حضرت موسیٰ کو اپنی قوم پر جو غصہ تھا جب وہ جاتا رہا تو سخت غصے کی حالت میں جن تختیوں کو انہوں نے زمین پر ڈال دیا تھا اب اٹھا لیں ۔ یہ غصہ صرف اللہ کی راہ میں تھا کیونکہ آپ کی قوم نے بچھڑے کی پوجا کی تھی ۔ ان تختیوں میں ہدایت و رحمت تھی ۔ کہتے ہیں کہ جب کلیم اللہ نے تختیاں زمین پر ڈال دیں تو وہ ٹوٹ گئیں پھر انہیں جمع کیا ۔ تو ان میں رہبری اور رحم پایا اور تفصیل اٹھا لی گئی تھی ۔ کہتے ہیں کہ ان تختیوں کے ٹکڑے شاہی خزانوں میں بنی اسرائیل کے پاس دولت اسلامیہ کے ابتدائی زمانے تک محفوظ رہے واللہ اعلم ۔ اس کی صحت کا کوئی پتہ نہیں حالانکہ یہ بات مشہور ہے کہ وہ تختیاں جنتی جوہر کی تھیں اور اس آیت میں ہے کہ پھر حضرت موسیٰ نے خود ہی انہیں اٹھا لیا اور ان میں رحمت و ہدایت پائی چونکہ رجت متضمن ہے خشوع و خضوع کو اس لئے اسے لام سے متعدی کیا ۔ قتادہ کہتے ہیں ان میں آپ نے لکھا دیکھا کہ ایک امت تمام امتوں سے بہتر ہوگی جو لوگوں کے لئے قائم کی جائے گی جو بھلی باتوں کا حکم کرے گی اور برائیوں سے روکے گی تو حضرت موسیٰ نے دعا کی کہ اے اللہ میری امت کو یہی امت بنا دے جواب ملا کہ یہ امت امت احمد ہے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پھر پڑھا کہ ایک امت ہوگی جو دنیا میں سب سے آخر آئے گی اور جنت میں سب سے پہلے جائے گی تو بھی آپ نے یہی درخواست کی اور یہی جواب پایا پھر پڑھا کہ ایک امت ہوگی جن کی کتاب ان کے سینوں میں ہوگی جس کی وہ تلاوت کریں گے یعنی حفظ کریں گے اور دوسرے لوگ دیکھ کر پڑھتے ہیں ۔ اگر ان کی کتابیں اٹھ جائیں تو علم جاتا رہے کیونکہ انہیں حفظ نہیں ۔ اس طرح کا حافظہ اسی امت کیلئے مخصوص ہے کسی اور امت کو نہیں ملا ۔ اس پر بھی آپ نے یہی درخواست کی اور یہی جواب پایا ۔ پھر دیکھا کہ اس میں لکھا ہوا ہے کہ ایک امت ہوگی جو اگلی پچھلی تمام کتابوں پر ایمان لائے گی اور گمراہوں سے جہاد کرے گی یہاں تک کہ کانے دجال سے جہاد کرے گی ۔ اس پر بھی آپ نے یہی دعا کی اور یہی جواب پایا ۔ پھر ان تختیوں میں آپ نے پڑھا کہ ایک امت ہوگی جو خود بھی شفاعت کرے گی اور ان کی شفاعت دوسرے بھی کریں گے آپ نے پھر یہی دعا کی کہ اے اللہ یہ مرتبہ میری امت کو دے ۔ جواب ملا یہ امت امت احمد ہے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے اس پر آپ نے تختیاں لے لیں اور کہنے لگے اے اللہ مجھے امت احمد میں کر دے ۔
154۔ 1 یہاں نسخہ سے مراد یا تو وہ اصل الواح ہیں جن پر تورات لکھی گئی تھی یا اس سے مراد وہ دوسرا نسخہ ہے جو تختیوں کو زور سے پھنکنے کی وجہ سے ٹوٹ جانے کے بعد اس سے نقل کر کے تیار کیا گیا تھا تاہم بات پہلی ہی لگتی ہے۔ کیونکہ آگے چل کر آتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان تختیوں کو اٹھا لیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تختیاں ٹوٹی نہیں تھیں۔ بہرحال اس کا مرادی مفہوم مضامین ہے جو ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے۔ 154۔ 2 تورات کو بھی قرآن کریم کی طرح، انہیں لوگوں کے لئے ہدایت اور رحمت قرار دیا گیا ہے، جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں، کیونکہ اصل فائدہ آسمانی کتابوں سے ایسے ہی لوگوں کو ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ تو چونکہ اپنے کانوں کو حق کے سننے سے، آنکھوں کو حق کے دیکھنے سے بند کئے ہوئے ہوتے ہیں، اس چشمہ فیض سے وہ بالعموم محروم ہی رہتے ہیں۔
[١٥١] تورات کی اشاعت :۔ اپنے اور اپنے بھائی کے حق میں دعائے مغفرت و رحمت کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے گؤ سالہ پرستوں کے حق میں اپنا فیصلہ بتلا دیا۔ اتنی دیر میں سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ فرو ہوچکا تو آپ نے وہ تختیاں زمین سے اٹھائیں۔ پھر ان تختیوں کی مختلف قبائل کے لیے نقول تیار کرائی گئیں۔ ان میں اگرچہ زندگی کے لیے رہنمائی تو موجود تھی اور اس لحاظ سے یہ اللہ کی رحمت بھی تھی مگر یہ رہنمائی تو اسی شخص کو سود مند ہوسکتی ہے جو یہ سمجھتا ہو کہ یہ واقعی اللہ کی طرف سے ہماری رہنمائی کرتی ہے اور اللہ سے ڈرتے ہوئے ان پر عمل بھی کرے مگر جو لوگ خود ہی ہدایت کے طالب نہ ہوں انہیں ان سے ہدایت نہیں ملے گی۔
وَلَمَّا سَكَتَ عَنْ مُّوْسَى الْغَضَبُ : ” سَكَتَ “ کا لفظی معنی ” خاموش ہونا “ ہے۔ یہ ایک پر لطف استعارہ ہے، گویا یہاں غصے کو ایسے آدمی سے تشبیہ دی ہے جو مسلسل موسیٰ (علیہ السلام) کو بھڑکا رہا تھا، جب وہ انھیں بھڑکانے سے خاموش ہوگیا تو موسیٰ (علیہ السلام) بھی ٹھنڈے پڑگئے۔ قرآن مجید میں جو لطف یہاں ” سَكَتَ “ کا لفظ دے رہا ہے کوئی دوسرا لفظ، مثلاً ” سَکَنَ “ (ساکن ہوگیا) وغیرہ کبھی یہ لطف نہ دیتا۔ - اَخَذَ الْاَلْوَاحَ : غصہ ٹھنڈا ہونے پر موسیٰ (علیہ السلام) نے وہ تختیاں اٹھائیں جو اگرچہ گرنے کی وجہ سے کچھ ٹوٹ گئی تھیں، جیسا کہ اس سے پہلے آیت (١٥٠) کے حاشیہ (٣) میں صحیح حدیث سے نقل ہوا، مگر اس آیت سے معلوم ہوا کہ وہ ٹوٹنا معمولی تھا، ایسا نہ تھا کہ تختیاں اٹھائی نہ جا سکتیں، یا انھیں پڑھنا اور ان سے فائدہ اٹھانا ممکن نہ ہوتا۔ - وَفِيْ نُسْخَتِهَا : ” نُسْخَۃٌ“ ” فُعْلَۃٌ“ کے وزن پر مفعول کے معنی میں ہے۔ ” نَسَخَ یَنْسَخُ (ف) “ کے معنی اگرچہ پہلے حکم کو دوسرے حکم کے ساتھ ختم کرنے کے بھی آتے ہیں، مگر اس کا معنی ” لکھنا “ بھی آتا ہے۔ ” اِسْتَنْسَخَ “ بھی اسی معنی میں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) [ الجاثیۃ : ٢٩ ] ” بیشک ہم لکھواتے جاتے تھے جو تم عمل کرتے تھے۔ “ ” نُسْخَۃٌ“ اس اصل کو بھی کہتے ہیں جس سے نقل کیا جائے اور نقل شدہ کو بھی ” نُسْخَۃٌ“ کہا جاتا ہے۔- لِّلَّذِيْنَ هُمْ لِرَبِّهِمْ يَرْهَبُوْنَ : آسمانی کتابوں سے فائدہ اور ہدایت انھی کو حاصل ہوتی ہے جو صرف اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ (٣) ۔
تیسری آیت میں اس کا بیان ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ فرو ہوا تو تورات کی تختیاں جو جلدی سے رکھ دی تھیں پھر اٹھالیں، اور اس کے نسخہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت تھی۔- لفظ نسخہ اس تحریر کے لئے بولا جاتا ہے جو کسی کتاب وغیرہ سے نقل کی جائے، بعض روایات میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تورات کی تختیاں جلدی سے رکھیں تو وہ ٹوٹ گئی تھیں، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو کسی دوسری چیز میں لکھا ہوا عطا فرمایا، اس کو نسخہ کہا گیا ہے۔
وَلَمَّا سَكَتَ عَنْ مُّوْسَى الْغَضَبُ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ ٠ ۚ ۖ وَفِيْ نُسْخَتِہَا ہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّلَّذِيْنَ ہُمْ لِرَبِّہِمْ يَرْہَبُوْنَ ١٥٤- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- سكت - السُّكُوتُ مختصّ بترک الکلام، ورجل سِكِّيتٌ ، وسَاكُوتٌ: كثير السّكوت، والسَّكْتَةُ والسُّكَاتُ : ما يعتري من مرض، والسَّكْتُ يختصّ بسکون النّفس في الغناء، والسَّكتَاتُ في الصلاة : السّكوت في حال الافتتاح، وبعد الفراغ، والسُّكَيْتُ : الذي يجيء آخر الحلبة، ولمّا کان السّكوت ضربا من السّكون استعیر له في قوله : وَلَمَّا سَكَتَ عَنْ مُوسَى الْغَضَبُ- [ الأعراف 154]- ( س ک ت ) السکوت ( ن ) اسکے اصل معنی تو ترک کلام یعنی خاموش ہونے کے ہیں ۔ اور بہت زیادہ چپ رہنے والے آدمی کو رجل سکیت و ساکوت کہا جاتا ہے اور سکتہ یا سکات مرض سکتہ کو کہتے ہیں اور موسیقی میں سکت کا لفظ سکون نفس کے ساتھ مخصوص ہے اور افتتاح صلوۃ کی حالت اور قرات سے فارغ ہونے کے بعد سکوت کرنے کو سکتات فی الصلوت کہا جاتا ہے ۔ السکیت دوڑ میں سب سے آخر آنے والا گھوڑا پھر چونکہ سکوت میں ایک گونہ سکون پایا جاتا ہے اس لئے آیت : ۔ وَلَمَّا سَكَتَ عَنْ مُوسَى الْغَضَبُ [ الأعراف 154] اور جب موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ فرو ہوا ۔ میں بطور استعارہ غصے کے فرو ہوجانے کے لئے سکت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔- غضب - الغَضَبُ : ثوران دم القلب إرادة الانتقام، ولذلک قال عليه السلام : «اتّقوا الغَضَبَ فإنّه جمرة توقد في قلب ابن آدم، ألم تروا إلى انتفاخ أوداجه وحمرة عينيه» «2» ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به فالمراد به الانتقام دون غيره : قال فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] ، وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] ، وقال : وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] ، غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] ، وقوله : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] ، قيل :- هم اليهود «3» . والغَضْبَةُ کالصّخرة، والغَضُوبُ :- الكثير الغضب . وتوصف به الحيّة والنّاقة الضجور، وقیل : فلان غُضُبَّةٌ: سریع الغضب «4» ، وحكي أنّه يقال : غَضِبْتُ لفلان : إذا کان حيّا وغَضِبْتُ به إذا کان ميّتا «5» .- ( غ ض ب ) الغضب - انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا اسی لئے آنحضرت نے فرمایا ہے اتقو ا الغضب فانہ جمرۃ توقدئی قلب ابن ادم الم ترو الی امتقاخ اوداجہ وحمرتۃ عینیہ کہ غصہ سے بچو بیشک وہ انسان کے دل میں دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح ہے تم اس کی رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کے سرخ ہوجانے کو نہیں دیکھتے لیکن غضب الہیٰ سے مراد انتقام ( اور عذاب ) ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] تو وہ اس کے ) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے ۔ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] اور وہ خدا کے غضب ہی گرمحتار ہوگئے ۔ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا ۔ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] اور خدا اس پر غضب ناک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا ۔ میں بعض نے کہا کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور غضبۃ کے معنی سخت چٹان کے ہیں ۔ المغضوب بہت زیادہ غصے ہونے والا یہ سانپ اور تزر مزاج اونٹنی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فلاں غضبۃ کے معنی ہیں فلاں بہت جلد غصے ہونے والا ہے ۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ غضیت لفلان کے معنی کسی زندہ شخص کی حمایت میں ناراض ہونا ہیں اور غضبت بہ کے معنی کیس مردہ شخص کی حمایت کے لئے غضب ناک ہونا ۔- ( نسخة)- ، اسم جامد بمعنی الألواح لأنها نسخت من اللوح المحفوظ في نسخة ثانية منه ... أو هو اسم مشتقّ بمعنی المنسوخ أي المکتوب فيها، فهي فعلة بضمّ فسکون بمعنی مفعول .- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- رهب - الرَّهْبَةُ والرُّهْبُ : مخافة مع تحرّز و اضطراب، قال : لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] ، وقال : جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] ، وقرئ : مِنَ الرَّهْبِ ، أي : الفزع . قال مقاتل : خرجت ألتمس تفسیر الرّهب، فلقیت أعرابيّة وأنا آكل، فقالت : يا عبد الله، تصدّق عليّ ، فملأت كفّي لأدفع إليها، فقالت : هاهنا في رَهْبِي «5» ، أي : كمّي . والأوّل أصحّ. قال تعالی: وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً- [ الأنبیاء 90] ، وقال : تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ- [ الأنفال 60] ، وقوله : وَاسْتَرْهَبُوهُمْ- [ الأعراف 116] ، أي : حملوهم علی أن يَرْهَبُوا، وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ- [ البقرة 40] ، أي : فخافون، والتَّرَهُّبُ : التّعبّد، وهو استعمال الرّهبة، والرَّهْبَانِيّةُ : غلوّ في تحمّل التّعبّد، من فرط الرّهبة . قال : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید 27] ، والرُّهْبَانُ يكون واحدا، وجمعا، فمن جعله واحدا جمعه علی رَهَابِينَ ، ورَهَابِنَةٌ بالجمع أليق . والْإِرْهَابُ : فزع الإبل، وإنما هو من : أَرْهَبْتُ. ومنه : الرَّهْبُ «1» من الإبل، وقالت العرب : رَهَبُوتٌ خير من رحموت «2» .- ( ر ھ ب ) الرھب - والرھبۃ ایسے خوف کو کہتے ہیں جس میں احتیاط اور اضطراب بھی شامل ہو قرآن میں : ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] تمہاری ہیبت تو ( ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے بڑھکر ہے جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] اور دفع ) خوف کے لئے اپنے بازو سکیڑ لو ) ۔ اس میں ایک قرآت رھب بضمہ الراء بھی ہے ۔ جس کے معنی فزع یعنی گھبراہٹ کے ہیں متقاتل کہتے ہیں کہ رھب کی تفسیر معلوم کرنے کی غرض سے نکلا دریں اثنا کہ میں کھانا کھا رہا تھا ایک اعرابی عورت آئی ۔ اور اس نے کہا اسے اللہ کے بندے مجھے کچھ خیرات دیجئے جب میں لپ بھر کر اسے دینے لگا تو کہنے لگے یہاں میری آستین میں ڈال دیجئے ( تو میں سمجھ گیا کہ آیت میں بھی ( ھب بمعنی آستین ہے ) لیکن پہلے معنی یعنی گھبراہٹ کے زیادہ صحیح ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء 90] ہمارے فضل کی توقع اور ہمارے عذاب کے خوف سے ہمیں پکارتے رہتے ہیں ) تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ [ الأنفال 60] اس سے تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر دھاک بٹھائے رکھو گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] اور ان کو دہشت میں ڈال دیا ۔ میں استر ھاب کے معنی دہشت زدہ کرنے کے ہیں ۔ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ [ البقرة 40] اور مجھ سے ہی ڈرو ۔ اور ترھب ( تفعیل کے معنی تعبد یعنی راہب بننے اور عبادت ہیں خوف سے کام لینے کے ہیں اور فرط خوف سے عبادت گذاری میں غلو کرنے رھبانیۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید 27] اور رہبانیت ( لذت دنیا کا چوڑ بیٹھنا جو انہوں نے از خود ایجاد کی تھی ۔ اور رھبان ( صومعہ لوگ واحد بھی ہوسکتا ہے اور جمع بھی جو اس کو واحد دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کی جمع رھا بین آتی ہے لیکن اس کی جمع رھا بتۃ بنانا زیادہ مناسب ہے الا رھاب ( افعال ) کے اصل معنی اونٹوں کو خوف زدہ کرنے کے ہیں یہ ارھبت ( فعال کا مصدر ہے اور اسی سے زھب ہے جس کے معنی لاغر اونٹنی ( یا شتر نر قوی کلاں جثہ ) کے میں مشہور محاورہ ہے : ۔ کہ رحم سے خوف بہتر ہے ۔
(١٥٤) جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ چلا گیا تو ان بقیہ تختیوں میں یا ان دوتختیوں کی بجائے جو اور تختیاں دی گئیں ان لوگوں کے لیے جو ڈرتے تھے گمراہی سے ہدایت اور عذاب سے رحمت تھی۔