Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تصدیق رسالت سے گریزاں یھودی علماء پہلے آیت ( وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِيْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِى السَّبْتِ فَقُلْنَا لَھُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـــِٕيْنَ 65۝ۚ ) 2- البقرة:65 ) گذر چکی ہے اسی واقعہ کا تفصیلی بیان اس آیت میں ہے اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلوات اللہ وسلامہ علیہ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنے زمانے کے یہودیوں سے ان کے پہلے باپ دادوں کی بابت سوال کیجئے جنہوں نے اللہ کے فرمان کی مخالفت کی تھی پس ان کی سرکشی اور حیلہ جوئی کی وجہ سے ہماری اچانک پکڑ ان پر مسلط ہوئی ۔ اس واقعہ کو یاد دلا کہ یہ بھی میری ناگہانی سزا سے ڈر کر اپنی اس ملعون صفت کو بدل دیں اور آپ کے جو اوصاف ان کی کتابوں میں ہیں انہیں نہ چھپائیں ایسا نہ ہو کہ ان کی طرح ان پر بھی ہمارے عذاب ان کی بےخبری میں برس پڑیں ۔ ان لوگوں کی یہ بستی بحر قلزم کے کنارے واقع تھی جس کا نام آئلہ تھا ۔ مدین اور طور کے درمیان یہ شہر تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس بستی کا نام مدین تھا ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کا نام متنا تھا ۔ یہ مدین اور عینوں کے درمیان تھا ۔ انہیں حکم ملا کہ یہ ہفتہ کے دن کی حرمت کریں اور اس دن شکار نہ کھیلیں ، مچھلی نہ پکڑیں ۔ ادھر مچھلیوں کی بحکم الٰہی یہ حالت ہوئی کہ ہفتے والے دن تو چڑھی چلی آتیں کھلم کھلا ہاتھ لگتیں تیرتی پھرتیں سب طرف سے سمٹ کر آ جاتیں اور جب ہفتہ نہ ہوتا ایک مچھلی بھی نظر نہ آتی بلکہ تلاش پر بھی ہاتھ نہ لگتی ۔ یہ ہماری آزمائش تھی کہ مچھلیاں ہیں تو شکار منع اور شکار جائز ہے تو مچھلیاں ندارد ۔ چونکہ یہ لوگ فاسق اور بےحکم تھے اس لئے ہم نے بھی ان کو اس طرح آزمایا آخر ان لوگوں نے حیلہ جوئی شروع کی ایسے اسباب جمع کرنے شروع کئے جو باطن میں اس حرام کام کا ذریعہ بن جائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہودیوں کی طرح حیلے کر کے ذرا سی دیر کے لئے اللہ کے حرام کو حلال نہ کر لینا ۔ اس حدیث کو امام ابن بطو لائے ہیں اور اس کی سند نہایت عمدہ ہے اس کے راوی احمد ہیں ۔ محمد بن مسلم کا ذکر امام خطیب رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ میں کیا ہے اور انہیں ثقہ کہا ہے باقی اور سب راوی بہت مشہور ہیں اور سب کے سب ثقہ ہیں ایسی بہت سی سندوں کو امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے صحیح کہا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

163۔ 1 وسئلہم میں (ھم) ضمیر سے مراد یہود ہیں۔ یعنی ان سے پوچھئے اس میں یہودیوں کو یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ اس واقعے کا علم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی دلیل ہے۔ کیونکہ اللہ کی طرف سے وحی کے بغیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس واقعے کا علم نہیں ہوسکتا تھا۔ (2) اس بستی کی تعیین میں اختلاف ہے کوئی اس کا نام ایلہ کوئی طبریہ کوئی ایلیا اور کوئی شام کی کوئی بستی جو سمندر کے قریب تھی۔ بتلاتا ہے۔ مفسرین کا زیادہ رجحان ایلہ کی طرف ہے جو مدین اور کوہ طور کے درمیان دریائے قلزم کے ساحل پر تھی۔ (3) حیتان حوت (مچھلی کی جمع ہے۔ شرعا شارع کی جمع ہے۔ معنی ہیں پانی کے اوپر ابھر ابھر کر آنے والیاں۔ یہ یہودیوں کے اس واقعے کی طرف اشارہ ہیں جس میں انہیں ہفتے والے دن مچھلیوں کا شکار کرنے سے منع کردیا گیا تھا۔ لیکن بطور آزمائش ہفتے والے دن مچھلیاں کثرت سے آتیں اور پانی کے اوپر ظاہر ہو ہو کر انہیں دعوت شکار دیتیں۔ اور جب یہ دن گزر جاتا تو اس طرح نہ آتیں۔ بالآخر یہودیوں نے ایک حیلہ کر کے حکم الہی سے تجاوز کیا کہ گڑھے کھود لیے تاکہ مچھلیاں اس میں پھنسی رہیں اور جب ہفتے کا دن گزر جاتا تو پھر انہیں پکڑ لیتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦٧] یعنی ذرا یہود مدینہ سے سبت والوں کی بات تو پوچھئے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ قصہ ان میں بڑا مشہور و معروف تھا اور بروایت تواتر چلا آ رہا تھا۔ جس سے یہود انکار نہیں کرسکتے تھے یہ کوئی ایسا حکم نہیں تھا جس کا بجا لانا آپ کے لیے ضروری ہو یا فی الواقع آپ نے یہود سے پوچھا ہو اس واقعہ کی تفصیل بھی پہلے سورة بقرہ کی آیت ٦٥ کے حواشی میں گزر چکی ہے اور اس قصہ کو یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ جتلانا ہے کہ یہ یہود نسلاً بعد نسل سرکش اور نافرمان چلے آ رہے ہیں۔ سرکشی اور نافرمانی ان کی رگ رگ میں رچی ہوئی ہے۔ لہذا ان کی اسلام دشمن سرگرمیاں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے کچھ تعجب نہ ہونا چاہیے۔- رہی یہ بات کہ ان کی شکلیں فی الواقع بندروں جیسی بن گئی تھیں یا نہیں تو اگرچہ بعض لوگوں نے اس کا انکار کیا تھا تاہم راجح قول یہی ہے کہ وہ فی الواقع بندر بنا دیئے گئے جو ایک دوسرے کو پہچانتے، چیخیں مارتے اور روتے تھے پھر اسی حالت میں تین دن کے بعد مرگئے اور بعض کہتے ہیں کہ ان کے چہروں میں اس قسم کا ورم پیدا ہوا جس سے ان کے چہرے بالکل بندروں جیسے معلوم ہوتے تھے۔ آخر اسی حالت میں تین روز بعد مرگئے اور یہ واقعہ سیدنا داؤد (علیہ السلام) کے زمانہ میں پیش آیا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ ۔۔ : اس واقعہ کا انداز بیان پچھلی آیات سے ذرا مختلف ہے، فرمایا، ان سے اس بستی کے بارے میں پوچھیے، کیونکہ تورات یا کسی کتاب میں اس کا ذکر نہیں تھا مگر یہودیوں کو یہ واقعہ خوب معلوم تھا اور وہ اپنے دوسرے عیوب کی طرح اسے بھی چھپاتے تھے۔ جب آپ پوچھیں گے تو انھیں ضرور سوچنے پر مجبور ہونا پڑے گا کہ اس واقعہ کی خبر آپ تک کیسے پہنچی، وحی کے سوا کوئی اور ذریعہ اس کے لیے ممکن نہیں، اس لیے لامحالہ انھیں آپ کے نبی الٰہی ہونے کی ایک اور شہادت مل جائے گی ۔- اللہ تعالیٰ نے صرف یہ بتایا ہے کہ وہ بستی سمندر کے کنارے آباد تھی اور نصیحت کے لیے اتنا بتانا ہی کافی تھا۔ البتہ اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ اس قریہ (شہر) سے مراد ” ایلات “ ہے جو بحر قلزم کے ساحل پر مدین اور طور کے درمیان واقع ہے۔ یہ شہر بحر قلزم کے اندر خلیج عقبہ میں اس جگہ واقع تھا جہاں اب اردن کی بندرگاہ عقبہ پائی جاتی ہے، اس کے قریب خلیج عقبہ ہی میں یہودیوں نے جو نئی بندرگاہ بنائی ہے اس کا نام انھوں نے ” ایلات “ ہی رکھا ہے۔ مگر کسی یقینی دلیل کے بغیر اس شہر کی تعیین ممکن نہیں۔- اِذْ يَعْدُوْنَ فِي السَّبْتِ : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہفتے کے دن ان کے لیے شکار جائز نہیں تھا۔ - اِذْ تَاْتِيْهِمْ حِيْتَانُهُمْ ۔۔ : ” حِیْتَانٌ“ یہ ” حُوْتٌ“ کی جمع ہے، یعنی بڑی مچھلی۔ دوسری جگہ یونس (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : (فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ ) [ الصافات : ١٤٢ ] ” پس مچھلی نے اسے نگل لیا۔ “ (راغب) ” شُرَّعًا “ ” شَارِعٌ“ کی جمع ہے، یعنی پانی سے سر نکالے ہوئے آ جاتیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ انھیں حکم تو یہ تھا کہ اس دن کی تعظیم کریں اور اس میں شکار وغیرہ سے باز رہیں مگر انھوں نے فریب اور حیلہ سازی سے مچھلیاں پکڑنا شروع کردیا، چناچہ انھوں نے سمندر کے کنارے بڑے بڑے حوض کھود لیے، ہفتہ کے دن مچھلیاں پانی کے اوپر آتیں تو ان حوضوں میں داخل ہوجاتیں، وہ سمندر کی طرف سے ان کا راستہ بند کردیتے اور اتوار کے دن ان کو پکڑ لیتے، یا جمعہ کے دن سمندر میں جال نصب کردیتے اور ہفتہ کے دن ان میں پھنسی ہوئی مچھلیوں کو اتوار کے دن پکڑ لیتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی حرام کام کا ارتکاب کرنے کے لیے حیلہ کرنا حرام ہے۔ ہاں جائز کام کے لیے حیلہ بھی جائز ہے۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے امام ابوعبد اللہ بن بطہ (رض) کی سند سے ابوہریرہ (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل فرمایا ہے : ( لَا تَرْتَکِبُوْا مَا ارْتَکَبَتِ الْیَھُوْدُ فَتَسْتَحِلُّوْا مَحَارِمَ اللّٰہِ بِأَدْنَی الْحِیَلِ )” وہ کام مت کرو جو یہود نے کیا، ورنہ تم اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو معمولی حیلوں سے حلال کرلو گے۔ “ اور فرمایا کہ یہ سند جید ہے۔ مگر افسوس کہ بعض مسلمان فقہاء نے اسلام کے فرائض سے جان چھڑانے کے لیے کئی حیلے ایجاد کیے، مثلاً رمضان کے آخر میں دو رکعتوں کا نام قضائے عمری رکھ کر پچھلی نمازیں معاف ہونے کا فتویٰ دے دیا اور صاف لکھ دیا کہ زکوٰۃ اور شفعہ سے جان چھڑانے کے لیے حیلہ حرام تو کجا مکروہ بھی نہیں۔ قتل کے قصاص کو ختم کرنے کے لیے تیز دھار آلے سے قتل کی شرط لگا دی اور کہا کہ اگر کوئی جان بوجھ کر بھاری سے بھاری پتھر یا ہتھوڑے کے ساتھ قتل کر دے، یا ڈبو کر مار دے، یا برف کے بلاک میں رکھ کر، یا کسی چار دیواری میں بھوکا پیاسا رکھ کر مار دے تو اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا، زیادہ سے زیادہ دیت لے سکتے ہیں۔ زنا کو حلال کرنے کے لیے اجرت پر عورت لا کر زنا کرنے سے حد ختم کردی۔ شراب حلال کرنے کے لیے صرف انگور اور کھجور کی شراب کو حرام اور باقی سب کو حلال کہہ دیا۔ چور کی حد چوری کا جرم شہادتوں سے ثابت ہونے کے بعد صرف اتنی بات سے ختم کردی کہ چور مسروقہ مال کا مالک ہونے کا دعویٰ کر دے، خواہ اس کی کوئی دلیل بھی پیش نہ کرے۔ بتائیے بلا دلیل دعویٰ کرنے سے ہاتھ کٹنے سے بچ جائے تو کون سا چور یہ دعویٰ نہیں کرے گا۔ سود کو دار الحرب میں اور بہت سی خود ساختہ صورتوں میں حلال کردیا۔ بعض نے جو شخص نماز پڑھے اور جو نہ پڑھے دونوں کا ایمان برابر قرار دے دیا۔ جب اتنے بڑے گناہ حیلے سے جائز ہوگئے تو ان کے مرتکب بھی صالح اور عادل ٹھہرے اور حکومت اور قضاء کے اہل قرار دیے گئے۔ ایسے حکام، ایسی عدالتوں اور ایسے شاہدوں اور قاضیوں کے فیصلوں کا نتیجہ اہل کتاب ہی کی طرح پہلے شدید بدعملی، پھر انتہائی ذلت کی صورت میں سب کے سامنے ہے، اس کا علاج یہی ہے کہ مسلمان ان ” الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ “ کا طریقہ چھوڑ کر کتاب و سنت کو بلاحیل و حجت مضبوطی سے تھام لیں تو اللہ تعالیٰ انھیں پھر وہی عزت و کرامت عطا فرمائے گا جو اس نے پہلے عطا فرمائی تھی۔ - كَذٰلِكَ ڔ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو حلال روزی نہ ملے اور حرام آسانی سے ملے تو لازم ہے کہ وہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش سمجھے، اگر حرام کا مرتکب ہوجائے گا تو وہ روزی وبال ہوگی اور اگر صبر کرے گا اور حرام سے بچ کر امتحان میں کامیاب ہوجائے گا تو انعام ملے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور آپ ان ( اپنے ہمعصر یہودی) لوگوں سے ( بطور تنبیہ کے) اس بستی ( والوں) کا جو کہ دریائے شور کے قریب آباد تھے (اور اس میں یہودی رہتے تھے جن کو ہفتہ کے روز شکار کرنا ممنوع تھا) اس وقت کا حال پوچھئے جب کہ وہ ( وہ ان کے بسنے والے) ہفتہ ( کے متعلق جو حکم تھا اس) کے بارے میں حد (شرعی) سے نکل رہے تھے جب کہ ان کے ہفتہ کے روز تو ان (کے دریا) کی مچھلیاں ( پانی سے سر نکال نکال) ظاہر ہو ہو کر ( سطح دریا پر) ان کے سامنے آتی تھیں اور جب ہفتہ کا دن نہ ہوتا تو ان کے سامنے نہ آتی تھیں ( بلکہ وہاں سے دور کہیں چلی جاتی تھیں اور وجہ اس کی یہ تھی کہ) ہم ان کی اس طرح پر ( شدید) آزمائش کرتے تھے ( کہ کون حکم پر ثابت رہتا ہے کون نہیں رہتا اور یہ آزمائش) اس سبب سے ( تھی) کہ وہ ( پہلے سے) بےحکمی کیا کرتے تھے ( اسی لئے ایسے سخت حکم سے ان کی آزمائش کی اور اہل اطاعت کی آزمائش لطف اور توفیق اور تائید سے مقرون ہوا کرتی ہے) اور ( اس وقت کا حال پوچھئے) جب کہ ان میں سے ایک جماعت نے ( جو کہ ان کو نصیحت کرتے کرتے اثر و نفع ہونے سے مایوس ہوگئے تھے ایسے لوگوں سے جو اب بھی نصیحت کئے چلے جارہے تھے اور اس قدر مایوس بھی نہ ہوئے تھے جیسا (آیت) لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ سے معلوم ہوتا ہے) یوں کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کئے جاتے ہو جن ( سے قبول کی کچھ امید نہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان) کو اللہ تعالیٰ بالکل ہلاک کرنے والے ہیں یا ( ہلاک نہ ہوئے تو) ان کو ( کوئی اور طرح کی) سخت سزا دینے والے ہیں ( یعنی ایسوں کے ساتھ کیوں دماغ خالی کرتے ہو) انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے ( اور اپنے) رب کے روبرو عذر کرنے کے لئے ( ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ اللہ کے روبرو کہہ سکیں کہ اے اللہ ہم نے تو کہا تھا مگر انہوں نے نہ سنا ہم معذور ہیں) اور ( نیز) اس لئے کہ شاید ڈر جائیں ( اور عمل کرنے لگیں مگر وہ کب عمل کرتے تھے) سو ( آخر) جب وہ اس امر کے تارک ہی رہے جو ان کو سمجھایا جاتا تھا ( یعنی نہ مانا) تو ہم نے ان لوگوں کو تو ( عذاب سے) بچا لیا جو اس بری بات سے منع کیا کرتے تھے ( خواہ برابر منع کرتے رہے اور خواہ بوجہ عذر یاس کے بیٹھ رہے) اور ان لوگوں کو جو کہ ( حکم مذکور میں) زیادتی کرتے تھے ان کی ( اس عدول حکمی کی وجہ سے) ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا یعنی جب وہ جس کام سے ان کو منع کیا گیا تھا اس میں حد سے نکل گئے ( یہ تو تفسیر ہوئی نسیان مَا ذُكِّرُوْا بِهٖٓ کی تو ہم نے ان کو ( براہ قہر) کہہ دیا کہ تم بندر ذلیل بن جاؤ یہ تفسیر ہوئی عذاب بئیس کی) - واقعات مندرجہ آیات مذکورہ بھی معارف القرآن جلد اول سورة بقرہ میں تفصیل و تشریح کے ساتھ آچکے ہیں، اس کے متعلق ضروری باتیں وہاں دیکھی جاسکتی ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَسْــــَٔـلْہُمْ عَنِ الْقَرْيَۃِ الَّتِيْ كَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ۝ ٠ ۘ اِذْ يَعْدُوْنَ فِي السَّبْتِ اِذْ تَاْتِيْہِمْ حِيْتَانُہُمْ يَوْمَ سَبْتِہِمْ شُرَّعًا وَّيَوْمَ لَا يَسْبِتُوْنَ۝ ٠ ۙ لَا تَاْتِيْہِمْ۝ ٠ ۚۛ كَذٰلِكَ۝ ٠ ۚۛ نَبْلُوْہُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ۝ ١٦٣- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - حضر - الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8]- ( ح ض ر ) الحضر - یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ - - بحر - أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته - المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر :- 39-- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب - «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ- [ الروم 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره .- ( ب ح ر) البحر - ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ - سبت - أصل السَّبْتُ : القطع، ومنه سبت السّير :- قطعه، وسَبَتَ شعره : حلقه، وأنفه : اصطلمه، وقیل : سمّي يوم السَّبْت، لأنّ اللہ تعالیٰ ابتدأ بخلق السموات والأرض يوم الأحد، فخلقها في ستّة أيّام کما ذكره، فقطع عمله يوم السّبت فسمّي بذلک، وسَبَتَ فلان : صار في السّبت وقوله : يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف 163] ، قيل : يوم قطعهم للعمل، وَيَوْمَ لا يَسْبِتُونَ [ الأعراف 163] ، قيل : معناه لا يقطعون العمل، وقیل : يوم لا يکونون في السّبت، وکلاهما إشارة إلى حالة واحدة، وقوله :- إِنَّما جُعِلَ السَّبْتُ [ النحل 124] ، أي : ترک العمل فيه، وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً- [ النبأ 9] ، أي : قطعا للعمل، وذلک إشارة إلى ما قال في صفة اللّيل : لِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] .- ( س ب ت ) السبت - کے اصل معنی قطع کرنے کے ہیں اور اسی سے کہا جاتا ہے سبت السیر اس نے تسمہ گو قطع کیا سینت شعرۃ اس نے اپنے بال مونڈے سبت انفہ اس کی کاٹ ڈالی ۔ بعض نے کہا ہے کہ ہفتہ کے دن کو یوم السبت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی تخلیق اتوار کے دن شروع کی تھی اور چھ دن میں تخلیق عالم فرماکر سینچر کے دن اسے ختم کردیا تھا اسی سے سبت فلان ہے جس کے معنی ہیں وہ ہفتہ کے دن میں داخل ہوا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف 163] سنیچر کے دن ( مچھلیاں ) سینہ سیر ہوکر ان کے سامنے آجاتیں ۔ میں بعض نے یوم سبتھم سے ان کے کاروں بار کو چھوڑنے کا دن مراد لیا ہے اس اعتبار سے یوم لا یسبتون کے معنی یہ ہوں گے کہ جس روز وہ کاروبار چھوڑ تے اور بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ روز سینچر نہ ہوتا ان ہر دو معنی کا مآل ایک ہی ہے اور آیت : ۔ إِنَّما جُعِلَ السَّبْتُ [ النحل 124] میں سبت سے مراد سینچر کے دن عمل کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ سنیچر کے روز کام چھوڑنے کا حکم صرف لِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] اس لئے دیا گیا تھا اور آیت : ۔ وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ 9] اور نیند کو ( موجب ) راحت بنایا ۔ میں سبات کے معنی ہیں حرکت وعمل کو چھوڑ کر آرام کرنا اور یہ رات کی اس صفت کی طرف اشاریہ ہے جو کہ آیت : ۔ تاکہ تم رات میں راحت کرو لِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] . میں مذکور ہے یعنی رات کو راحت و سکون لے لئے بنایا ہے - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- شرع - الشَّرْعُ : نهج الطّريق الواضح . يقال : شَرَعْتُ له طریقا، والشَّرْعُ : مصدر، ثم جعل اسما للطریق النّهج فقیل له : شِرْعٌ ، وشَرْعٌ ، وشَرِيعَةٌ ، واستعیر ذلک للطریقة الإلهيّة . قال تعالی:- لِكُلٍّ جَعَلْنا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهاجاً [ المائدة 48] ، - فذلک إشارة إلى أمرین :- أحدهما : ما سخّر اللہ تعالیٰ عليه كلّ إنسان من طریق يتحرّاه ممّا يعود إلى مصالح العباد وعمارة البلاد، وذلک المشار إليه بقوله : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً سُخْرِيًّا [ الزخرف 32] .- الثاني : ما قيّض له من الدّين وأمره به ليتحرّاه اختیارا ممّا تختلف فيه الشّرائع، ويعترضه النّسخ، ودلّ عليه قوله : ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها[ الجاثية 18] . قال ابن عباس : الشِّرْعَةُ : ما ورد به القرآن، والمنهاج ما ورد به السّنّة وقوله تعالی: شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ ما وَصَّى بِهِ نُوحاً [ الشوری 13] ، فإشارة إلى الأصول التي تتساوی فيها الملل، فلا يصحّ عليها النّسخ کمعرفة اللہ تعالی: ونحو ذلک من نحو ما دلّ عليه قوله : وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ النساء 136] . قال بعضهم : سمّيت الشَّرِيعَةُ شَرِيعَةً تشبيها بشریعة الماء من حيث إنّ من شرع فيها علی الحقیقة المصدوقة روي وتطهّر، قال : وأعني بالرّيّ ما قال بعض الحکماء : كنت أشرب فلا أروی، فلمّا عرفت اللہ تعالیٰ رویت بلا شرب .- وبالتّطهّر ما قال تعالی: إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] ، وقوله تعالی: إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً- [ الأعراف 163] ، جمع شارع . وشَارِعَةُ الطّريق جمعها : شَوَارِعُ ، وأَشْرَعْتُ الرّمح قبله، وقیل : شَرَعْتُهُ فهو مَشْرُوعٌ ، وشَرَعْتُ السّفينة : جعلت لها شراعا ينقذها، وهم في هذا الأمر شَرْعٌ ، أي : سواء .- أي : يَشْرَعُونَ فيه شروعا واحدا . و ( شرعک) من رجل زيد، کقولک : حسبک . أي : هو الذي تشرع في أمره، أو تشرع به في أمرك، والشِّرْعُ خصّ بما يشرع من الأوتار علی العود .- ( ش ر ع ) الشرع سیدھا راستہ جو واضح ہو یہ اصل میں شرعت لہ طریقا ( واضح راستہ مقرر کرنا ) کا مصدر ہے اور بطور اسم کے بولا جاتا ہے ۔ چناچہ واضح راستہ کو شرع وشرع وشریعۃ کہا جاتا ہے ۔ پھر استعارہ کے طور پر طریق الہیہ پر یہ الفاظ بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ شِرْعَةً وَمِنْهاجاً [ المائدة 48] ایک دستور اور طریق اس میں دو قسم کے راستوں کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ ایک وہ راستہ جس پر اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مسخر کر رکھا ہے کہ انسان اسی راستہ پر چلتا ہے جن کا تعلق مصالح عباد اور شہروں کی آبادی سے ہے چناچہ آیت : ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً سُخْرِيًّا [ الزخرف 32] اور ہر ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے ۔ میں اسی طرف اشارہ ہے دوسرا راستہ دین کا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے مقرر فرما کر انہیں حکم دیا ہے کہ انسان اپنے اختیار سے اس پر چلے جس کے بیان میں شرائع کا اختلاف پایا جاتا ہے اور اس میں نسخ ہوتا رہا اور جس پر کہ آیت : ۔ ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها[ الجاثية 18] پھر ہم نے دین کے کھلے راستہ پر قائم ) کردیا تو اسی راستے پر چلے چلو ۔ دلالت کرتا ہے حضرت ابن عباس (علیہ السلام) کا قول ہے کہ شرعۃ وہ راستہ ہے جسے قرآن نے بیان کردیا ہے اور منھا وہ ہے جسے سنت نے بیان کیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ ما وَصَّى بِهِ نُوحاً [ الشوری 13] اس نے تمہارے لئے دین کا وہی رستہ مقرر کیا جس کے اختیار کرنے کا حکم دیا تھا ۔ میں دین کے ان اصول کی طرف اشارہ ہے جو تمام ملل میں یکساں طور پر پائے جاتے ہیں اور ان میں نسخ نہیں ہوسکتا۔ جیسے معرفت الہی اور وہ امور جن کا بیان آیت . وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ النساء 136] اور جو شخص خدا اور اس کے فرشتوں اور اسکی کتابوں اور اس کے پیغمبروں سے انکار کرے ۔ میں پایا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ شریعت کا لفظ شریعۃ الماء سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی پانی کے گھاٹ کے ہیں اور شریعت کو شریعت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی صحیح حقیقت پر مطلع ہونے سے سیرابی اور طہارت حاصل ہوجاتی ہے ۔ سیرابی سے مراد معرفت الہی کا حصول ہے جیسا کہ بعض حکماء کا قول ہے کہ میں پیتا رہا لیکن سیرنہ ہوا ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوگئی تو بغیر پینے کے سیری حاصل ہوگئی اور طہارت سے مراد وہ طہارت ہے جس کا ذکر کہ آیت ؛ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] اے پیغمبر کے اہل خانہ خدا چاہتا ہے کہ تم سے نا پاکی کی میل کچیل صاف کردے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے میں پایا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف 163] ( یعنی ) اس وقت کہ ان کے ہفتے کے دن مچھلیاں ان کے سامنے پانی کے اوپر آتیں ۔ میں شرعا ، شارع کی جمع ہے ۔ اور شارعۃ الطریق کی جمع شوارع آتی ہے جس کے معنی کھلی سڑک کے ہیں ۔ اشرعت الرمح قبلہ میں نے اس کی جانب نیزہ سیدھا کیا ۔ بعض نے شرعتہ فھو مشروع کہا ہے اور شرعت السفینۃ کے معنی جہاز پر بادبان کھڑا کرنے کے ہیں جو اسے آگے چلاتے ہیں ۔ ھم فی ھذالامر شرع ۔ یعنی وہ سب اس میں برابر ہیں ۔ یعنی انہوں نے اسے ایک ہی وقت میں شروع کیا ہے اور شرعک من رجل زید بمعنی حسبک ہے یعنی زید ہی اس قابل ہے کہ تم اس کا قصد کرویا اسکے ساتھ مک کر اپنا کام شروع کرو ۔ الشرع ۔ بریط کے وہ تار جن سے راگ شروع کیا جاتا ہے - بلی - يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي : أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ [يونس 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] ، وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة 155] ، وقال عزّ وجل : إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، - وسمي التکليف بلاء من أوجه :- أحدها : أن التکالیف کلها مشاق علی الأبدان، فصارت من هذا الوجه بلاء .- والثاني : أنّها اختبارات، ولهذا قال اللہ عزّ وجل : وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] .- والثالث : أنّ اختبار اللہ تعالیٰ للعباد تارة بالمسار ليشکروا، وتارة بالمضار ليصبروا، فصارت المحنة والمنحة جمیعا بلاء، فالمحنة مقتضية للصبر، والمنحة مقتضية للشکر .- والقیام بحقوق الصبر أيسر من القیام بحقوق الشکر فصارت المنحة أعظم البلاء ین، وبهذا النظر قال عمر : ( بلینا بالضراء فصبرنا وبلینا بالسراء فلم نشکر) «4» ، ولهذا قال أمير المؤمنین : من وسع عليه دنیاه فلم يعلم أنه قد مکر به فهو مخدوع عن عقله «1» .- وقال تعالی: وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء 35] ، وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً [ الأنفال 17] ، وقوله عزّ وجل : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] ، راجع إلى الأمرین، إلى المحنة التي في قوله عزّ وجل : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49] ، وإلى المنحة التي أنجاهم، وکذلک قوله تعالی: وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان 33] ، راجع إلى الأمرین، كما وصف کتابه بقوله : قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت 44] . وإذا قيل : ابْتَلَى فلان کذا وأَبْلَاهُ فذلک يتضمن أمرین : أحدهما تعرّف حاله والوقوف علی ما يجهل من أمره، والثاني ظهور جو دته ورداء ته، وربما قصد به الأمران، وربما يقصد به أحدهما، فإذا قيل في اللہ تعالی: بلا کذا وأبلاه فلیس المراد منه إلا ظهور جو دته ورداء ته، دون التعرف لحاله، والوقوف علی ما يجهل من أمره إذ کان اللہ علّام الغیوب، وعلی هذا قوله عزّ وجل : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] . ويقال : أَبْلَيْتُ فلانا يمينا : إذا عرضت عليه الیمین لتبلوه بها - ( ب ل ی )- بلی الوقب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔ ۔ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة 155] اور ہم کسی قدر خوف سے تمہاری آزمائش کریں گے ۔ إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ اور تکلف کو کئی وجوہ کی بناہ پر بلاء کہا گیا ہے ایک اسلئے کہ تکا لیف بدن پر شاق ہوتی ہیں اس لئے انہیں بلاء سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ دوم یہ کہ تکلیف بھی ایک طرح سے آزمائش ہوتی ہے ۔ جیسے فرمایا وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] اور ہم تو لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ جو تم میں لڑائی کرنے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں ان کو معلوم کریں ۔ سوم اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کبھی تو بندوں کو خوش حالی سے آزماتے ہیں کہ شکر گزار بنتے ہیں یا نہیں اور کبھی تنگی کے ذریعہ امتحان فرماتے ہیں کہ ان کے صبر کو جانچیں ۔ لہذا مصیبت اور نعمت دونوں آزمائش ہیں محنت صبر کا تقاضا کرتی ہے اور منحتہ یعنی فضل وکرم شکر گزاری چاہتا ہے ۔ اور اس میں شک نہیں کہ کہا حقہ صبر کرنا کہا حقہ شکر گزاری سے زیادہ آسان ہوتا ہے اس لئے نعمت میں یہ نسبت مشقت کے بڑی آزمائش ہے اسی بنا پر حضرت عمر فرماتے ہیں کہ تکا لیف پر تو صابر رہے لیکن لیکن فراخ حالی میں صبر نہ کرسکے اور حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس پر دنیا فراخ کی گئی اور اسے یہ معلوم نہ ہوا کہ آزامائش کی گرفت میں ہے تو و فریب خوردہ اور عقل وفکر سے مخزوم ہے قرآن میں ہے ۔ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء 35] اور ہم تم لوگوں کو سختی اور آسودگی میں آزمائش کے طور پر مبتلا کرتے ہیں ۔ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً «2» [ الأنفال 17] اس سے غرض یہ تھی کہ مومنوں کو اپنے ( احسانوں ) سے اچھی طرح آزما لے ۔ اور آیت کریمہ : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہاراے پروردگار کی طرف سے بڑی ( سخت ) آزمائش تھی میں بلاء کا لفظ نعمت و مشقت دونوں طرح کی آزمائش کو شامل ہی چناچہ آیت : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49]( تہمارے بیٹوں کو ) تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔ میں مشقت کا بیان ہے اور فرعون سے نجات میں نعمت کا تذکرہ ہے اسی طرح آیت وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان 33] اور ان کو نشانیاں دی تھیں جنیہں صریح آزمائش تھی میں دونوں قسم کی آزمائش مراد ہے جیسا کہ کتاب اللہ کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت 44] ( کسی کا امتحان کرنا ) یہ دو امر کو متضمن ہوتا ہے ( 1) تو اس شخص کی حالت کو جانچنا اور اس سے پوری طرح باخبر ہونا مقصود ہوتا ہے دوسرے ( 2 ) اس کی اچھی یا بری حالت کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا ۔ پھر کبھی تو یہ دونوں معنی مراد ہوتے ہیں اور کبھی صرف ایک ہی معنی مقصود ہوتا ہے ۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تو صرف دوسرے معنی مراد ہوتے ہیں یعنی اس شخص لہ خوبی یا نقص کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ کیونکہ ذات ہے اسے کسی کی حالت سے باخبر ہونے کی ضرورت نہیں لہذا آیت کریمہ : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] اور پروردگار نے چند باتوں میں ابراھیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے ۔ دوسری معنی پر محمول ہوگی ( یعنی حضرت ابراھیم کے کمالات کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود تھا ) ابلیت فلانا یمینا کسی سے آزمائش قسم لینا ۔- فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٦٣) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان یہود سے بستی والوں کے متعلق بھی پوچھیے، کہ ہفتہ کے روز مچھلیاں پکڑنے میں شرعی حدود سے تجاوز کرتے تھے، اس دن پانی کی تہہ سے کنارا پر بہت زیادہ مچھلیاں آتی تھیں ان کی نافرمانیوں کے باعث اس طرح ان کی آزمایش کی گئی تھی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٣ (وََسْءَلْہُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ ٧) - اب یہ اصحاب سبت کا واقعہ آ رہا ہے۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ یہ بستی اس مقام پر واقع تھی جہاں آج کل ایلات کی بندر گاہ ہے۔ ١٩٦٦ ء کی عرب اسرائیل جنگ میں مصر نے اسی بندرگاہ کا گھیراؤ کیا تھا ‘ جس کے خلاف اسرائیل نے شدید ردِّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے مصر ‘ شام اور اردن پر حملہ کر کے ان کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ مصر سے جزیرہ نمائے سینا ‘ شام سے جولان کی پہاڑیاں اور اردن سے پورا مغربی کنارہ ‘ جو فلسطین کا زرخیز ترین علاقہ ہے ‘ ہتھیا لیا تھا۔ بہر حال ایلات کی اس بندرگاہ کے علاقے میں مچھیروں کی وہ بستی آباد تھی جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔- (اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ ) - (اِذْ تَاْتِیْہِمْ حِیْتَانُہُمْ یَوْمَ سَبْتِہِمْ شُرَّعًا) - شُرَّع کے معنی ہیں سیدھے اٹھائے ہوئے نیزے۔ یہاں یہ لفظ مچھلیوں کے لیے آیا ہے تو اس سے منہ اٹھائے ہوئے مچھلیاں مراد ہیں۔ کسی جگہ مچھلیوں کی بہتات ہو اور وہ بےخوف ہو کر بہت زیادہ تعداد میں پانی کی سطح پر ابھرتی ہیں ‘ چھلانگیں لگاتیں ہیں۔ اس طرح کے منظر کو یہاں شُرَّعًاسے تشبیہہ دی گئی ہے۔ یعنی مچھلیوں کی اس بےخوف اچھل کود کا منظر ایسے تھا جیسے کہ نیزے چل رہے ہوں۔ دراصل تمام حیوانات کو اللہ تعالیٰ نے چھٹی حس سے نواز رکھا ہے۔ ان مچھلیوں کو بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ ہفتے کے دن خاص طور پر ہمیں کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔ اس لیے اس دن وہ بےخوف ہو کر ہجوم کی صورت میں اٹھکیلیاں کرتی تھیں ‘ جبکہ وہ لوگ جن کا پیشہ ہی مچھلیاں پکڑنا تھا وہ ان مچھلیوں کو بےبسی سے دیکھتے تھے ‘ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے ‘ کیونکہ یہود کی شریعت کے مطابق ہفتے کے دن ان کے لیے کاروبار دنیوی کی ممانعت تھی۔- (وَّیَوْمَ لاَ یَسْبِتُوْنَلا لاَ تَاْتِیْہِمْ ج) - ہفتے کے باقی چھ دن مچھلیاں ساحل سے دور گہرے پانی میں رہتی تھیں ‘ جہاں سے وہ انہیں پکڑ نہیں سکتے تھے ‘ کیونکہ اس زمانے میں ابھی ایسے جہاز اور آلات وغیرہ ایجاد نہیں ہوئے تھے کہ وہ لوگ گہرے پانی میں جا کر مچھلی کا شکار کرسکتے۔- کَذٰلِکَ ج نَبْلُوْہُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ۔ - آئے دن کی نا فرمانیوں کی وجہ سے ان کو اس آزمائش میں ڈالا گیا کہ شریعت کے حکم پر قائم رہتے ہوئے فاقے برداشت کرتے ہیں یا پھر نافرمانی کرتے ہوئے شریعت کے ساتھ تمسخر کی صورت نکال لیتے ہیں۔ چناچہ انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور ان میں سے کچھ لوگوں نے اس قانون میں چور دروازہ نکال لیا۔ وہ ہفتے کے روز ساحل پر جا کر گڑھے کھودتے اور نالیوں کے ذریعے سے انہیں سمندر سے ملادیتے۔ اب وہ سمندر کا پانی ان گڑھوں میں لے کر آتے تو پانی کے ساتھ مچھلیاں گڑھوں میں آ جاتیں اور پھر وہ ان کی واپسی کا راستہ بند کردیتے۔ اگلے روز اتوار کو جا کر ان مچھلیوں کو آسانی سے پکڑ لیتے اور کہتے کہ ہم ہفتے کے روز تو مچھلیوں کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ اس طرح شریعت کے حکم کے ساتھ انہوں نے یہ مذاق کیا کہ اس حکم کی اصل روح کو مسنح کردیا۔ حکم کی اصل روح تو یہ تھی کہ چھ دن دنیا کے کام کرو اور ساتواں دن اللہ کی عبادت کے لیے وقف رکھو ‘ جبکہ انہوں نے یہ دن بھی گڑھے کھودنے ‘ پانی کھولنے اور بند کرنے میں صرف کرنا شروع کردیا۔ - اب اس آبادی کے لوگ اس معاملے میں تین گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک گروہ تو براہ راست اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث تھا۔ جب کہ دوسرے گروہ میں وہ لوگ شامل تھے جو اس گناہ میں ملوث تو نہیں تھے مگر گناہ کرنے والوں کو منع بھی نہیں کرتے تھے ‘ بلکہ اس معاملے میں یہ لوگ خاموش اور غیر جانبدار رہے۔ تیسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو گناہ سے بچے بھی رہے اور پہلے گروہ کے لوگوں کو ان حرکتوں سے منع کرکے باقاعدہ نہی عن المنکرکا فریضہ بھی ادا کرتے رہے۔ اب اگلی آیت میں دوسرے اور تیسرے گروہ کے افراد کے درمیان مکالمہ نقل ہوا ہے۔ غیر جانبدار رہنے والے لوگ نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے والے لوگوں سے کہتے تھے کہ یہ اللہ کے نافرمان لوگ تو تباہی سے دو چار ہونے والے ہیں ‘ انہیں سمجھانے اور نصیحتیں کرنے کا کیا فائدہ ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :122 محققین کا غالب میلان اس طرف ہے کہ یہ مقام اَیلہ یا اَیلات یا اَیلوت تھا جہاں اب اسرائیل کی یہودی ریاست نے اسی نام کی ایک بندرگاہ بنائی ہے اور جس کے قریب ہی اُردن کی مشہور بندرگاہ عَقَبہ واقع ہے ۔ اس کی جائے وقوع بحرِ قلزم کی اس شاخ کے انتہائی سرے پر پے جو جزیرہ نمائے سینا کے مشرقی اور عرب کے مغربی ساحل کے درمیان ایک لمبی خلیج کی صورت میں نظر آتی ہے ۔ بنی اسرائیل کے زمانہ عروج میں یہ بڑا اہم تجارتی مرکز تھا ۔ حضرت سلیمان نے اپنے بحرِ قلزم کے جنگی و تجارتی بیڑے کا صدر مقام اسی شہر کو بنایا تھا ۔ جس واقعہ کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے اس کے متعلق یہودیوں کی کتب مقدسہ میں کوئی ذکر ہمیں نہیں ملتا اور ان کی تاریخیں بھی اس باب میں خاموش ہیں ، مگر قرآن مجید میں جس انداز سے اس واقعہ کو یہاں اور سورہ بقرہ میں بیان کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے دور میں بنی اسرائیل بالعموم اس واقعہ سے خوب واقف تھے ، اور یہ حقیقت ہے کہ مدینہ کے یہودیوں نے ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیتے تھے ، قرآن کے اس بیان پر قطعاً کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :123 ”سبت“ ہفتہ کے دن کو کہتے ہیں ۔ یہ دن بنی اسرائیل کے لیے مقدس قرار دیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے اور اولادِ اسرائیل کے درمیان پشت در پشت تک دائمی عہد کا نشان قرار دیتے ہوئے تاکید کی تھی کہ اس روز کوئی دنیوی کام نہ کیا جائے ، گھروں میں آگ تک نہ جلائی جائے ، جانوروں اور لونڈی غلاموں تک سے کوئی خدمت نہ لی جائے اور یہ کہ جو شخص اس ضابطہ کی خلاف ورزی کرے اسے قتل کر دیا جائے ۔ لیکن بنی اسرائیل نے آگے چل کر اس قانون کی علانیہ خلاف ورزی شروع کر دی ۔ یرمیاہ نبی کے زمانہ میں ( جو ٦۲۸ اور ۵۸٦ء قبل مسیح کے درمیان گزرے ہیں ) خاص یروشلم کے پھاٹکوں سے لوگ سبت کے دن مال اسباب لے لے کر گزرتے تھے ۔ اس پر نبی موصوف نے خدا کی طرف سے یہودیوں کو دھمکی دی کہ اگر تم لوگ شریعت کی اس کھلم کھلا خلاف ورزی سے باز نہ آئے تو یردشلم نذر آتش کردیا جائے گا ( یرمیاہ ١۷:۲١ ۔ ۲۷ ) ۔ اسی کی شکایت حزقی ایل نبی بھی کرتے ہیں جن کا دور۵۹۵ء اور۵۳٦ قبل مسیح کے درمیان گزرا ہے ، چنانچہ ان کی کتاب میں سبت کی بے حرمتی کو یہودیوں کے قومی جرائم میں سے ایک بڑا جرم قرار دیا گیا ہے ( حزقی ایل۲۰:١۲ ۔ ۲٤ ) ۔ ان حوالوں سے یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید یہاں جس واقعہ کا ذکر کر رہا ہے وہ بھی غالباً اسی دور کا واقعہ ہوگا ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :124 اللہ تعالیٰ بندوں کی آزمائش کے لیے جو طریقے اختیار فرماتا ہے ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جب کسی شخص یا گروہ کے اندر فرماں برداری سے انحراف اور نافرمانی کی جانب میلان بڑھنے لگتا ہے تو اس کے سامنے نافرمانی کے مواقع کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے تاکہ اس کے وہ میلانات جو اندر چھپے ہوئے ہیں کھل کر پوری طرح نمایاں ہو جائیں اور جن جرائم سے وہ اپنے دامن کو خود داغ دار کرنا چاہتا ہے ان سے وہ صرف اس لیے باز نہ رہ جائے کہ ان کے ارتکاب کے مواقع اسے نہ مل رہے ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

80: یہ واقعہ بھی اختصار کے ساتھ سورۂ بقرہ (٢۔ ٦٥، ٦٦) میں گزرا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ سنیچر کو عربی اور عبرانی زبان میں سبت کہتے ہیں، یہودیوں کے لئے اسے ایک مقدس دن قرار دیا گیا تھا، جس میں ان کے لئے معاشی سرگرمیاں ممنوع تھیں، جن یہودیوں کا یہاں ذکر ہے وہ (غالباً حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانے میں) کسی سمندر کے کنارے رہتے تھے، اور مچھلیاں پکڑا کرتے تھے، سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑ نا ان کے لئے ناجائز تھا، مگر شروع میں انہوں نے کچھ حیلے کرکے اس حکم کی خلاف ورزی کرنی چاہی، اور پھر کھلم کھلا مچھلیاں پکڑنی شروع کردیں، کچھ نیک لوگوں نے انہیں سمجھایا مگر وہ باز نہ آئے، بالآخر ان پر عذاب آیا اور ان کی صورتیں مسخ کرکے انہیں بندر بنادیا گیا، سورۃ بقرہ میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اگرچہ موجودہ بائبل میں موجود نہیں ہے لیکن عرب کے یہودی اس سے خوب اچھی طرح واقف تھے 81: جب کوئی قوم نافرمانی پر کمر باندھ لیتی ہے تو بعض اوقات اللہ تعالیٰ اسے ڈھیل دیتے ہیں جیسا کہ آگے آیت نمبر 182 میں خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ سنیچر کے دن معاشی سرگرمیوں سے باز رہنا اپنی ذات میں کچھ اتنا نا قابل برداشت نہیں تھا، لیکن جس قوم کی سرشت ہی میں نافرمانی تھی، اس نے جب کسی معقول وجہ کے بغیر احکام کی خلاف ورزی شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ ڈھیل دی کہ سنیچر کے دن مچلیاں اتنے افراط کے ساتھ نظر آنے لگیں کہ دوسرے دنوں میں اتنے افراط کے ساتھ نظر نہیں آتی تھیں۔ اس سے ان کو نافرمانی کا اور حوصلہ ہوا، اور وہ یہ نہ سمجھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف ڈھیل اور آزمائش ہے۔ اور انہوں نے ایسے ایسے حیلے کیے کہ سنیچر کے دن مچھلی کی دم میں رسی اٹکا کر اسے زمین کی کسی چیز سے باندھ دیا۔ اور اتوار کے دن اسے پکا کھایا۔ جب ان حیلوں سے نافرمانی کا حوصلہ بڑھا تو کھلم کھلا شکار شروع کردیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر کسی شخص کو گناہ کے وافر مواقع میسر آرہے ہوں تو اسے ڈرنا چاہئے کہ یہ کہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل نہ ہو جس کے بعد وہ ایک دم پکڑ لیا جائے۔