Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰيَةٍ ۔ : فرعون موسیٰ (علیہ السلام) کی شرافت و نجابت اور ان کے صدق و امانت سے پوری طرح واقف تھا، کیونکہ ان کی پرورش اسی کے گھر میں ہوئی تھی، مگر اس نے ان کی رسالت اور صدق کو تسلیم کرنے کے لیے کوئی معجزہ پیش کرنے کا مطالبہ کردیا، تاکہ انکار کا کوئی بہانہ مل سکے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فرعون نے اور کسی بات پر تو کان نہ دھرا، معجزہ دیکھنے کا مطالبہ کرنے لگا اور کہا اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰيَةٍ فَاْتِ بِهَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ ، یعنی اگر تم واقعی کوئی معجزہ لائے ہو تو پیش کرو اگر تم سچ بولنے والوں میں سے ہو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰيَۃٍ فَاْتِ بِہَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ۝ ١٠٦- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- صدق - والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1]- ( ص دق) الصدق ۔- الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٦ تا ١٢٢) وہ کہنے لگا کہ اپنے رسول ہونے پر دلیل لاؤ چناچہ پہلی نشانی ڈالی تو وہ بہت بڑا زرد رنگ کا اژدہا بن گیا اور پھر اپنی بغل سے ہاتھ نکالا تو وہ خوب چمکتا ہوا ہوگیا۔- سردار کہنے لگے یہ تو بہت بڑا جادوگر ہے۔ تو فرعون نے ان سے کہا پھر ان کے بارے میں تم لوگ کیا مشورہ دیتے ہو، وہ کہنے لگے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون کو مہلت دو اور ابھی ان کو قتل مت کرو، یہاں تک کہ سب ماہر جادوگر آجائیں، چناچہ ستر جادوگر بلائے گئے اور انہوں نے فرعون سے کہا کہ اگر ہم نے موسیٰ کو ہرا دیا تو ہمیں بڑا انعام ملے گا ؟ فرعون نے کہا ہاں میں تمہیں بہت بڑا انعام دوں گا۔- وہ جادوگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ پہلے آپ ڈالتے ہیں یا ہم، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا جو کچھ تمہیں ڈالنا ہے تم ہی پہلے ڈالو، چناچہ انہوں نے ستر لاٹھیاں اور ستر رسیاں ڈالیں اور جادو سے سب لوگوں کی نظر بندی کرکے انکو سخت خوفزدہ کردیا اور ایک طرح کا بڑا جادودکھایا۔- پھر حضرت (علیہ السلام) نے اپنا عصا ڈالا، اس نے گرتے ہی ان کی تمام لاٹھیوں اور رسیوں کو نگلنا شروع کردیا چناچہ یہ چیز واضح ہوگئی کہ سچائی اور حق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس ہے اور ان کا جادو سب کمزور اور باطل ہے۔- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان پر غالب آگئے اور وہ ذلیل و خوار ہو کر واپس لوٹ گئے،- اور وہ بلائے گئے جادوگر پروردگار کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور کہنے لگے ہم رب العالمین پر ایمان لے آئے، فرعون نے اپنے دل میں سوچا کہ مجھے قہر ہے تو انہوں نے صفت بیان کردی کہ جو موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کا پروردگار ہے اس پر ایمان لائے ہیں اور وہ سجدہ میں اتنی جلدی گرے گویا کہ سجدہ میں ڈال دیے گئے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani