Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اصحاب سبت جس بستی کے لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے ان کے تین گروہ ہوگئے تھے ایک تو حرام شکار کھیلنے والا اور حیلے حوالوں سے مچھلی پکڑنے والا ۔ دوسرا گروہ انہیں روکنے والا اور ان سے بیزاری ظاہر کر کے ان سے الگ ہو جانے والا اور تیسرا گروہ چپ چاپ رہ کر نہ اس کام کو کرنے والا نہ اس سے روکنے والا جیسے کہ سورہ بقرہ کی تفسیر میں ہم خلاصہ وار بیان کر آئے ہیں ۔ جو لوگ خاموش تھے نہ برائی کرتے تھے نہ بروں کو برائی سے روکتے تھے انہوں نے روکنے والوں کو سمجھانا شروع کیا کہ میاں ان لوگوں کو کہنے سننے سے کیا فائدہ؟ انہوں نے تو اللہ کے عذاب مول لے لئے ہیں رب کے غضب کیلئے تیار ہوگئے ہیں اب تم ان کے پیچھے کیوں پڑے ہو؟ تو اس پاک گروہ نے جواب دیا کہ اس میں دو فائدے ہیں ایک تو یہ کہ اللہ کے پاس ہم معذرت خواہ ہو جائیں کہ ہم اپنا فرض برابر ادا کرتے رہے انہیں ہر وقت سمجھاتے بجھاتے رہے ۔ معذرت کے پیش سے بھی ایک قرأت ہے تو گوایا ھذا کا لفظ یہاں مقرر مانا یعنی انہوں نے کہا یہ ہماری معذرت ہے اور زبر کی قرأت پر یہ مطلب ہے کہ ہم جو انہیں روک رہے ہیں یہ کام بطور اس کے کر رہے ہیں کہ اللہ کے ہاں ہم پر الزام نہ آئے کیونکہ اللہ کا حکم ہے کہ ہمیشہ نیکی کا حکم کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو ، دوسرا فائدہ اس میں یہ ہے کہ بہت ممکن ہے کسی وقت کی نصیحت ان پر اثر کر جائے یہ لوگ اپنی اس حرام کاری سے باز آ جائیں اللہ سے توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی ان پر مہربانی کرے اور ان کے گناہ معاف فرما دے ۔ آخر کار ان کی نصیحت خیر خواہی بھی بےنتیجہ ثابت ہوئی ۔ ان بدکاروں نے ایک نہ مانی تو ہم نے اس مسلم گروہ کو تو جو برابر ان سے نالاں رہا ان سے الگ رہا اور انہیں سمجھتا بجھتا رہا نجات دے دی اور باقی کے ظالموں کو جو ہماری نافرمانیوں کے مرتکب تھے اپنے بدترین عذابوں سے پکڑ لیا ۔ عبارت کی عمدگی ملاحظہ ہو کہ روکنے والوں کی نجات کا کھلے لفظوں میں اعلان کیا ظالموں کی ہلاکت کا بھی غیر مشتبہ الفاظ میں بیان کیا اور چپ رہنے والوں کے حالات سے سکوت کیا گیا ، اس لئے کہ ہر عمل کی جزا اسی کی ہم جنس ہے ۔ یہ لوگ نہ تو اس ظلم عظیم میں شریک تھے کہ ان کی مذمت اعلانیہ کی جائے نہ دلیری سے روکتے تھے کہ صاف طور پر قابل تعریف ٹھہریں ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو گروہ ممانعت کرنے کے بعد تھک کر بیٹھ گیا تھا اور پھر روکنا جھوڑ دیا تھا اللہ کا عذاب جب آیا تو یہ گروہ بھی اس عذاب سے بچ گیا صرف وہی ہلاک ہوئے جو گناہ میں مبتلا تھے ۔ آپ کے شاگرد حضرت عکرمہ کا بیان ہے کہ پہلے حضرت ابن عباس کو اس میں بڑا تردد تھا کہ آیا یہ لوگ ہلاک ہوئے یا بچ گئے یہاں تک کہ ایک روز میں آیا تو دیکھا کہ قرآن گود میں رکھے ہوئے رو رہے ہیں ۔ اول اول تو میرا حوصلہ نہ پڑا کہ سامنے آؤں لیکن دیر تک جب یہی حالت رہی تو میں نے قریب آکر سلام کیا بیٹھ گیا اور رونے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا دیکھو یہ سورہ اعراف ہے اس میں ایلہ کے یہودیوں کا ذکر ہے کہ انہیں ہفتے کے روز مچھلی کے شکار کی ممانعت کر دی گئی اور ان کی آزمائش کے لئے مچھلیوں کو حکم ھوا کہ وہ صرف ہفتے کے دن ہی نکلیں ہفتے کے دن دریا مچھلیوں سے بھرے رہتے تھے ۔ ترو تازہ موٹی اور عمدہ بکثرت مچھلیاں پانی کے اوپر اجھلتی کودتی رہتی تھیں اور دنوں میں سخت کوشش کے باوجود بھی نہ ملتی تھیں ۔ کچھ دنوں تو ان کے دلوں کے اندر حکم الٰہی کی عظمت رہی اور یہ ان کے پکڑنے سے رکے رہے لیکن پھر شیطان نے ان کے دل میں یہ قیاس ڈال دیا کہ اس دن منع کھانے سے ہے تم نے آج کھانا نہیں ۔ پکڑ لو اور جائز دن کھا لینا ۔ سچے مسلمانوں نے انہیں اس حیلہ جوئی سے ہر چند روکا اور سمجھایا کہ دیکھو شکار کھیلنا شروع نہ کرو شکار اور کھانا دونوں منموع ہیں ۔ اگلے جمعہ کے دن جو جماعت شیطانی پھندے میں پھنس چکی تھی وہ اپنے بال بچوں سمیت شکار کو نکل کھڑی ہوئی ۔ باقی کے لوگوں کی دو جماعتیں بن گئیں ایک ان کے دائیں ایک بائیں ۔ دائیں جانب والی تو برابر انہیں روکتی رہی کہ اللہ سے ڈرو اور اللہ کے عذابوں کے لئے تیاری نہ کرو ۔ بائیں والوں نے کہا میاں تمہیں کیا پڑی ؟ یہ تو خراب ہونے والے ہیں اب تم انہیں نصیحت کر کے کیا لو گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ خیر اللہ کے ہاں ہم تو چھوٹ جائیں گے اور ہمیں تو اب تک مایوسی بھی نہیں کیا عجب کہ یہ لوگ سنور جائیں تو ہلاکت اور عذاب سے محفوظ رہیں ۔ ہماری تو عین منشا یہ ہے لیکن یہ بدکار اپنی بے ایمانی سے باز نہ آئے اور نصیحت انہیں کار گر نہ ہوئی تو دائیں طرف کے لوگوں نے کہا تم نے ہمارا کہا نہ مانا ۔ اللہ کی نافرمانی کی ، ارتکاب حرمت کیا ۔ عجب نہیں راتوں رات تم پر کوئی عذاب رب آئے ۔ اللہ تمہیں زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھر برسا دے یا کسی اور طرح تمہیں سزا دے ۔ رات ہم تو یہیں گذاریں گے تمہارے ساتھ شہر میں نہیں رہیں گے ۔ جب صبح ہو گئی اور شہر کے دروازے نہ کھلے تو انہوں نے کواڑ کھٹ کھٹائے ، آوازیں دیں لیکن کوئی جواب نہ آیا آخر سیڑھی لگا کر ایک شخص کو قلعہ کی دیوار پر چڑھایا اس نے دیکھا تو حیران ہو گیا کہ سب لوگ بندر بنا دیئے گئے ۔ اس نے ان سب مسلمانوں کو خبر دی ۔ یہ دروازے توڑ کر اندر گئے تو دیکھا کہ سب دم دار بندر بن گئے ہیں یہ تو کسی کو پہچان نہ سکے لیکن وہ پہچان گئے ہر بندر اپنے اپنے رشتے دار کے قدموں میں لوٹنے لگا ان کے کپڑے پکڑ پکڑ کر رونے لگا تو انہوں نے کہا دیکھو ہم تو تمہیں منع کر رہے تھے لیکن تم نے مانا ہی نہیں ۔ وہ اپنا سر ہلاتے تھے کہ ہاں ٹھیک ہے ہمارے اعمال کی شامت نے ہی ہمیں برباد کیا ہے ۔ تو اب یہ تو قرآن میں ہے کہ روکنے والے نجات یافتہ ہوئے لیکن یہ بیان نہیں کہ جو روکنے والوں کو منع کرتے تھے ان کا کیا حشر ہوا ؟ اب ہم بھی بہت سی خلاف باتیں دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے ، میں نے آپ سے یہ سن کر کہا اللہ مجھے آپ پر نثار کر دے آپ یہ تو دیکھئے کہ وہ لوگ ان کے اس فعل کو برا سمجھتے رہے تھے ان کی مخالفت کرتے تھے جانتے تھے کہ یہ ہلاک ہونے والے ہیں ظاہر ہے کہ یہ بچ گئے ، آپ کی سمجھ میں آ گیا اور اسی وقت حکم دیا کہ مجھے دو چادریں انعام میں دی جائیں ۔ الغرض اس بیچ کی جماعت کی نسبت ایک قول تو یہ ہے کہ عذاب سے بچ گئی دوسرا قول یہ ہے کہ عذاب ان پر بھی آیا ۔ ابن رومان فرماتے ہیں کہ ہفتے والے دن خوب مچھلیاں آتیں پانی ان سے بھر جاتا پھر بیچ کے کسی دن نظر نہ آتیں دوسرے ہفتے کو پھر یہی حال ہوتا ، سب سے پہلے ایک شخص نے یہ حیلہ نکالا کہ ڈور اور کانٹا تیار کیا ، مچھلی کو اس میں ہفتے کے دن پھنسا لیا اور پانی میں ہی چھوڑ دیا اتوار کی رات کو جا کر نکال لیں بھونا لوگوں کو مچھلی کی خوشبو پہنچی تو سب نے گھیر لیا ۔ ہر چند پوچھا لیکن اول تو یہ سختی سے انکار کرتا رہا آخر اسنے بات بنا دی کہ دراصل ایک مچھلی کا چھلکا مجھے مل گیا تھا میں نے اسے بھونا تھا ، دوسرے ہفتے کے دن اس نے اسی طرح دو مچھلیاں پھانس لیں اتوار کی رات کو نکال کر بھوننے لگا لوگ آ گئے تو اس نے کہا میں نے ایک ترکیب نکال لی ہے جس سے نافرمانی بھی نہ ہو اور کام بھی نہ رکے اب جو حیلہ بیان کیا تو ان سب نے اسے پسند کیا اور اکثر لوگ یونہی کرنے لگے ۔ یہ لوگ رات کو شہر پناہ کے پھاٹک بند کر کے سوتے تھے جس رات عذاب آیا حسب دستور یہ شہر پناہ کے پھاٹک لگا کر سوئے تھے ۔ صبح کو جب باہر والے شہر میں داخل ہونے کو آئے تو خلاف معمول اب تک دروازے بند پائے آوازیں دیں کوئی جواب نہ ملا قلعہ پر چڑھ گئے دیکھا تو بندر بنا دیئے گئے ہیں کھول کر اندر گئے تو بندر اپنے اپنے رشتہ داروں کے قدموں میں لوٹنے لگے اس سے پہلے سورہ بقرہ کی ایسی ہی آیت کی تفسیر کے موقعہ پر بالتفصیل ان واقعات کو اچھی طرح بیان کر چکے ہیں وہیں دیکھ لیجئے ۔ فالحمد اللہ ، دوسرا قول یہ ہے کہ جو چپ رہے تھے وہ بھی ان گنہگاروں کے ساتھ ہلاک ہوئے ، ابن عباس سے منقول ہے کہ پہلے ہفتہ کے دن کی تعظیم بطور بدعت خود ان لوگوں نے نکالی اب اللہ کی طرف سے بطور آزمائش کے وہ تعظیم ان پر ضروری قرار دے دی گئی اور حکم ہو گیا کہ اس دن مجھلی کا شکار نہ کرو پھر مچھلیوں کا اس دن نمایاں ہونا اور دنوں میں نہ نکلنا وغیرہ بیان فرما کر فرمایا کہ پھر ان میں سے ایک شخص نے ایک مچھلی ہفتے کے دن پکڑی اس کی ناک میں سوراخ کرکے ڈور باندھ کر ایک کیل کنارے گاڑ کر اس میں ڈور اٹکا کر مچھلی کو دریا میں ڈال دیا دوسرے دن جا کر پانی میں سے نکال لایا اور بھون کر کھالی سوائے اس پاک باز حق گو جماعت کے لوگوں کے کسی نے نہ اسے روکا نہ منع کیا نہ سمجھایا لیکن ان کی نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ اس ایک کی دیکھا دیکھی اور بھی یہی کام کرنے لگے یہاں تک کہ بازاروں میں مچھلی آنے لگی اور اعلانیہ یہ کام ہونے لگا ۔ ایک اور جماعت کے لوگوں نے اس حق والی جماعت سے کہا کہ تم ان لوگوں کو کیوں وعظ کرتے ہو اللہ تو انہیں ہلاک کرنے والا سخت عذاب کرنے والا ہے تو انہوں نے وہ جواب دیا یعنی اللہ کا فرمان دہرایا ۔ لیکن لوگ فرمان ربانی کو بھول بیٹھے اور عذاب رب کے خود شکار ہوگئے ۔ یہ تین گروہوں میں بٹ گئے تھے ایک تو شکار کھیلنے والا ، ایک منع کرنے والا ، ایک ان منع کرنے والوں سے کہنے والا کہ اب نصیحت بیکار ہے ۔ بس وہ تو بچ گئے جو برابر روکتے رہے تھے اور دونوں جماعتیں ہلاک کر دی گئیں ۔ سند اس کی نہایت عمدہ ہے لیکن حضرت ابن عباس کا حضرت عکرمہ کے قول کی طرف رجوع کرنا اس قول کے کہنے سے اولیٰ ہے اس لئے کہ اس قول کے بعد ان پر ان کے حال کی حقیقت کھل گئی واللہ اعلم ۔ پھر فرمان ہے کہ ہم نے ظالموں کو سخت عذابوں سے دبوچ لیا ۔ مفہوم کی دلالت تو اس بات پر ہے کہ جو باقی رہے بچ گئے ۔ ( بئیس ) کی کئی ایک قرأت یں ہیں اس کے معنی سخت کے ، دردناک کے ، تکلیف دہ کے ہیں اور سب کا مطلب قریب قریب یکساں ہے ۔ ان کی سرکشی اور ان کے حد سے گذر جانے کے باعث ہم نے ان سے کہدیا کہ تم ذلیل حقیر اور ناقدرے بندر بن جاؤ چنانچہ وہ ایسے ہی ہوگئے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

164۔ 1 اس جماعت سے صالحین کی وہ جماعت مراد ہے جو اس حیلے کا ارتکاب بھی نہیں کرتی تھی اور حیلہ گروں کو سمجھا سمجھا کر ان کی اصلاح سے مایوس بھی ہوگئی تھی۔ تاہم کچھ اور لوگ بھی سمجھانے والے تھے جو انہیں واعظ و نصیحت کرتے تھے۔ صالحین کی یہ جماعت انہیں یہ کہتی کہ ایسے لوگوں کو واعظ و نصیحت کا کیا فائدہ جن کی قسمت میں ہلاکت و عذاب الٰہی ہے۔ یا اس جماعت سے وہی نافرمان اور تجاوز کرنے والے مراد ہیں۔ جب انکو وعظ کرنے والے نصیحت کرتے تو یہ کہتے کہ جب تمہارے خیال میں ہلاکت یا عذاب الہی ہمارا مقدر ہے تو پھر ہمیں کیوں وعظ کرتے ہو ؟ تو وہ جواب دیتے کہ ایک تو اپنے رب کے سامنے معذرت پیش کرنے کے لیے تاکہ ہم تو اللہ کی گرفت سے محفوظ رہیں۔ کیونکہ معصیت الہی کا ارتکاب ہوتے ہوئے دیکھنا اور پھر اسے روکنے کی کوشش نہ کرنا بھی جرم ہے۔ جس پر اللہ تعالیٰ کی گرفت ہوسکتی ہے۔ اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ شاید یہ لوگ حکم الہی سے تجاوز کرنے سے باز ہی آجائیں۔ پہلی تفسیر کی رو سے یہ تین جماعتیں ہوئیں۔ 1) نافرمان اور شکار کرنے والی جماعت ( 2) وہ جماعت جو بالکل کنارہ کش ہوگئی۔ نہ وہ نافرمانوں میں تھی نہ منع کرنے والوں میں (3) وہ جماعت جو نافرمان بھی نہیں تھی اور بالکل کنارہ کش بھی نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ نافرمانوں کو منع کرتی تھی۔ دوسری تفسیر کی رو سے یہ دو جماعتیں ہوں گی۔ ایک نافرمانوں کی اور دوسری منع کرنے والوں کی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦٨] یہ وہ لوگ تھے جو خود تو مچھلیاں پکڑنے کے جرم کے مرتکب نہیں تھے مگر پکڑنے والوں کو منع بھی نہیں کرتے تھے۔ جب اللہ کا عذاب آیا تو صرف وہ لوگ بچائے گئے جو خود بھی مچھلیاں نہیں پکڑتے تھے اور پکڑنے والوں کو منع بھی کرتے رہے اور اس درمیانی گروہ کو محض اس لیے سزا ملی کہ وہ اس گناہ کے کام سے منع کیوں نہ کرتے تھے۔ گویا جیسے کوئی برائی کرنا جرم ہے ویسے ہی برائی سے نہ روکنا بھی جرم ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے بھی واضح ہوتا ہے۔- نہی عن المنکر کے متعلق احادیث نبوی :۔ ١۔ نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کی حدود کی خلاف ورزی کرنے والوں اور خلاف ورزی دیکھ کر خاموش رہنے والوں کی مثال ایسی ہے جیسے ان لوگوں کی جنہوں نے کسی جہاز میں بیٹھنے کے لیے قرعہ اندازی کی۔ کچھ لوگوں کے حصے میں نچلی منزل آئی اور دوسروں کے حصہ میں اوپر کی منزل۔ اب نچلی منزل والے جب پانی لے کر بالائی منزل والوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں اس سے تکلیف پہنچتی۔ یہ دیکھ کر نچلی منزل والوں میں سے ایک نے کلہاڑی لی اور جہاز کے پیندے میں سوراخ کرنے لگا۔ بالائی منزل والے اس کے پاس آئے اور کہا تمہیں یہ کیا ہوگیا ہے۔ اس نے جواب دیا تمہیں ہماری وجہ سے تکلیف پہنچی اور ہمارا پانی کے بغیر گزارا نہیں۔ اب اگر اوپر والوں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تو اسے بھی بچا لیا اور خود بھی بچ گئے اور اگر اسے چھوڑ دیا تو اسے بھی ہلاک کیا اور اپنے آپ کو بھی ہلاک کیا۔ (بخاری۔۔ کتاب الشرکۃ ہل یقرع فی القسمۃ۔ نیز کتاب الشہادات۔ باب القرعۃ فی المشکلات۔ )- ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص تم میں سے کوئی برائی دیکھے تو اسے چاہیے کہ اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو زبان سے روکے یہ بھی نہ کرسکے تو دل میں ہی برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان)- ٣۔ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے سنا ہے کہ جب لوگ ظالم کو (ظلم کرتے) دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ کی طرف سے ان پر عام عذاب نازل ہو۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ زیر آیت سورة مائدہ آیت نمبر ١٠١)- اصحاب السّبت پر عذاب کی نوعیت :۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ قرآن میں ان تینوں گروہوں میں سے ایک کے متعلق فرمایا کہ ہم نے برائی سے منع کرنے والوں کو بچا لیا اور جو نافرمانی کرنے والے تھے انہیں عذاب میں پکڑ لیا۔ رہا درمیان میں تیسرا گروہ جو خود نافرمانی نہیں کرتا تھا اور منع بھی نہ کرتا تھا اس کے لئے قرآن نے سکوت اختیار کیا ہے تو ہمیں بھی سکوت اختیار کرنا چاہیے۔- ایک تیسرا قول یہ ہے کہ عذاب دو طرح کے آئے تھے۔ ایک بڑا عذاب جس کا ذکر آیت نمبر ١٦٥ میں ہے اس میں دونوں گروہ ماخوذ ہوئے نافرمانی کرنے والے بھی اور برائی سے منع نہ کرنے والے بھی اور دوسرا عذاب بندر بنا دینے کا تھا اور وہ حد سے گزرنے والوں کے لیے تھا اس عذاب میں صرف وہی لوگ ماخوذ ہوئے جو نافرمان تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ ۔۔ : یعنی اس بستی کے نیک لوگوں میں سے ایک گروہ نے ان لوگوں سے کہا جو اس حیلہ سازی سے شکار کرنے والوں کو منع کرتے تھے۔ جمہور مفسرین کا خیال ہے کہ اس بستی کے لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہوگئے تھے، ایک وہ ظالم جو اس حیلہ سازی سے ہفتہ کے دن مچھلیوں کا شکار کرتے تھے۔ دوسرا گروہ وہ جو ان کو ایسا کرنے سے منع کرتا تھا اور تیسرا گروہ وہ جو خود اگرچہ نیک تھا لیکن دوسروں کو برائی سے منع نہیں کرتا تھا، پس یہاں ” اُمَّةٌ“ سے مراد یہی تیسرا گروہ ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ گروہ جو برائی سے منع کرنے والوں سے کہتا تھا کہ تم ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو، یہ بھی نیک لوگ تھے اور اپنی طرف سے پورا زور لگا چکے تھے کہ انھیں اس گناہ سے منع کریں مگر ان کی ہٹ دھرمی کے بعد ان سے مایوس ہو کر خاموش ہوگئے تھے اور اب ان پر عذاب آنے کے منتظر تھے۔ - لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَۨا اللّٰهُ مُهْلِكُهُمْ ۔۔ : یعنی کیوں ان کے سمجھانے میں وقت ضائع کرتے ہو، جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دنیا میں ہلاکت اور آخرت میں عذاب لکھ دیا ہے تو تم انھیں کیسے بچا لو گے ؟ مطلب یہ کہ خود نیکی پر قائم رہو اور انھیں ان کے حال پر چھوڑ دو ۔ - قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ ۔۔ : برائی سے منع کرنے والوں نے اپنے عمل کی دو وجہیں بیان کیں، ایک تو یہ کہ کہیں اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس جرم میں نہ پکڑ لے کہ تم نے انھیں نصیحت کرنا کیوں چھوڑ دیا تھا، تاکہ ہمارا عذر بن جائے کہ ہم تو منع کرتے رہے تھے اور دوسری یہ کہ ہم کسی صورت ناامید ہونے والے نہیں، شاید یہ سب یا ان میں سے کچھ لوگ اس عمل بد سے بچ جائیں، کیونکہ داعی کو ہمیشہ پر امید رہنا چاہیے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قَالَتْ اُمَّۃٌ مِّنْہُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَۨاۙ اللہُ مُہْلِكُہُمْ اَوْ مُعَذِّبُہُمْ عَذَابًا شَدِيْدًا۝ ٠ ۭ قَالُوْا مَعْذِرَۃً اِلٰى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّہُمْ يَتَّقُوْنَ۝ ١٦٤- الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] أي : كل نوع منها علی طریقة قد سخرها اللہ عليها بالطبع، فهي من بين ناسجة کالعنکبوت، وبانية کالسّرفة «4» ، ومدّخرة کالنمل ومعتمدة علی قوت وقته کالعصفور والحمام، إلى غير ذلک من الطبائع التي تخصص بها كل نوع . وقوله تعالی: كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً [ البقرة 213] أي : صنفا واحدا وعلی طریقة واحدة في الضلال والکفر، وقوله : وَلَوْ شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً واحِدَةً [هود 118] أي : في الإيمان، وقوله : وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ [ آل عمران 104] أي : جماعة يتخيّرون العلم والعمل الصالح يکونون أسوة لغیرهم، وقوله : إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ [ الزخرف 22] أي : علی دين مجتمع . قال : وهل يأثمن ذو أمّة وهو طائع وقوله تعالی: وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ [يوسف 45] أي : حين، وقرئ ( بعد أمه) أي : بعد نسیان . وحقیقة ذلك : بعد انقضاء أهل عصر أو أهل دين . وقوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّهِ [ النحل 120] أي : قائما مقام جماعة في عبادة الله، نحو قولهم : فلان في نفسه قبیلة . وروي :«أنه يحشر زيد بن عمرو بن نفیل أمّة وحده» وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران 113] أي : جماعة، وجعلها الزجاج هاهنا للاستقامة، وقال : تقدیره : ذو طریقة واحدة فترک الإضمار أولی.- الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں ۔ میں امم سے ہر وہ نوع حیوان مراد ہے جو فطری اور ت سخیری طور پر خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہو ۔ مثلا مکڑی جالا بنتی ہے اور سرفۃ ( مور سپید تنکوں سے ) اپنا گھر بناتی ہے اور چیونٹی ذخیرہ اندوزی میں لگی رہتی ہے اور چڑیا کبوتر وغیرہ وقتی غذا پر بھروسہ کرتے ہیں الغرض ہر نوع حیوان اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق ایک خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہے اور آیت کریمہ :۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة البقرة 213) ( پہلے تو سب ) لوگ ایک امت تھے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تما لوگ صنف واحد اور ضلالت و کفر کے ہی کے مسلک گامزن تھے اور آیت کریمہ :۔ وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة المائدة 48) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ہی شریعت پر کردیتا ۔ میں امۃ واحدۃ سے وحدۃ بحاظ ایمان مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ( سورة آل عمران 104) کے معنی یہ ہیں کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے جو علم اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرے اور دوسروں کے لئے اسوۃ بنے اور آیت کریمہ ؛۔ إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ ( سورة الزخرف 22 - 23) ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک متفقہ دین پر پایا ہے ۔ میں امۃ کے معنی دین کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہی ع (25) وھل یاثمن ذوامۃ وھوطائع ( طویل ) بھلا کوئی متدین آدمی رضا اور رغبت سے گناہ کرسکتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ ( سورة يوسف 45) میں امۃ کے معنی حین یعنی عرصہ دارز کے ہیں اور ایک قرات میں بعد امہ ( ربالھاء ) ہے یعنی نسیان کے بعد جب اسے یاد آیا ۔ اصل میں بعد امۃ کے معنی ہیں ایک دور یا کسی ایک مذہب کے متبعین کا دورگزر جانے کے بعد اور آیت کریمہ :۔ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا ( سورة النحل 120) کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم عبادت الہی میں ایک جماعت اور قوم بمنزلہ تھے ۔ جس طرح کہ محاورہ ہے ۔ فلان فی نفسہ قبیلۃ کہ فلاں بذات خود ایک قبیلہ ہے یعنی ایک قبیلہ کے قائم مقام ہے (13) وروی انہ یحشر زیدبن عمرابن نفیل امۃ وحدہ اورا یک روایت میں ہے کہ حشر کے دن زید بن عمر و بن نفیل اکیلا ہی امت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ - لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ ( سورة آل عمران 113) وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ ( حکم خدا پر ) قائم بھی ہیں ۔ میں امۃ بمعنی جماعت ہے زجاج کے نزدیک یہاں قائمۃ بمعنی استقامت ہے یعنی ذو و طریقہ واحدۃ تو یہاں مضمر متردک ہے - وعظ - الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] - ( و ع ظ ) الوعظ - کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔- هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں - لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٦٤) ایک جماعت کہنے لگی کہ ہلاک ہونے والے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو، انہوں نے کہا تاکہ تمہارے رب کے سامنے معذرت کرسکیں اور ممکن ہے کہ یہ لوگ ہفتہ کے روز مچھلیاں پکڑنے سے باز آجائیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٤ (وَاِذْ قَالَتْ اُمَّۃٌ مِّنْہُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَا نِ لا اللّٰہُ مُہْلِکُہُمْ اَوْ مُعَذِّبُہُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا ط) - دوسرے گروہ کے لوگ تیسرے گروہ کے لوگوں سے کہتے کہ تم خواہ مخواہ اپنے آپ کو ان مجرموں کے لیے ہلکان کر رہے ہو۔ اب یہ لوگ ماننے والے نہیں۔ اللہ کا عذاب اور تباہی ان کا مقدر بن چکی ہے۔- (قَالُوْا مَعْذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمْ ) - تیسرے گروہ کے لوگ جواب دیتے کہ اس طرح ہم اللہ کے سامنے عذر پیش کرسکیں گے کہ اے پروردگار ہم آخری وقت تک نافرمان لوگوں کو ان کی غلط حرکتوں سے باز رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے ‘ نہی عن المنکر کا فرض ادا کرتے رہے۔ ہم نہ صرف خود اس گناہ سے بچے رہے بلکہ ان ظالموں کو خبردار بھی کرتے رہے کہ وہ اللہ کے قانون کے سلسلے میں حد سے تجاوز نہ کریں۔- (وَلَعَلَّہُمْ یَتَّقُوْنَ ) ۔ - پھر اس بات کا امکان بھی بہرحال موجود ہے کہ ہماری نصیحت ان پر اثر کرے اور اس طرح سمجھانے بجھانے سے کسی نہ کسی کے دل کے اندر خدا خوفی کا جذبہ پیدا ہو ہی جائے۔ جیسا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا :- (لَاَنْ یَھْدِیَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلاً وَاحِدًا خَیْرٌ لَکَ مِنْ اَنْ یَکُوْنَ لَکَ حُمْرُ النَّعَمِ ) (١)- (اے علی (رض) اگر اللہ تمہارے ذریعے سے ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے تو یہ دولت تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بڑھ کر ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

82: دراصل ان لوگوں کے تین گروہ ہوگئے تھے، ایک گروہ مسلسل نافرمانی پر کمر باندھے ہوئے تھا۔ دوسرا گروہ شروع میں انہیں سمجھاتا رہا، اور جب نہ مانے تو مایوس ہو کر بیٹھ گیا۔ تیسرا گروہ مایوس ہونے کے بجائے بدستور انہیں نصیحت کرتا رہا۔ اب دوسرے گروہ نے تیسرے گروہ سے کہا جب یہ لوگ مسلسل نافرمانی پر کمر باندھے ہوئے ہیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر اﷲ تعالیٰ کا عذاب آنے والا ہے، اس لئے ان کو سمجھانا وقت ضائع کرنا ہے۔ 83: یہ تیسرے گروہ کا جواب ہے، اور بڑا عارفانہ جواب ہے۔ انہوں نے اپنی کوششیں جاری رکھنے کی دو وجہیں بیان کیں۔ ایک یہ کہ ہمارے نصیحت کرتے رہنے کا پہلا مقصد تو یہ ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ کے سامنے ہماری پیشی ہو تو ہم یہ کہہ سکیں کہ یا اللہ ہم اپنا فریضہ ادا کرتے رہے تھے، اس لئے ہم ان کے جرائم سے بری الذمہ ہیں۔ اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ ہم اب بھی یہ امید رکھتے ہیں کہ شاید کوئی اللہ کا بندہ ہماری بات سن لے، اور گناہ سے باز آجائے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کا یہ جواب خاص طور پر نقل فرماکر ہر مسلمان کو متنبہ فرمایا ہے کہ جب معاشرے میں نافرمانی کا دور دورہ ہوجائے توایک مسلمان کی ذمہ داری صرف یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچالے، بلکہ دوسروں کو راہ راست کی دعوت دینا بھی اس کی ذمہ داری ہے جس کے بغیر وہ مکمل طور پر بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔ اور دوسرا نکتہ یہ ہے کہ حق کے ایک داعی کو کبھی مایوں ہو کر نہیں بیٹھنا چاہئے،؛ بلکہ اس امید کے ساتھ اپنا پیغام پہنچاتے رہنا چاہئے کہ شاید کوئی اللہ کا بندہ بات سمجھ جائے۔