موسیٰ علیہ السلام کی کوہ طور سے واپسی ٭٭ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حسب فرمان الٰہی اپنی قوم سے ستر شخصوں کو منتخب کیا اور جناب باری سے دعائیں مانگنا شروع کیں ۔ لیکن یہ لوگ اپنی دعا میں حد سے تجاوز کر گئے کہنے لگے اللہ تو ہمیں وہ دے جو نہ ہم سے پہلے کسی کو دیا ہو نہ ہمارے بعد کسی کو دے ۔ یہ دعا اللہ تعالیٰ کو ناپسند آئی اور ان پر بھونچال آ گیا ۔ جس سے گھبرا کر حضرت موسیٰ اللہ سے دعائیں کرنے لگے ۔ سدی کہتے ہیں انہیں لے کر آپ اللہ تعالیٰ سے بنی اسرائیل کی گو سالہ پرستی کی معذرت کرنے کیلئے گئے تھے ۔ یہاں جب وہ پہنچے تو کہنے لگے ہم تو جب تک خود اللہ تعالیٰ کو کھلم کھلا اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ایمان نہ لائیں گے ۔ ہم کلام سن رہے ہیں لیکن دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اس پر کڑاکے کی آواز ہوئی اور یہ سب مر کھپ گئے حضرت موسیٰ نے رونا شروع کیا کہ اللہ میں بنی اسرائیل کو کیا منہ دکھاؤں گا ؟ ان کے یہ بہترین لوگ تھے اگر یہی منشا تھی تو اس سے پہلے ہی ہمیں ہلاک کر دیا ہوتا ۔ امام محمد بن اسحاق کا قول ہے کہ انہیں اس بت پرستی سے توبہ کرنے کیلئے بطور وفد کے آپ لے چلے تھے ۔ ان سے فرما دیا تھا کہ پاک صاف ہو جاؤ پاک کپڑے پہن لو اور روزے سے چلو یہ اللہ کے بتائے ہوئے وقت پر طور سینا پہنچے ۔ مناجات میں مشعول ہوئے تو انہوں نے خواہش کی کہ اللہ سے دعا کیجئے کہ ہم بھی اللہ کا کلام سنیں آپ نے دعا کی جب حسب عادت بادل آیا اور موسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ گئے اور بادل میں چھپ گئے قوم سے فرمایا تم بھی قریب آ جاؤ یہ بھی اندر چلے گئے اور حسب معمول حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشانی پر ایک نور چمکنے لگا جو اللہ کے کلام کے وقت برابر چمکتا رہتا تھا اس وقت کوئی انسان آپ کے چہرے پر نگاہ نہیں ڈال سکتا تھا آپ نے حجاب کر لیا لوگ سب سجدے میں گر پڑے اور اللہ کا کلام شروع ہوا جو یہ لوگ بھی سن رہے تھے کہ فرمان ہو رہا ہے یہ کر یہ نہ کر وغیرہ ۔ جب باتیں ہو چکیں اور ابر اٹھ گیا تو ان لوگوں نے کہا ہم تو جب تک اللہ کو خود خوب ظاہر نہ دیکھ لیں ایمان نہیں لائیں گے تو ان پر کڑاکا نازل ہوا اور سب کے سب ایک ساتھ مر گئے موسیٰ علیہ السلام بہت گھبرائے اور مناجات شروع کر دی اس میں یہاں تک کہا کہ اگر ہلاک ہی کرنا تھا تو اس سے پہلے ہلاک کیا ہوتا ۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام کو اور شبر اور شبیر کو لے کر پہار کی گھاٹی میں گئے ۔ ہارون ایک بلند جگہ کھڑے تھے کہ ان کی روح قبض کر لی گئی جب آپ واپس بنی اسرائیل کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا کہ چونکہ آپ کے بھائی بڑے ملنسار اور نرم آدمی تھے آپ نے ہی انہیں الگ لے جا کر قتل کر دیا اس پر آپ نے فرمایا اجھا تم اپنے میں سے ستر آدمی چھانٹ کر میرے ساتھ کر دو انہوں نے کر دیئے جنہیں لے کر آپ گئے اور حضرت ہارون کی لاش سے پوچھا کہ آپ کو کس نے قتل کیا ؟ اللہ کی قدرت سے وہ بولے کسی نے نہیں بلکہ میں اپنی موت مرا ہوں انہوں نے کہا بس موسیٰ اب سے آپ کی نافرمانی ہرگز نہ کی جائے گی اسی وقت زلزلہ آیا جس سے وہ سب مر گئے اب تو حضرت موسیٰ بہت گھبرائے دائیں بائیں گھومنے لگے اور وہ عرض کرنے لگے جو قرآن میں مذکور ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی التجا قبول کر لی ان سب کو زندہ کر دیا اور بعد میں وہ سب انبیاء بنے لیکن یہ اثر بہت ہی غریب ہے اس کا ایک راوی عمارہ بن عبد غیر معروف ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ ان پر اس زلزلے کے آنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ بچھڑے کی پرستش کے وقت خاموش تھے ان پجاریوں کو روکتے نہ تھے اس قول کی دلیل میں حضرت موسیٰ کا یہ فرمان بالکل ٹھیک اترتا ہے کہ اے اللہ ہم میں سے چند بیوقوفوں کے فعل کی وجہ سے تو ہمیں ہلاک کر رہا ہے؟ پھر فرماتے ہیں یہ تو تیری طرف کی آزمائش ہی ہے تیرا ہی حکم چلتا ہے اور تیری ہی چاہت کامیاب ہے ۔ ہدایت و ضلالت تیرے ہی ساتھ ہے جس کو تو ہدایت دے اسے کوئی بہکا نہیں سکتا اور جسے تو بہکائے اس کی کوئی رہبری نہیں کر سکتا ۔ تو جس سے روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور جسے دے دے اس سے کوئی چھین نہیں سکتا ۔ ملک کا مالک تو اکیلا ، حکم کا حاکم صرف تو ہی ہے ۔ خلق و امر تیرا ہی ہے تو ہمارا ولی ہے ، ہمیں بخش ، ہم پر رحم فرما ، تو سب سے اچھا معاف فرمانے والا ہے ۔ غفر کے معنی ہیں چھپا دینا اور پکڑ نہ کرنا جب رحمت بھی اس کے ساتھ مل جائے تو یہ مطلب ہوتا ہے کہ آئندہ اس گناہ سے بچاؤ ہو جائے ۔ گناہوں کا بخش دینے والا صرف تو ہی ہے ۔ پس جس چیز سے ڈر تھا اس کا بچاؤ طلب کرنے کے بعد اب مقصود حاصل کرنے کیلئے دعا کی جاتی ہے کہ ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اسے ہمارے نام لکھ دے واجب و ثابت کر دے ۔ حسنہ کی تفسیر سورۃ بقرہ میں گذر چکی ہے ۔ ہم تیری طرف رجوع کرتے ہیں ، رغبت ہماری تیری ہی جانب ہے ، ہماری توبہ اور عاجزی تیری طرف ہے ۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ چونکہ انہوں نے ھدنا کہا تھا اس لئے انہیں یہودی کہا گیا ہے لیکن اس روایت کی سند میں جابر بن یزید جعفی ہیں جو ضعیف ہیں ۔
155۔ 1 ان ستر آدمیوں کی تفصیل اگلے حاشیے میں آرہی ہے۔ یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے ستر آدمی چنے اور انہیں کوہ طور پر لے گئے، جہاں بطور عذاب انہیں ہلاک کردیا گیا، جس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا۔ 155۔ 2 بنی اسرائیل کے یہ ستر آدمی کون تھے ؟ اس میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تورات کے احکام انہیں سنائے تو انہوں نے کہا کہ ہم کیسے یقین کرلیں کہ یہ کتاب واقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی نازل شدہ ہے ؟ ہم تو جب تک خود اللہ تعالیٰ کو کلام کرتے ہوئے نہ سن لیں اسے نہیں مانیں گے۔ چناچہ انہوں نے ستر برگزیدہ آدمیوں کا انتخاب کیا اور انہیں کوہ طور پر لے گئے۔ وہاں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوئے جسے ان لوگوں نے بھی سنا۔ لیکن وہاں انہوں نے ایک نیا مطالبہ کردیا کہ ہم جب تک اللہ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ لیں گے، ایمان نہیں لائیں گے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ ستر آدمی وہ ہیں جو پوری قوم کی طرف سے بچھڑے کی عبادت کے جرم عظیم کی توبہ کی اور معذرت کے لئے کوہ طور پر لے جائے گئے تھے اور وہاں جاکر انہوں نے اللہ کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ تیسری رائے یہ ہے کہ یہ ستر آدمی وہ ہیں جنہوں نے اسرائیل کو بچھڑے کی عبادت کرتے ہوئے دیکھا لیکن انہیں منع نہیں کیا۔ ایک چوتھی رائے یہ ہے کہ یہ ستر آدمی وہ ہیں جنہیں اللہ کے حکم سے کوہ طور پر لے جانے کے لئے چنا گیا تھا، وہاں جاکر انہوں نے اللہ سے دعائیں کیں۔ جن میں ایک دعا یہ بھی تھی کہ یا اللہ ہمیں تو وہ کچھ عطا فرما، جو اس سے قبل تو نے کسی کو عطا نہ کیا اور نہ آئندہ کسی کو عطا کرنا اللہ تعالیٰ کو یہ دعا پسند نہ آئی، جس پر وہ زلزلے کے ذریعے سے ہلاک کردیئے گئے۔ زیادہ مفسرین دوسری رائے کے قائل ہیں اور انہوں نے وہی واقعہ قرار دیا جس کا ذکر سورة بقرہ آیت 56 میں آیا ہے۔ جہاں ان پر صاعقہ (بجلی کی کڑک) سے موت وارد ہونے کا ذکر ہے۔ اور یہاں رجفہ (زلزلے) سے موت کا ذکر ہے۔ اس کی توجیہ میں کہا گیا ہے کہ ممکن ہے دونوں ہی عذاب آوے ہوں اوپر سے بجلی کی کڑک اور نیچے سے زلزلہ۔ بہرحال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس دعا والتجا کے بعد کہ اگر ان کو ہلاک ہی کرنا تھا تو اس سے قبل اس وقت ہلاک کرتا جب یہ بچھڑے کی عبادت میں مصروف تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کردیا۔
[١٥٢] ستر منتخب آدمیوں کا دیدار الہٰی کا مطالبہ اور ان کی موت :۔ جب انہیں اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنانے کے لیے یہ تختیاں دی گئیں تو ان لوگوں نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر بھی بداعتمادی کا اظہار کردیا اور کہنے لگی کہ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ یہ واقعی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کا یہ سوال اللہ کے حضور پیش کردیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اچھا ان میں سے ستر آدمی منتخب کر کے فلاں وقت کوہ طور پر لے آؤ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے ہر قبیلہ کے چھ چھ آدمی منتخب کیے تو یہ (72) بہتر ہوگئے۔ آپ نے فرمایا کہ جو دو آدمی رضاکارانہ طور پر پیچھے رہ جائیں ان کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا جانے والوں کو ملے گا۔ اس طرح دو آدمی رضاکارانہ طور پر الگ ہوگئے اور باقی ستر (٧٠) آدمی سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کوہ طور کی جانب روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچے تو ان سب لوگوں کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) سے ہم کلام ہوئے تو ان لوگوں نے یہ اعتراض جڑ دیا کہ ہمیں یہ کیسے معلوم ہو کہ تم سے (اے موسیٰ (علیہ السلام) ہم کلام ہونے والا اللہ ہے جب تک ہم اس ہم کلام ہونے والے یعنی اللہ کو واضح طور پر دیکھ نہ لیں ہم کیسے یقین کریں۔ ان کا یہ مطالبہ ناممکن الوقوع تھا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) خود بھی اللہ کی تجلی کو برداشت نہ کرسکے تھے تو یہ بےچارے کس کھیت کی مولی تھے پھر ان کی کٹ حجتیوں کی بھی انتہا ہوچکی تھی اور یہ لاتوں کے بھوت باتوں سے ماننے والے بھی نہ تھے چناچہ ان پر اللہ کا قہر نازل ہوا۔ اوپر سے صاعقہ (جیسا کہ سورة بقرہ میں مذکور ہے) اور نیچے سے زلزلہ (جیسے یہاں مذکور ہے) کا عذاب آیا اور یہ ستر کے ستر آدمی اسی جگہ پر ہلاک ہوگئے۔- سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے ان 70 ستر آدمیوں کا دوبارہ زندہ ہونا :۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) حیران و پریشان کھڑے تھے کہ کریں تو کیا کریں نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والا معاملہ بن گیا تھا۔ قوم کے پاس آتے تو اس کا پہلا سوال یہی ہوتا کہ جو آدمی آپ کے ساتھ گئے تھے وہ کہاں ہیں ؟ اور ان ہلاک شدہ لوگوں کے پاس رہنے کا بھی کچھ فائدہ نہ تھا آخر اللہ ہی سے فریاد کی کہ یا اللہ اگر انہیں بلکہ مجھے بھی ہلاک کرنا ہی تھا تو ان کی قوم کے سامنے کرتا تاکہ مجھ پر تو کوئی الزام نہ آتا۔ اب تیرے علانیہ دیدار کا مطالبہ تو چند نادانوں نے کیا تھا جس کی پاداش میں تو نے سب کو ہلاک کردیا۔ یہ سارے کا سارا واقعہ ایک آزمائش تھا جس میں کچھ لوگ گمراہ ہوئے اور باقی راہ راست پر بھی قائم رہے لہذا ہم پر رحم فرماتے ہوئے ہمیں معاف فرما دے چناچہ آپ کی دعا سے ان ہلاک شدہ لوگوں کا قصور معاف کردیا گیا اور انہیں دوبارہ زندگی بخشی گئی جیسا کہ سورة بقرہ کی آیت نمبر ٥٦ میں مذکور ہے۔
وَاخْتَارَ مُوْسٰي قَوْمَهٗ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر شدہ وقت پر اپنے ساتھ لے جانے کے لیے اپنی قوم میں سے ستر آدمیوں کا انتخاب فرمایا، ظاہر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان میں سے بہترین آدمیوں ہی کا انتخاب کیا ہوگا، مگر وہاں جا کر ان پر اللہ کا ایسا غضب ہوا کہ وہ سب زلزلے سے مرگئے۔ اس عذاب کا باعث کیا تھا ؟ مفسرین نے مختلف وجوہ بیان کی ہیں، جن میں سے سب سے راجح وہی بات ہے جو سورة بقرہ (٥٥) میں ذکر ہوئی ہے کہ انھوں نے کہا تھا : ” اے موسیٰ جب تک ہم اللہ کو کھلم کھلا دیکھ نہ لیں تیرا یقین ہرگز نہیں کریں گے۔ “ اس گستاخی پر ان پر بجلی گری جس سے وہ سب مرگئے۔ یہاں ” الرَّجْفَةُ “ (زلزلے) کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے کہ بجلی کی کڑک سے، خصوصاً جب وہ بصورت عذاب ہو، زلزلہ آنا معمول کی بات ہے۔ - قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَهْلَكْتَهُمْ مِّنْ قَبْلُ وَاِيَّايَ : یعنی اگر تو چاہتا تو ان ستر آدمیوں کو بنی اسرائیل سے نکلنے سے پہلے وہیں ہلاک کردیتا، تاکہ بنی اسرائیل ان کی ہلاکت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے اور مجھ پر الزام نہ رکھ سکتے کہ میں نے انھیں ہلاک کردیا ہے اور تو چاہتا تو میری قوم کی گستاخی کی پاداش میں مجھے بھی ہلاک کردیتا، تو نے جب اس وقت ہم پر رحم کرتے ہوئے ایسا نہیں کیا تو اب بھی ہمیں بخش دے، ہم پر رحم فرما اور انھیں ہلاک نہ کر۔ - ۭاَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاۗءُ مِنَّا ۚ: بیوقوفوں کے فعل سے مراد بچھڑے کی عبادت بھی ہوسکتی ہے، مگر زیادہ واضح بےوقوفی موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ کو صاف دکھانے کا مطالبہ اور شرط ہے کہ ہم اس کے بغیر تیری بات کا یقین ہی نہیں کریں گے۔- بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاۗءُ مِنَّا ۚ: معلوم ہوا کہ نہ بچھڑے کی عبادت تمام بنی اسرائیل نے کی تھی اور نہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا مطالبہ ستر کے ستر نے کیا تھا۔ یہ ان کے جاہل اور بیوقوف لوگوں کا فعل تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ پروردگار کیا تو ہم میں سے بیوقوف لوگوں کے فعل کی وجہ سے سب کو ہلاک کر دے گا۔ - اِنْ هِىَ اِلَّا فِتْنَتُكَ ۭ: یعنی جنھوں نے بچھڑے کی پوجا کی یا تجھے آنکھوں سے دیکھنے کا مطالبہ کیا، حقیقت میں یہ سب کام تیری طرف سے ایک آزمائش تھے، تو جس طرح چاہتا ہے امتحان لیتا ہے، پھر اس کے ذریعے سے جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے۔ (ابن کثیر) اس دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں دوبارہ زندہ کردیا۔ دیکھیے سورة بقرہ (٥٦) ۔
ستر بنی اسرائیل کا انتخاب اور ان کی ہلاکت کا واقعہ :- چوتھی آیت میں ایک خاص واقعہ کا ذکر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے جب اللہ تعالیٰ کی کتاب تورات لاکر بنی اسرائیل کو دی تو اپنی کجروی اور حیلہ جوئی کی وجہ سے کہنے لگے کہ ہمیں یہ کیسے یقین آئے کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہے، ممکن ہے آپ اپنی طرف سے لکھ لائے ہوں، ان کو اطمینان دلانے کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی تو حق تعالیٰ کی طرف سے یہ ارشاد ہوا کہ اس قوم کے منتخب آدمیوں کو آپ کوہ طور پر لے آئیں تو ہم ان کو بھی خود اپنا کلام سنا دیں گے جس سے ان کو یقین آجائے، موسیٰ (علیہ السلام) نے ان میں سے ستر آدمیوں کا انتخاب کیا اور کوہ طور پر لے گئے، حسب وعدہ انہوں نے اپنے کانوں اللہ تعالیٰ کا کلام سن لیا، مگر جب یہ حجت بھی پوری ہوگئی تو کہنے لگے ہمیں کیا معلوم یہ آواز اللہ تعالیٰ ہی کی ہے یا کسی اور کی، ہم تو جب یقین کریں جب کھلم کھلا اللہ تعالیٰ کو دیکھ لیں، ان کا یہ سوال چونکہ ہٹ دھرمی اور جہالت پر مبنی تھا، اس پر غضب الہی متوجہ ہوا، ان کے نیچے سے زلزلہ آیا اور اوپر سے بجلی کی کڑک آئی جس سے یہ بیہوش ہو کر گر گئے اور بظاہر مردہ ہوگئے، سورة بقرہ میں اس جگہ صاعقہ کا لفظ آیا ہے اور یہاں رجفہ کا، صاعقہ کے معنی بجلی کی کڑک اور رجفہ کے معنی زلزلہ کے ہیں، اس میں کوئی بعد نہیں کہ دونوں چیزیں جمع ہوگئی ہوں۔- بہرحال یہ لوگ ایسے ہو کر گرگئے جیسے مردے ہوتے ہیں خواہ حقیقة مر ہی گئے ہوں یا ظاہر میں مردہ نظر آتے ہوں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس واقعہ سے سخت صدمہ پہنچا، اول تو اس لئے کہ یہ لوگ اپنی قوم کے منختب لوگ تھے، دوسرے اس لئے کہ اب اپنی قوم میں جاکر کیا جواب دیں گے وہ یہ تہمت لگائیں گے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سب کو کہیں لے جاکر قتل کرادیا ہے اور اس تہمت کے بعد یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ لوگ مجھے قتل کر ڈالیں گے اس لئے اللہ جل شانہ سے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میں جانتا ہوں کہ اس واقعہ سے آپ کا مقصود ان کو ہلاک کرنا نہیں کیونکہ اگر یہ مقصود ہوتا تو اب سے پہلے بہت سے واقعات تھے جن میں یہ ہلاک کئے جاسکتے تھے، فرعون کے ساتھ غرق کردیئے جاتے یا گوسالہ پرستی کے وقت سب کے سامنے ہلاک کردیئے جاتے اور آپ چاہتے تو مجھے بھی ان کے ساتھ ہلاک کردیتے مگر آپ نے یہ نہیں چاہا تو معلوم ہوا کہ اس وقت بھی ان کا ہلاک کرنا مقصود نہیں بلکہ سزا دینا اور تنبیہ کرنا مقصود ہے اور کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ ہم سب کو چند بیوقوفوں کے عمل کی وجہ سے ہلاک کردیں۔ - اس جگہ اپنے آپ کو ہلاک کرنا اس لئے ذکر کیا کہ ان ستر آدمیوں کی اس طرح غائبانہ ہلاکت کا نتیجہ یہی تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے ہاتھوں ہلاک کئے جائیں۔- پھر عرض کیا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ محض آپ کا امتحان ہے جس کے ذریعہ آپ بعض لوگوں کو گمراہ کردیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی شکایت و ناشکری کرنے لگیں، اور بعض کو ہدایت پر قائم رکھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں اور مصلحتوں کو سمجھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں میں بھی آپ کے فضل سے آپ کے حکیم ہونے کا علم رکھتا ہوں لہذا اس امتحان میں مطمئن ہوں اور آپ ہی تو ہمارے خبرگیراں ہیں، ہم پر مغفرت اور رحمت فرمائیے اور آپ سب معافی دینے والوں سے زیادہ معافی دینے والے ہیں اس لئے ان کی اس گستاخی کو بھی معاف کر دیجئے۔ چناچہ وہ سب لوگ صحیح سالم اٹھ کھڑے ہوئے اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ ستر آدمی جن کا ذکر اس آیت میں ہے وہ نہیں جنہوں نے ارنا اللہ جھرة کی درخواست کی تھی اور اس پر صاعقہ کے ذریعہ ہلاک کئے گئے تھے بلکہ یہ وہ لوگ تھے جو خود تو گوسالہ پرستی میں شریک نہ تھے مگر قوم کو اس حرکت سے روکنے کی کوئی کوشش بھی نہ کی تھی اس کی سزا میں ان پر زلزلہ آیا اور بیہوش ہوگئے، واللہ اعلم۔ - بہر حال یہ لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے زندہ ہو کر کھڑے ہوگئے۔
وَاخْتَارَ مُوْسٰي قَوْمَہٗ سَبْعِيْنَ رَجُلًا لِّمِيْقَاتِنَا ٠ ۚ فَلَمَّآ اَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَہْلَكْتَہُمْ مِّنْ قَبْلُ وَاِيَّايَ ٠ ۭ اَتُہْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَہَاۗءُ مِنَّا ٠ ۚ اِنْ ہِىَ اِلَّا فِتْنَتُكَ ٠ ۭ تُضِلُّ بِہَا مَنْ تَشَاۗءُ وَتَہْدِيْ مَنْ تَشَاۗءُ ٠ ۭ اَنْتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الْغٰفِرِيْنَ ١٥٥- اختیارُ :- طلب ما هو خير وفعله، وقد يقال لما يراه الإنسان خيرا، وإن لم يكن خيرا، وقوله : وَلَقَدِ اخْتَرْناهُمْ عَلى عِلْمٍ عَلَى الْعالَمِينَ [ الدخان 32] ، يصحّ أن يكون إشارة إلى إيجاده تعالیٰ إياهم خيرا، وأن يكون إشارة إلى تقدیمهم علی غيرهم . والمختار في عرف المتکلّمين يقال لكلّ فعل يفعله الإنسان لا علی سبیل الإكراه، فقولهم : هو مختار في كذا، فلیس يريدون به ما يراد بقولهم فلان له اختیار، فإنّ الاختیار أخذ ما يراه خيرا، والمختار قد يقال للفاعل والمفعول .- الاختیار - ( افتعال ) بہتر چیز کو طلب کرکے اسے کر گزرنا ۔ اور کبھی اختیار کا لفظ کسی چیز کو بہتر سمجھنے پر بھی بولا جاتا ہے گو نفس الامر میں وہ چیز بہتر نہ ہو اور آیت کریمہ :۔ وَلَقَدِ اخْتَرْناهُمْ عَلى عِلْمٍ عَلَى الْعالَمِينَ [ الدخان 32] ہم نے بنی اسرائیل کو اہل عالم سے دانستہ منتخب کیا تھا ۔ میں ان کے بلحاظ خلقت کے بہتر ہونے کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں دوسروں پر فوقیت بخشتا مراد ہو ۔ متکلمین کی اصطلاح میں مختار ( لفظ ہر اس فعل کے متعلق بولا جاتا ہے جس کے کرنے میں انسان پر کسی قسم کا جبروا کراہ نہ ہو لہذا ھو مختار فی کذا کا محاورہ فلان لہ اختیار کے ہم معنی نہیں ہے کیونکہ اختیار کے معنی اس کام کے کرنے کے ہوتے ہیں جسے انسان بہتر خیال کرتا ہو ۔ مگر مختار کا لفظ فاعل اور مفعول دونوں پر بولا جاتا ہے ۔- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - وقت - الوَقْتُ : نهاية الزمان المفروض للعمل، ولهذا لا يكاد يقال إلّا مقدّرا نحو قولهم : وَقَّتُّ كذا : جعلت له وَقْتاً. قال تعالی: إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] . وقوله : وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ [ المرسلات 11] . والمِيقَاتُ : الوقتُ المضروبُ للشیء، والوعد الذي جعل له وَقْتٌ. قال عزّ وجلّ : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ [ الدخان 40] ، إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كانَ مِيقاتاً [ النبأ 17] ، إِلى مِيقاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الواقعة 50] ،- ( و ق ت ) الوقت - ۔ کسی کام کے لئے مقرر زمانہ کی آخری حد کو کہتے ہیں ۔ اس لئے یہ لفظ معنین عرصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ۔ وقت کذا میں نے اس کے لئے اتنا عرصہ مقرر کیا ۔ اور ہر وہ چیز جس کے لئے عرصہ نتعین کردیا جائے موقوت کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز کا مومنوں پر اوقات ( مقرر ہ ) میں ادا کرنا فرض ہے ۔ ۔ وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ [ المرسلات 11] اور جب پیغمبر اکٹھے کئے جائیں ۔ المیفات ۔ کسی شے کے مقررہ وقت یا اس وعدہ کے ہیں جس کے لئے کوئی وقت متعین کیا گیا ہو قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ [ الدخان 40] بیشک فیصلے کا دن مقرر ہے ۔ إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كانَ مِيقاتاً [ النبأ 17] کچھ شک نہیں کہ فیصلے کا دن اٹھنے کا وقت ہے ۔ إِلى مِيقاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الواقعة 50] سب ایک روز مقرر کے وقت پر جمع کئے جائیں گے ۔ اور کبھی میقات کا لفظ کسی کام کے لئے مقرر کردہ مقام پر بھی بالا جاتا ہے ۔ جیسے مواقیت الحج یعنی مواضع ( جو احرام باندھنے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں ۔- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- رجف - الرَّجْفُ : الاضطراب الشدید، يقال : رَجَفَتِ الأرض ورَجَفَ البحر، وبحر رَجَّافٌ. قال تعالی: يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ [ النازعات 6] ، يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ [ المزمل 14] ، فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ [ الأعراف 78] ، والإِرْجَافُ : إيقاع الرّجفة، إمّا بالفعل، وإمّا بالقول، قال تعالی: وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ ويقال : الْأَرَاجِيفُ ملاقیح الفتن .- ( ر ج ف ) الرجف ( ن ) اضطراب شدید کو کہتے ہیں اور رَجَفَتِ الأرض ورَجَفَ البحر کے معنی زمین یا سمندر میں زلزلہ آنا کے ہیں ۔ بحر رَجَّافٌ : متلاطم سمندر ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ [ المزمل 14] جب کہ زمین اور پہاڑ ہلنے لگیں گے ۔ يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ [ النازعات 6] جب کہ زمین لرز جائے گی فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ [ الأعراف 78] پس ان کو زلزلہ نے پالیا ۔ الارجاف ( افعال ) کوئی جھوٹی افواہ پھیلا کر یا کسی کام کے ذریعہ اضطراب پھیلانا کے ہیں قران میں ہے : ۔ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَة اور جو لوگ مدینے میں جھوٹی افواہیں پھیلاتے ہیں ۔ مثل مشہور ہے الْأَرَاجِيفُ ملاقیح الفتن . کہ جھوٹی افوا ہیں فتنوں کی جڑ ہیں ۔- هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- سفه - السَّفَهُ : خفّة في البدن، ومنه قيل : زمام سَفِيهٌ: كثير الاضطراب، وثوب سَفِيهٌ: ردیء النّسج، واستعمل في خفّة النّفس لنقصان العقل، وفي الأمور الدّنيويّة، والأخرويّة، فقیل : سَفِهَ نَفْسَهُ [ البقرة 130] ، وأصله سَفِهَتْ نفسه، فصرف عنه الفعل نحو : بَطِرَتْ مَعِيشَتَها [ القصص 58] ، قال في السَّفَهِ الدّنيويّ : وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء 5] ، وقال في الأخرويّ : وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن 4] ، فهذا من السّفه في الدّين، وقال : أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة 13] ، فنبّه أنهم هم السّفهاء في تسمية المؤمنین سفهاء، وعلی ذلک قوله : سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة 142] - ( س ف ہ ) السفۃ اس کے اصل معنی جسمانی ہلکا پن کے ہیں اسی سے بہت زیادہ مضطرب رہنے والی مہار کو زمام سفیہ کہا جاتا ہے اور ثوب سفیہ کے معنی ردی کپڑے کے ہیں ۔ پھر اسی سے یہ لفظ نقصان عقل کے سبب خفت نفس کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے سفہ نفسہ جو اصل میں سفہ نفسہ ہے پھر اس سے فعل کے نسبت قطع کر کے بطور تمیز کے اسے منصوب کردیا ہے جیسے بطرت معشیتہ کہ یہ اصل میں بطرت معیشتہ ہے ۔ اور سفہ کا استعمال امور دنیوی اور اخروی دونوں کے متعلق ہوتا ہے چناچہ امور دنیوی میں سفاہت کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء 5] اور بےعقلوں کو ان کا مال ۔۔۔۔۔۔ مت دو ۔ اور سفاہت اخروی کے متعلق فرمایا : ۔ وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن 4] اور یہ کہ ہم میں سے بعض بیوقوف خدا کے بارے میں جھوٹ افتراء کرتے ہیں ۔ یہاں سفاہت دینی مراد ہے جس کا تعلق آخرت سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة 13] تو کہتے ہیں بھلا جس طرح بیوقوف ایمان لے آئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں : ۔ میں ان سفیہ کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ ان کا مؤمنین کو سفھآء کہنا بنا بر حماقت ہے اور خود ان کی نادانی کی دلیل ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة 142] احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلہ پر ( پہلے چلے آتے تھے ) اب اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے ۔- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - ( ضل)إِضْلَالُ- والإِضْلَالُ ضربان : أحدهما : أن يكون سببه الضَّلَالُ ، وذلک علی وجهين : إمّا بأن يَضِلَّ عنک الشیءُ کقولک : أَضْلَلْتُ البعیرَ ، أي : ضَلَّ عنّي، وإمّا أن تحکم بِضَلَالِهِ ، والضَّلَالُ في هذين سبب الإِضْلَالِ.- والضّرب الثاني :- أن يكون الإِضْلَالُ سببا لِلضَّلَالِ ، وهو أن يزيّن للإنسان الباطل ليضلّ کقوله : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء 113] ، أي يتحرّون أفعالا يقصدون بها أن تَضِلَّ ، فلا يحصل من فعلهم ذلك إلّا ما فيه ضَلَالُ أنفسِهِم، وقال عن الشیطان : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء 119] ، وقال في الشّيطان : وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس 62] ، وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 60] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص 26] ،- وإِضْلَالُ اللهِ تعالیٰ للإنسان علی أحد وجهين :- أحدهما - أن يكون سببُهُ الضَّلَالَ ، وهو أن يَضِلَّ الإنسانُ فيحكم اللہ عليه بذلک في الدّنيا، ويعدل به عن طریق الجنّة إلى النار في الآخرة، وذلک إِضْلَالٌ هو حقٌّ وعدلٌ ، فالحکم علی الضَّالِّ بضَلَالِهِ والعدول به عن طریق الجنّة إلى النار عدل وحقّ.- والثاني من إِضْلَالِ اللهِ :- هو أنّ اللہ تعالیٰ وضع جبلّة الإنسان علی هيئة إذا راعی طریقا، محمودا کان أو مذموما، ألفه واستطابه ولزمه، وتعذّر صرفه وانصرافه عنه، ويصير ذلک کالطّبع الذي يأبى علی الناقل، ولذلک قيل : العادة طبع ثان «2» . وهذه القوّة في الإنسان فعل إلهيّ ، وإذا کان کذلک۔ وقد ذکر في غير هذا الموضع أنّ كلّ شيء يكون سببا في وقوع فعل۔ صحّ نسبة ذلک الفعل إليه، فصحّ أن ينسب ضلال العبد إلى اللہ من هذا الوجه، فيقال : أَضَلَّهُ اللهُ لا علی الوجه الذي يتصوّره الجهلة، ولما قلناه جعل الإِضْلَالَ المنسوب إلى نفسه للکافر والفاسق دون المؤمن، بل نفی عن نفسه إِضْلَالَ المؤمنِ فقال : وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ- [ التوبة 115] ، فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد 4- 5] ، وقال في الکافروالفاسق : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد 8] ، وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة 26] ، كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر 74] ، وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم 27] ، وعلی هذا النّحو تقلیب الأفئدة في قوله : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام 110] ، والختم علی القلب في قوله : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] ، وزیادة المرض في قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] .- الاضلال ( یعنی دوسرے کو گمراہ کرنے ) کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا سبب خود اپنی ضلالت ہو یہ دو قسم پر ہے ۔ (1) ایک یہ کہ کوئی چیز ضائع ہوجائے مثلا کہاجاتا ہے اضللت البعیر ۔ میرا اونٹ کھو گیا ۔ (2) دوم کہ دوسرے پر ضلالت کا حکم لگانا ان دونوں صورتوں میں اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کی پہلی کے برعکس ہے یعنی اضلال بذاتہ ضلالۃ کا سبب بنے اسی طرح پر کہ کسی انسان کو گمراہ کرنے کے لئے باطل اس کے سامنے پر فریب اور جاذب انداز میں پیش کیا جائے جیسے فرمایا : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء 113] ، ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کرچکی تھی اور یہ اپنے سوا کسی کو بہکا نہیں سکتے۔ یعنی وہ اپنے اعمال سے تجھے گمراہ کرنے کی کوشش میں ہیں مگر وہ اپنے اس کردار سے خود ہی گمراہ ہو رہے ہیں ۔ اور شیطان کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء 119] اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا ۔ اور شیطان کے بارے میں فرمایا : ۔ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس 62] اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا ۔ وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 60] اور شیطان تو چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے ۔ وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں خدا کے رستے سے بھٹکادے گی ۔ اللہ تعالیٰ کے انسان کو گمراہ کرنے کی دو صورتیں ہی ہوسکتی ہیں ( 1 ) ایک یہ کہ اس کا سبب انسان کی خود اپنی ضلالت ہو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف اضلال کی نسبت کے یہ معنی ہوں گے کہ جب انسان از خود گمرہ ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں اس پر گمراہی کا حکم ثبت ہوجاتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخرت کے دن اسے جنت کے راستہ سے ہٹا کر دوزخ کے راستہ پر ڈال دیا جائے گا ۔ ( 2 ) اور اللہ تعالٰ کی طرف اضلال کی نسببت کے دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے انسان کی جبلت ہی کچھ اس قسم کی بنائی ہے کہ جب انسان کسی اچھے یا برے راستہ کو اختیار کرلیتا ہے تو اس سے مانوس ہوجاتا ہے اور اسے اچھا سمجھنے لگتا ہے اور آخر کا اس پر اتنی مضبوطی سے جم جاتا ہے کہ اس راہ سے ہٹا نایا اس کا خود اسے چھوڑ دینا دشوار ہوجاتا ہے اور وہ اعمال اس کی طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں اسی اعتبار سے کہا گیا ہے کہ عادت طبعہ ثانیہ ہے ۔ پھر جب انسان کی اس قسم کی فطرت اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے اور دوسرے مقام پر ہم بیان کرچکے ہیں کہ فعل کی نسبت اس کے سبب کی طرف بھی ہوسکتی ہے لہذا اضلال کی نسبت اللہ تعالیٰ کیطرف بھی ہوسکتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گمراہکر دیا ور نہ باری تعالیٰ کے گمراہ کر نیکے وہ معنی نہیں ہیں جو عوام جہلاء سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اللہ تعالیٰ کی طرف گمراہ کرنے کینسبت اسی جگہ کی ہے جہاں کافر اور فاسق لوگ مراد ہیں نہ کہ مومن بلکہ حق تعالیٰ نے مومنین کو گمراہ کرنے کی اپنی ذات سے نفی فرمائی ہے چناچہ ارشاد ہے ۔ وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة 115] اور خدا ایسا نہیں ہے کہ کسی قومکو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کردے ۔ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد 4- 5] ان کے عملوں کر ہر گز ضائع نہ کریگا بلکہ ان کو سیدھے رستے پر چلائے گا ۔ اور کافر اور فاسق لوگوں کے متعلق فرمایا : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد 8] ان کے لئے ہلاکت ہے اور وہ ان کے اعمال کو برباد کردیگا : وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة 26] اور گمراہ بھی کرتا ہے تو نافرمانوں ہی کو ۔ كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر 74] اسی طرح خدا کافررں کو گمراہ کرتا ہے ۔ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم 27] اور خدا بےانصافوں کو گمراہ کردیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام 110] اور ہم ان کے دلوں کو الٹ دیں گے ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے انکے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ان کے دلوں میں ( کفر کا ) مرض تھا خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ میں دلوں کے پھیر دینے اور ان پر مہر لگا دینے اور ان کی مرض میں اضافہ کردینے سے بھی یہی معنی مراد ہیں ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
(١٥٥) اپنی قوم میں سے ہمارے وقت مقرر کے لیے انتخاب کیا گیا کہ جب ان کو زلزلہ کی ہلاکت وغیرہ نے آگھیرا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے پروردگار اس دن سے پہلے ان کو اور مجھے بھی قبطی کے قتل کرنے کی بنا پر ہلاک کردیتا، بھلا آپ چند بیوقوفوں کی بچھڑے کی پوجا سے ان کو ہلاک کیا جارہا ہے۔- یہ تو صرف ایک امتحان ہے، آپ ہی تو ہمارے خبر گیر ہیں، ہماری ان باتوں پر گرفت نہ کیجیے، آپ معاف کرنے والے ہیں، ہمارے لیے علم و عبادت اور گناہوں سے حفاظت اور جنت اور اس کی نعمتیں مقرر کردیجیے، ہم آپ سے توبہ کے لیے درخواست گزار ہیں۔
آیت ١٥٥ (وَاخْتَارَ مُوْسٰی قَوْمَہٗ سَبْعِیْنَ رَجُلاً لِّمِیْقَاتِنَا ج) - وہ لوگ جو آخری وقت تک اس مشرکانہ فعل پر قائم رہے انہیں قتل کردیا گیا۔ اب اس تطہیر ( ) کے بعد اجتماعی توبہ کا مرحلہ تھا ‘ جس کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حکم کے مطابق اپنی قوم کے ستر (٧٠) سرکردہ افراد کو ساتھ لے کر کوہ طور پر حاضری کے لیے روانہ ہوگئے۔- (فَلَمَّآ اَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ ) - کوہ طور پر یا اس کے مضافات میں ان لوگوں کے لیے جسمانی کپکپی یا زمینی زلزلے جیسی خوفناک کیفیت پیدا کردی گئی۔- (قَالَ رَبِّ لَوْ شِءْتَ اَہْلَکْتَہُمْ مِّنْ قَبْلُ وَاِیَّایَ ط) (اَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَہَآءُ مِنَّا ج) - قوم کے کچھ جاہل لوگوں نے جو حرکت کی تھی انہیں اس کی سزا بھی مل گئی ہے۔ ہم نے اتنا بڑا کفارہ دے دیا ہے کہ انہیں اپنے ہاتھوں سے قتل بھی کردیا ہے۔ تو کیا ان کی وجہ سے تو پوری قوم کو ہلاک کر دے گا ؟- (اِنْ ہِیَ الاَّ فِتْنَتُکَط تُضِلُّ بِہَا مَنْ تَشَآءَ وَتَہْدِیْ مَنْ تَشَآءُ ط) مگر یہ تیری طرف سے ایک آزمائش ہے ‘ تو گمراہ کرتا ہے اس کے ذریعے سے جس کو چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :109 یہ طلبی اس غرض کے لیے ہوئی تھی کہ قوم کے ۷۰ نمائندے کوہ سینا پر پیشی خداوندی میں حاضر ہو کر قوم کی طرف سے گوسالہ پرستی کے جرم کی معافی مانگیں اور از سرِنو اطاعت کا عہد استوار کر یں ۔ بائیبل اور تلمود میں اس بات کا ذکر نہیں ہے ۔ البتہ یہ ذکر ہے کہ جو تختیاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھینک کر توڑ دی تھیں ان کے بدلے دوسری تختیاں عطاکرنے کے لیے آپ کو سینا پر بلایا گیا تھا ( خروج ۔ باب۳٤ ) ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :110 مطلب یہ ہے کہ ہر آزمائش کا موقع انسانوں کے درمیان فیصلہ کن ہوتا ہے ۔ وہ چھاج کی طرح ایک مخلوط گروہ میں سے کار آمد آدمیوں اور ناکارہ آدمیوں کو پھٹک کر الگ کر دیتا ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا عین مقتضیٰ ہے کہ ایسے مواقع وقتاً فوقتاً آتے رہیں ۔ ان مواقع پر جو کامیابی کی راہ پاتا ہے وہ اللہ ہی کی توفیق و رہنمائی سے پاتا ہے اور جو ناکام ہوتا ہے وہ اس کی توفیق و رہنمائی سے محروم ہونے کی بدولت ہی ناکام ہوتا ہے ۔ اگرچہ اللہ کی طرف سے توفیق اور رہنمائی ملنے اور نہ ملنے کے لیے بھی ایک ضابطہ ہے جو سراسر حکمت اور عدل پر مبنی ہے ، لیکن بہر حال یہ حقیقت اپنی جگہ ثابت ہے کہ آدمی کا آزمائش کے مواقع پر کامیابی کی رہ پانا یا نہ پانا اللہ کی توفیق ہو ہدایت پر منحصر ہے ۔
71: ستر آدمیوں کو کوہ طور پر لے جانے کی کیا وجہ تھی؟ اس کے بارے میں مفسرین نے مختلف رائیں ظاہر کی ہیں۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ بچھڑے کی عبادت کا جو عظیم جرم بنی اسرائیل سے سرزد ہوتا تھا، اس پر توبہ کرانے کے لئے انہیں کوہ طور پر بلایا گیا تھا۔ لیکن اگر یہ بات تھی تو ان پر زلزلہ مسلط کرنے کی کوئی معقول توجیہ واضح نہیں ہوتی، اور جو توجیہات بیان کی گئی ہیں، تکلف سے خالی نہیں ہیں۔ لہٰذا زیادہ صحیح بات وہ معلوم ہوتی ہے جو بعض روایات میں آئی ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام تورات لے کر آئے اور بنی اسرائیل کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیا تو ان میں سے بعض نے کہا کہ ہمیں اس بات کا یقین کیسے آئے کہ یہ کتاب اﷲ تعالیٰ ہی نے نازل کی ہے۔ اس پر اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ وہ قوم کے ستر نمائندے منتخب کر کے انہیں کوہ طور پر لے آئیں۔ اور بعض روایات میں ہے کہ وہاں ان کو اﷲ تعالیٰ کا کلام سنا دیا گیا۔ لیکن اب انہوں نے اپنے مطالبے کو بڑھا کر یہ کہا کہ ہمیں تو اس وقت تک یقین نہیں آئے گا جب تک ہم اﷲ تعالیٰ کو کھلی آنکھوں نہ دیکھ لیں۔ اس معاندانہ مطالبے کی وجہ سے ان پر بجلی کا کڑکا ہوا جس نے زلزلے کی کیفیت پیدا کردی، اور وہ سب بے ہوش ہوگئے۔ و اقعے کی یہ توجیہ خود قرآنِ کریم کی تصریحات سے مطابقت رکھتی ہے۔ سورۂ بقرہ (55:2و 56) اور سورۂ نسا (153:4) میں بنی اسرائیل کا یہ مطالبہ بیان فرمایا گیا ہے کہ ہمیں کھلی آنکھوں اﷲ تعالیٰ کا دیدار کراؤ اور یہ کہ ہم اس وقت تک تورات کو نہیں مانیں گے جب تک اﷲ تعالیٰ کو خود نہ دیکھ لیں۔ اور یہ بات بھی ان دونوں آیتوں میں مذکور ہے کہ ان کے اس مطالبے پر انہیں ایک کڑکے نے آ پکڑا تھا۔ غالبا اسی کڑکے کے نتیجے میں وہ زلزلہ آیا جس کا یہاں ذکر فرمایا گیا ہے، یہاں یہ واضح رہے کہ سورۃ نسا (153:4) میں کڑکے کے ذکر کے بعد جو یہ فرمایا گیا کہ ہے کہ ’’ثم اتخذوا العجل‘‘، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ کڑکا بچھڑے کے واقعے سے پہلے پیش آ چکا تھا، کیونکہ وہاں اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی متعدد بد اعمالیا بیان فرمائی ہیں، ان میں زمانی ترتیب ہونا ضروری نہیں ہے۔ اور ’’ثم‘‘ کا لفظ عربی زبان میں ’’اس سے بھی بڑھ کر‘‘ کے معنیٰ میں بھی بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ 72: جیسا کہ سورۃ بقرہ (56:2) میں گذر چکا ہے اس زلزلے کے نتیجے میں ان ستر آدمیوں پر موت جیسی حالت طاری ہوگئی تھی کم از کم دیکھنے والا یہی سمجھتا تھا کہ یہ سب مر چکے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی خدا داد بصیرت سے سمجھ گئے کہ بظاہر اﷲ تعالیٰ کو ان کا اس وقت ہلاک کرنا منظور نہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے اﷲ تعالیٰ سے عرض کیا کہ آپ کی قدرت میں تو یہ بھی تھا کہ انہیں، بلکہ مجھے بھی، پہلے ہی اس وقت ہلاک کردیتے جب ان کی متعدد نا فرمانیاں سامنے آئی تھیں۔ نیز یہ بھی آپ کی رحمت اور حکمت سے بعید ہے کہ چند بے وقوفوں کی حرکت پر ہم سب کو ہلاک کر ڈالیں۔ اور اس وقت اگر یہ ستر آدمی واقعی ہمیشہ کے لئے مر گئے تو میری اور میرے مخلص ساتھیوں کی بھی ہلاکت تقریبا یقینی ہے ۔کیونکہ میری قوم کے لوگ مجھے ان ستر آدمیوں کا قاتل قرار دے کر مجھے بھی ہلاک کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان سب باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کا مقصد اس وقت ان کو ہلاک کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ ایک امتحان ہے جس سے لوگوں کو آزمانا مقصود ہے کہ وہ دوبارہ زندگی پا کر شکر بجالاتے ہیں، یا بدستور ناشکری کر کے اﷲ تعالیٰ کا شکوہ کرنے لگتے ہیں۔