Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

درباریوں کا مشورہ درباریوں نے مشورہ دیا کہ ان دونوں بھائیوں کا معاملہ تو اس وقت رفع دفع کرو ، اسے ملتوی رکھو اور ملک کے ہر حصے میں ہر کارے بھیج دو جو جادوگروں کو جمع کر کے آپ کے دربار میں لائیں ۔ تو جب تمام استاد فن جادوگر آ جائیں ان سے مقابلہ کرایا جائے تو یہ ہار جائے گا اور منہ دکھانے کے قابل نہ رہے گا ، یہ اگر جادو جانتا ہے تو ہماری رعایا میں جادو گروں کی کیا کمی ہے؟ بڑے بڑے ماہر جادوگر ہم میں موجود ہیں جو اپنے فن میں بےنظیر ہیں اور بہت چست و چالاک ہیں ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ سے کہا گیا کہ ہم سمجھ گئے کہ تو جادو کے زور سے ہمیں ہمارے ملک سے نکال دینے کے ارادے سے آیا ہے تو اگر تجھ میں کوئی سکت ہے تو آ ہاتھ ملا ہم تجھ سے مقابلے کا دن اور جگہ مقرر کرتے ہیں اور جگہ مقرر ہو جائے پھر جو بھاگے وہی ہارا ۔ آپ نے فرمایا اجھا یہ ہوس بھی نکال لو ۔ جاؤ تمہارا عید کا دن مجھے منظور ہے اور دن چڑھے اجالے کا وقت اور شرط یہ کہ یہ مقابلہ مجمع عام میں ہو ۔ چنانجہ فرعون اس تیاری میں مصروف ہو گیا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْٓا اَرْجِهْ وَاَخَاهُ ۔۔ : ” اَرْجِهْ “ یہ ” أَرْجَأَ یُرْجِئُ إِرْجَاءً “ سے امر حاضر کا صیغہ ہے، جو اصل میں ” اَرْجِءْہُ “ تھا، جس کا معنی ” اَخِّرْہُ “ ہے، یعنی ان کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہ کیا جائے اور ان کا معاملہ چند روز تک ملتوی رکھا جائے، اس اثنا میں ملک بھر کے شہروں سے تمام ماہر فن جادوگر جمع کیے جائیں۔ چناچہ فرعون نے ایسا ہی کیا (دیکھیے شعراء : ٣٨) اور موسیٰ (علیہ السلام) سے تقاضا کرکے مقابلے کا دن یوم الزینہ اور دن چڑھے کا وقت طے کرلیا۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (٥٩) یہاں یہ سب محذوف ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (غرض مشورہ طے کر کرا کر) انہوں نے (فرعون سے) کہا کہ آپ ان ( موسیٰ (علیہ السلام) کو اور انکے بھائی کو مہلت دیجئے اور ( اپنی حدود قلمرو کے) شہروں میں ( گردآوروں کو یعنی) چپراسیوں کو ( حکم نامے دے کر) بھیج دیجئے کہ وہ ( سب چہروں) سب ماہر جادوگروں کو ( جمع کر کے) آپ کے پاس لاکر حاضر کردیں (چنانچہ ایسا ہی انتظام کیا گیا) اور وہ جادوگر فرعون کے پاس حاضر ہوئے ( اور) کہنے لگے کہ اگر ہم ( موسیٰ (علیہ السلام) پر) غالب آئے تو ( کیا) ہم کو کوئی بڑا صلہ ( اور انعام) ملے گا، فرعون نے کہا کہ ہاں ( انعام بھی بڑا ملے گا) اور ( مزید برآں یہ ہوگا کہ) تم ( ہمارے) مقرب لوگوں میں داخل ہوجاؤ گے ( غرض موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کی جانب سے اس کی طلاع دی گئی اور مقابلہ کے لئے تاریخ معین ہوئی اور تاریخ پر سب ایک میدان میں جمع ہوئے اس وقت) ان ساحروں نے ( موسیٰ (علیہ السلام) سے) عرض کیا کہ اے موسیٰ ( ہم آپ کو اختیار دیتے ہیں) خواہ آپ ( اول اپنا عصا میدان میں) ڈالئے ( جس کو آپ اپنا معجزہ بتلاتے ہیں) اور یا ( آپ کہیں تو) ہم ہی ( اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں) ڈالیں، موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم ہی ( پہلے) ڈالو جب انہوں نے ( اپنی رسیوں اور لا ٹھیوں کو) ڈالا تو ( جادو سے دیکھنے والے) لوگوں کی نظربندی کردی ( جس سے وہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ کی شکل میں لہراتی نظر آنے لگیں) اور ان پر ہیبت غالب کردی اور ایک طرح کا بڑا جادو دکھلایا اور ( اس وقت) ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو ( وحی کے ذریعہ سے) حکم دیا کہ آپ اپنا عصا ڈال دیجئے ( جیسا ڈالا کرتے ہیں) سو عصا کا ڈالنا تھا کہ اس نے ( اژدھا بن کر) ان کے سارے بنے بنائے کھیل کو نگلنا شروع کیا پس ( اس وقت) حق ( کا حق ہونا) ظاہر ہوگیا اور انہوں نے ( یعنی ساحروں نے) جو کچھ بنایا ونایا تھا سب آتا جاتا رہا۔ پس وہ لوگ ( یعنی فرعون اور اس کی قوم) اس موقع پر ہار گئے اور خوب ذلیل ہوئے ( اور اپنا سا منہ لے کر رہ گئے) اور وہ جو ساحر تھے وہ سجد میں گرگئے، ( اور پکار پکار کر) کہنے لگے کہ ہم ایمان لے آئے رب لعالمین پر جو موسیٰ اور ہارون ( علیہما السلام) کا بھی رب ہے۔- معارف و مسائل - ان آیات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بقیہ قصہ مذکور ہے کہ جب فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا کھلا معجزہ دیکھا کہ لاٹھی کا سانپ بن گیا اور پھر جب اس کو ہاتھ میں پکڑا تو پھر لاٹھی بن گئی اور ہاتھ کو گریبان میں ڈال کر نکا لا تو چمکنے لگا، اس آیت قدرت کا عقلی تقاضایہ تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آتا مگر جیسا اہل باطل کا عام طرز ہے کہ حق پر پردہ ڈالنے اور مکرنے کے لئے صحیح چیز کو غلط عنوان دیا کرتے ہیں، فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں نے بھی لوگوں سے یہی کہا کہ یہ بڑے ماہر جادوگر ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ تمہارے ملک پر قبضہ کر کے تمہیں نکال دیں تو اب تم بتلاؤ کیا کرنا چاہئے ؟ قوم فرعون نے یہ سن کر جواب دیا اَرْجِهْ وَاَخَاهُ وَاَرْسِلْ فِي الْمَدَاۗىِٕنِ حٰشِرِيْنَ يَاْتُوْكَ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِيْمٍ ، اس میں لفظ ارجہ ارجاء سے مشتق ہے جس کے معنی ڈھیل دینے اور امید دلانے کے آتے ہیں اور مدائین، مد ینة کی جمع ہے جو ہر بڑے شہر کے لئے بولا جاتا ہے، حشرین، حاشر کی جمع ہے جس کے معنی ہیں اٹھانے اور جمع کرنے والا، مراد اس سے سپاہی ہیں جو اطرف ملک سے جادوگروں کو جمع کرکے لائیں۔- مطلب آیت کا یہ ہے کہ قوم کے لوگوں نے یہ مشورہ دیا کہ اگر یہ جادوگر ہے اور جادو کے ذریعہ ہمارا فتح کرنا چاہتا ہے تو اس کا مقابلہ ہمارے لئے کچھ مشکل نہیں، ہمارے ملک میں بڑے بڑے ماہر جادوگر ہیں اس کو اپنے جادو سے شکست دے دیں گے، کچھ سپاہی ملک کے اطراف میں بھیج دیجئے جو ہر شہر کے جادوگروں کو بلائیں۔ وجہ یہ تھی کہ اس زمانہ میں جادو سحر کا رواج عام تھا اور عام لوگوں پر جادوگروں کا اقتدار تھا اور شاید حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضاء کا معجزہ اسی لئے عطا فرمایا کہ جادوگروں سے مقابلہ ہو اور معجزہ کے مقابلہ میں جادو کی رسوائی سب لوگ آنکھوں سے دیکھ لیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی قدیم عادت بھی یہی ہے کہ ہر زمانہ کے پیغمبر کو اس زمانہ کے منا سب معجزات عطا فرماتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں حکمت یونانی اور طب یونانی اپنے عروج پر تھی تو ان کو معجزہ یہ دیا گیا کہ مادر زاد اندھوں کو بینا بنادیں اور جزامی کوڑھیوں کو تندرست کردیں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں عرب کا سب سے بڑا کمال فصاحت و بلاغت تھا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سب سے بڑا معجزہ قرآن بنایا گیا جس کے مقابلہ سے سارا عرب وعجم عاجز ہوگیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوْٓا اَرْجِہْ وَاَخَاہُ وَاَرْسِلْ فِي الْمَدَاۗىِٕنِ حٰشِرِيْنَ۝ ١١١ ۙ- رجه - الرَّجُّ : تحريك الشیء وإزعاجه، يقال : رَجَّهُ فَارْتَجَّ ، قال تعالی: إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا - [ الواقعة 4] ، نحو : إِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] ، والرَّجْرَجَةُ :- الاضطراب، وكتيبة رَجْرَاجَةٌ ، وجارية رَجْرَاجَةٌ ، وارْتَجَّ کلامه : اضطرب، والرِّجْرِجَةُ : ماء قلیل في مقرّه يضطرب فيتكدّر .- ( ر ج ج ) الرج ( م ن ) اس کے معنی کسی چیز کو ہلانے اور جنبش دینے کے ہیں اور ارتجاج ( افتعال ) اس کا مطاوع ہے جس کے معنی ہلنے اور مضطرب ہونے کے ہیں : ۔ رجہ فارتج ۔ اسے ہلایا چناچہ وہ ہلنے لگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا[ الواقعة 4]( اور قیامت اس وقت واقع ہوگی ) جب کہ زمین بڑے زور سے ہلنے لگے گی ۔ اسی کو دوسرے مقام پر : ۔ إِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] جب زمین بڑے زور سے ہلا دی جائے گی سے تعبیر کیا ہے ۔ الرجرجۃ : اضطراب ۔ کتیبة رجراجۃ لشکر جرار ۔- أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- مدن - المَدينة فَعِيلَةٌ عند قوم، وجمعها مُدُن، وقد مَدَنْتُ مَدِينةً ، ون اس يجعلون المیم زائدة، قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] قال : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص 15] .- ( م دن ) المدینۃ ۔ بعض کے نزدیک یہ فعیلۃ کے وزن پر ہے اس کی جمع مدن آتی ہے ۔ اور مدنت مدینۃ کے معنی شہر آیا ہونے کے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس میں میم زیادہ ہے ( یعنی دین سے مشتق ہے ) قرآن پاک میں ہے : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ۔ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی آیا ۔ وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص 15] اور وہ شہر میں داخل ہوئے ۔- حشر - الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي :- «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال :- حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١١ (قَالُوْٓا اَرْجِہْ وَاَخَاہُ وَاَرْسِلْ فِی الْْمَدَآءِنِ حٰشِرِیْنَ ) - یعنی ابھی فوری طور پر ان کے خلاف کوئی ردِّعمل ظاہر نہ کیا جائے۔ انہیں مناسب انداز میں ٹالتے ہوئے مؤثر جوابی حکمت عملی اپنانے کے لیے وقت حاصل کیا جائے اور اس دوران ملک کے تمام علاقوں کی طرف اپنے اہلکار روانہ کردیے جائیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani