئے تھے اس لیے آپ پر دربار اور درباریوں کی وہ مرعوبیت طاری نہ ہوسکتی تھی جو ایک اجنبی کے لیے ہوسکتی تھی دوسرے آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ میرے بھائی ہارون کو نبوت عطا کر کے اس کام میں میرا مددگار بنا دے آپ کی یہ دعا بھی قبول ہوئی اور جب آپ فرعون کے پاس گئے تو سیدنا ہارون (علیہ السلام) بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ کو اصل خطرہ اس بات کے نتیجے سے قطعاً نہ تھا کہ آپ اللہ کا پیغام من و عن انہیں پہنچا دیں بلکہ اس بات سے تھا کہ میں ان کا ایک مفرور مجرم بھی ہوں تو اس جرم کی پاداش میں وہ مجھے پکڑ کر مار ہی نہ ڈالیں تو اس بات کی یقین دہانی اللہ تعالیٰ نے کرا دی کہ وہ ایسا ہرگز نہ کرسکیں گے۔- ٢۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جو یہ فرمایا کہ میں اللہ رب العالمین کا فرستادہ ہوں تو وہ اس لحاظ سے تھا کہ فرعون اور فرعونی سب یہ بات تسلیم کرتے تھے کہ اس کائنات اور اس میں موجود تمام چیزوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان کے تمام دیوی دیوتاؤں سے برتر ہے اور فرعون کا خدائی کا دعویٰ اس لحاظ سے تھا کہ وہ تمام لوگوں کا کار ساز اور حاجت روا اور مشکل کشا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں یہ بتلایا کہ جس اللہ کا میں رسول ہوں وہ تمہارے عقیدے کے مطابق بھی تمہاری خدائی سے بہت بلند وبالا ہے۔- ٣ سیدنا یوسف علیہ اسلام نے اپنے والدین اور اپنے بھائیوں کو چار سو سال پیشتر کنعان سے مصر میں بلا لیا تھا یہیں ان کی نسل بڑھتی اور پھلتی پھولتی رہی اس وقت اس کی حیثیت ایک حکمران قوم کی تھی۔ کچھ مدت بعد ان میں وہ تمام امراض پیدا ہوگئے جو کسی قوم کی موت کا سبب بن جاتے ہیں اور جب موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو یہ بنی اسرائیل جو لاکھوں کی تعداد تک پہنچ چکے تھے فرعونیوں کے ماتحت محکوم قوم کی حیثیت سے نہایت ذلت کی زندگی بسر کر رہے تھے جس کا ذکر قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی قوم کی اس مظلومانہ اور ذلت کی زندگی کا بچپن ہی سے شدید احساس ہوگیا تھا اور اسی بنا پر انہوں نے ایک اسرائیلی کی حمایت میں ایک فرعونی کو نادانستہ طور پر مار ڈالا تھا لہذا اللہ تعالیٰ نے بھی سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کا دوسرا بڑا مقصد بنی اسرائیل کی آزادی قرار دیا۔
حَقِيْقٌ عَلٰٓي اَنْ لَّآ اَقُوْلَ عَلَي اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ : کیونکہ میں اللہ کا رسول (پیغام پہنچانے والا) ہوں اور رسول کا کام یہ ہے کہ بھیجنے والے کا پیغام کسی کمی بیشی کے بغیر پہنچا دے، اس میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی نہ کرے، لہٰذا میری ہر بات صحیح اور سچی ہوگی۔ نافع کی قراءت میں ہے : ” حَقِیْقٌ عَلَیَّ أَلَّا أَقُوْلَ عَلَی اللّٰہِ إِلَّا الْحَقَّ “ اس صورت میں ” حَقیقُ “ کا معنی ہے واجب، یعنی مجھ پر واجب ہے کہ میں اللہ تعالیٰ پر حق کے سوا کچھ نہ کہوں۔ عاصم کی قراءت میں وہی ہے جو ہم پڑھتے ہیں : (ۙحَقِيْقٌ عَلٰٓي اَنْ لَّآ اَقُوْلَ عَلَي اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ ) اس صورت میں ” حَقیق “ کا معنی ہے قائم، ثابت۔ ” حَقِیقُ “ مبتدا محذوف ” أَنَا “ کی خبر ہے، یعنی میں اس بات پر قائم ہوں کہ اللہ تعالیٰ پر حق کے سوا کچھ نہ کہوں۔- فَاَرْسِلْ مَعِيَ بَنِيْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ : یعنی انھیں غلامی سے آزاد کر، تاکہ وہ میرے ساتھ کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں وہ اپنے اور تیرے رب کی پوری آزادی کے ساتھ عبادت کرسکیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے اس مطالبے کا پس منظر یہ تھا کہ یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں ان کے بھائی مصر میں آکر آباد ہوگئے اور وہیں ان کی نسل پھیلی جو بنی اسرائیل کہلائی۔ یوسف (علیہ السلام) کی زندگی تک تو انھیں پوری طرح اقتدار حاصل رہا لیکن اس کے بعد فرعونوں نے انھیں غلام بنا لیا اور مصر میں ان کی حالت اچھوتوں سے بھی بدتر ہوگئی، وہ چونکہ مسلمان تھے اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) کے مشن میں جہاں یہ چیز شامل تھی کہ فرعون کو توحید کی دعوت دی جائے وہاں یہ بھی ضروری تھا کہ اگر فرعون دعوت حق کو قبول نہ کرے اور بنی اسرائیل پر ظلم و ستم سے باز نہ آئے تو بنی اسرائیل کو اس کی غلامی سے نجات دلا کر کسی دوسری جگہ لے جایا جائے، جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرسکیں۔ یہاں ” فَاَرسِل “ میں حرف فاء تفریع کے لیے ہے، یعنی جب تو کھلے دلائل جاننے کے باوجود انکار پر قائم ہے تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ مطالبہ اس وقت کیا جب فرعون نے ہر طرح رب العالمین کا اقرار کرنے سے انکار کردیا، جیسا کہ اس کی تفصیل دوسرے مقامات پر مذکور ہے۔
اسکے علاوہ قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَرْسِلْ مَعِيَ بَنِيْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ ، یعنی صرف یہی بات نہیں کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا بلکہ میرے دعوے پر دلیل میرے معجزات بھی ہیں۔ اس لئے ان سب چیزوں کا تقاضا یہ ہے کہ آپ میری بات سنیں اور مانیں، بنی اسرئیل کو مصنوعی غلامی سے نجات دے کر میرے ساتھ کردیں۔
حَقِيْقٌ عَلٰٓي اَنْ لَّآ اَقُوْلَ عَلَي اللہِ اِلَّا الْحَقَّ ٠ ۭ قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَيِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَرْسِلْ مَعِيَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ١٠٥ ۭ- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- بَيِّنَة- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- ( ب ی ن ) البَيِّنَة- کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ - اِسْرَاۗءِيْلَ- ( بني) ، جمع ابن، والألف في ابن عوض من لام الکلمة المحذوفة فأصلها بنو .(إسرائيل) ، علم أعجمي، وقد يلفظ بتخفیف الهمزة إسراييل، وقد تبقی الهمزة وتحذف الیاء أي إسرائل، وقد تحذف الهمزة والیاء معا أي : إسرال .
آیت ١٠٥ (حَقِیْقٌ عَلٰٓی اَنْ لآَّ اَقُوْلَ عَلَی اللّٰہِ الاَّ الْحَقَّ ط) - فرعون کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوئی اجنبی آدمی نہیں تھے۔ آپ ( علیہ السلام) اس کے ساتھ ہی شاہی محل میں پلے بڑھے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت جو فرعون برسر اقتدار تھا وہ اس فرعون کا باپ تھا اور اسی نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بچپن میں بچایا تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے آپ ( علیہ السلام) کو ایک صندوق میں بند کر کے دریائے نیل میں ڈال دیا تھا۔ وہ صندوق فرعون کے محل کے پاس ساحل پر آ لگا تھا اور محل کے ملازمین نے اسے اٹھا لیا تھا۔ فرعون کو پتا چلا تو وہ اسرائیلی بچہ سمجھ کر آپ ( علیہ السلام) کے قتل کے درپے ہوا ‘ مگر اس کی بیوی نے اسے یہ کہہ کر باز رکھا تھا کہ ہم اس کو اپنا بیٹا بنالیں گے ‘ یہ ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگا : (قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَلَکَ ط) (القصص : ٩) کیونکہ اس وقت تک ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔ چناچہ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ بعد میں اس کے ہاں بھی ایک بیٹا پیدا ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا بیٹا تقریباً ہم عمر تھے ‘ وہ دونوں اکٹھے محل میں پلے بڑھے تھے اور ان کے درمیان حقیقی بھائیوں جیسی محبت تھی ‘ بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی حیثیت بڑے بھائی کی تھی۔ جب بڑا فرعون بوڑھا ہوگیا تو اس نے اپنی زندگی میں ہی اقتدار اپنے بیٹے کے سپرد کردیا تھا۔ چناچہ جس فرعون کے دربار میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا یہ وہی تھا جس کے ساتھ آپ ( علیہ السلام) شاہی محل میں پلے بڑھے تھے۔ ابھی کچھ ہی برس پہلے آپ ( علیہ السلام) یہاں سے مدین گئے تھے اور پھر مدین سے واپس آ رہے تھے تو آپ ( علیہ السلام) کو نبوت اور رسالت ملی (اس کی پوری تفصیل آگے جا کر سورة طٰہٰ اور سورة القصص میں آئے گی) ۔ اس پس منظر میں فرعون کے ساتھ آپ ( علیہ السلام) کا بات کرنے کا انداز بھی کسی عام آدمی جیسا نہیں تھا۔ آپ ( علیہ السلام) نے بڑے واضح اور بےباک انداز میں فرعون کو مخاطب کر کے فرمایا کہ دیکھو میرا یہ منصب نہیں اور یہ بات میرے شایان شان نہیں کہ میں تم سے کوئی لایعنی اور جھوٹی بات کروں۔- (قَدْ جِءْتُکُمْ بِبَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ ) - بنی اسرائیل حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وساطت سے فلسطین سے آکر مصر میں اس وقت آباد ہوئے تھے جب یہاں ایک عربی النسل خاندان کی حکومت تھی۔ اس خاندان کے بادشاہ چروا ہے بادشاہ ( ) کہلاتے تھے۔ ان کے دور حکومت میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے احترام کی وجہ سے بنی اسرائیل کو معاشرے میں ایک خصوصی مقام حاصل رہا اور وہ صدیوں تک عیش و عشرت کی زندگی گزارتے رہے۔ اس کے بعد کسی دور میں مصر کے اندر قوم پرست عناصر کے زیر اثر انقلاب آیا۔ اس انقلاب کے نتیجے میں حکمران خاندان کو ملک بدر کردیا گیا اور یہاں قبطی قوم کی حکومت قائم ہوگئی۔ یہ لوگ مصر کے اصل باشندے تھے۔ بنی اسرائیل کے لیے یہ تبدیلی بڑی منحوس ثابت ہوئی۔ سابق شاہی خاندان کے چہیتے ہونے کی وجہ سے وہ قبطی حکومت کے زیر عتاب آگئے اور ان کی حیثیت اور زندگی بتدریج پست سے پست اور سخت سے سخت ہوتی چلی گئی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں یہ لوگ مصر میں غلامانہ زندگی گزار رہے تھے ‘ بلکہ فرعونوں کی طرف سے آئے روز ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے تھے۔ یہ وہ حالات تھے جن میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث کیا گیا تاکہ وہ بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلا کر واپس فلسطین لائیں۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے مطالبہ کیا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دیا جائے۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :86 حضرت موسیٰ علیہ السلام دو چیزوں کی دعوت لے کر فرعون کے پاس بھیجے گئے تھے ۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کی بندگی ( اسلام ) قبول کرے ، دوسرے یہ کہ بنی اسرائیل کی قوم کو جو پہلے سے مسلمان تھی اپنے پنجہ ظلم سے رہا کر دے ۔ قرآن میں ان دونوں دعوتوں کا کہیں یکجا ذکر کیا گیا ہے اور کہیں موقع و محل کے لحاظ سے صرف ایک ہی کے بیان پر اکتفا کیا گیا ہے ۔