موسیٰ علیہ السلام کی کوہ طور سے واپسی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چونکہ طور پر ہی اپنی قوم کا یہ کفر معلوم ہو چکا تھا اس لئے سخت غضبناک ہو کر واپس آئے اور فرمانے لگے کہ تم نے تو میرے بعد سخت نالائقی کی ۔ تم نے میرا انتظار بھی نہ کیا میری ذرا سی تاخیر میں یہ ظلم ڈھایا غصے کے مارے تختیاں ہاتھ سے پھینک دیں ۔ کہا گیا ہے کہ یہ زمرد یا یا قوت یا کسی اور چیز کی تھیں ۔ سچ ہے جو حدیث میں ہے کہ دیکھنا سننا برابر نہیں ، اپنی قوم پر غصے ہو کر الواح ہاتھ سے گرا دیں ۔ ٹھیک بات یہی ہے جمہور سلف و خلف کا قول بھی یہی ہے لیکن ابن جریر نے قتادہ سے ایک عجیب قول نقل کیا ہے جس کی سند بھی صحیح نہیں ۔ ابن عطیہ وغیرہ نے اس کی بہت تردید کی ہے اور واقعی وہ تردید کے قابل بھی ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ قتادہ نے یہ اہل کتاب سے لیا ہو اور ان کا کیا اعتبار ہے؟ ان میں جھوٹے ، بناوٹ کرنے والے ، گھڑ لینے والے ، بد دین ، بےدین ہر طرح کے لوگ ہیں اس خوف سے کہ کہیں حضرت ہارون علیہ السلام نے انہیں باز رکھنے کی پوری کوشش نہ کی ہو آپ نے ان کے سر کے بالوں کے بل انہیں گھسیٹ لیا اور فرمانے لگے انہیں گمراہ ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی تونے میری ما تحتی میں انہیں کیوں نہ روکا ؟ کیا تو بھی میرے فرمان کا منکر بن گیا ؟ اس پر حضرت ہارون علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھائی جان میرے سر کے اور داڑھی کے بال نہ پکڑیں میں نے تو ہر ممکن طریقے سے انہیں روکا زیادہ اس لئے نہ الجھا کہ کہیں آپ یہ نہ فرما دیں کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفریق ڈال دی ؟ تو نے میرا انتظار کیوں نہ کیا ؟ ورنہ میں تو ان گمراہوں سے اب تک زمین کو پاک کر چکا ہوتا ۔ انہوں نے تو مجھے کچھ بھی نہ سمجھا بلکہ میرے قتل کے درپے ہوگئے ۔ آپ مجھے ان ہی کی طرح نہ سمجھیں نہ ان میں ملائیں ۔ حضرت ہارون کا یہ فرمانا کہ اے میرے ماں جائے بھائی یہ صرف اس لئے تھا کہ حضرت موسیٰ کو رحم آ جائے ، ماں باپ دونوں کے ایک ہی تھے ۔ جب آپ کو اپنے بھائی ہارون کی برات کی تحقیق ہو گئی اللہ کی طرف سے بھی ان کی پاک دامنی اور بےقصوری معلوم ہو گئی کہ انہوں نے اپنی قوم سے پہلے ہی یہ فرما دیا تھا کہ افسوس تم فتنے میں پڑ گئے اب بھی کچھ نہیں بگڑا پروردگار بڑا ہی رحیم و کریم ہے تم میری مان لو اور پھر سے میرے تابع دار بن جاؤ تو آپ اللہ سے دعائیں کرنے لگے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ موسیٰ پر رحم کرے واقعی دیکھنے والے میں اور خبر سننے والے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ قوم کی گمراہی کی خبر سنی تو تختیاں ہاتھ سے نہ گرائیں لیکن اسی منظر کو دیکھ کر قابو میں نہ رہے تختیاں پھینک دیں ۔
150۔ 1 جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے آکر دیکھا کہ وہ بچھڑے کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں تو سخت غضبناک ہوئے اور جلدی میں تختیاں بھی جو کوہ طور سے لائے تھے، ایسے طور پر رکھیں کہ دیکھنے والے کو محسوس ہو کہ انہوں نے نیچے پھینک دی ہیں جسے قرآن نے " ڈال دیں " سے تعبیر کیا ہے۔ تاہم اگر پھینک بھی دی ہوں تو اس میں سوء بےادبی نہیں کیونکہ مقصد ان کا تختیوں کی بےادبی نہیں تھا بلکہ دینی غیرت و اہمیت میں بےخود ہو کر غیر اختیاری طور پر ان سے یہ فعل سر زد ہوا۔ 150۔ 2 حضرت ہارون (علیہ السلام) و موسیٰ (علیہ السلام) آپس میں سگے بھائی تھے، لیکن یہاں حضرت ہارون نے ماں جائے اس لئے کہا کہ اس لفظ میں پیار اور نرمی کا پہلو زیادہ ہے۔ 150۔ 3 حضرت ہارون (علیہ السلام) نے اپنا عذر پیش کیا جس کی وجہ سے وہ قوم کو شرک جیسے جرم عظیم سے روکنے میں ناکام رہے۔ ایک اپنی کمزوری اور دوسرا بنی اسرائیل کا عناد اور سرکشی کہ انہیں قتل تک کردینے پر آمادہ ہوگئے تھے اور انہیں اپنی جان بچانے کے لئے خاموش ہونا پڑا، جس کی اجازت ایسے موقعوں پر اللہ نے دی ہے۔ 150۔ 4 میری ہی سرزنش کرنے سے دشمن خوش ہونگے، جب کہ یہ موقع تو دشمنوں کی سرکوبی اور ان سے اپنی قوم کو بچانے کا ہے۔ 150۔ 5 اور ویسے بھی عقیدہ و عمل میں مجھے کس طرح ان کے ساتھ شمار کیا جاسکتا ہے، میں نے نہ شرک کا ارتکاب کیا، نہ اس کی اجازت دی، نہ اس پر خوش ہوا، صرف خاموش رہا اور اس کے لئے بھی میرے پاس معقول عذر موجود ہے، پھر میرا شمار ظالموں (مشرکوں) کے ساتھ کس طرح ہوسکتا ہے ؟ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کے لئے مغفرت و رحمت کی دعا مانگی۔
[١٤٧] سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا ہارون (علیہ السلام) پر مواخذہ اور ان کا جواب :۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو وہاں کوہ طور پر ہی بذریعہ وحی یہ اطلاع دے دی گئی تھی کہ سامری نے ایک بچھڑا تیار کیا ہے اور قوم کے بہت سے لوگ گؤ سالہ پرستی میں مبتلا ہوچکے ہیں لہذا جب واپس اپنی قوم کے پاس آئے تو غصہ اور رنج پہلے سے ہی طبیعت میں موجود تھا۔ آتے ہی لوگوں سے کہا کہ میرے بعد تم نے یہ کیا گل کھلا دیئے۔ کہ فوراً اپنی کفر و شرک والی زندگی تم میں عود کر آئی پھر اسی غصہ کے عالم اور دینی حمیت کے جوش میں تختیاں تو نیچے ڈال دیں اور سیدنا ہارون (علیہ السلام) کے داڑھی اور سر کے بال کھینچتے ہوئے کہا تم نے میرے قائم مقام بن کر یہ سب کچھ کیسے برداشت کرلیا ؟ اس کے مقابلہ میں سیدنا ہارون (علیہ السلام) نے نہایت پیار کے لہجہ میں اور معذرت خواہانہ انداز میں کہا : میرے ماں جائے بھائی ذرا میری بات سن لو میں نے انہیں سمجھانے میں کچھ کوتاہی نہیں کی مگر یہ اتنے سرکش لوگ ہیں کہ میری بات کو کچھ سمجھتے ہی نہ تھے بلکہ الٹا مجھے مار ڈالنے کی دھمکیاں دینے لگے تھے لہذا ان بدبختوں کو مجھ پر ہنسنے اور بغلیں بجانے کا موقع نہ دو اور یہ ہرگز نہ سمجھو کہ انہوں نے جو ظلم روا رکھا ہے اور شرک کیا ہے وہ میری شہ پر کیا ہے۔- یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بائیبل میں بعض انبیاء کو مختلف قسم کے شدید گناہوں میں ملوث قرار دیا گیا ہے ان میں سے ایک سیدنا ہارون (علیہ السلام) بھی ہیں جنہیں بنی اسرائیل کے اس شرک کے جرم میں شریک ہی نہیں بلکہ اس کا محرک اور اس میں معاون قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں بائیبل کی درج ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیے۔- جب موسیٰ (علیہ السلام) کو پہاڑ سے اترنے میں دیر لگی تو بنی اسرائیل نے بےصبر ہو کر سیدنا ہارون (علیہ السلام) سے کہا کہ ہمارے لئے ایک معبود بنادو اور ہارون (علیہ السلام) نے ان کی فرمائش کے مطابق سونے کا ایک بچھڑا بنادیا جسے دیکھتے ہی بنی اسرائیل پکار اٹھے کہ اے اسرائیل یہی تیرا وہ خدا ہے جو تجھے ملک مصر سے نکال لایا ہے پھر ہارون (علیہ السلام) نے اس کے لیے ایک قربان گاہ بنائی اور اعلان کر کے دوسرے روز تمام بنی اسرائیل کو جمع کیا اور اس کے آگے قربانیاں چڑھائیں۔ (خروج باب ٣٢ آیت ١ تا ٦)- بائبل میں سیدنا ہارون (علیہ السلام) پر گؤ سالہ پرستی کا اتہام :۔ قرآن کریم نے سیدنا ہارون (علیہ السلام) کو یہود کے اس اتہام سے بالکل بری قرار دیا ہے اور وضاحت کردی کہ بچھڑا بنانے والا ہارون (علیہ السلام) نہیں بلکہ سامری تھا اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کو سابقہ تمام آسمانی کتب پر مھیمن قرار دیا ہے یعنی ان کتابوں میں جو بات قرآن کے خلاف ہوگی وہ الہامی نہیں ہوسکتی وہ یقینا دوسروں کی اختراعات ہوں گی۔
وَلَمَّا رَجَعَ مُوْسٰٓي اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا : ” غَضْبَانَ “ ” فَعْلَانَ “ کے وزن پر کسی چیز سے بھرے ہوئے ہونے پر دلالت کرتا ہے، یعنی غصے سے بھرے ہوئے۔ ” اسفا ‘ صفت کا صیغہ ہے، لغت میں اس کا معنی غصے والا بھی ہے جو غضب سے بھی بڑھ کر ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَلَمَّآ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ ) [ الزخرف : ٥٥ ] ” پھر جب انھوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا۔ “ اور اس کا معنی افسوس اور غم بھی ہوتا ہے۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ شدید غصہ اور افسوس ایک ہی چیز کی دو حالتیں ہیں، کوئی کمزور ہو تو اس پر غصہ آتا ہے اور طاقت ور ہو تو افسوس ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل میں رہ کر موسیٰ (علیہ السلام) کو ان پر غلبہ بھی حاصل تھا اور ان کی جہالتوں پر بےبس بھی تھے۔ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) غصے اور افسوس سے بھرے ہوئے واپس لوٹے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں طور پر ہی خبر دے دی تھی کہ سامری نے آپ کے بعد آپ کی قوم کو گمراہ کردیا ہے۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (٨٥) ۔- بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِيْ مِنْۢ بَعْدِيْ ۚ: یعنی میں جاتے وقت تمہیں کہہ گیا تھا کہ جب تک میں نہ آؤں ہارون میرے خلیفہ ہوں گے، ان کا حکم ماننا اور مفسدوں کے پیچھے نہ لگنا، مگر میں جب مقرر میعاد (٣٠) دن تک واپس نہ آیا تو تم نے سمجھ لیا کہ میں مرگیا ہوں، اس پر تم نے بچھڑا بنا کر پوجنا شروع کردیا، اس طرح تم میرے بعد بہت برے جانشین ثابت ہوئے، یا تم نے بہت برا کام کیا ہے۔ (المنار)- وَاَلْقَى الْاَلْوَاحَ وَاَخَذَ بِرَاْسِ اَخِيْهِ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) کا شدید غصہ دو کاموں کی صورت میں ظاہر ہوا، ایک الواح کو پھینکنا اور دوسرا ہارون (علیہ السلام) کے سر کو پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹنا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دیکھنے اور سننے میں بہت فرق ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سنی ہوئی بات آنکھوں سے دیکھنے کی طرح نہیں ہوتی، اللہ عزوجل نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اس کی خبر دی جو ان کی قوم نے بچھڑے کے معاملے میں کیا تھا، مگر انھوں نے تختیاں نہیں پھینکیں، جب آنکھوں سے دیکھا جو کچھ انھوں نے کیا تھا تو تختیاں پھینک دیں تو وہ ٹوٹ گئیں۔ “ [ أحمد : ١؍٢٧١، ح : ٢٤٥١۔ مستدرک حاکم : ٢؍٣٢١، ح : ٣٢٥٠، عن ابن عباس وصححہ الألبانی ] ۭ قَالَ ابْنَ اُمَّ : موسیٰ (علیہ السلام) ہارون (علیہ السلام) کے سگے بھائی ہی تھے، مگر انھوں نے ان کی شفقت حاصل کرنے کے لیے ” اے میری ماں کے بیٹے “ کہا۔ ” ابْنَ اُمَّ “ اصل میں ” یَا ابْنَ أُمِّیْ “ تھا، حرف ندا یاء حذف کردیا اور ” أُمِّیْ “ کی یاء کو الف سے بدل دیا تو ” ابْنَ اُمَّا “ بن گیا، پھر مزید تخفیف کے لیے الف بھی حذف کردیا تو ” ابْنَ اُمَّ ‘ بن گیا۔- اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِي۔۔ : یعنی میں نے انھیں بچھڑے کی پوجا سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی ہے۔ (دیکھیے طٰہٰ : ٩٠) مگر یہ لوگ مجھ پر پل پڑے اور قریب تھا کہ مجھے قتل ہی کردیتے۔ - فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْاَعْدَاۗءَ ۔۔ : ” شَمَاتَۃٌ“ کا معنی کسی نقصان پر دشمن کا خوش ہونا ہے۔ ظاہر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے اس انداز غضب پر دشمن تو ضرور خوش ہوئے ہوں گے، دشمنوں سے مراد بچھڑا بنانے والے اور اس کی عبادت کی حمایت کرنے والے ہیں۔ اس لیے ہارون (علیہ السلام) نے کہا کہ اس طرح میری گرفت کرکے دشمنوں کو خوش نہ کرو۔ (وَلَا تَجْعَلْنِيْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ ) اور یہ طے نہ کرلو کہ میں بھی ان کے بچھڑا بنانے یا پوجنے کے عمل میں ان کے ساتھ شریک ہوں۔ اس سے ہارون (علیہ السلام) پر تورات کی اس تہمت کا واضح رد ہوگیا جس کا ذکر پیچھے (آیت ١٤٨) میں ہوا ہے کہ یہ بچھڑا ہارون (علیہ السلام) نے بنایا تھا۔ ہارون (علیہ السلام) کو اس بات سے بھی بہت تکلیف ہوئی کہ بھائیوں کے اختلاف سے دشمن خوش ہوں گے۔ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ ” شَمَاتَۃُ الْاَعْدَاءِ “ سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے، یعنی اس بات سے ہمیشہ پناہ مانگتے کہ کسی مصیبت پر دشمنوں کو خوشی حاصل ہو۔ پوری دعا اس طرح ہے : ( اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ جَھْدِ الْبَلَاءِ وَ دَرَکِ الشَّقَاءِ وَسُوْءِ الْقَضَاءِ وَشَمَاتَۃِ الْأَعْدَاءِ ) [ بخاری، الدعوات، باب التعوذ من جہد البلاء : ٦٣٤٧ ]
پانچویں آیت میں اس واقعہ کی تفصیل ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور سے تورات لے کر واپس آئے اور قوم کو گوسالہ پرستی میں مبتلا دیکھا تو اگرچہ قوم کی اس گمراہی کی خبر حق تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور ہی پر کردی تھی، لیکن سننے اور دیکھنے میں فرق ہوتا ہے جب ان لوگوں کو دیکھا کہ گائے کی پوجا پاٹ کر رہے تو غصہ کی انتہا نہ رہی۔- پہلے اپنی قوم کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِيْ مِنْۢ بَعْدِيْ یعنی تم نے میرے بعد یہ بڑی نامعقول حرکت کی ہے اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْ کیا تم نے اپنے رب کا حکم آنے سے جلد بازی کی، یعنی اللہ کی کتاب تورات کے آنے کا انتظار تو کرلیتے، تم نے اس سے جلد بازی کرکے یہ گمراہی اختیار کرلی، اور بعض مفسرین نے اس جملہ کا یہ مطلب قرار دیا ہے کہ کیا تم نے جلد بازی کرکے یہ قرار دے لیا تھا کہ میری موت آگئی۔- اس کے بعد حضرت ہارون (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہوئے کہ ان کو اپنا خلیفہ بنا کر گئے تھے انہوں نے اس گمراہی سے ان لوگوں کو کیوں نہ روکا، ان کی طرف ہاتھ بڑھانے کے لئے ہاتھ کو خالی کرنے کی فکر ہوئی تو تورات کی تختیاں جو ہاتھ میں لئے ہوئے تھے جلدی سے رکھ دیں اسی کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا وَاَلْقَى الْاَلْوَاحَ ، القاء کے لغوی معنی ڈال دینے کے ہیں، اور الواح، لوح کی جمع ہے جس کے معنی ہیں تختی، یہاں لفظ القاء سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے غصہ کی حالت میں تورات کی تختیوں کی بےادبی کی کہ ان کو ڈال دیا۔- لیکن یہ ظاہر ہے کہ الواح تورات کو بےادبی کے ساتھ ڈال دینا گناہ عظیم ہے اور انبیاء (علیہم السلام) سب گناہوں سے معصوم ہیں، اس لئے مراد آیت کی یہی ہے کہ اصل مقصود حضرت ہارون (علیہ السلام) کو پکڑنے کے لئے اپنا ہاتھ خالی کرنا تھا اور غصہ کی حالت میں جلدی سے ان کو رکھا، جس سے دیکھنے والا یہ سمجھے کہ ڈال دیا، اس کو قرآن کریم نے بطور تنبیہ کے ڈالنے کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ (بیان القرآن)
وَلَمَّا رَجَعَ مُوْسٰٓي اِلٰى قَوْمِہٖ غَضْبَانَ اَسِفًا ٠ ۙ قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِيْ مِنْۢ بَعْدِيْ ٠ ۚ اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْ ٠ ۚ وَاَلْقَى الْاَلْوَاحَ وَاَخَذَ بِرَاْسِ اَخِيْہِ يَجُرُّہٗٓ اِلَيْہِ ٠ ۭ قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِيْ وَكَادُوْا يَقْتُلُوْنَنِيْ ٠ ۡۖ فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْاَعْدَاۗءَ وَلَا تَجْعَلْنِيْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِــمِيْنَ ١٥٠- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - غضب - الغَضَبُ : ثوران دم القلب إرادة الانتقام، ولذلک قال عليه السلام : «اتّقوا الغَضَبَ فإنّه جمرة توقد في قلب ابن آدم، ألم تروا إلى انتفاخ أوداجه وحمرة عينيه» «2» ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به فالمراد به الانتقام دون غيره : قال فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] ، وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] ، وقال : وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] ، غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] ، وقوله : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] ، قيل :- هم اليهود «3» . والغَضْبَةُ کالصّخرة، والغَضُوبُ :- الكثير الغضب . وتوصف به الحيّة والنّاقة الضجور، وقیل : فلان غُضُبَّةٌ: سریع الغضب «4» ، وحكي أنّه يقال : غَضِبْتُ لفلان : إذا کان حيّا وغَضِبْتُ به إذا کان ميّتا «5» .- ( غ ض ب ) الغضب - انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا اسی لئے آنحضرت نے فرمایا ہے اتقو ا الغضب فانہ جمرۃ توقدئی قلب ابن ادم الم ترو الی امتقاخ اوداجہ وحمرتۃ عینیہ کہ غصہ سے بچو بیشک وہ انسان کے دل میں دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح ہے تم اس کی رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کے سرخ ہوجانے کو نہیں دیکھتے لیکن غضب الہیٰ سے مراد انتقام ( اور عذاب ) ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] تو وہ اس کے ) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے ۔ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] اور وہ خدا کے غضب ہی گرمحتار ہوگئے ۔ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا ۔ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] اور خدا اس پر غضب ناک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا ۔ میں بعض نے کہا کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور غضبۃ کے معنی سخت چٹان کے ہیں ۔ المغضوب بہت زیادہ غصے ہونے والا یہ سانپ اور تزر مزاج اونٹنی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فلاں غضبۃ کے معنی ہیں فلاں بہت جلد غصے ہونے والا ہے ۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ غضیت لفلان کے معنی کسی زندہ شخص کی حمایت میں ناراض ہونا ہیں اور غضبت بہ کے معنی کیس مردہ شخص کی حمایت کے لئے غضب ناک ہونا ۔- أسِف - الأَسَفُ : الحزن والغضب معاً ، وقد يقال لکل واحدٍ منهما علی الانفراد، وحقیقته : ثوران دم القلب شهوة الانتقام، فمتی کان ذلک علی من دونه انتشر فصار غضبا، ومتی کان علی من فوقه انقبض فصار حزنا، ولذلک سئل ابن عباس عن الحزن والغضب فقال : مخرجهما واحد واللفظ مختلف فمن نازع من يقوی عليه أظهره غيظاً وغضباً ، ومن نازع من لا يقوی عليه أظهره حزناً وجزعاً ، وقوله تعالی: فَلَمَّا آسَفُونا انْتَقَمْنا مِنْهُمْ [ الزخرف 55] أي : أغضبونا .- ( ا س ف ) الاسف - ۔ حزن اور غضب کے ممواعہ کو کہتے ہیں کبھی آسف کا لفظ حزن اور غضب میں سے ہر ایک پر انفراد ابھی بولا جاتا ہے اصل میں اس کے معنی جذبہ انتقام سے دم قلب کے جوش مارنا کے ہیں ۔ اگر یہ انتقام سے دم قلب کے جوش مارنا کے ہیں ۔ اگر یہ کیفیت اپنے سے کمزور آدمی پر پیش آئے تو پھیل کر غضب کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور اگر اپنے سے قوی آدمی پر ہو تو منقبض ہوکر حزن بن جاتی ہے اس لئے جب حضرت ابن عباس سے حزن اور غضب کی حقیقت دریافت کی گئی تو انہوں نے فرمایا : لفظ دو ہیں مگر ان کی اصل ایک ہی ہے جب کوئی شخص اپنے سے کمزور کے ساتھ جھگڑتا ہے تو غیظ و غضب کا اظہار کرتا ہے اور جب اپنے سے قوی کے ساتھ جھگڑتا ہے تو واویلا اور غم کا اظہار کرتا ہے اور آیت کریمہ :۔ فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ ( سورة الزخرف 55) کے معنی یہ ہیں کہ جب انہوں نے ہمیں غضب ناک کیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا ۔- بِئْسَ- و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام،- كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة 79] ، أي : شيئا يفعلونه،- ( ب ء س) البؤس والباس - بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے - خلف - والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر 39] ،- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔- عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2 قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ - لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - لوح - اللَّوْحُ : واحد أَلْوَاحِ السّفينة . قال تعالی: وَحَمَلْناهُ عَلى ذاتِ أَلْواحٍ وَدُسُرٍ [ القمر 13] وما يكتب فيه من الخشب ونحوه، وقوله تعالی: فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ [ البروج 22] فكيفيّته تخفی علینا إلا بقدر ما روي لنا في الأخبار، وهو المعبّر عنه بالکتاب في قوله : إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] واللُّوحُ : العَطَشُ ، ودابّة مِلْوَاحٌ: سریع العطش، واللُّوحُ أيضا، بضمّ اللام : الهواء بين السماء والأرض، والأکثرون علی فتح اللام إذا أريد به العطش، وبضمّه إذا کان بمعنی الهواء، ولا يجوز فيه غير الضّمّ. ولَوَّحَهُ الحرّ : غيّره، ولَاحَ الحرّ لَوْحاً : حصل في اللوح، وقیل : هو مثل لمح . ولَاحَ البرق، وأَلَاحَ : إذا أومض، وأَلَاحَ بسیفه : أشار به .- ( ل و ح ) اللوح ۔ تختہ ( کشتی وغیرہ کا ) اس کی جمع الواح ہے ۔ قرآن میں ہے : وَحَمَلْناهُ عَلى ذاتِ أَلْواحٍ وَدُسُرٍ [ القمر 13] اور ہم نے نوح کو ایک کشتی پر جو تختوں اور میخوں سے تیار کی گئی تھی سوار کرلیا ۔ اور لوح لکڑی وغیرہ کی اس تختی کو بھی کہتے ہیں جس پر کچھ لکھا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ [ البروج 22] لوح محفوظ میں ۔ میں لوح محفوظ کی اصل کیفیت کو ہم اسی قدر جان سکتے ہیں اور احادیث میں مروی ہے اسی کو دوسری آیت میں کتاب سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] بیشک یہ کتاب میں لکھا ہوا ہے بیشک یہ کسب خدا کو آسان ہے ۔ اللوح کے معنی پیاس کے ہیں ۔ اور جس جو پایہ کو جلدی پیاس لگتی ہوا سے دابۃ ملواح کہا جاتا ہے ۔ اور لوح ( ضمہ لام کے ساتھ ) آسمان اور زمین کے درمیانی خلا کو بھی کہتے ہیں لیکن اکثر علمائے لغت کے نزدیک فتحہ لام کے ساتھ بمعنی پیاس کے ہے اور ضمہ لام کے ساتھ زمین وآسمان کے درمیانی خلا کے معنی میں آتا ہے گو اس میں فتحہ لام بھی جائز ہے ۔ لوحہ الحرا سے گرمی نے جھلس دیا ۔ لاح الحرلوحا گرمی فضا میں پھیل گئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ لمح کی طرح ہے اورا لاح بسیفہ کے معنی ہیں اس نے تلوار سے اشارہ کیا ۔- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- رأس - الرَّأْسُ معروف، وجمعه رُؤُوسٌ ، قال : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم 4] ، وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] ، ويعبّر بِالرَّأْسِ عن الرَّئِيسِ ، والْأَرْأَسُ : العظیم الرّأس، وشاة رَأْسَاءُ : اسودّ رأسها . ورِيَاسُ السّيف : مقبضه .- ( ر ء س ) الراس - سر کو کہتے ہیں اور اس کی جمع رؤوس آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم 4] اور سر بڑاھاپے ( کی آگ ) سے بھڑک اٹھا ہے ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] اپنے سر نہ منڈاؤ اور کبھی راس بمعنی رئیس بھی آتا ہے اور ارء س ( اسم تفصیل ) کے معنی بڑے سر والا کے ہیں اور سیاہ سر والی بکری کو شاۃ راساء کہتے ہیں اور ریاس السیف کے معنی دستہ شمشیر کے ہیں ۔- یجرہ - ۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ جر مصدر ( باب نصر) ہ ضمیر مفعول اس کو کھینچتے ہوئے۔- ابن ام - ۔ یا حرف ندا محذوف۔ ابن ام مضاف مضاف الیہ مل کر منادیٰ ۔ یا ابن ام میں بعض نے میم کو کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے اصل میں ابن امی تھا ۔ ی کو تخفیفاً ساقط کردیا گیا۔ میم کو مفتوح پڑھنے والوں کے نزدیک بھی میم پر فتح زیادہ تخفیف کی وجہ سے ہے۔- اسْتَضْعَفْ- واسْتَضْعَفْتُهُ : وجدتُهُ ضَعِيفاً ، قال وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ- [ النساء 75] ، قالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء 97] ، إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف 150] ، وقوبل بالاستکبار في قوله : قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ 33]- استضعفتہ ۔ میں نے اسے کمزور سمجھا حقیر جانا ۔ قران میں ہے : ۔ وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا[ القصص 5] اور ہم چاہتے تھے کہ جنہیں ملک میں کمزور سمجھا گیا ہے ان پر احسان کریں : وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ [ النساء 75] اور ان بےبس مردوں عورتوں اور بچوں قالوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء 97] تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز اور ناتوان تھے ۔ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف 150] کہ لوگ تو مجھے کمزور سمجھتے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ 33] اور کمزور لوگ برے لوگوں سے کہیں گے ۔ میں استضاف استکبار کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے - كَادَ- ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء 73] ، تَكادُ السَّماواتُ- [ مریم 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال - قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس .- ( ک و د ) کاد - ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے - - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- شمت - الشَّمَاتَةُ : الفرح ببليّة من تعاديه ويعاديك، يقال : شَمِتَ به فهو شَامِتٌ ، وأَشْمَتَ اللہ به العدوّ ، قال عزّ وجلّ : فَلا تُشْمِتْ بِيَ الْأَعْداءَ [ الأعراف 150]- ( ش م ت ) الشماتۃ کے معنی دشمن کی مصیبت پر خوش ہونے کے ہیں اور یہ شمت بہ فھو شامت کا مصدر ہے اور اشمت اللہ بہ العدو کے معنی ہیں اللہ اسے مصیبت پہنچائے جس سے اس کے دشمن خوش ہوں قرآن میں ہے ۔ فَلا تُشْمِتْ بِيَ الْأَعْداءَ [ الأعراف 150] تو ایسا نہ کیجئے کہ دشمن مجھ پر ہنسیں ۔ تشمت کے معنی چھیکنے والے کو دعا دینے کے ہیں ۔- عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
عجلت اور سرعت کا فرق - قول باری ہے اعجلتم امرربکم۔ کیا تم سے اتنا صبر نہ ہوسکا کہ اپنے رب کے حکم کا انتظار کرلیتے) عجلت کسی کام کو اس کے وقت سے پہلے کرلینے کا نام ہے جب کہ سرعت کام کو اس کے اول وقت میں کرلینے کو کہتے ہیں۔ اس لئے عجلت قابل مذمت چیز بن گئی۔ بعض دفعہ وقت کے اندر ایک کام کی انجام دہی میں جلد بازی دکھائی جاتی ہے جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ سردیوں میں ظہر کی نماز تعجیل کے ساتھ ادا کرتے تھے اور گرمیوں میں سے ٹھنڈا کر کے پڑھتے تھے۔ قول باری ہے واخذبراس اخیہ یجرہ الیہ۔ اور اپنے بھائی (ہارون) کے سر کے بال پکڑ کر اسے کھینچا) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ناراضی کے اظہار کے طور پر ایسا کیا تھا ۔ تذلیل اور اہانت کے طور پر یہ نہیں کیا تھا۔ نیز ایسے اقدامات کی حیثیتیں عادات اور رسم و رواج کی بنا پر مختلف زبانوں میں مختلف ہوتی ہیں ہوسکتا ہے کہ سر کے بال پکڑ کر کھینچنا اس زمانے میں تذلیل اور اہانت کی بنا پر نہ ہوتا ہو اور نہ ہی کوئی اسے اہانت سمجھتا ہو۔ ایک قول ہے کہ اس کی حیثیت وہی ہے جس طرح کوئی شخص غصے میں آکر اپنی داڑھی کے بالوں کو مٹھی میں لے لیتا ہے یا اپنے ہونٹ یا انگوٹھا چبانے لگ جاتا ہے۔
(١٥٠) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس فتنہ کا شور وشغف سن کر غمگین اور پریشان واپس آئے تو کہنے لگے میرے پہاڑ پر جانے کے بعد اس بچھڑے کی پوجا کرکے تم نے بہت ہی غلط کام کیا ہے، کیا اپنے رب کا حکم آنے سے پہلے ہی تم لوگوں نے اس بچھڑے کی پوجا شروع کردی اور بہت تیزی سے اپنے ہاتھ سے تختیاں رکھیں، جن میں وہ ٹوٹ گئیں، اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے بال پکڑ کر کھینچنے لگے، ہارون (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے بھائی لوگوں نے مجھے کمزور سمجھا اور ان کی مخالفت پر قریب تھا کہ یہ مجھے قتل کردیں، آپ مجھ پر سختی کرکے دشمنوں کو مت ہنسواؤ اور ان بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کے ساتھ مجھے شریک نہ سمجھو۔
آیت ١٥٠ (وَلَمَّا رَجَعَ مُوْسٰٓی اِلٰی قَوْمِہٖ غَضْبَانَ اَسِفًالا) - غَضْبَان ‘ رَحْمٰنکی طرح فعلان کے وزن پر مبالغے کا صیغہ ہے۔ یعنی آپ ( علیہ السلام) نہایت غضبناک تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مزاج بھی جلالی تھا اور قوم کے جرم اور گمراہی کی نوعیت بھی بہت شدید تھی۔ پھرا للہ تعالیٰ نے کوہ طور پر ہی بتادیا تھا کہ تمہاری قوم فتنہ میں پڑچکی ہے لہٰذا ان کا غم و غصہ اور رنج و افسوس بالکل بجا تھا۔- (قَالَ بِءْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ مِنْم بَعْدِیْ ج) ۔ - یہ خطاب حضرت ہارون (علیہ السلام) سے بھی ہوسکتا ہے اور اپنی پوری قوم سے بھی۔ - (اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّکُمْ ج) - یعنی اگر سامری نے فتنہ کھڑا کر ہی دیا تھا تو تم لوگ اس قدر جلد بغیر سوچے سمجھے اس کے کہنے میں آگئے ؟ کم از کم میرے واپس آنے کا ہی انتظار کرلیتے - (وَاَلْقَی الْاَلْوَاحَ ) - کوہ طور سے جو تورات کی تختیاں لے کر آئے تھے وہ ابھی تک آپ ( علیہ السلام) کے ہاتھ میں ہی تھیں ‘ تو آپ ( علیہ السلام) نے ان تخیتوں کو ایک طرف زمین پر رکھ دیا۔- (وَاَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْہِ یَجُرُّہٗٓ اِلَیْہِ ط) ۔ - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے غصے میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کو سر کے بالوں سے پکڑکر اپنی طرف کھینچا اور کہا کہ میں تمہیں اپنا خلیفہ بنا کر گیا تھا ‘ میرے پیچھے تم نے یہ کیا کیا ؟ تم نے قوم کے لوگوں کو اس بچھڑے کی پوجا کرنے سے روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی ؟- (قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَکَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ ز) - میں نے تو ان لوگوں کو ایسا کرنے سے منع کیا تھا ‘ لیکن انہوں نے مجھے بالکل بےبس کردیا تھا۔ اس معاملے میں ان لوگوں نے اس حد تک جسارت کی تھی کہ وہ میری جان کے درپے ہوگئے تھے۔ - (فَلاَ تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ ) - شماتتِ اَعداء کا محاورہ ہمارے ہاں اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے ‘ یعنی کسی کی توہین اور بےعزتی پر اس کے دشمنوں کا خوش ہونا اور ہنسنا۔ حضرت ہارون نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے درخواست کی کہ اب اس طرح میرے بال کھینچ کر آپ دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں۔- (وَلاَ تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ) ۔ - آپ مجھے ان ظالموں کے ساتھ شمار نہ کیجیے۔ میں اس معاملے میں ہرگز ان کے ساتھ نہیں ہوں۔ میں تو انہیں اس حرکت سے منع کرتا رہا تھا ۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :108 یہاں قرآن مجید نے ایک بہت بڑے الزام سےحضرت ہارون کی براءت ثابت کی ہے جو یہودیوں نے زبردستی ان پر چسپاں کر رکھا تھا ۔ بائیبل میں بچھڑے کی پرستش کا واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ کو پہاڑ سے آنے میں دیر لگی تو بنی اسرائیل نے بے صبر ہو کر حضرت ہارون سے کہا کہ ہمارے لیے ایک معبود بنا دو ، حضرت ہارون نے ان کی فرمائش کے مطابق سونے کا ایک بچھڑا بنا دیا جسے دیکھتے ہی بنی اسرائیل پکار اُٹھے کہ اے اسرائیل ، یہی تیرا وہ خدا ہے جو تجھے ملک مصر سے نکال کر لایا ہے ۔ پھر حضرت ہارون نے اس کے لیے ایک قربان گاہ بنائی اور اعلان کر کے دوسرے روز تمام بنی اسرائیل کو جمع کیا اور اس کے آگے قربانیاں چڑھائیں ( خروج ۔ باب۳۲ ۔ آیت١ ۔ ٦ ) ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بصراحت اس غلط بیانی کی تردید کی گئی ہے اور حقیقت واقعہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس جرم عظیم کا مرتکب خدا کا نبی ہارون نہیں بلکہ خدا کا باغی سامری تھا ۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ طہٰ ، آیات ۹۰ ۔ ۹٤ ) ۔ بظاہر یہ بات بڑی حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل جن لوگوں کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں ان میں سے کسی کی سیرت کو بھی انہوں نے داغدار کیے بغیر نہیں چھوڑا ہے ، اور داغ بھی ایسے سخت لگائے ہیں جو اخلاق و شریعت کی نگاہ میں بدترین جرائم شمار ہوتے ہیں ، مثلاً شرک ، جادوگری ، زنا ، جھوٹ ، دغا بازی اور ایسے ہی دوسرے شدید معاصی جن سے آلودہ ہونا پیغمبر تو درکنار ایک معمولی مومن اور شریف انسان کے لیے بھی سخت شرمناک ہے ۔ یہ بات بجائے خود نہایت عجیب ہے لیکن بنی اسرائیل کی اخلاقی تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ فی الحقیقت اس قوم کے معاملہ میں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔ یہ قوم جب اخلاقی و مذہبی انحطاط میں مبتلا ہوئی اور عوام سے گزر کر ان کے خواص تک کو ، حتٰی کہ علماء و مشائخ اور دینی منصب داروں کو بھی گمراہیوں اور بد اخلاقیوں کا سیلاب بہالے گیا تو ان کے مجرم ضمیر نے اپنی اس حالت کے لیے عذرات تراشنے شروع کیے اور اسی سلسلہ میں انہوں نے وہ تمام جرائم جو یہ خود کرتے تھے ، انبیاء علیہم السلام کی طرف منسوب کر ڈالے تا کہ یہ کہا جا سکے کہ جب نبی تک ان چیزوں سے نہ بچ سکے تو بھلا اور کون بچ سکتا ہے ۔ اس معاملہ میں یہودیوں کا حال ہندوؤں سے ملتا جلتا ہے ۔ ہندوؤں میں بھی جب اخلاقی انحطاط انتہا کو پہنچ گیا تو وہ لٹریچر تیار ہوا جس میں دیوتاؤں ، رشیوں ، مُنیوں اور اوتاروں کی ، غرض جو بلند ترین آئیڈیل قوم کے سامنے ہو سکتے تھے ان سب کی زندگیاں بد اخلاقی کے تارکول سے سیاہ کر ڈالی گئیں تا کہ یہ کہا جا سکے کہ جب ایسی ایسی عظیم الشان ہستیاں ان قبائح میں مبتلا ہو سکتی ہیں تو بھلا ہم معمولی فانی انسان ان میں مبتلا ہوئے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں ، اور پھر جب یہ افعال اتنے اُونچے مرتبے والوں کے لیے بھی شرمناک نہیں ہیں تو ہمارے لیے کیوں ہوں ۔
70: یہ تورات کی تختیاں تھیں جو وہ کوہ طور سے لائے تھے ’’ پھینکنے‘‘ سے یہاں مطلب یہ ہے کہ انہوں نے جلدی میں انہیں اس طرح ایک طرف رکھا کہ دیکھنے ولا اسے پھینکنے سے تعبیر کرسکتا تھا، خدا نخواستہ ان کی بے حرمتی مقصود نہیں تھی۔