Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٣] اور بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر قرار دینے کی بات فرعون نے پہلے خود کی تھی بعد میں اس کے درباریوں نے ہاں میں ہاں ملا دی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

يُّرِيْدُ اَنْ يُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ ۚ فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ ، یعنی یہ ماہر جادوگر یہ چاہتا ہے کہ تم کو تمہارے ملک سے نکال دے) تو اب بتلا دو کہ تمہاری کیا رائے ہے ؟ کیا مشورہ دیتے ہو ؟

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يُّرِيْدُ اَنْ يُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ۝ ٠ ۚ فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ۝ ١١٠- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - ( ماذا)- يستعمل علی وجهين :- أحدهما .- أن يكون ( ما) مع ( ذا) بمنزلة اسم واحد، والآخر : أن يكون ( ذا) بمنزلة ( الذي) ، فالأوّل نحو قولهم : عمّا ذا تسأل ؟ فلم تحذف الألف منه لمّا لم يكن ما بنفسه للاستفهام، بل کان مع ذا اسما واحدا، وعلی هذا قول الشاعر : دعي ماذا علمت سأتّقيه أي : دعي شيئا علمته . وقوله تعالی:- وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة 219] ، فإنّ من قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالنّصب فإنّه جعل الاسمین بمنزلة اسم واحد، كأنّه قال : أيّ شيء ينفقون ؟ ومن قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالرّفع، فإنّ ( ذا) بمنزلة الذي، وما للاستفهام أي : ما الذي ينفقون ؟ وعلی هذا قوله تعالی: ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] ، و (أساطیر) بالرّفع والنصب - ( ماذا ) اور ماذا ، ، بھی دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ ، ، مازا کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا لذی کے ہو ( ما بمعنی اول یہ کہ ماذا ، ، کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا بمنزلہ الذی کے ہو ( ما بمعنی ای شئی کے ہو پہلی قسم کی مثال جیسے : عما ذا تسال کہ کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہو اس صورت میں چونکہ ، ، ماذا اکیلا ، ، استفہام کے لئے نہیں ہے بلکہ ، ، ذا کے ساتھ مل کر ایک اسم بنتا ہے اس لئے ، ، ما ، ، کے الف کو حزف نہیں کیا گیا ۔ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے یعنی جو چیز تجھے معلوم ہے اسے چھوڑ دے میں اس سے بچنے کی کوشش کرونگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة 219] اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ کہ ( خدا کی راہ میں ) کونسا مال خرچ مال کریں ۔ میں جو لوگ کو منصوب پڑھتے ہیں ۔ وہ ماذا کو بمنزلہ ایک اسم کے مانتے ہیں کونسی چیز صرف کریں مگر جن کے نزدیک ہے اور ما استفہا میہ ہے یعنی وہ کونسی چیز ہے جسے خرچ کریں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہی تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں ۔ میں اساطیر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١٠ (یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْج فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ ) - یہ تو چاہتا ہے کہ جادو کے زور پر تمہیں اس ملک سے نکال کر یہاں خود اپنی حکومت قائم کرلے۔ اس نازک صورتحال سے عہدہ بر آہونے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :88 یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک غلام قوم کا ایک بے سرو سامان آدمی یکایک اٹھ کر فرعون جیسے بادشاہ کے دربار میں جا کھڑا ہوتا ہے جو شام سے لیبیا تک اور بحر روم کے سواحل سے حبش تک کے عظیم الشان ملک کا نہ صرف مطلق العنان بادشاہ بلکہ معبود بنا ہوا تھا ، تو محض اس کے اس فعل سے کہ اس نے ایک لاٹھی کو اژدہا بنا دیا اتنی بڑی سلطنت کو یہ خطرہ کیسے لاحق ہو جاتا ہے کہ یہ اکیلا انسان سلطنت مصر کا تختہ الٹ دے گا اور شاہی خاندان کو حکمراں طبقے سمیت ملک کے اقتدار سے بے دخل کر دے گا ؟ پھر یہ سیاسی انقلاب کا خطرہ آخر پیدا بھی کیوں ہوا جبکہ اس شخص نےصرف نبوت کا دعویٰ اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ ہی پیش کیا تھا اور کسی قسم کی سیاسی گفتگو سرے سے چھیڑی ہی نہ تھی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کا دعوائے نبوت اپنے اندر خود ہی یہ معنی رکھتا تھا کہ وہ دراصل پورے نظام زندگی کو بحیثیت مجموعی تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔ جس میں لا محالہ ملک کا سیاسی نظام بھی شامل ہے ۔ کسی شخص کا اپنے کو رب العالمین کے نمائندے کی حیثیت سے پیش کرنا لازمی طور پر اس بات کو متضمن ہے کہ وہ انسانوں سے اپنی کلی اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے ، کیونکہ ربّ العالمین کا نمائندہ کبھی مطیع اور رعیت بن کر رہنے کے لیے نہیں آتا بلکہ مطاع اور راعی بننے ہی کے لیے آیا کرتا ہے اور کسی کافر کے حق حکمرانی کو تسلیم کر لینا اس کی حیثیت رسالت کے قطعاً منافی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے رسالت کا دعویٰ سنتے ہی فرعون اور اس کے اعیان سلطنت کے سامنے سیاسی و معاشی اور تمدنی انقلاب کا خطرہ نمودار ہوگیا ۔ رہی یہ بات کہ حضرت موسیٰ کے اس دعوے کو مصر کے دربار شاہی میں اتنی ہمت ہی کیوں دی گئی جبکہ ان کے ساتھ ایک بھائی کے سوا کوئی معاون و مدد گار اور صرف ایک سانپ بن جانے والی لاٹھی اور ایک چمک والے ہاتھ کے سوا کوئی نشان ماموریت نہ تھا ؟ تو میرے نزدیک اس کے دو بڑے سبب ہیں ۔ ایک یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شخصیت سے فرعون اور اس کے درباری خوب واقف تھے ۔ ان کی پاکیزہ اور مضبوط سیرت ، ان کی غیر معمولی قابلیت ، ور قیادت و فرماں روائی کی پیدائشی صلاحیت کا سب کو علم تھا ۔ تلمود اور یوسیفوس کی روایات اگر صحیح ہیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان پیدائشی قابلیتوں کے علاوہ فرعون کے ہاں علوم وفنون اور حکمرانی و سپہ سالاری کی وہ پوری تعلیم و تربیت بھی حاصل کی تھی جو شاہی خاندان کے افراد کو دی جاتی تھیں ۔ اور زمانہ شاہزادگی میں حبش کی مہم پر جا کر وہ اپنے آپ کو ایک بہترین جنرل بھی ثابت کر چکے تھے ۔ پھر جو تھوڑی بہت کمزوریاں شاہی محلوں میں پرورش پانے اور فروعونی نظام کے اندر امارت کے مناصب پر سرفراز رہنے کی وجہ سے ان میں پائی جاتی تھیں ، وہ بھی آٹھ دس سال مدین کے علاقہ میں صحرائی زندگی گزارنے اور بکریاں چرانے کی بدولت دور ہوچکی تھیں اور اب فرعونی دربار کے سامنے ایک ایسا سن رسیدہ و سنجیدہ فقیر کشور گیر نبوت کا دعویٰ لیے ہوئے کھڑا تھا جس کی بات کو بہرحال باد ہوائی سمجھ کر اڑایا نہ جا سکتا تھا ۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ عصا اور یدبیضاء کی نشانیاں دیکھ کر فرعون اور اس کے درباری سخت مرعوب ہوچکے تھے اور ان کو تقریباً یہ یقین ہوگیا تھا کہ یہ شخص فی الواقع کوئی فوق الفطری طاقت اپنی پشت پر رکھتا ہے ۔ ان کا حضرت موسیٰ کو ایک طرف جادوگر بھی کہنا اور پھر دوسری طرف یہ اندیشہ بھی ظاہر کرنا کہ یہ ہم کو اس سر زمین کی فرماں روائی سے بے دخل کرنا چاہتا ہے ، ایک صریح تضاد بیان تھا اور اس بوکھلاہٹ کا ثبوت تھا جو ان پر نبوت کے اس اوّلین مظاہرے سے طاری ہوگئی تھی ۔ اگر حقیقت میں وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر سمجھتے تو ہرگز ان سے کسی سیاسی انقلاب کا اندیشہ نہ کرتے ۔ کیونکہ جادو کے بل بوتے پر کبھی دنیا میں کوئی سیاسی انقلاب نہیں ہوا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani