131۔ 1 حَسَنَةُ (بھلائی) سے مراد غلے اور پھلوں کی فروانی سَيِّئَةٌ (برائی) سے اس کے برعکس اور قحط سالی اور پیداوار میں کمی۔ بھلائی کا سارا کریڈٹ خود لے لیتے کہ یہ ہماری محنت کا ثمر ہے اور بدحالی کا سبب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور اس پر ایمان لانے والوں کو قرار دیتے کہ یہ تم لوگوں کی نحوست کے اثرات ہمارے ملک پر پڑ رہے ہیں۔ 131۔ 2 طَائِرُ کی معنی اڑنے والا یعنی پرندہ۔ چونکہ پرندے کے بائیں یا دائیں اڑنے سے وہ لوگ نیک فالی یا بدفالی لیا کرتے تھے۔ اس لیے یہ لفظ مطلق فال کے لیے بھی استعمال ہونے لگ گیا اور اسی معنی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا خیر یا شر، جو خوش حالی یا قحط سالی کی وجہ سے انہیں پہنچتا ہے اس کے اسباب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے پیروکاروں اس کا سبب نہیں۔ ( ۭاَلَآ اِنَّمَا طٰۗىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ ) 7 ۔ الاعراف :131) کا مطلب ہوگا کہ ان کی بد شگونی کا سبب اللہ کے علم میں ہے اور وہ ان کا کفر و انکار ہے نہ کہ کچھ اور۔ یا اللہ کی طرف سے ہے اور اس کی وجہ ان کا کفر ہے۔
[١٢٧] یہ ویسی ہی تنبیہات ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ چھوٹے موٹے عذاب بھیج کر لوگوں کی آزمائش کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں یا نہیں ان تنبیہات کا نتیجہ بھی ان کے حق میں صفر ہی رہا جب بھلے دن آتے تو کہتے کہ یہ ہماری عقل مندی اور حسن تدبیر کا نتیجہ ہے اور ہم فی الواقع اس بھلائی کے مستحق تھے اور جب برے دن آتے تو سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے اصحاب کو مطعون کرنے لگتے کہ ان لوگوں کی نحوست سے ہمیں یہ برے دن دیکھنے نصیب ہوئے ان کے اپنے گناہوں کی طرف ان کی نظر جاتی ہی نہ تھی۔ حالانکہ یہ بات تو اللہ کے علم میں ہے کہ ان کی نحوست کے اصل اسباب کیا تھے ؟
فَاِذَا جَاۗءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ ۔۔ : جیسا کہ آیت (٩٤، ٩٥) میں ذکر فرمایا تھا کہ ہر قوم کی آزمائش تنگی اور تکلیف کے علاوہ خوش حالی اور آسودگی کے ساتھ بھی ہوئی، اس کے مطابق فرعون کی قوم پر سختی اور مصیبت کے بعد راحت اور خوش حالی آتی تو بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھ کر شکر گزاری کریں، وہ ” لَنَا هٰذِهٖ “ کہتے، یعنی یہ ہمارے حسن انتظام کا نتیجہ اور ہمارا حق ہے۔ - وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰي۔۔ : ” يَّطَّيَّرُوْا “ ” تَطَیَّرَ یَتَطَیَّرُ “ باب تفعل سے ہے جس کا مادہ ” طَیْرٌ“ (پرندہ) ہے۔ اصل میں ” یَتَطَیَّرُوْا “ تھا، تاء کا طاء میں ادغام کردیا ہے۔ مشرکین کا طریقہ تھا کہ فال لینے کے لیے کسی پرندے کو اڑاتے، اگر وہ اڑ کر دائیں طرف جاتا تو اسے نیک فال اور باعث برکت سمجھتے اور اگر بائیں طرف جاتا تو بدفال اور باعث نحوست سمجھتے، یہاں تمام مفسرین کے نزدیک ” تَطَیَّرَ “ کا معنی فالِ بد اور نحوست ہے، یعنی اپنی مصیبتوں کا باعث موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی نحوست کو قرار دیتے۔- اَلَآ اِنَّمَا طٰۗىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ ۔۔ : یعنی اس نحوست کا اصل سبب تو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور خیر و شر جو کچھ ان کو پہنچ رہا ہے تمام کا تمام اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے ہے جو ان کے اعمال کے سبب ان کے حق میں لکھا جا چکا ہے، یہ سراسر جہالت ہے کہ بھلائی کو اپنی خوبی اور برائی کو کسی دوسرے کی نحوست قرار دیاجائے۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” یعنی شومی قسمت بد ہے، سو اللہ کی تقدیر سے ہے، برائی اور بھلائی کا اثر آخرت میں ہوگا، اس کا جواب یہاں یہ نہیں فرمایا کہ شومی ان کے کفر سے تھی، کیونکہ کافر بھی دنیا میں عیش کرتے ہیں۔ اصل حقیقت (جو) تھی سو فرمائی کہ دنیا کے احوال موقوف بہ تقدیر ہیں۔ “ (موضح)- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے “ تین دفعہ فرمایا ” اور ہم میں سے ہر ایک کو (کوئی نہ کوئی وہم ہوجاتا ہے) مگر اللہ تعالیٰ اسے توکل کی برکت سے دور کردیتا ہے۔ “ [ أبوداؤد، الطب، باب فی الطیرۃ : ٣٩١٠ ترمذی : ١٦١٤ ]
لیکن جب کسی قوم پر اللہ تعالیٰ کا قہر ہوتا ہے تو صحیح بات اس کی سمجھ نہیں آتی، قوم فرعون بھی اسی قہر میں مبتلا تھی، عذاب کے اس ابتدائی جھٹکہ سے بھی ان کو کوئی تنبیہ نہ ہوئی بلکہ اس کو اور ہر آنے والی مصیبت کو یہ کہنے لگے کہ یہ نحوست حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی ہے، فَاِذَا جَاۗءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ ۚ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰي وَمَنْ مَّعَهٗ ، یعنی جب ان لوگوں کو کوئی بھلائی اور راحت و آرام ملتا تو یہ کہتے تھے کہ یہ ہمارا حق ہے ہمیں ملنا ہی چاہئے، اور جب کوئی مصیبت ور برائی پیش آتی تو کہتے کہ یہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی نحوست کے اثر سے ہے، حق تعالیٰ نے ان کے جواب میں ارشاد فرمایا اَلَآ اِنَّمَا طٰۗىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔- لفظ طائر کے لغوی معنی پرندے جانور کے ہیں، عرب پرندہ جانوروں کے داہنی بائیں جانب اترنے سے اچھی بری فالیں لیا کرتے تھے، اس لئے مطلق فال کو بھی " طائر " کہنے لگے، اس آیت میں طائر کے یہی معنی ہیں، اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ ان کی فال اچھی یا بری جو کچھ بھی ہو وہ سب اللہ تعالیٰ کے پاس سے ہے جو کچھ اس عالم میں ظاہر ہوتا ہے سب اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے عمل میں آتا ہے، نہ اس میں کسی کی نحوست کا دخل ہے نہ برکت کا، یہ سب ان کی خام خیالی اور جہالت ہے جو پرندوں کے داہنے یا بائیں اڑ جانے سے اچھی بری فالیں لے کر اپنے مقاصد اور عمل کی بنیاد اس پر رکھتے ہیں۔
فَاِذَا جَاۗءَتْہُمُ الْحَسَـنَۃُ قَالُوْا لَنَا ہٰذِہٖ ٠ ۚ وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَيِّئَۃٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰي وَمَنْ مَّعَہٗ ٠ ۭ اَلَآ اِنَّمَا طٰۗىِٕرُہُمْ عِنْدَ اللہِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ١٣١- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - ( صاب) مُصِيبَةُ- والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. - مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ - سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - طير ( فال)- ، وتَطيَّرَ فلانٌ ، واطَّيَّرَ أصله التّفاؤل بالطَّيْرِ ثمّ يستعمل في كلّ ما يتفاء ل به ويتشاءم، قالُوا : إِنَّا تَطَيَّرْنا بِكُمْ [يس 18] ، ولذلک قيل : «لا طَيْرَ إلا طَيْرُكَ «1» » ، وقال تعالی: إِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا[ الأعراف 131] ، أي : يتشاء موا به، أَلا إِنَّما طائِرُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ- [ الأعراف 131] ، أي : شؤمهم : ما قد أعدّ اللہ لهم بسوء أعمالهم . وعلی ذلک قوله : قالُوا اطَّيَّرْنا بِكَ وَبِمَنْ مَعَكَ قالَ طائِرُكُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ النمل 47] ، قالُوا طائِرُكُمْ مَعَكُمْ [يس 19] ، وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء 13] ، أي : عمله الذي طَارَ عنه من خيرٍ وشرٍّ ، ويقال : تَطَايَرُوا : إذا أسرعوا، ويقال :إذا تفرّقوا «2» ، قال الشاعر :- 303 ۔ طَارُوا إليه زَرَافَاتٍ ووُحْدَاناً وفجرٌ مُسْتَطِيرٌ ، أي : فاشٍ. قال تعالی:- وَيَخافُونَ يَوْماً كانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيراً [ الإنسان 7] ، وغبارٌ مُسْتَطَارٌ ، خولف بين بنائهما فتصوّر الفجر بصورة الفاعل، فقیل : مُسْتَطِيرٌ ، والغبارُ بصورة المفعول، فقیل : مُسْتَطَارٌ وفرسٌ مُطَارٌ للسّريع، ولحدید الفؤاد، وخذ ما طَارَ من شَعْر رأسك، أي : ما انتشر حتی كأنه طَارَ.- تطیر فلان واطیر اس کے اصل معنی تو کسی پرندہ سے شگون لینے کے ہیں پھر یہ ہر اس چیز کے متعلق استعمال ہونے لگا ہے ۔ جس سے برا شگون لیا جائے اور اسے منحوس سمجھا جائے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا تَطَيَّرْنا بِكُمْ [يس 18] ہم تم کو منحوس سمجھتے ہیں ۔ اسی لئے کہا گیا ہے لا طیر الا طیرک کہ نہیں ہے نحوست مگر تیری طرف سے ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا[ الأعراف 131] اگر سختی پہنچتی ہے تو بد شگونی لیتے ہیں ۔ یعنی موسٰی (علیہ السلام) کو باعث نحوست سمجھتے ہیں چناچہ ان کے جواب میں فرمایا أَلا إِنَّما طائِرُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ الأعراف 131] یعنی یہ ان کی بد اعمالیوں کی سزا ہے جو اللہ کے ہاں سے مل رہی ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ قالُوا اطَّيَّرْنا بِكَ وَبِمَنْ مَعَكَ قالَ طائِرُكُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ النمل 47] وہ کہنے لگے کہ تم اور تمہارے ساتھیوں کو ہم بد شگون خیال کرتے ہیں ( صالح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ تمہاری بد شگوفی خدا کی طرف سے ہے ۔ قالُوا طائِرُكُمْ مَعَكُمْ [يس 19] انہوں نے کہا ہے کہ تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء 13] اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے ۔ میں انسان اعمال کو طائر کہا گیا ہے ( کیونکہ عمل کے سر زد ہوجانے کے بعد انسان کو یہ اختیار نہیں رہتا کہ اسے واپس لے گویا وہ ( اس کے ہاتھوں سے اڑجا تا ہے تطائر وا وہ نہایت تیزی سی گئے منتشر ہوگئے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے طاردو الیہ ذرافات ووحدانا تو جماعتیں بن کر اور اکیلے اکیلے اس کی طرف اڑتے چلے جاتے ہیں ۔ فجر مستطیر منتشر ہونے والی صبح قرآن میں ہے : ۔ وَيَخافُونَ يَوْماً كانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيراً [ الإنسان 7] اور اس دن سے جس کی سختی پھیل رہی ہوگی خوف رکھتے ہیں ۔ غبار مستطار بلند اور منتشر ہونے والا غبار فجر کو فاعل تصور کر کے اس کے متعلق مستطیر اسم فاعل کا صیغہ استعمال کرتے ہیں اور غبار کو مفعول تصور کر کے مستطار کہتے ہیں ۔ فرس مطار ہوشیار اور تیزرو گھوڑا ۔ خذ ماطا ر من شعر راسک یعنی اپنے سر کے پرا گندہ اور لمبے بال کاٹ ڈالو ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔
(١٣١) جب ان کافروں پر خوشحالی اور فراخی آجاتی، تو کہتے کہ یہ ہمارے شایان شان ہے اور جب قحط اور سختیوں میں گرفتار ہوتے تو بدفالی اور نحوست لینا شروع کردیتے تھے، سختی اور فراخی یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں مگر سب نہیں جانتے اور نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
آیت ١٣١ (فَاِذَا جَآءَ تْہُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوْا لَنَا ہٰذِہٖ ج) (وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّءَۃٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗ ط) (اَلَآ اِنَّمَا طآءِرُہُمْ عِنْدَ اللّٰہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ - جب ان کے حالات قدرے بہتر ہوتے یعنی فصلیں وغیرہ ٹھیک ہوجاتیں ‘ خوشحالی آتی اور ان کو آسائش حاصل ہوتی تو وہ کہتے کہ یہ ہماری محنت ‘ منصوبہ بندی اور کوشش کا نتیجہ ہے ‘ یہ ہمارا استحقاق ہے۔ اور جب ان کو فصلوں میں نقصان ہوتا یا کسی اور قسم کے مالی نقصانات کا انہیں سامنا کرنا پڑتا تو وہ اس سب کچھ کی ذمہ داری حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) کے ساتھیوں پر ڈال دیتے کہ ہمارا یہ نقصان ان کی نحوست کی وجہ سے ہوا ہے۔