جادوگروں سے مقابلہ جادوگروں کو اپنی قوت پر بڑا گھمنڈ تھا وہ سب فی الحقیقت اپنے اس فن کے لاجواب استاد تھے اس لئے انہوں نے آتے ہی حضرت موسیٰ کو چیلنج دیا کہ لو ہوشیار ہو جاؤ تمہیں اختیار ہے میدان میں اپنے کرتب پہلے دکاؤ اور اگر کہو تو پہل ہم کر دیں ۔ آپ نے فرمایا بہتر ہے کہ تمہارے حوصلے نکل جائیں اور لوگ تمہارا کمال فن دیکھ لیں اور پھر اللہ کی قدرت کو بھی دیکھ لیں اور حق و باطل میں دیک بھال کر فیصلہ کر سکیں وہ تو یہ چاہتے ہی تھے انہوں نے جھٹ سے اپنی رسیاں اور لکڑیاں نکال نکال کر میدان میں ڈالنی شروع کر دین ادھر وہ میدان میں پڑتے ہی چلتی پھرتی اور بنی بنائی سانپ معلوم ہونے لگیں ۔ یہ صرف نظر بندی تھی ۔ فی الواقع خارج میں ان کا وجود بدل نہیں گیا تھا بلکہ اس طرح لوگوں کو دکھائی دیتی تھیں کہ گویا زندہ ہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے دل میں خطرہ محسوس کرنے لگے ۔ اللہ کی طرف سے اسی وقت وحی آئی کہ خوف نہ کر تو ہی غالب رہے گا ۔ اپنے دائیں ہاتھ کی لکڑی ڈال تو سہی ان کا کیا دھرا یہ تو سب ہڑپ کر جائے گی ۔ یہ سب تو جادوگری کا کرشمہ ہے بھلا جادو والے بھی کبھی کامیاب ہوئے ہیں؟ بڑی موٹی موٹی رسیاں اور لمبی لمبی لکڑیاں انہوں نے ڈالی تھیں جو سب چلتی پھرتی دوڑتی بھاگتی معلوم ہو رہی تھیں ، یہ جادوگر پندرہ ہزار یا تیس ہزار سے اوپر اوپر تھے یا ستر ہزار کی تعداد میں تھے ، ہر ایک اپنے ساتھ رسیاں اور لکڑیاں لایا تھا صف بستہ کھڑے تھے اور لوگ چاروں طرف موجود تھے ہر ایک ہمہ تن شوق بنا ہوا تھا فرعون اپنے لاؤ لشکر اور درباریوں سمیت بڑے رعب سے اپنے تخت پر بیٹھا ہوا تھا ادھر وقت ہوا ادھر سب کی نگاہوں نے دیکھا کہ ایک درویش صفت اللہ کا نبی اپنے ساتھ اپنے بھائی کو لئے ہوئے لکڑی ٹکاتے ہوئے آ رہے ہیں ۔ یہ تھے جن کے مقابلے کی یہ دھوم دھام تھی ۔ آپ کے آتے ہی جادوگروں نے صرف یہ دریافت کر کے کہ ابتدا کس کی طرف سے ہونی چاہئے خود ابتدا کر دی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پھر فرعون کی پھر تماشائیوں کی آنکھوں پر جادو کر کے سب کو ہیبت زدہ کر دیا ۔ اب جو اپنی اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں تو ہزار ہا کی تعداد میں پہاڑوں کے برابر سانپ نظر آنے لگے جو اوپر تلے ایک دوسرے سے لپٹ رہے ہیں ادھر ادھر دوڑ رہے ہیں میدان بھر گیا ہے انہوں نے اپنے فن کا پورا مظاہرہ کر دکھایا ۔
115۔ 1 جادوگروں نے یہ اختیار اپنے آپ پر مکمل اعتماد کرنے کی وجہ سے دیا۔ انہیں پورا یقین تھا کہ ہمارے جادو کے مقابلے میں موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ جسے وہ ایک کرتب ہی سمجھتے تھے، کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور اگر موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلے اپنے کرتب دکھانے کا موقع دے بھی دیا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، ہم اس کے کرتب کا توڑ بہر صورت مہیا کرلیں گے۔
[١١٦] جادوگروں کو چونکہ یہی بتلایا گیا تھا کہ ان کا ایک بڑے جادوگر سے مقابلہ ہے لہذا سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی عزت و تکریم کی خاطر یہ بات موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھی جیسا کہ ایسے مقابلے کے وقت یہی دستور رائج تھا۔
وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ : ” اَرْھَبَ یُرْھِبُ “ کا معنی ہے ڈرانا، خوف زدہ کرنا، ” وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ “ میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے ترجمہ ” سخت خوف زدہ “ کیا ہے۔ جادوگروں نے اپنے غلبے کے یقینی اور موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے کو لوگوں کے سامنے بےوقعت ظاہر کرنے کے لیے پوچھا کہ تم پہلے اپنا معجزہ پیش کرو گے یا ہم اپنے جادو کے ہتھیار پیش کریں ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے بڑھ کر شان بےنیازی سے فرمایا کہ تمہیں جو کچھ پیش کرنا ہے سب پیش کرلو۔ چونکہ مقابلے میں جس کی پہل ہو اسے ایک قسم کی برتری پہلے ہی حاصل ہوتی ہے، تم اس برتری سے فائدہ اٹھا لو، چناچہ انھوں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں زمین پر پھینک دیں تو ہر طرف زمین پر سانپ ہی سانپ دوڑتے ہوئے معلوم ہونے لگے، فرمایا : ( فَاِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰي) [ طٰہٰ : ٦٦ ] ” تو اچانک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں، اس کے خیال میں ڈالا جاتا تھا ان کے جادو کی وجہ سے کہ وہ دوڑ رہی ہیں۔ “ یہاں بھی فرمایا کہ ” انھوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا اور انھیں سخت خوف زدہ کردیا اور وہ بہت بڑا جادو لے کر آئے۔ “ درحقیقت وہ زمانہ ہی جادو کے کمال کا تھا جس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایسا معجزہ دیا جس کے سامنے جادو بےبس ہو۔ - سَحَرُوْٓا اَعْيُنَ النَّاسِ : اس سے معلوم ہوا کہ جادو سے کسی چیز کی حقیقت نہیں بدل جاتی، صرف دیکھنے میں وہ چیز دوسری نظر آتی ہے اور اس کا اثر محض خیال پر ہوتا ہے، چونکہ انسان کا جسم دماغ کے تابع ہے، اس لیے خیال کا نقصان یا فائدہ بعض اوقات جسم کو بھی ہوتا ہے، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی ان کا جادو دیکھ کر خوف محسوس کیا، فرمایا : (فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْس)[ طٰہٰ : ٦٧ ] ” تو موسیٰ نے اپنے دل میں ایک خوف محسوس کیا۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی لبید بن اعصم کے جادو کی وجہ سے کچھ عرصہ بیمار رہے۔ اس لیے جادو کی تاثیر سے انکار درست نہیں۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے جادو کو بہت بڑا قرار دیا ہے۔
قَالُوْا يٰمُوْسٰٓي اِمَّآ اَنْ تُلْقِيَ وَاِمَّآ اَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِيْنَ ۔ القاء کے معنی ڈالنے کے ہیں، مراد یہ ہے کہ جب میدان مقابلہ میں پہنچے تو جادوگروں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ یا تو آپ پہلے ڈالیں یا ہم پہلے ڈالنے والوں میں سے ہوجائیں۔ جادوگروں کا یہ کہنا اپنی بےفکری اور بڑائی جتانے کے لئے تھا کہ ہمیں اس کی پرواہ نہیں کہ ابتداء ہماری طرف سے ہو، کیونکہ ہم ہر حالت میں اپنے فن پر اطمینان رکھتے ہیں۔ ان کے انداز بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ چاہتے تو یہی تھے کہ پہلا وار ان کا ہو مگر اظہار قوت کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے دریافت کیا کہ پہل آپ کرنا چاہتے ہو یا ہم کریں۔
قَالُوْا يٰمُوْسٰٓي اِمَّآ اَنْ تُلْقِيَ وَاِمَّآ اَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِيْنَ ١١٥- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔