165۔ 1 یعنی واعظ و نصیحت کی انہوں نے کوئی پرواہ نہیں کی اور نافرمانی پر اڑے رہے۔ 165۔ 2 یعنی وہ ظالم بھی تھے، اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کا ارتکاب کرکے انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور انہیں جہنم کا ایندھن بنالیا اور فاسق بھی، کہ اللہ کے حکموں سے سرتابی کو انہوں نے اپنا شیوہ اور وطیرہ بنالیا
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖٓ۔۔ : یعنی جب ہفتہ کی تعظیم کا حکم انھوں نے سرے سے بھلا ہی دیا اور حیلے سے بڑھ کر علانیہ نافرمانی شروع کردی تو اللہ تعالیٰ نے برائی سے منع کرنے والوں کو عذاب سے بچا لیا اور ظلم کرنے والوں کو بہت سخت عذاب میں پکڑ لیا۔ اب بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ پہلے ان پر نافرمانی کی وجہ سے ایک عذاب بھیجا گیا، جیسا کہ یہاں ” بِعَذَابٍۢ بَىِٕيْــسٍۢ“ فرمایا ہے کہ شاید وہ باز آجائیں۔ (دیکھیے سورة سجدہ : ٢١) لیکن جب اس پر بھی باز نہ آئے تو اگلی آیت میں مذکور مسخ کی سزا دی گئی اور بعض نے فرمایا کہ ” بِعَذَابٍۢ بَىِٕيْــسٍۢ“ سے مراد یہی مسخ ہے، لیکن (وَاَخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا) کے بعد دوبارہ (فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُهُوْا) سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلا عذاب تنبیہ کے لیے تھا، پھر بھی جب وہ متنبہ نہ ہوئے، بلکہ سرکشی اختیار کی تو ان سرکشوں کو بندر بنادیا گیا۔ واللہ اعلم - وَاَخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے برائی سے منع کرنے والوں کی نجات اور ظلم کرنے والوں کو سخت عذاب، مثلاً قحط یا بیماری وغیرہ میں پکڑنے کا ذکر کیا ہے اور اس سے اگلی آیت میں سرکشی کرنے والوں کی شکلیں بدل کر بندر بنا دینے کا ذکر فرمایا ہے۔ تیسرے گروہ کا واضح ذکر نہیں فرمایا کہ ان کا کیا بنا۔ اکثر مفسرین کا کہنا یہی ہے کہ صرف اس جرم کا مسلسل ارتکاب کرنے والے ہی عذاب میں گرفتار ہوئے، جیسا کہ ” بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ “ کے استمرار سے معلوم ہوتا ہے کہ باقی دونوں گروہ بچ گئے۔ بعض کا کہنا ہے کہ وہ بھی برائی سے منع نہ کرنے کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوگئے۔ بعض کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کے انجام سے خاموشی اختیار فرمائی تو ہمیں بھی خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔ مگر حافظ ابن کثیر اور اکثر مفسرین نے ان کے بچ جانے ہی کو ترجیح دی ہے، کیونکہ یہ لوگ سرکشی اختیار کرنے والے ہرگز نہ تھے، بلکہ جیسا کہ اسی آیت کے حاشیہ ( ١) میں ذکر ہوا ہے، یہ لوگ اس برائی سے نفرت رکھنے والے تھے اور عین ممکن ہے کہ منع کرنے کے بعد تھک کر ان پر عذاب کے منتظر ہوں، مگر ان پر لازم تھا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جاری رکھتے۔ - ابوبکر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا : ” کوئی بھی قوم جس میں اللہ کی نافرمانیوں پر عمل ہوتا ہو، پھر وہ اسے بدلنے کی طاقت رکھتے ہوں، پھر نہ بدلیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنی طرف سے عذاب بھیج دے۔ “ - [ أبو داوٗد، الملاحم، باب الأمر والنھی : ٤٣٣٨۔ ترمذی : ٣٠٥٧، و قال الألبانی صحیح ]- راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ پہلے ان پر ” بِعَذَابٍۢ بَىِٕيْــسٍۢ“ آیا، جو قحط یا بیماری یا خوف وغیرہ کی شکل میں تھا، اس میں شکار کرنے والے اور اس پر خاموش رہنے والے دونوں گرفتار ہوئے، کیونکہ برائی پر خاموش رہنا بھی ایک قسم کا ظلم تھا مگر جب بندر بنانے کا عذاب آیا تو یہ صرف ان پر آیا جو اس سرکشی کے مرتکب تھے اور اب کھلم کھلا بلاجھجک یہ کام کر رہے تھے۔ [ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ وَ عِلْمُہُ أَتَمُّ ]- قرآن کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ ان کی شکلیں بدل کر بندر کی بنادی گئیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان میں صرف بندروں کی خصلتیں پیدا کردی گئیں، مگر اس تاویل کی ضرورت تب ہے جب اللہ تعالیٰ کا انھیں بندر بنانا ممکن نہ ہو، یا پہلے ان کی خصلتیں انسانوں والی ہوں اور اب بندروں والی بنادی گئی ہوں، جبکہ ان کے تمام حیلے ایسے تھے جو سلیم الفطرت انسان کر ہی نہیں سکتا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ جب کسی شے کو مسخ کرے (شکل بدل دے) تو نہ اس کے پیچھے رہنے والا کوئی ہوتا ہے اور نہ اس کی نسل ہوتی ہے۔ “ [ المعجم الکبیر : ٧٤٦، و صححہ الألبانی فی صحیح الجامع : ٥٦٧٣، عن أم سلمۃ۔۔ مسلم : ٢٦٦٣ ]
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِہٖٓ اَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ يَنْہَوْنَ عَنِ السُّوْۗءِ وَاَخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍؚ بَىِٕيْــسٍؚبِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ ١٦٥- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- نسی - النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] - ( ن س ی ) النسیان - یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا - نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔- ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] - ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ - بؤس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ : الشدة والمکروه، إلا أنّ البؤس في الفقر والحرب أكثر، والبأس والبأساء في النکاية، نحو : وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا [ النساء 84] ، فَأَخَذْناهُمْ بِالْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ [ الأنعام 42] ، وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ [ البقرة 177] ، وقال تعالی: بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، وقد بَؤُسَ يَبْؤُسُ ، وبِعَذابٍ بَئِيسٍ [ الأعراف 165] ، فعیل من البأس أو من البؤس، فَلا تَبْتَئِسْ [هود 36] ، أي : لا تلزم البؤس ولا تحزن،- ( ب ء س) البؤس والباس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ ۔ تینوں میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں مگر بؤس کا لفظ زیادہ تر فقرو فاقہ اور لڑائی کی سختی پر بولاجاتا ہے اور الباس والباساء ۔ بمعنی نکایہ ( یعنی جسمانی زخم اور نقصان کیلئے آتا ہے قرآن میں ہے وَاللهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا ( سورة النساء 84) اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ ( سورة الأَنعام 42) پھر ( ان کی نافرمانیوں کے سبب ) ہم انہیوں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ( سورة البقرة 177) اور سختی اور تکلیف میں اور ( معرکہ ) کا رزا ر کے وقت ثابت قدم رہیں ۔۔ بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ( سورة الحشر 14) ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ بؤس یبوس ( باشا) بہادر اور مضبوط ہونا ۔ اور آیت کریمہ ۔ بِعَذَابٍ بَئِيسٍ ( سورة الأَعراف 165) بروزن فعیل ہے اور یہ باس یابوس سے مشتق ہے یعنی سخت عذاب میں اور آیت کریمہ ؛۔ فَلَا تَبْتَئِسْ ( سورة هود 36) کے معنی یہ ہیں کہ غمگین اور رنجیدہ رہنے کے عادی نہ بن جاؤ۔
(١٦٥) غرض کہ ان لوگوں کی تین جماعتیں تھیں، ایک جماعت تو خود بھی شکار کرتی تھی اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دیتی تھی، اور دوسری جماعت نہ خود شکار کرتی تھی اور نہ ہی لوگوں کو اس سے روکتی تھی، تیسر جماعت خود بھی شکار نہیں کرتی تھی، اور دوسرے لوگوں کو بھی اس سے منع کرتی تھی چناچہ پہلی شکاری جماعت کی شکلیں مسخ کردی گئیں اور بعد والی دونوں جماعتیں عذاب الہی سے بچ گئیں۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :125 اس بیان سے معلوم ہوا کہ اس بستی میں تین قسم کے لوگ موجود تھے ۔ ایک وہ جو دھڑلے سے احکام الہٰی کی خلاف ورزی کر رہے تھے ۔ دوسرے وہ جو خود تو خلاف ورزی نہیں کر تے تھے مگر اس خلاف ورزی کو خاموشی کے ساتھ بیٹھے دیکھ رہے تھے اور ناصحوں سے کہتے تھے کہ ان کم بختوں کو نصیحت کرنے سے کیا حاصل ہے ۔ تیسرے وہ جن کی غیرت ایمانی حدود اللہ کی اس کھلم کھلا بے حرمتی کو برداشت نہ کر سکتی تھی اور وہ اس خیال سے نیکی کا حکم کرنے اور بدی سے روکنے میں سرگرم تھے کہ شاید وہ مجرم لوگ ان کی نصیحت سے راہ راست پر آجائیں اور اگر وہ راہ راست نہ اختیار کریں تب بھی ہم اپنی حد تک تو اپنا فرض ادا کر کے خدا کے سامنے اپنی براءت کا ثبوت پیش کر ہی دیں ۔ اس صورت حال میں جب اس بستی پر اللہ کا عذاب آیا تو قرآن مجید کہتا ہے کہ ان تینوں گروہوں میں سے صرف تیسرا گروہ ہی اس سے بچایا گیا کیونکہ اسی نے خدا کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کی فکر کی تھی اور وہی تھا جس نے اپنی براءت کا ثبوت فراہم کر رکھا تھا ۔ باقی دونوں گروہوں کا شمار ظالموں میں ہوا اور وہ اپنے جرم کی حد تک مبتلائے عذاب ہوئے ۔ بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے گروہ کے مبتلائے عذاب ہونے کی اور تیسرے گروہ کے نجات پانے کی تصریح کی ہے ، لیکن دوسرے گروہ کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہے لہٰذا اس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ نجات پانے والوں میں سے تھا یا مبتلائے عذاب ہونے والوں میں سے ۔ پھر ایک روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ مروی ہے کہ وہ پہلے اس بات کے قائل تھے کہ دوسرا گروہ مبتلائے عذاب ہونے والوں میں سے تھا ، بعد میں ان کے شاگرد عکرِمہ نے ان کو مطمئن کر دیا کہ دوسرا گروہ نجات پانے والوں میں شامل تھا ۔ لیکن قرآن کے بیان پر جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس کا پہلا خیال ہی صحیح تھا ۔ ظاہر ہے کہ کسی بستی پر خدا کا عذاب آنے کی صورت میں تمام بستی دو ہی گروہوں میں تقسیم ہو سکتی ہے ، ایک وہ جو عذاب میں مبتلا ہو اور دوسرا وہ جو بچا لیا جائے ۔ اب اگر قرآن کی تصریح کے مطابق بچنے والا گروہ صرف تیسرا تھا ، تو لا محالہ پہلے اور دوسرے دونوں گروہ نہ بچنے والوں میں شامل ہوں گے ۔ اسی کی تائید مَعْذِرَةً اِلٰی رَبِّکُمْ کے فقرے سے بھی ہوتی ہے جس کی توثیق بعد کے فقرے میں خود اللہ تعالیٰ نے فرمادی ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جس بستی میں علانیہ احکام الہٰی کی خلاف ورزی ہو رہی ہو وہ ساری کی ساری قابل مواخذہ ہوتی ہے اور اس کا کوئی باشندہ محض اس بنا پر مواخذہ سے بری نہیں ہو سکتا کہ اس نے خود خلاف ورزی نہیں کی ، بلکہ اسے خدا کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنے کےلیے لازماً اس بات کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا کہ وہ اپنی حد استطاعت تک اصلاح اور اقامت حق کی کوشش کرتا رہا تھا ۔ پھر قرآن اور حدیث کے دوسرے ارشادات سے بھی ہم کو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی جرائم کے باب میں اللہ کا قانون یہی ہے ۔ چنانچہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ وَاتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ ا لَّذَینَ ظَلَمُوْ ا مِنْکُمْ خَآصَّةً ( ڈرو اس فتنہ سے جس کے وبال میں خصوصیت کے ساتھ صرف وہی لوگ گرفتار نہیں ہوں گے جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہو ) ۔ اور اس کی تشریح میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ان اللہ لا یعذب العامة بعمل الخاصة حتٰی یرو االمنکربین ظھرانیھم وھم قادرون علیٰ ان ینکروہ فلا ینکروہ فاذا فعلوا ذٰلک عذب اللہ الخاصة و العامة ، یعنی ”اللہ عزوجل خاص لوگوں کے جرائم پر عام لوگوں کو سزا نہیں دیتا جب تک عامتہ الناس کی یہ حالت نہ ہو جائے کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے برے کام ہوتے دیکھیں اور وہ ان کاموں کے خلاف اظہار ناراضی کرنے پر قادر ہوں اور پھر کوئی اظہار ناراضی نہ کریں ۔ پس جب لوگوں کا یہ حال ہوجاتا ہے تو اللہ خاص و عام سب کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے“ ۔ مزید برآں جو آیات اس وقت ہمارے پیش نظر ہیں ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس بستی پر خدا کا عذاب دو قسطوں میں نازل ہوا تھا ۔ پہلی قسط وہ جسے عذاب بئیس ( سخت عذاب ) فرمایا گیا ہے ، اور دوسری قسط وہ جس میں نافرمانی پر اصرار کرنے والوں کو بندر بنا دیا گیا ۔ ہم ایسا سمجھتے ہیں کہ پہلی قسط کے عذاب میں پہلے دونوں گروہ شامل تھے ، اور دوسری قسط کا عذاب صرف پہلے گروہ کو دیا گیا تھا ، و اللہ اعلم بالصواب ۔ ان اصبتُ فمن اللہ وان اخطَئْتُ فمن نفسی ، واللہ غفورٌ رحیم ۔