اللہ تعالیٰ کی رحمت اور انسان چونکہ کلیم اللہ علیہ السلام نے اپنی دعا میں کہا تھا کہ یہ محض تیری طرف سے آزمائش ہے اس کے جواب میں فرمایا جارہا ہے کہ عذاب تو صرف گنہگاروں کو ہی ہوتا ہے اور گنہگاروں میں سے بھی انہی کو جو میری نگاہ میں گنہگار ہیں نہ کہ ہر گنہگار کو ۔ میں اپنی حکمت عدل اور پورے علم کے ذریعے سے جانتا ہوں کہ مستحق عذاب کون ہے ؟ صرف اسی کو عذاب پہنچاتا ہے ۔ ہاں البتہ میری رحمت بڑی وسیع چیز ہے جو سب پر شامل ، سب پر حاوی اور سب پر محیط ہے ۔ چنانچہ عرش کے اٹھانے والے اور اس کے ارد گرد رہنے والے فرشتے فرماتے رہا کرتے ہیں کہ اے رب تو نے اپنی رحمت اور اپنے علم سے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے ۔ مسند امام احمد میں ہے کہ ایک اعرابی آیا اونٹ بٹھا کر اسے باندھ کر نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہو گیا نماز سے فارغ ہو کر اونٹ کو کھول کر اس پر سوار ہو کر اونچی آواز سے دعا کرنے لگا کہ اے اللہ مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم کر اور اپنی رحمت میں کسی اور کو ہم دونوں کا شریک نہ کر ۔ آپ یہ سن کر فرمانے لگے بتاؤ یہ خود راہ گم کردہ ہونے میں بڑھا ہوا ہے یا اس کا اونٹ؟ تم نے سنا بھی اس نے کیا کہا ؟ صحابہ نے عرض کیا ہاں حضور سن لیا آپ نے فرمایا اے شخص تو نے اللہ کی بہت ہی کشادہ رحمت کو بہت تنگ چیز سمجھ لیا سن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے سو حصے کئے جن میں سے صرف ایک ہی حصہ دنیا میں اتارا اسی سے مخلوق ایک دوسرے پر ترس کھاتی ہے اور رحم کرتی ہے ، اسی سے حیوان بھی اپنی اولاد کے ساتھ نرمی اور رحم کا برتاؤ کرتے ہیں باقی کے ننانوے حصے تو اس کے پاس ہی ہیں جن کا اظہار قیامت کے دن ہو گا اور روایت میں ہے کہ بروز قیامت اسی حصے کے ساتھ اور ننانوے حصے جو موخر ہیں ملا دیئے جایں گے ایک اور روایت میں ہے کہ اسی نازل کردہ ایک حصے میں پرند بھی شریک ہیں ۔ طبری میں ہے قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جو اپنے دین میں فاجر ہے جو اپنی معاش میں احمق ہے وہ بھی اس میں داخل ہے ۔ اس کی قسم جو میری جان اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے وہ بھی جنت میں جائے گا جو مستحق جہنم ہوگا ۔ اس کی قسم جس کے قبضے میں میری روح ہے قیامت کے دن اللہ کی رحمت کے کرشمے دیکھ کر ابلیس بھی امیدوار ہو کر ہاتھ پھیلا دے گا ۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کا راوی سعد غری معروف ہے ۔ پس میں اپنی اس رحمت کو ان کے لئے واجب کر دونگا اور یہ بھی محض اپنے فضل و کرم سے ۔ جیسے فرمان ہے تمہارے رب نے اپنی ذات پر رحمت کو ان کے لئے واجب کردوں گا اور یہ بھی محض اپنے فضل و کرم سے ۔ جیسے فرمان ہے تمہارے رب نے اپنی ذات پر رحمت کو واجب کر لیا ہے ۔ پس جن پر رحمت رب واجب ہو جائے گی ان کے اوصاف بیان فرمائے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مراد اس سے امت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے جو تقویٰ کریں یعنی شرک سے اور کبیرہ گناہوں سے بچیں زکوٰۃ دیں یعنی اپنے ضمیر کو پاک رکھیں اور مال کی زکوٰۃ بھی ادا کریں ـ ( کیونکہ یہ آیت مکی ہے ) اور ہماری آیتوں کو مان لیں ان پر ایمان لائیں اور انہیں سچ سمجھیں ۔
156۔ 1 یعنی توبہ کرتے ہیں۔ 156۔ 2 یہ اس کی وسعت رحمت ہی ہے کہ دنیا میں صالح و فاسق اور مومن و کافر دونوں ہی اس کی رحمت سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے 100 حصے ہیں۔ یہ اس کی رحمت کا ایک حصہ ہے کہ جس سے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے اور وحشی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں اور اس نے اپنی رحمت کے 99 حصے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ (صحیح مسلم)
[١٥٣] اللہ کی رحمت دنیا میں سب کے لئے عام ہے :۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی امت کے لیے دنیا اور آخرت دونوں جگہ کی بھلائی طلب فرمائی، تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا اصل چیز جس پر یہ کائنات کا سارا نظام چل رہا ہے وہ میری رحمت ہے اور ساری مخلوق میری رحمت سے مستفید ہو رہی ہے۔ سزا تو میں صرف اس شخص کو دیتا ہوں جس کے حق میں اس کی نافرمانیوں کی بنا پر وہ مقدر ہوچکی ہے بلکہ وہ بھی بسا اوقات دنیا میں میری رحمتوں سے مستفیض ہوتے رہتے ہیں اور جس خیر اور بھلائی کا تم مطالبہ کر رہے ہو کہ دنیا میں بھی یہ نعمت ملے اور آخرت میں بھی یہ صرف ان لوگوں کا حصہ ہے جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور تقویٰ کی راہ اختیار کرتے اور اپنے اموال سے ہمارا حق یعنی زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں ایسے لوگ دنیا اور آخرت دونوں جگہ میری رحمت سے ہم کنار ہوں گے۔ یہاں تک موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کا جواب ختم ہوتا ہے۔
قَالَ عَذَابِيْٓ اُصِيْبُ بِهٖ مَنْ اَشَاۗءُ ۚ۔۔ : یعنی میرا عذاب تو صرف ان کافروں اور نافرمانوں کے لیے مخصوص ہے جنھیں میں ان کی نافرمانی پر سزا دینا چاہتا ہوں، کیونکہ عذاب دینا میری غالب صفت نہیں بلکہ وہ میرا ایک فعل ہے جو عدل کے تقاضے کے نتیجے میں ظاہر ہوتا ہے۔ میری اصل اور غالب صفت جس کے ساتھ کائنات کا نظام چل رہا ہے، وہ میری رحمت ہے، جس سے کائنات کی ہر چیز فیض یاب ہو رہی ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوگئے، اسی اثنا میں ایک اعرابی نے نماز کی حالت میں کہہ دیا : ” اے اللہ مجھ پر اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرما۔ “ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام پھیرا تو اس اعرابی سے فرمایا : ( لَقَدْ حَجَّرْتَ وَاسِعًا ) ” تو نے اللہ تعالیٰ کی رحمت واسع کو محدود کردیا۔ “ [ بخاری، الأدب، باب رحمۃ الناس والبھائم : ٦٠١٠ ] اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت دنیا میں بھی خاص نیکو کاروں کے لیے ہوتی اور کفر و نافرمانی پر فوراً مؤاخذہ ہوتا تو وہ روئے زمین پر کسی چلنے والے کو نہ چھوڑتا۔ دیکھیے سورة نحل (٦١) اور فاطر (٤٥) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بیشک اللہ تعالیٰ نے سو رحمت پیدا فرمائی، اس میں سے ایک رحمت جن و انس، جانوروں اور زہریلے سانپوں اور کیڑوں میں اتاری، اسی کے ساتھ وہ ایک دوسرے پر شفقت اور ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ وحشی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں اور ننانویں رحمتیں اللہ تعالیٰ نے مؤخر کر رکھی ہیں جن کے ساتھ وہ اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔ “ [ مسلم، التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالٰی۔۔ : ٢٧٥٢، ٢٧٥٣، عن أبی ہریرہ (رض) ] ۭ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ : ” وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ “ کے الفاظ میں ابلیس اور تمام کفار بھی شامل تھے، کیونکہ ” ْ كُلَّ شَيْء “ میں یہ سب داخل ہیں، اس لیے یہ بتانے کے لیے کہ یہ سب میری رحمت سے محروم ہیں، فرمایا کہ میں اپنی رحمت صرف ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو ڈرتے ہیں اور ان تمام صفات کے حامل ہیں جو اس آیت اور اس سے اگلی آیت میں مذکور ہیں۔ یہ بھی وضاحت فرما دی کہ نبی امی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کے بعد اس رحمت کے مستحق صرف وہ ہیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متبع ہوں گے۔- وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ : دوسرے ارکان و فرائض کو چھوڑ کر خاص طور پر زکوٰۃ کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ یہودیوں میں مال کی محبت بہت پائی جاتی تھی جس کی بنا پر وہ جتنی کوتاہی ادائے زکوٰۃ میں کرتے تھے کوئی اور فریضہ ادا کرنے میں نہیں کرتے تھے، حتیٰ کہ اس محبت نے زکوٰۃ دینے میں کوتاہی سے آگے بڑھ کر انھیں سود خوری پر لگا دیا۔ وہی حال اب امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے، مگر جس پر میرے رب کا خاص کرم ہو۔ - وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ : یہ آیت تمام احکام شریعت پر حاوی ہے۔ تقویٰ (نافرمانی سے پرہیز) ، زکوٰۃ (حقوق مالی) اور اللہ کی آیات پر ایمان میں ہر قسم کی معرفت آجاتی ہے، یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کا جواب ختم ہوگیا، اب اگلی آیت سے موقع کی مناسبت سے یہود و نصاریٰ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اختیار کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ دنیا و آخرت میں رحمت الٰہی کے حصول کے لیے مندرجہ بالا صفات کے علاوہ ” نبی امی “ کی پیروی بھی ضروری ہے۔
پانچویں آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس دعا کا تکملہ یہ بھی مذکور ہے، وَاكْتُبْ لَنَا فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَـنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ اِنَّا هُدْنَآ اِلَيْكَ ، یعنی اے ہمارے پروردگار آپ ہمارے لئے اس دنیا میں بھی نیک حالی لکھ دیجئے اور آخرت میں بھی، کیونکہ ہم آپ کی طرف خلوص و اطاعت سے رجوع کرتے ہیں۔- اس کے جواب میں حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا عَذَابِيْٓ اُصِيْبُ بِهٖ مَنْ اَشَاۗءُ ۚ وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۭ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَيُؤ ْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤ ْمِنُوْنَ یعنی اے موسیٰ اول تو میری رحمت مطلقا میرے غضب پر سابق ہے چناچہ میں اپنا عذاب اور غضب تو صرف اسی پر واقع کرتا ہوں جس پر چاہتا ہوں اگرچہ مستحق عذاب ہر نافرمان ہوتا ہے لیکن پھر بھی سب پر عذاب واقع نہیں کرتا، بلکہ ان میں سے خاص خاص لوگوں پر عذاب واقع کرتا ہوں جو انتہائی سرکش اور متمرد ہوتے ہیں، اور میری رحمت ایسی عام ہے کہ سب اشیاء کو محیط ہو رہی ہے باوجودیکہ ان میں سے بہت سے لوگ مثلا سرکش اور نافرمان اس کے مستحق نہیں مگر ان پر بھی ایک گونہ رحمت ہے گو دنیا ہی میں سہی، پس جب میری رحمت سب غیر مستحقین کے لئے بھی عام ہے تو وہ رحمت ان لوگوں کے لئے تو کامل طور پر ضرور ہی لکھ دوں گا جو حسب وعدہ اس کے مستحق بھی ہیں بوجہ اس کے کہ اطاعت کرتے ہیں چناچہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور زکوة دیتے ہیں اور جو کہ ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں، تو یہ لوگ پہلے ہی سے مستحق رحمت ہیں اس لئے آپ کو قبول دعا بشارت دیتے ہیں۔- اس جواب کی تقریر میں حضرات مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، کیونکہ یہاں صاف لفظوں میں قبولیت دعا مذکور نہیں، جیسے دوسرے مواقع میں صاف فرما دیا گیا قَدْ اُوْتِيْتَ سُؤ ْلَكَ يٰمُوْسٰى یعنی اے موسیٰ و ہارون آپ کا سوال پورا کردیا گیا، اور دوسری جگہ ارشاد ہے اُجِيْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا یعنی اے موسیٰ و ہارون آپ دونوں کی دعا قبول کرلی گئی، یہاں اس طرح کی کوئی صراحت نہیں، اس لئے بعض حضرات نے ان آیات کا مفہوم یہ قرار دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ درخواست اپنی امت کے بارے میں تو قبول نہ ہوئی البتہ امت محمدیہ کے حق میں قبول کرلی گئی جن کا ذکر بعد کی آیات میں وضاحت کے ساتھ آرہا ہے، مگر تفسیر روح المعانی میں اس احتمال کو بعید قراردیا ہے، اس لئے جواب کی صحیح تقریر یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کے دو جزء تھے ایک یہ کہ جن لوگوں پر عتاب و عذاب ہوا ہے ان کو معافی دی جائے اور ان پر رحمت کی جائے، دوسرا یہ کہ میرے لئے اور میری پوری قوم کے لئے دنیا و آخرت کی بھلائی مکمل لکھ دی جائے، پہلی دعاء کا جواب اس آیت میں مذکور ہے اور دوسری دعا کا جواب دوسری آیت میں مذکور ہے، پہلی آیت کا حاصل یہ ہے کہ میری عادت ہی یہ ہے کہ میں ہر گناہ گار پر عذاب نہیں کرتا بلکہ صرف ان پر جن کو میں (بوجہ انتہائی سرکشی کے) عذاب ہی دینا چاہتا ہوں اس لئے ان لوگوں کو بھی عذاب نہ دیا جائے گا آپ بےفکر رہیں، رہی رحمت کی درخواست سو میری رحمت تو ہر چیز پر حاوی اور محیط ہے انسان ہو یا غیر انسان، مومن ہو یا کافر، فرماں بردار ہو یا نافرمان، بلکہ جن کو دنیا میں کوئی عذاب و تکلیف دی جاتی ہے وہ بھی رحمت سے خالی نہیں ہوتے کم ازکم یہ کہ جس مصیبت میں مبتلا ہیں اس سے بڑی مصیبت ان پر نہیں ڈالی گئی حالانکہ اللہ تعالیٰ کو اس پر بھی قدرت تھی۔- استاذ محترم حضرت مولانا انور شاہ صاحب نے فرمایا کہ وسعت رحمت کے یہ معنی ہیں کہ رحمت کا دائرہ کسی سے تنگ نہیں، اس کے یہ معنی نہیں کہ ہر چیز مرحوم ہے جیسا ابلیس ملعون نے کہا کہ میں بھی ایک شئی ہوں ہر شئی مرحوم ہے لہذا میں بھی مرحوم ہوں، قرآن کریم کے الفاظ میں اس طرف اشارہ موجود ہے کہ یوں نہیں فرمایا کہ ہر شئی پر رحمت کی جائے گی بلکہ یہ فرمایا کہ صفت رحمت تنگ نہیں وسیع ہے جس پر اللہ تعالیٰ رحمت فرمانا چاہیں فرما سکتے ہیں، قرآن کریم میں اس کی شہادت دوسری جگہ اس طرح آئی ہے فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍ ۚ وَلَا يُرَدُّ بَاْسُهٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ ، یعنی اگر یہ لوگ آپ کی تکذیب کریں تو ان سے فرما دیجئے کہ تمہارا پروردگار وسیع رحمت والا ہے مگر مجرمین سے ان کے عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا، اس میں بتلا دیا کہ وسعت رحمت مجرمین پر عذاب کے منافی نہیں۔ - خلاصہ یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ دعا ان لوگوں کے حق میں بلا کسی شرط کے قبول کرلی گئی یعنی مغفرت و معافی کی بھی اور رحمت کی بھی۔- اور دوسری دعا جس میں دنیا و آخرت کی مکمل بھلائی ان کے لئے لکھ دینے کی درخواست تھی اس کے متعلق چند شرائط لگائی گئیں، مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو ہر مومن و کافر پر رحمت عام ہوسکتی ہے مگر عالم آخرت اچھے برے کے امتیاز کا مقام ہے یہاں رحمت کے مستحق صرف وہ لوگ ہوں گے جو چند شرائط کو پورا کریں اول یہ کہ وہ تقوٰی اور پرہیزگاری اختیار کریں یعنی تمام واجبات شرعیہ کو ادا کریں اور ناجائز کاموں سے دور رہیں، دوسرے یہ کہ وہ اپنے اموال میں سے اللہ تعالیٰ کے لئے زکوة نکالیں، تیسرے یہ کہ ہماری سب آیات پر بلا کسی استثناء اور تاویل کے ایمان لائیں، یہ موجودہ لوگ بھی اگر یہ صفات پوری اپنے اندر پیدا کرلیں تو ان کے لئے بھی دنیا وآخرت کی مکمل بھلائی لکھ دی جائے گی۔ - لیکن اس کے بعد کی آیت میں اس طرف اشارہ کردیا کہ ان صفات کو پوری جامعیت کے ساتھ حاصل کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو ان کے بعد آخر زمانہ میں آئیں گے اور نبی امی کا اتباع کریں گے اور اس کے نتیجہ میں وہ مکمل فلاح کے مستحق ہوں گے۔- حضرت قتادہ نے فرمایا کہ جب آیت وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ نازل ہوئی تو ابلیس نے کہا کہ میں اس رحمت میں داخل ہوں لیکن بعد کے جملوں میں بتلا دیا کہ رحمت آخرت ایمان وغیرہ کی شرائط کے ساتھ مشروط ہے اس کو سن کر ابلیس مایوس ہوگیا مگر یہود ونصارٰی نے دعوی کیا کہ ہم میں تو یہ صفات بھی موجود ہیں یعنی تقوٰی اور اداء زکوٰة اور ایمان مگر اس کے بعد جو شرط نبی امی پر ایمان لانے کی بیان ہوئی تو اس سے وہ یہود ونصارٰی نکل گئے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے۔ غرض اس اسلوب بدیع میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قبولیت دعا کا بیان بھی ہوگیا اور امت محمدیہ کے مخصوص فضائل کا ذکر بھی۔
وَاكْتُبْ لَنَا فِيْ ہٰذِہِ الدُّنْيَا حَسَـنَۃً وَّفِي الْاٰخِرَۃِ اِنَّا ہُدْنَآ اِلَيْكَ ٠ ۭ قَالَ عَذَابِيْٓ اُصِيْبُ بِہٖ مَنْ اَشَاۗءُ ٠ ۚ وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ٠ ۭ فَسَاَكْتُبُہَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَالَّذِيْنَ ہُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ ١٥٦ ۚ- كتب ( لکھنا)- الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ- [ البقرة 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] .- ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] - دنا - ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی - حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- ( صاب) مُصِيبَةُ- والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. - مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - زكا - أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة .- يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] ،- إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] - ( زک و ) الزکاۃ - : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔
(١٥٦) اللہ تعالیٰ نے فرمایا میری رحمت نیک وبد سب کے لیے عام ہے، اس پر شیطان کو غرور ہوا کہ میں بھی اس میں شامل ہوں، اللہ تعالیٰ نے اس کو اس رحمت سے خارج کردیا، اور فرمادیا کہ جو لوگ کفر وشرک اور فواحش سے بچتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور ہماری کتاب اور ہمارے رسول پر ایمان لاتے ہیں، میں ان لوگوں کا نام ضرور لکھ لوں گا۔
آیت ١٥٦ (وَاکْتُبْ لَنَا فِیْ ہٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ ) - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لیے جو دعا کی ‘ یہ وہی الفاظ ہیں جو سورة البقرۃ میں مسلمانوں کو سکھائے گئے ہیں : (رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَاحَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَاب النَّارِ ) (اِنَّا ہُدْنَآ اِلَیْکَ ط) ۔ - یعنی ہم سے جو خطا ہوگئی ہے اس کا اعتراف کرتے ہوئے ہم معافی چاہتے ہیں۔ - (قَالَ عَذَابِیْٓ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآءُج وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ ط) ٰ (علیہ السلام) ٰ ( علیہ السلام) یعنی میری ایک رحمت تو وہ ہے جو ہر شے کے شامل حال ہے ‘ ہر شے پر محیط ہے۔ ہر شے کا وجود اور بقا میری رحمت ہی سے ممکن ہے۔ یہ پوری کائنات اور اس کا تسلسل میری رحمت ہی کا مرہون منت ہے۔ میری اس رحمت عامہ سے میری تمام مخلوقات حصہ پا رہی ہیں ‘ لیکن جہاں تک میری رحمت خاصہ کا تعلق ہے جس کے لیے تم لوگ ابھی سوال کر رہے ہو :
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :111 یعنی اللہ تعالیٰ جس طریقے پر خدائی کر رہا ہے اس میں اصل چیز غضب نہیں ہے جس میں کبھی کبھی رحم اور فضل کی شان نمودار ہو جاتی ہو ، بلکہ اصل چیز رحم ہے جس پر سارا نظام عالم قائم ہے اور اس میں غضب صرف اس وقت نمودار ہوتا ہے جب بندوں کا تمردُّحد سے فزوں ہوجاتا ہے ۔
73: مطلب یہ ہے کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھی ہوئی ہے، دنیا کا عذاب میں ہر نافرمان کو نہیں دیتا ؛ بلکہ اپنی حکمت اور علم سے جس کو چاہتا ہوں اسے دیتا ہوں، آخرت میں بھی ہر گناہ پر میرا عذاب دینا ضروری نہیں ؛ بلکہ جو لوگ ایمان لے آتے ہیں ان کے بہت سے گناہ میں معاف کرتا رہتا ہوں ؛ البتہ جن لوگوں کی سرکشی کفر وشرک کی صورت میں حد سے بڑھ جاتی ہے ان کو اپنی مشیت اور حکمت کے تحت عذاب دیتا ہوں، اسکے برخلاف دنیا میں میری رحمت ہر مومن اور کافر، نیک اور بد سب پر چھائی ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں انہیں رزق اور صحت وعافیت کی نعمتیں ملتی رہتی ہیں اور آخرت میں بھی کفر وشرک کے علاوہ دوسرے گناہوں کو اسی رحمت سے معاف کیا جائے گا۔ 74: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی امت کے لئے جو دعا مانگی تھی کہ دنیا اور آخرت دونوں میں ان کو بھلائی نصیب ہو، یہ اس کا جواب ہے اور مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو میری رحمت سے سب کو رزق وغیرہ مل رہا ہے، لیکن جن لوگوں کو دنیا اور آخرت دونوں میں میری رحمت حاصل ہوگی وہ صرف وہ لوگ ہیں جو ایمان اور تقوی کی صفات کے حامل ہوں اور جنہیں مال کی محبت زکوٰۃ جیسے فریضے کی ادائیگی سے نہ روکے، چنانچہ اے موسیٰ (علیہ السلام) آپ کی امت کے جو لوگ ان صفات کے حامل ہوں گے ان کو ضرور میری یہ رحمت پہنچے گی کہ دنیا اور آخرت دونوں میں انہیں بھلائی نصیب ہوگی۔