Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

درباریوں سے مشورے ہوئے ٭٭ جب ڈر خوف جاتا رہا فرعون پھر سے اپنے تخت پر آ بیٹھا اور درباریوں کے اوسان درست ہوگئے تو فرعون نے کہا بھئی مجھے تو یہ جادوگر لگتا ہے اور ہے بھی بڑا استاد ۔ ان لوگوں نے اس کی تائید کی اور کہا حضور درست فرما رہے ہیں ۔ اب مشورے کرنے لگے کہ اگر یہ معاملہ یونہی رہا تو لوگ اس کی طرف مائل ہو جائیں گے اور جب یہ قوت پکڑے گا تو ہم سے بادشاہت چھین لے گا ہمیں جلاوطن کر دے گا بتاؤ کیا کرنا چاہئے ؟ اللہ کی شان ہے جس سے خوف کھایا وہی سامنے آیا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

109۔ 1 معجزے دیکھ کر، ایمان لانے کی بجائے، فرعون کے درباریوں نے اسے جادو قرار دیکر یہ کہہ دیا یہ تو بڑا ماہر جادوگر ہے جس سے اس کا مقصد تمہاری حکومت کو ختم کرنا ہے کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ کے زمانے میں جادو کا بڑا زور تھا اور اس کا عام چلن تھا، اس لئے انہوں نے معجزات کو بھی جادو سمجھا جس میں سرے سے انسان کا دخل ہی نہیں ہوتا۔ خالص اللہ کی معشیت سے ظہور میں آتے ہیں تاہم درباریوں کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں فرعون کو بہکانے کا موقع مل گیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ ۔۔ : یہاں یہ ذکر ہوا ہے کہ فرعون کی قوم کے سرداروں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر قرار دیا۔ سورة شعراء (٣٤) میں مذکور ہے کہ فرعون نے اپنے سرداروں سے یہ بات کہی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے کو بےاثر بنانے کے لیے دو بہتان گھڑے، ایک تو یہ کہ یہ ماہر جادوگر ہے اور دوسرا یہ کہ یہ حکومت پر قبضہ کرکے تمہیں سرزمین مصر سے نکالنا چاہتا ہے۔ دیکھیے سورة شعراء (٣٤، ٣٥) اس کی قوم جسے اس نے اس حد تک بیوقوف اور بےوقعت بنایا تھا کہ وہ اسے اپنا معبود اور اس کی بات کو اپنے رب کی بات ماننے لگ گئے تھے ( دیکھیے زخرف : ٥٤) اس قوم نے بھی اسی کی بات کو دہرا دیا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِيْمٌ، لفظ ملاء کسی قوم کے بااثر سرداروں کے لئے بولا جاتا ہے۔ معنی یہ ہیں کہ قوم فرعون کے سردار یہ معجزات دیکھ کر اپنی قوم کو خطاب کر کے کہنے لگے کہ یہ تو بڑا جادوگر ہے وجہ یہ تھی کہ - فکر ہر کس بقدر ہمت اوست - ان بیچاروں کو خدائے تعالیٰ اور اس کی قدرت کاملہ کی کیا خبر تھی جنہوں نے ساری عمر فرعون کو اپنا خدا اور جادوگروں کو اپنا رہبر سمجھا اور جادوگروں کے شعبدوں ہی کو دیکھا تھا، وہ اس حیرت انگیز واقعہ کو دیکھ کر اس کے سوا کہہ ہی کیا سکتے تھے کہ یہ بھی کوئی بڑا جادو ہے لیکن ان لوگوں نے بھی یہاں ساحر کے ساتھ علیم کا لفظ بڑھا کر یہ ظاہر کردیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ کے متعلق یہ احساس ان کو بھی ہوگیا تھا کہ یہ کام عام جادوگروں کے کام سے ممتاز اور مختلف ہے اسی لئے اتنا اقرار کیا کہ یہ بڑے ماہر جادوگر ہیں۔- معجزہ اور جادو میں فرق :- اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات کو اسی انداز سے ظاہر فرماتے ہیں کہ اگر دیکھنے والے ذرا بھی غور کریں اور ہٹ دھرمی اختیار نہ کریں تو معجزہ اور سحر کا فرق خود بخود سمجھ لیں۔ سحر کرنے والے عموما ناپاکی اور گندگی میں رہتے ہیں اور جتنی زیادہ گندگی اور ناپاکی میں ہوں اتنا ہی ان کا جادو زیادہ کامیاب ہوتا ہے، بخلاف انبیاء (علیہم السلام) کے کہ طہارت ونظافت ان کی طبیعت ثانیہ ہوتی ہے، اور یہ بھی کھلا ہوا فرق من جانب اللہ ہے کہ نبوت کا دعوی کرنے کے ساتھ کسی کا جادو چلتا بھی نہیں۔- اور اہل بصیرت تو اصل حقیقت کو جانتے ہیں کہ جا دو سے جو چیزیں ظاہر کی جاتی ہیں وہ سب دائرہ اسباب طبعیہ کے اندر ہوتی ہیں، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ اسباب عام لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتے، بلکہ فخفی اسباب ہوتے ہیں، اس لئے وہ یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ یہ کام بغیر کسی ظاہری سبب کے ہوگیا، بخلاف معجزہ کے کہ اس میں اسباب طبعیہ کا مطلق کوئی دخل نہیں ہوتا، وہ براہ راست قدرت حق کا فعل ہوتا ہے، اسی لئے قرآن کریم میں اس کو حق تعالے کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ ولکن اللہ رمی۔- اس سے معلوم ہوا کہ معجزہ اور سحر کی حقیقتیں بالکل مختلف اور متباین ہیں، حقیقت شناس کے لئے تو کوئی التباس کی وجہ ہی نہیں عوام کو التباس ہوسکتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس التباس کو دور کرنے کے لئے بھی ایسے امتیازات رکھ دیئے ہیں کہ جس کی وجہ سے لوگ دھوکہ سے بچ جائیں۔- خلاصہ یہ ہے کہ قوم فرعون نے بھی موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ کو اپنے جادوگروں کے افعال سے کچھ ممتاز و مختلف پایا، اس لئے اس پر مجبور ہوئے کہ یہ کہیں کہ یہ بڑا ماہر جادوگر ہے کہ عام جادوگر اس جیسے کاموں کا مظاہرہ نہیں کرسکتے

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِيْمٌ۝ ١٠٩ ۙ- فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٩ (قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ ) - انہوں نے کہا ہوگا کہ یہ جو یہاں سے جان بچا کر بھاگ گیا تھا اور کئی سال بعد واپس آیا ہے تو کہیں سے بہت بڑا جادو سیکھ کر آیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani