Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا انجام ذلت و رسوائی اللہ تعالیٰ نے یہود کو اطلاع کر دی کہ ان کی اس سخت نافرمانی و بار بار کی بغاوت اور ہر موقعہ پر نافرمانی ، رب سے سرکشی اور اللہ کے حرام کو اپنے کام میں لانے کیلئے حیلہ جوئی کر کے اسے حلال کی جامہ پوشی کا بدلہ یہ ہے کہ قیامت تک تم دبے رہو ذلت میں رہو لوگ تمہیں پست کرتے چلے جائیں ۔ خود حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی ان پر تاوان مقرر کر دیا تھا سات سال یا تیرہ سال تک یہ اسے ادا کرتے رہے ، سب سے پہلے خراج کا طریقہ آپ نے ہی ایجاد کیا پھر ان پر یونانیوں کی حکومت ہوئی پھر کسرانیوں کلدانیوں اور نصرانیوں کی ۔ سب کے زمانے میں ذلیل اور حقیر رہے ان سے جزیہ لیا جاتا رہا اور انہیں پستی سے ابھرنے کا کوئی موقعہ نہ ملا ۔ پھر اسلام آیا اور اس نے بھی انہیں پست کیا جزیہ اور خراج برابر ان سے وصول ہوتا رہا ۔ غرض یہ ذلیل رہے اس امت کے ہاتھوں بھی حقارت کے گڑھے میں گرے رہے ۔ بالآخر یہ دجال کے سات مل جائیں گے لیکن مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جا کر ان کی تخم ریزی کر دیں گے ، جو بھی شریعت الہ کی مخالفت کرتا ہے ، اللہ کے فرمان کی تحقیر کرتا ہے اللہ اسے جلدی ہی سزا دے دیتا ہے ۔ ہاں جو اس کی طرف رغبت و رجوع کرے ، توبہ کرے ، جھکے تو وہ بھی اس کے ساتھ بخشش و رحمت سے پیش آتا ہے چونکہ ایمان نام ہے خوف اور امید کا اسی لئے یہاں اور اکثر جگہ عذاب و ثواب ، پکڑ دکڑ اور بخشش اور لالچ دونوں کا ایک ساتھ بیان ہوا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

167۔ 1 یعنی وہ وقت بھی یاد کرو جب آپ کے رب نے ان یہودیوں کو اچھی طرح باخبر کردیا یا جتلایا تھا، یعنی قسم کھا کر نہایت تاکید کے ساتھ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ وہ ان پر قیامت تک ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو سخت عذاب میں مبتلا رکھیں گے، چناچہ یہودیوں کی پوری تاریخ اس ذلت و مسکنت اور غلامی و محکومی کی تاریخ ہے جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دی ہے۔ اسرائیل کی موجودہ حکومت قرآن کی بیان کردہ اس حقیقت کے خلاف نہیں ہے اس لئے کہ وہ قرآن ہی کے بیان کردہ استثنا وَ حَبْلٍ مِنَا النَّاسِ کی مظہر ہے جو قرآنی حقیقت کے خلاف نہیں بلکہ اس کی موید ہے۔ (تفصیل دیکھئے آل عمران۔ 112 کا حاشیہ) 167۔ 2 یعنی اگر ان میں سے کوئی توبہ کرکے مسلمان ہوجائے تو وہ ذلت و رسوائی سے بچ جائے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦٩] یہود کی ذلت و مسکنت کی تاریخی داستان :۔ تاذن کا عربی میں وہی مفہوم ہے جو ہمارے ہاں نوٹس دینے کا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے یہود کو خبردار کردیا تھا کہ اگر تم اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو تم پر تا قیامت ایسے حکمران مسلط کر دے گا جو انہیں طرح طرح کے دکھ پہنچاتے رہیں گے۔ ان دکھوں سے مراد ان کی محکومانہ زندگی ہے چناچہ یہود کبھی یونانی اور کلدانی بادشاہوں کے محکوم بنے رہے کبھی بخت نصر کے شدائد کا نشانہ بنے جس نے بیت المقدس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ان یہود کی کثیر تعداد کو غلام بنا کر اپنے ساتھ بابل لے گیا۔ پھر یہ لوگ دور نبوی سے پہلے مجوسیوں کے باج گزار رہے۔ پھر اللہ نے مسلمان حکمرانوں کو ان پر مسلط فرما دیا۔ غرض مالدار قوم ہونے کے باوجود انہیں کہیں بھی عزت کی زندگی نصیب نہ ہوسکی اور ہمیشہ محکوم بن کر ذلت کی زندگی گزارتے رہے اور اس بیسویں صدی کے اوائل میں ہٹلر کے ہاتھوں بری طرح پٹے اور اس نے لاکھوں یہودیوں کو بےدریغ قتل کردیا۔ اس بیسویں صدی ہی کے وسط میں چند حکومتوں کے سہارے تھوڑے سے علاقہ پر اپنی حکومت بنائی ہے۔ مگر امن پھر بھی نصیب نہیں اور قیامت کے قریب جب دجال کا ظہور ہوگا تو یہ اس کے مددگار ہوں گے پھر سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے مسلمان رفقاء کے ہاتھوں سب کے سب تہہ تیغ کردیئے جائیں گے۔ جیسا کہ بیشمار احادیث صحیحہ سے واضح ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ ۔۔ : گزشتہ آیات میں یہود کی آسانی اور سختی کے ساتھ آزمائشوں اور ان کے بعض نیک و بد اعمال کا ذکر فرمایا، اب اس آیت میں بتایا کہ قیامت تک ان پر ایسے لوگ مسلط کیے جاتے رہیں گے جو انھیں بدترین عذاب چکھاتے رہیں گے۔ سورة آل عمران (١١٢) میں فرمایا کہ ان پر ذلت مسلط کردی گئی مگر اللہ کی پناہ اور لوگوں کی پناہ کے ساتھ۔ دیکھیے آیت مذکورہ کی تفسیر۔ یہودیوں کی پوری تاریخ اس حقیقت کی زندہ شہادت ہے، وہ ہر زمانے میں جہاں بھی رہے دوسروں کے محکوم اور غلام بن کر رہے اور آئے دن ان پر ایسے حکمران مسلط ہوتے رہے جنھوں نے انھیں ظلم و ستم کا تختۂ مشق بنایا۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٤ تا ٨) قریب زمانے میں ہٹلر نے ان سے جو سلوک کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، اگر کسی جگہ عارضی طور پر انھیں امن و امان نصیب ہوا بھی اور ان کی برائے نام حکومت قائم ہوئی بھی تو وہ اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ سراسر دوسروں کے سہارے پر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور وہ وقت یاد کرنا چاہئے کہ جب آپ کے رب نے ( انبیاء بنی اسرائیل کی معرفت) یہ بات بتلا دی کہ وہ ان یہود پر ( ان کی گستاخیوں اور نافرمانیوں کی سزا میں) قیامت ( کے قریب) تک ایسے ( کسی نہ کسی) شخص کو ضرور مسلط کرتا رہے گا جو ان کو سزائے شدید ( ذلت و خواری و محکومیت) کی تکلیف پہنچاتا رہے گا (چنانچہ مدت سے یہودی کسی نہ کسی سلطنت کے محکوم و مقہور ہی چلے آتے ہیں) بلا شبہ آپ کا رب واقعی ( جب چاہے) جلدی ہی سزادے دیتا ہے اور بلاشبہ وہ واقعی ( اگر باز آجاوے تو) بڑی مغفرت اور بڑی رحمت والا ( بھی) ہے اور ہم نے دنیا میں ان کی متفرق جماعتیں کردیں ( چنانچہ) بعضے ان میں نیک ( بھی) تھے اور بعضے ان میں اور طرح کے تھے ( یعنی بد تھے) اور ہم ( نے ان بدوں کو بھی اپنی عنایت اور تربیت و اصلاح کے اسباب جمع کرنے سے کبھی مہمل نہیں چھوڑا بلکہ ہمیشہ) ان کو خوش حالیوں ( یعنی صحت و غنا) اور بد حالیوں ( یعنی بیماری و فقر) سے آزماتے رہے کہ شاید ( اسی سے) باز آجائیں ( کیونکہ گاہے حسنات سے ترغیب ہوجاتی ہے اور گاہے سیئات سے ترہیب ہوجاتی ہے، یہ حال تو ان کے سلف کا ہوا) پھر ( سلف) کے بعد ایسے لوگ ان کے جا نشین ہوئے کہ کتاب ( یعنی تورات) کو ( تو) ان سے حاصل کیا ( لیکن اس کے ساتھ ہی حرام خور ایسے ہیں کہ احکام کتاب کے عوض میں) اس دنیائے دنی کا مال متاع ( اگر ملے تو بےتکلف اس کو) لے لیتے ہیں (اور بیباک ایسے ہیں کہ اس گناہ کو حقیر سمجھ کر) کہتے ہیں کہ ہماری ضرور مغفرت ہوجاوے گی ( کیونکہ ہم ابناء اللہ و احبآء اللہ ہیں ایسے گناہ ہماری مقبو لیت کے روبرو کیا چیز ہیں) حالانکہ ( اپنی بیباکی اور اسخفاف معصیت پر مصر ہیں حتی کہ) اگر ان کے پاس ( پھر) ویسا ہی ( دین فروشی کے عوض) مال متاع آنے لگے تو ( اسی بیباکی کے ساتھ پھر) اس کو لے لیتے ہیں ( اور استخفاف معصیت کا خود کفر ہے، جس پر مغفرت کا احتمال بھی نہیں، تا بہ یقین چہ رسد، چناچہ آگے یہی ارشاد ہے کہ) کیا ان سے اس کتاب کے اس مضمون کا عہد نہیں لیا گیا کہ خدا کی طرف بجز حق ( اور واقعی) بات کے اور کسی بات کی نسبت نہ کریں ( مطلب یہ ہے کہ جب کسی آسمانی کتاب کو مانا جاتا ہے تو اس کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ ہم اس کے سب مضامین مانیں گے) اور ( عہد بھی کوئی اجمالی عہد نہیں لیا گیا جس میں احتمال ہو کہ شاید اس مضمون خاص کا اس کتاب میں ہونا ان کو معلوم نہ ہوگا بلکہ تفصیلی عہد لیا گیا چنانچہ) انہوں نے اس کتاب میں جو کچھ ( لکھا) تھا اس کو پڑھ ( بھی) لیا ( جس سے وہ احتمال بھی جاتا رہا پھر بھی یہ ایسی بڑی بات کا دعوی کرتے ہیں کہ باوجود استخفاف معصیت کے مغفرت کا اعتقاد کئے ہوئے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ پر محض تہمت ہے) اور ( انہوں نے یہ سب قصہ دنیا کے لئے کیا، باقی) آخرت والا گھر ان لوگوں کے لئے ( اس دنیا سے) بہتر ہے جو ( ان عقائد و اعمال قبیحہ سے) پرہیز رکھتے ہیں پھر کیا ( اے یہود) تم ( اس بات کو) نہیں سمجھتے۔ - معارف و مسائل :- آیات مذکورہ سے پہلی آیات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بقیہ قصہ ذکر کرنے کے بعد ان کی امت ( یہود) کے غلط کار لوگوں کی مزمت اور ان کے انجام بد کا بیان آیا ہے، ان آیتوں میں بھی ان کی سزا اور برے انجام کا ذکر ہے۔ پہلی آیت میں ان کی دو سزاؤں کا بیان ہے جو دنیا ہی میں ان پر مسلط کردی گئی ہیں۔ اول یہ کہ قیامت تک اللہ تعالیٰ ان پر کسی ایسے شخص کو ضرور مسلط کرتا رہے گا جو ان کو سخت سزا دیتا رہے اور ذلت و خواری میں مبتلا رکھے، چناچہ اس وقت سے آج تک ہمیشہ یہود ہر جگہ مقہور و مغلوب اور محکوم رہے، آج کل کی اسرائیلی حکومت سے اس پر شبہ اس لئے نہیں ہوسکتا کہ جاننے والے جانتے ہیں کہ درحقیقت آج بھی اسرائیل کی نہ اپنی کوئی قوت ہے نہ حکومت، وہ روس اور امریکہ کی اسلام دشمن سازش کے نتیجہ میں انہیں کی ایک چھاؤ نی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور آج بھی وہ بدستور انہیں کے محکوم و مقہور ہیں، جس دن جس وقت یہ دونوں اس کی امداد سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں اسی روز اسرائیل کا وجود دنیا سے ختم ہوسکتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْہِمْ اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ مَنْ يَّسُوْمُہُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ۝ ٠ ۭ اِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيْعُ الْعِقَابِ۝ ٠ ۚ ۖ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ١٦٧- اذن ( تأذين)- : كل من يعلم بشیءٍ نداءً ، قال عالی: ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ [يوسف 70] ، فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ [ الأعراف 44] ، وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ [ الحج 27] اذنتہ بکذا او اذنتہ کے ایک معنی ہیں یعنی اطلاع دینا اور اعلان کرنا اور اعلان کرنے والے کو مؤذن کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ ( سورة يوسف 70) تو ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ اے قافلے والو ۔ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ ( سورة الأَعراف 44) تو اس وقت ان ایک پکارنے والا پکارا دیگا ۔ وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ ( سورة الحج 27) اور لوگوں میں حج کے لئے اعلان کردو ۔- بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، - فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر - ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا - پس بعث دو قمخ پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) - دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ - دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے - قِيامَةُ- : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة،- القیامت - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - سرع - السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو :- أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] - ( س ر ع ) السرعۃ - اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ - عُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب - والعُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب يختصّ بالعذاب، قال : فَحَقَّ عِقابِ [ ص 14] ، شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر 4] ، وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل 126] ، وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج 60] .- اور عقاب عقوبتہ اور معاقبتہ عذاب کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَحَقَّ عِقابِ [ ص 14] تو میرا عذاب ان پر واقع ہوا ۔ شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر 4] سخت عذاب کر نیوالا ۔ وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل 126] اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی ہے ۔ وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج 60] جو شخص کسی کو اتنی ہی سزا کہ اس کو دی گئی ہے ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٦٧) جس وقت ان کے پروردگار نے انہیں یہ بتلادیا کہ وہ ان پر ضرور ایسے شخص کو مسلط کرے گا جو انہیں سخت ترین سزا جزیہ وغیرہ کی دے گا وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت ہے اللہ تعالیٰ نہ لانے والوں کو سخت ترین سزا جزیہ وغیرہ کی دے گا وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت ہے اللہ تعالیٰ ایمان نہ لانے والوں کو سخت سزا دیتے ہیں، اور جو ایمان لائے اس کے گناہوں کو معاف فرماتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٧ (وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْہِمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ یَّسُوْمُہُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ ط) اِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِِج وَ اِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ) - اللہ تعالیٰ کی ایک شان تو یہ ہے کہ وہ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَام اور سَرِیْعُ الْعِقَاب ہے اور اس کی دوسری شان یہ ہے کہ وہ غَفُوْرٌ رَّحِیْمہے۔ اب اس کا دار و مدار انسانوں کے طرز عمل پر ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس کی کس شان کا مستحق بناتے ہیں۔ اس آیت میں یہود کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے جس قانون اور فیصلے کا ذکر ہو رہا ہے وہ بنی اسرائیل کی پوری تاریخ کی صورت میں ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :127 اصل میں لفظ تَاذَّن استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم تقریباً وہی ہے جو نوٹس دینے یا خبردار کر دینے کا ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :128 یہ تنبیہ بنی اسرائیل کو تقریباً آٹھویں صدی قبل مسیح سے مسلسل کی جا رہی تھی ۔ چنانچہ یہودیوں کے مجموعہ کتب مقدسہ میں یسعیاہ اور یرمیاہ اور ان کے بعد آنے والے انبیاء کی تمام کتابیں اسی تنبیہ پر مشتمل ہیں پھر یہی تنبیہ مسیح علیہ السلام نے انہیں کی جیسا کہ اناجیل میں ان کی متعدد تقریروں سے ظاہر ہے ۔ آخر میں قرآن نے اس کی توثیق کی ۔ اب یہ بات قرآن اور اس سے پہلے صحیفوں کی صداقت پر ایک بین شہادت ہے کہ اس وقت سے لے کر آج تک تاریخ میں کوئی دور ایسا نہیں گزرا ہے جس میں یہودی قوم دنیا میں کہیں نہ کہیں روندی اور پامال نہ کی جاتی رہی ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

85: یہود کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ واقعی ہر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ان پر کوئی نہ کوئی جابر مسلط ہوتا رہا ہے جس نے ان کو اپنا محکوم بناکر طرح طرح کی تکلیفیں پہچائیں، البتہ ظاہر ہے کہ ہزاروں سال کی تاریخ میں ایسے وقفے بھی آتے رہے جن میں وہ خوش حال رہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آگے خود یہ فرمایا ہے کہ ہم نے ان کو اچھے اور برے حالات سے آزمایا جس سے واضح ہے کہ ان پر خوش حالی کے دور بھی آتے رہے ہیں مگر مجموعی تاریخ کے مقابلے میں وہ کم ہیں۔