Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عصائے موسیٰ اور فرعون آپ نے فرعون کی اس طلب پر اپنے ہاتھ کی لکڑی زمین پر ڈال دی جو بہت بڑا سانپ بن گئی اور منہ پھاڑے فرعون کی طرف لپکی ، وہ مارے خوف کے تخت پر سے کود گیا اور فریاد کرنے لگا کہ موسیٰ اللہ کے لئے اسے روک ، اس نے اس قدر اپنا منہ کھولا تھا کہ نیچے کا جبڑا تو زمین پر تھا اور اوپر کا جبڑا محل کی بلندی پر ۔ خوف کے مارے فرعون کی ہوا نکل گئی اور چیخنے لگا کہ موسیٰ اسے روک لے ، میں ایمان لاتا ہوں اور اقرار کرتا ہوں کہ بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ کر دونگا ۔ حضرت موسیٰ نے اسی وقت اس پر ہاتھ رکھا اور اسی وقت لکڑی جیسی لکڑی بن گیا ۔ حضرت وہب فرماتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیھکتے ہی فرعون کہنے لگا میں تجھے پہچانتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا یقینا اس نے کہا تو نے بچپن ہمارے گھر کے ٹکڑوں پر ہی تو گذارا ہے ۔ اس کا جواب حضرت موسیٰ دے ہی رہے تھے کہ اس نے کہا اسے گرفتار کر لو ۔ آپ نے جھٹ سے اپنی لکڑی زمین پر ڈال دی جس نے سانپ بن کر ان پر حملہ کر دیا اس بد حواسی میں ایک دوسرے کو کچلتے اور قتل کرتے ہوئے وہ سب کے سب بھاگے چنانچہ پچیس ہزار آدمی اسی ہنگامے میں ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے گئے اور فرعون سیدھا اپنے گھر میں گھس گیا لیکن اس واقعہ کے بیان کی سند میں غرابت ہے واللہ اعلم ۔ اسی طرح دوسرا معجزہ آپ نے یہ ظاہر کیا کہ اپنا ہاتھ اپنی چادر میں ڈال کر نکالا تو بغیر اس کے کہ کوئی روگ یا برص یا داغ ہو وہ سفید چمکتا ہوا بن کر نکل آیا جسے ہر ایک نے دیکھا پھر ہاتھ اندر کیا تو جیسا تھا ویسا ہی ہو گیا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاَلْقٰى عَصَاهُ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) نے فوراً ہی اپنا عصا پھینکا تو وہ خوف ناک اژدہا بن گیا۔ بعض مفسرین نے اس کی عجیب و غریب صفات لکھی ہیں، مثلاً اس نے منہ کھولا تو اس کا نچلا جبڑا زمین پر اور اوپر کا جبڑا اسی (٨٠) ہاتھ اوپر کی طرف اٹھ کر محل کی دیوار کی بلندی تک پہنچ گیا اور وہ فرعون کی طرف بڑھا تو وہ بھاگ اٹھا اور اس کا پاخانہ خطا ہوگیا، لوگ بھی بھاگ گئے، فرعون چیخا کہ موسیٰ اسے پکڑو، میں ایمان لے آؤں گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے پکڑا تو وہ پھر لاٹھی بن گیا۔ (ابن کثیر، بقاعی) اگرچہ اس کی کوئی صحیح سند نہیں اور نہ اس کی تصدیق یا تردید کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ ہے، تاہم ” ثعبان “ کی صفت ” مبین “ سے اور اتنی لاٹھیوں اور رسیوں کو نگل جانے سے جن سے میدان بھرا ہوا تھا، اس کا غیر معمولی ہونا ضرور معلوم ہوتا ہے اور اس سے فرعون اور اس کے سرداروں کا خوف زدہ ہونا تو صاف ظاہر ہے، کیونکہ وہ قتل کی دھمکیوں کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اللہ کی نصرت اور ان معجزوں کی دہشت کی وجہ سے انھیں کوئی نقصان پہنچانے کی جرأت نہیں کرسکے۔ دیکھیے سورة مومن (٢٦) ۔- اس معجزے سے فرعون اور اس کی قوم کے سامنے اللہ تعالیٰ کی بےپایاں قدرت کا بھی اظہار ہوگیا کہ وہ چاہے تو ایک بےجان اور بےضرر سی لاٹھی کو زندگی عطا فرما کر اتنا بڑا خوف ناک اژدہا بنا دے اور چاہے تو ایک مہیب اژدہا کو بےجان لاٹھی بنا دے۔ حقیقت یہ ہے کہ فرعون کے لیے یہ معجزہ ہی کافی تھا، مگر وہ دل سے مان جانے کے باوجود (دیکھیے بنی اسرائیل : ١٠٢) بار بار معجزے دیکھ کر ایمان لانے کا وعدہ کرنے کے بعد مکرتا رہا، حتیٰ کہ سمندر میں غرق کردیا گیا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے مطالبہ کو مانتے ہوئے اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دی وہ اژدھا بن گئی فَاِذَا ھِىَ ثُعْبَانٌ مُّبِيْنٌ، ثعبان بڑے اژدھا کو کہا جاتا ہے اور اس کی صفت مبین ذکر کرکے بتلاد یا کہ اس لاٹھی کا سانپ بن جانا کوئی ایسا واقعہ نہ تھا کہ کسی اندھیرے یا گوشہ پردہ میں واقع ہوا ہو جس کو کوئی دیکھے کوئی نہ دیکھے، جیسے عموما شعبدہ بازوں یا جادوگروں کا طرز ہوتا ہے، بلکہ یہ واقعہ بھرے دربار میں سب کے سامنے پیش آیا۔- بعض تاریخی روایات میں حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ اس اژدھا نے فرعون کی طرف منہ پھیلایا تو گھبرا کر تخت شاہی سے کود کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پناہ لی اور دربار کے ہزاروں آدمی اس کی دہشت سے مرگئے (تفسیر کبیر) لاٹھی کا سچ مچ سانپ بن جانا کوئی ناممکن یا محال چیز نہیں، ہاں عادت عامہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے حیرت انگیز اور قابل تعجب ضرور ہے، اور معجزہ و کرامت کا منشاء ہی یہ ہوتا ہے کہ جو کام عام آدمی نہ کرسکیں وہ انبیاء (علیہم السلام) کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری کردیا جاتا ہے تاکہ عوام سمجھ لیں کہ ان کے ساتھ کوئی خدائی طاقت کام کر رہی ہے اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی کا سانپ بن جانا کوئی قابل تعجب و انکار نہیں ہو سکتا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاَلْقٰى عَصَاہُ فَاِذَا ھِىَ ثُعْبَانٌ مُّبِيْنٌ۝ ١٠٧ - لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - عصا - العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ :- ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ- [ الأعراف 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا - ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- ثعب - قال عزّ وجل : فَإِذا هِيَ ثُعْبانٌ مُبِينٌ [ الأعراف 107] ، يجوز أن يكون سمّي بذلک من قوله : ثَعَبْتُ الماء فَانْثَعَبَ ، أي : فجّرته وأسلته فسال، ومنه : ثَعَبَ المطر، والثُّعْبَة :- ضرب من الوزغ وجمعها : ثُعَبٌ ، كأنّه شبّه بالثعبان في هيئته، فاختصر لفظه من لفظه لکونه مختصرا منه في الهيئة .- ث ع ب ) ثعب ( ف) ثعبا ۔ الماء کے معنی ہیں اس نے پانی پہا یا فانثعب اس کا مطاوع ہے جس کے معنی ہیں چناچہ وہ بہ نکلا۔ اسی سے ثعب المطر ہے ( جس کے معنی بارش کا بہتا ہوا پانی یا برساتی نالہ کے ہیں ) اور ہوسکتا ہے کہ آیت کریمہ :۔ فَإِذا هِيَ ثُعْبانٌ مُبِينٌ [ الأعراف 107] تو وہ امی وقت صریح اژدہا بن گئی ۔ میں ثعبان ( اژدھا ) بھی ثعبت الماء کے محاورہ سے ماخوذ ہو سانپ بھی چونکہ زمین پر اس طرح چلتا ہے ۔ جیسے پانی بہ رہا ہے ہوتا ہے اسلئے اسے ثعبان کہا گیا ہو ۔ نعبۃ خبیث قسم کا گرکٹ ثعب یہ بھی چونکہ شکل و صورت میں سانپ کے مشابہ ہوتا ہے اس لئے اسے ثعبۃ کہا جاتا ہے اور جسم میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس کے لفظ میں اختصار کرلیا گیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani