166۔ 1 عَتَوا کے معنی ہیں جنہوں نے اللہ کی نافرمانی میں حد سے تجاوز کیا۔ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ نجات پانے والے صرف وہی تھے، جو منع کرتے تھے اور باقی دونوں عذاب الٰہی کی زد میں آئے ؟ یا زد میں آنے والے صرف معصیت کار تھے ؟ باقی دو جماعتیں نجات پانے والی تھیں ؟ امام ابن کثیر نے دوسری رائے کو ترجیح دی ہے۔
فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُہُوْا عَنْہُ قُلْنَا لَہُمْ كُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِـِٕـيْنَ ١٦٦- عتو - العُتُوُّ : النبوّ عن الطاعة، يقال : عَتَا يَعْتُو عُتُوّاً وعِتِيّاً. قال تعالی: وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيراً [ الفرقان 21] ، فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ [ الذاریات 44] ، عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّها[ الطلاق 8] ، بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک 21] ، مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا[ مریم 8] ، أي : حالة لا سبیل إلى إصلاحها ومداواتها . وقیل :إلى رياضة، وهي الحالة المشار إليها بقول الشاعر : 310 ۔ ومن العناء رياضة الهرم وقوله تعالی: أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمنِ عِتِيًّا[ مریم 69] ، قيل : العِتِيُّ هاهنا مصدرٌ ، وقیل هو جمعُ عَاتٍ وقیل : العَاتِي : الجاسي .- ( ع ت و ) عتا - ۔ یعتوا ۔ عتوا ۔ عتیا ۔ حکم عدولی کرنا قرآن میں ہے : فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ [ الذاریات 44] تو انہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے سر کشی کی ۔ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيراً [ الفرقان 21] اور اسی بنا پر بڑے سر کش ہورہے ہیں ، عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّها[ الطلاق 8] اپنے پروردگار کے امر سے سر کشی کی ۔ بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک 21] لیکن یہ سر کشی اور نفرت میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا[ مریم 8] کے معنی یہ ہیں کہ میں بڑھاپے کی ایسی حالت تک پہنچ گیا ہوں جہاں اصلاح اور مداوا کی کوئی سبیل نہیں رہتی یا عمر کے اس وجہ میں ریا ضۃ بھی بیکار ہوتی ہے اور لفظ ریا ضت سے وہی معنی مراد ہیں جن کی طرف شاعر نے اشارہ کیا ہے ( الکامل ) ( 302 ) امن العناء ریاضۃ الھرم اور انتہائی بڑھاپے میں ریاضت دینا سراسر تکلیف وہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمنِ عِتِيًّا[ مریم 69] جو خدا سے سخت سر کشی کرتے تھے میں بعض نے کہا ہے کہ عتیا مصدر بعض نے کہا ہے کہ عات کی جمع ہے اور العانی کے معنی سنگ دل اور اجڈ بھی آتے ہیں ۔- قرد - القِرْدُ جمعه قِرَدَةٌ. قال تعالی: كُونُوا قِرَدَةً خاسِئِينَ [ البقرة 65] ، وقال : وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنازِيرَ [ المائدة 60] ، قيل : جعل صورهم المشاهدة کصور القردة . وقیل : بل جعل أخلاقهم كأخلاقها وإن لم تکن صورتهم کصورتها . والقُرَادُ جمعه : قِرْدَانٌ ، والصّوف القَرِدُ : المتداخل بعضه في بعض، ومنه قيل : سحاب قَرِدٌ ، أي : متلبّد، وأَقْرَدَ ، أي : لصق بالأرض لصوق القراد، وقَرَدَ : سکن سکونه، وقَرَّدْتُ البعیر : أزلت قراده، نحو : قذّيت ومرّضت، ويستعار ذلک للمداراة المتوصّل بها إلى خدیعة، فيقال : فلان يُقَرِّدُ فلانا، وسمّي حلمة الثّدي قرادا کما تسمّى حلمة تشبيها بها في الهيئة .- ( ق ر د ) القردۃ بندر اس کی جمع قرود وقردۃ ہے اور آیات کریمہ : ۔ كُونُوا قِرَدَةً خاسِئِينَ [ البقرة 65] ذلیل و خوار بندر ہوجاؤ ۔ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنازِيرَ [ المائدة 60] اور جن کو ان میں سے بندر ۔۔۔۔ بنا دیا ۔ کو بعض نے ظاہر ی معنی پر حمل کیا ہے یعنی انہیں سچ مچ بندر بنا دیا گیا تھا بعض نے کہا ہے کہ انکے اخلاق واطور بندروں ایسے ہوگئے تھے ۔ نہ کہ وہ سچ مچ بندر بنا دیئے گئے تھے ۔ القراد چیچڑی ۔ جمع قردان ۔ صرف قرد الجھی ہوئی اون ( جو کاتی نہ جاسکے ) اسی سے تہ بر تہ چھائے ہوئے بادل کو سحاب قردۃُ کہا جاتا ہے ۔ اقر د چیچڑی کی طرح زمین کے ساتھ چمٹ جانا قرد چیچڑی کی طرح ساکن ہوجانا اور قر دت الابل کے معنی اونٹ سے چیچڑ دور کرنے کے ہیں مخذ جیسے قذبت ومرضت کا محاورہ ہے اور استعار کے طور پر قرد کے معنی چاپلوسی کے ذریعہ کیس کو دھوکا دینا بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ فلاں مدارات سے اسے فریب دے رہا ہے اور پستان کے سر سے کو قراد کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی شکلی بھی چیچڑی جیسی ہوتی ہے ۔- خسأ - خَسَأْتُ الکلب فَخَسَأَ ، أي : زجرته مستهينا به فانزجر، وذلک إذا قلت له : اخْسَأْ ، قال تعالیٰ في صفة الكفّار : اخْسَؤُا فِيها وَلا تُكَلِّمُونِ [ المؤمنون 108] ، وقال تعالی: قُلْنا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خاسِئِينَ [ البقرة 65] ، ومنه : خَسَأَ البَصَرُ ، أي انقبض عن مهانة، قال : خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک 4] .- ( خ س ء ) خسات الکلب فخساء میں نے کہتے کو دھکتارا تو وہ دور ہوگیا ۔ اور کسی کو دھکتارنے کیے لئے عربی میں اخساء کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں کفار کے متعلق فرمایا ۔ اخْسَؤُا فِيها وَلا تُكَلِّمُونِ [ المؤمنون 108] اس میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو ۔ قُلْنا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خاسِئِينَ [ البقرة 65] تو ہم نے ان سے کہا ک ذلیل و خوار بند ر ہوجاؤ ۔ اسی سے خساء البصر کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں نظر درماندہ ہوکر منقبض ہوگئی ۔ قرآن میں ہے :۔ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک 4] . کہ وہ نظر درماندہ اور تھک کر لوٹ آئے گے ۔
(١٦٦) جو ہفتہ کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کرتے تھے ان کو بچالیا اور مچھلیاں پکڑنے والوں کو سخت عذاب میں گرفتار کردیا اور ان کو کہہ دیا گیا کہ تم بندر ذلیل بن جاؤ۔
آیت ١٦٦ (فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُہُوْا عَنْہُ قُلْنَا لَہُمْ کُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِءِیْنَ ) - آخر کار ان پر عذاب اس صورت میں آیا کہ ان کی انسانی شکلیں مسخ کر کے انہیں بندر بنا دیا گیا اور پھر انہیں ہلاک کردیا گیا۔ یہ اس واقعہ کی تفصیل ہے جس کا اجمالی ذکر سورة البقرۃ اور سورة المائدۃ میں بھی آچکا ہے۔- بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ عذاب ان گروہوں میں سے صرف اس گروہ پر آیا تھا جو گناہ میں براہ راست ملوث تھا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نہی عن المنکر کرنے والے لوگوں کے بارے میں واضح طور پر بتادیا گیا : (اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْہَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ ) کہ ہم نے ان کو بچالیا جو بدی سے روک رہے تھے اور جو گناہگار تھے ان کے بارے میں بھی صراحت سے بتادیا گیا : (وَاَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍم بَءِیْسٍم) کہ ہم نے پکڑ لیا ان لوگوں کو جو گناہ میں ملوث تھے ایک بہت ہی برے عذاب میں۔ جب کہ تیسرے گروہ کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہے۔ اس طرح ان لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر کوئی شخص براہ راست کسی گناہ کا ارتکاب کرنے سے بچا رہتا ہے تو فریضہ نہی عن المنکر میں کوتاہی ہونے کی صورت میں بھی وہ دنیا میں اس گناہ کی پاداش میں آنے والے عذاب سے بچ جائے گا۔ یہ نظریہ در اصل بہت بڑی غلط فہمی پر مبنی ہے اور اس کے پیچھے وہ انسانی نفسیات کار فرما ہے جس کے تحت انسان ذمہ داری سے فرار چاہتا ہے اور پھر اس کے لیے دلیلیں ڈھونڈتا اور بہانے تراشتا ہے۔ اسی طرح کی بات کا تذکرہ سورة المائدۃ کی آیت ١٠٥ کی تشریح کے ضمن میں بھی ہوچکا ہے۔ اس آیت کے حوالے سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو خصوصی خطبہ ارشاد فرمانا پڑا تھا کہ لوگو تم (عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْج لاَ یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ ط) کا بالکل غلط مفہوم سمجھ رہے ہو۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ دعوت و تبلیغ ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تمہاری ذمہ داری نہیں ہے ‘ بلکہ اس کا تو یہ مطلب ہے کہ تم اس سلسلے میں اپنی پوری کوشش کرو ‘ اپنا فرض ادا کرو ‘ لیکن اس کے باوجود بھی اگر لوگ کفر یا گناہ پر اڑے رہیں تو پھر ان کا وبال تم پر نہیں ہوگا۔- یہاں اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ نہی عن المنکر نص قرآنی کے مطابق فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس ماحول میں اللہ تعالیٰ کے کسی واضح حکم کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہو تو ان حالات میں گناہ کا ارتکاب کرنے والوں کو نہ روکنا ‘ نہی عن المنکر کا فرض ادانہ کرنا ‘ بذات خود ایک جرم ہے۔ لہٰذا اس واقعہ میں اَلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا کے زمرے میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اگرچہ براہ راست تو گناہ میں ملوث نہیں تھے ‘ لیکن مجرموں کو گناہ کرتے ہوئے دیکھ کر خاموش تھے۔ اس طرح یہ لوگ اللہ کی نافرمانی سے لوگوں کو نہ روکنے کے جرم کے مرتکب ہو رہے تھے۔ اس ضمن میں نص قطعی کے طور پر ایک حدیث قدسی بھی موجود ہے اور ایک بہت واضح قرآنی حکم بھی۔ پہلے حدیث ملاحظہ فرمائیں ‘ یہ حدیث مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے مرتب کردہ خطبات جمعہ میں شامل کی ہے۔ حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- (اَوْحَی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِلٰی جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ اَنِ اقْلِبْ مَدِیْنَۃَ کَذَا وَکَذَا بِاَھْلِھَا۔ قَالَ : یَا رَبِّ اِنَّ فِیْھِمْ عَبْدَکَ فُلاَناً لَمْ یَعْصِکَ طَرْفَۃَ عَیْنٍ ) قَالَ : (فَقَالَ : اِقْلِبْھَا عَلَیْہِ وَ عَلَیْہِمْ ‘ فَاِنَّ وَجْھَہٗ لَمْ یَتََمَعَّرْ فِیَّ سَاعَۃً قَطُّ ) (١)- اللہ تعالیٰ نے جبرائیل ( علیہ السلام) کو وحی کی کہ فلاں فلاں شہر کو اس کے باسیوں پر الٹ دو ۔ جبرائیل ( علیہ السلام) نے عرض کیا کہ پروردگار ‘ اس میں تو تیرا فلاں بندہ بھی ہے جس نے کبھی پلک جھپکنے کی دیر بھی تیری معصیت میں نہیں گزاری۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اس پر) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ الٹو اس بستی کو پہلے اس پر اور پھر دوسروں پر ‘ اس لیے کہ اس کے چہرے کا رنگ کبھی ایک لمحے کے لیے بھی میری غیرت کی وجہ سے متغیر نہیں ہوا۔ - یعنی اس کے سامنے میرے احکام پامال ہوتے رہے ‘ شریعت کی دھجیاں بکھرتی رہیں اور یہ اپنی ذاتی پرہیزگاری کو سنبھال کر ذکر اذکار ‘ نوافل اور مراقبوں میں مصروف رہا۔ یہ دوسروں سے بڑھ کر مجرم ہے - اب اس سلسلے میں نص قرآنی کے طور پر سورة الانفال کی آیت ٢٥ کا یہ واضح حکم بھی ملاحظہ کرلیجئے : (وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ج) اور ڈرو اس فتنہ (عذاب) سے جو خصوصیت کے ساتھ انہی لوگوں پر واقع نہیں ہوگا جو تم میں سے گنہگار ہیں۔ یعنی جب کسی قوم میں بحیثیت مجموعی منکرات پھیل جائیں اور اس وجہ سے ان کے لیے اس دنیا میں کسی اجتماعی سزا کا فیصلہ ہوجائے تو پھر ایسی سزا کی لپیٹ میں صرف گنہگار لوگ ہی نہیں آئیں گے۔ اس لحاظ سے یہ بہت تشویش ناک بات ہے۔ مگر آیت زیر مطالعہ میں (اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْہَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ ) کے الفاظ میں امید دلائی گئی ہے کہ جو لوگ اپنی استطاعت کے مطابق ‘ آخری وقت تک امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے رہیں گے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے انہیں بچا لے گا۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :126 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ ، حاشیہ نمبر۸۳ ۔
84: اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی صورتیں مسخ کرکے انہیں واقعی بندر بنادیا گیا، ہمارے دور کے بعض لوگ اس قسم کی باتوں پر یقین کرنے کے بجائے قرآن کریم میں تاویلات بلکہ تحریفات کا دروازہ کھول دیتے ہیں، عجیب بات یہ ہے کہ جب ڈارون کسی قطعی دلیل کے بغیر یہ کہے کہ بندر ترقی کرکے انسان بن گیا تھا تو اسے ماننے میں انہیں تامل نہیں ہوتا ؛ لیکن جب اللہ تعالیٰ اپنے قطعی کلام میں یہ فرمائیں کہ انسان تنزل کرکے بندر بن گیا تو یہ حضرات شرما کر اس کی تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔