114۔ 1 جادوگر، چونکہ طالب دنیا تھے، دنیا کمانے کے لئے ہی شعبدہ بازی کا فن سیکھتے تھے، اس لئے انہوں نے موقع غنیمت جانا کہ اس وقت تو بادشاہ کو ہماری ضرورت لاحق ہوئی ہے کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ اجرت حاصل کی جائے۔ چناچہ انہوں نے اپنا مطالبہ اجرت، کامیابی کی صورت میں پیش کردیا، جس پر فرعون نے کہا کہ اجرت ہی نہیں بلکہ تم میرے مقربین میں بھی شامل ہوجاؤ گے۔
[١١٥] جادوگروں سے مقابلہ :۔ مقابلے کے لیے عید کا دن طے ہوا جس میں عوام الناس کو بھی شمولیت کی عام دعوت دی گئی تھی اس بھرے مجمع میں فرعون اپنے سب درباریوں سمیت حاضر ہوا اور سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اور سیدنا ہارون (علیہ السلام) بھی بروقت پہنچ گئے اور جادوگروں کو چونکہ شاہی دربار سے بلاوا آیا تھا لہذا انہوں نے آتے ہی یہ سوال کردیا کہ انہیں ان کے ایسے بڑے مقابلہ کرنے کے عوض کچھ مزدوری بھی ملے گی ؟ اسی ایک بات سے ایک جادوگر اور ایک نبی کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ جادوگر جو کچھ کرتا ہے اپنے پیٹ کی خاطر کرتا ہے اور یہی اس کا پیشہ ہوتا ہے جبکہ انبیاء (علیہم السلام) ہمیشہ اپنی قوم سے یہی کہتے رہے کہ ہم تم سے کچھ نہیں مانگتے ہمارا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ خیر جادوگروں کے اس سوال پر فرعون نے جادوگروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ صرف مزدوری کی کیا بات کرتے ہو تمہیں میرے ہاں مناصب بھی ملیں گے اور فرعون نے ایسا جواب اس لیے دیا کہ یہ اس کی عزت اور بےعزتی کا مسئلہ بن گیا تھا۔
قَالَ نَعَمْ وَاِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ : فرعون نے اجرت کا بلکہ مقربین میں شامل کرنے کا وعدہ کیا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ فرعون کی بات پوری ہوئی مگر ان کے لیے وہ اجرت اور مقرب ہونا فرعون کے بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہونا مقدر تھا، اللہ کی شان دیکھیے کہ خدائی کے دعویدار کو یہ تک معلوم نہ تھا کہ انھیں اجرت اور قرب کس کی طرف سے ملنا ہے۔
قَالَ نَعَمْ وَاِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ ١١٤- نعم (هاں)- و «نَعَمْ» كلمةٌ للإيجابِ من لفظ النِّعْمَة، تقول : نَعَمْ ونُعْمَةُ عَيْنٍ ونُعْمَى عَيْنٍ ونُعَامُ عَيْنٍ ، ويصحُّ أن يكون من لفظ أَنْعَمَ منه، أي : أَلْيَنَ وأَسْهَلَ.- نعم یہ کلمہ ایجاب ہے اور لفظ نعمت سے مشتق ہے ۔ اور نعم ونعمۃ عین ونعمیٰ عین ونعام عین وغیرہ ان سب کا ماخز نعمت ہی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تمام مرکبات انعم سے ماخوذ ہوں جس کے معنی نرم اور سہل بنانے کے ہیں ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، وقوله : وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] . وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] . وفي الحظوة : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] ، وقال في عيسى: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45] ، عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] ، فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] ، قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114] ، وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] . ويقال للحظوة : القُرْبَةُ ، کقوله : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] ، تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] . وفي الرّعاية نحو : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] ، وقوله : فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] - وفي القدرة نحو : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] . قوله وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ [ الواقعة 85] ، يحتمل أن يكون من حيث القدرة- ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] اور مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو ۔۔۔ اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا کے متعلق فرمایا : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] اور نہ مقرب فرشتے ( عار ) رکھتے ہیں ۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45]( اور جو ) دنیا اور آخرت میں آبرو اور ( خدا کے ) خاصوں میں سے ہوگا ۔ عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے ( خدا کے ) مقرب پئیں گے ۔ فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] پھر اگر وہ خدا کے مقربوں میں سے ہے : قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114]( فرعون نے ) کہا ہاں ( ضرور ) اور اس کے علاوہ تم مقربوں میں داخل کرلئے جاؤ گے ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] اور باتیں کرنے کے لئے نزدیک بلایا ۔ اور القربۃ کے معنی قرب حاصل کرنے کا ( ذریعہ ) کے بھی آتے ہیں جیسے فرمایا : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] اس کو خدا کی قربت کا ذریعہ ۔ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] دیکھو وہ بےشبہ ان کے لئے ( موجب ) قربت ہے۔ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ۔ اور رعایت ونگہبانی کے متعلق فرمایا : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے ۔ فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] میں تو تمہارے پاس ہوں ۔ جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اسکی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اور قرب بمعنی قدرہ فرمایا : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔
آیت ١١٤ (قَالَ نَعَمْ وَاِنَّکُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ ) - تمہیں مالی فوائد اور انعام و اکرام سے بھی نوازا جائے گا اور دربار میں بڑے بڑے مراتب و مناصب بھی عطا کیے جائیں گے۔ اس کے بعد ایک کھلے میدان میں بہت بڑے عوامی اجتماع کے سامنے یہ مقابلہ شروع ہوا۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور جادوگر ایک دوسرے کے سامنے آگئے تو :