رشوت خوری کا انجام ذلت و رسوائی ہے بنی اسرائیل مختلف فرقے اور گروہ کر کے زمین میں پھیلا دیئے گئے ۔ جیسے فرمان ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل سے کہا تم زمین میں رہو سہو ، جب آخرت کا وعدہ آئے گا ہم تمہیں جمع کر کے لائیں گے ان میں کچھ تو نیک لوگ تھے کجھ بد تھے ، جنات میں بھی یہی حال ہے جیسے سورہ جن میں ان کا قول ہے کہ ہم میں کچھ تو نیک ہیں اور کچھ اور طرح کے ہیں ہمارے بھی مختلف فرقے ہوتے آئے ہیں پھر فرمان ہے کہ میں نے انہیں سختی نرمی سے ، لالچ اور خوف سے ، عافیت اور بلا سے غرض ہر طرح پر کھ لیا تاکہ وہ اپنے کرتوت سے ہٹ جائیں جب یہ زمانہ بھی گذرا جس میں نیک بد ہر طرح کے لوگ تھے ان کے بعد تو ایسے ناخلف اور نالائق آئے جن میں کوئی بھلائی اور خیریت تھی ہی نہیں ۔ یہ اب تورات کی تلاوت والے رہ گئے ممکن ہے اس سے مراد صرف نصرانی ہوں اور ممکن ہے کہ یہ خبر عام نصرانی غیر نصرانی سب پر مشتمل ہو وہ حق بات کو بدلنے اور مٹانے کی فکر میں لگ گئے جیب بھر دو جو چاہو کہلوا لو ۔ پس ہوس یہ ہے کہ ہے کیا ؟ توبہ کرلیں گے معاف ہو جائے گا پھر موقع آیا پھر دنیا لے کر اللہ کی باتیں بدل دیں ۔ گناہ کیا توبہ کی پھر موقعہ ملتے ہی لپک کر گناہ کر لیا ۔ مقصود ان کا دنیا طلبی ہے حلال سے ملے چاہے حرام سے ملے پھر بھی مغفرت کی تمنا ہے ۔ یہ ہیں جو وارث رسول کہلواتے ہیں اور جن سے اللہ نے عہد لیا ہے جیسے دوسری آیت میں ہے کہ ان کے بعد ایسے ناخلف آئے جنہوں نے نماز تک ضائع کر دی ۔ بنی اسرائیل کا آوے کا آوا بگڑ گیا آج ایک کو قاضی بناتے ہیں وہ رشوتیں کھانے اور احکام بدلنے لگتا ہے وہ اسے ہٹا کر دوسرے کو قائم کرتے ہیں اس کا بھی یہی حال ہوتا ہے پوچھتے ہیں بھئی ایسا کیوں کرتے ہو؟ جواب ملتا ہے اللہ غفور و رحیم ہے پھر وہ ان لوگوں میں سے کسی کو اس عہدے پر لاتے ہیں جو اگلے قاضیوں حاکموں اور ججوں کا شاکی تھا لیکن وہ بھی رشوتیں لینے لگتا ہے اور ناحق فیصلے کرنے لگتا ہے پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ حالانکہ تم سے مضوبط عہد و پیمان ہم نے لے لیا ہے کہ تم حق کو ظاہر کیا کرو اسے نہ چھپاؤ لیکن ذلیل دنیا کے لالچ میں آ کر عذاب رب مول لے رہے ہو اسی وعدے کا بیان آیت ( وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَلَاتَكْتُمُوْنَهٗ ۡ فَنَبَذُوْهُ وَرَاۗءَ ظُهُوْرِھِمْ وَاشْتَرَوْا بِهٖ ثَمَـــنًا قَلِيْلًا ۭ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُوْنَ ١٨٧ ) 3-آل عمران:187 ) میں ہوا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاری سے عہد لیا تھا کہ وہ کتاب اللہ لوگوں کے سامنے بیان کرتے رہیں گے اور اس کی کوئی بات نہ چھپائیں گے ۔ یہ بھی اس کے خلاف تھا کہ گناہ کرتے چلے جائیں توبہ نہ کریں اور بخشش کی امید رکھیں پھر اللہ تعالیٰ انہیں اپنے پاس کے اجرو ثواب کی لالچ دکھاتا ہے کہ اگر تقویٰ کیا حرام سے بچے خواہش نفسانی کے پیچھے نہ لگے رب کی اطاعت کی تو آخرت کا بھلا تمہیں لے گا جو اس فانی دنیا کے ٹھاٹھ سے بہت ہی بہتر ہے ۔ کیا تم میں اتنی بھی سمجھ نہیں کہ گراں بہا چیز کو چھوڑ کر ردی چیز کے پیچھے پڑے ہو؟ پھر جناب باری عزوجل ان مومنوں کی تعریف کرتا ہے جو کتاب اللہ پر قائم ہیں اور اس کتاب کی راہنمائی کے مطابق اس پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں ، کلام رب پر جم کر عمل کرتے ہیں ، احکام الٰہی کو دل سے مانتے ہیں اور بجا لاتے ہیں اس کے منع کردہ کاموں سے رک گئے ہیں ، نماز کو پابندی ، دلچسپی ، خشوع اور خضوع سے ادا کرتے ہیں حقیقتاً یہی لوگ اصلاح پر ہیں ناممکن ہے کہ ان نیک اور پاکباز لوگوں کا بدلہ اللہ ضائع کر دے ۔
168۔ 1 اس میں یہود کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے ان میں سے بعض کے نیک ہونے کا ذکر ہے۔ اور ان دونوں طریقوں سے آزمائے جانے کا بیان ہے کہ شاید وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں اور اللہ کی طرف رجوع کریں۔
[١٧٠] اسلاف یہود کا کردار :۔ یعنی یہود کو تفرقہ بازی کے عذاب میں مبتلا کردیا (جس میں آج کل مسلمان بھی مبتلا ہیں) جس کی وجہ سے قوم کی ساکھ ختم ہوجاتی ہے۔ امت کی وحدت پارہ پارہ ہوجاتی ہے اور دنیا کی نظروں میں وہ حقیر بن جاتی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرقہ بازی کو عذاب کی ایک مستقل قسم قرار دیا ہے (نیز سورة انعام کی آیت نمبر ٦٥ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔
وَقَطَّعْنٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اُمَمًا ۚ: تاکہ ان کی کوئی اجتماعی قوت وجود میں نہ آسکے۔ اس لیے یہودی تمام دنیا میں ٹکڑوں کی شکل میں پھیلے ہوئے ہیں اور جہاں رہتے ہیں اپنی سود خوری اور اس ملک کے خلاف سرگرمیوں اور جاسوسی کی وجہ سے نفرت کی نگاہوں کا نشانہ بنے رہتے ہیں، پھر ان کی برتری کی خواہش اور دنیا کی دولت اور حکومت کو اپنے قبضے میں لینے کی خواہش کے لیے ان کی سازشیں یہودی پروٹوکول کی صورت میں دنیا کے سامنے آچکی ہیں۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور کتنے ہی ملکوں سے انھیں نکالا گیا اور تہ تیغ کیا گیا، اب اگرچہ جرمنی سے غداری کے انعام میں برطانیہ اور امریکہ کے بل بوتے پر وہ عربوں کے قلب میں اسرائیل کے خنجر کی صورت میں پیوست ہوچکے ہیں، مگر ان کی اصل قوت امریکہ اور برطانیہ وغیرہ ہی ہیں۔ یہاں جمع ہو کر بھی وہ ظلم و ستم سے باز آنے کے بجائے فلسطینی عربوں پر ناقابل بیان مظالم ڈھا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کے مؤاخذے میں اس دیر کا انجام کیا ہوتا ہے، کیونکہ وہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ - مِنْهُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَمِنْهُمْ دُوْنَ ذٰلِكَ ۡ: ان میں سے کچھ نیک ہیں، یعنی وہ جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے، یا جیسے وہ لوگ جنھوں نے ہفتے کے روز مچھلی کے شکار سے منع کیا تھا۔ دیکھیے آل عمران ( ١١٣ تا ١١٥) اور کچھ ان کے علاوہ، یعنی نیک نہیں بلکہ شریر اور بدکار، جیسے سود، رشوت اور دوسرے طریقوں سے حرام کھانے والے اور انبیاء تک کو قتل کر ڈالنے والے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچاننے کے باوجود آپ کی مخالفت کرنے والے۔- وَبَلَوْنٰهُمْ بالْحَسَنٰتِ وَالسَّيِّاٰتِ ۔۔ : کبھی راحت اور آرام دیا اور کبھی تکلیف میں مبتلا کردیا، اسی طرح کبھی خوش حالی عطا فرمائی، کبھی فقر و فاقہ سے دو چار کردیا، تاکہ وہ باز آجائیں، یعنی اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور تورات کے احکام پر عمل کریں۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” یہود کی دولت برہم ہوئی تو آپس کی مخالفت سے ہر طرف نکل گئے اور مختلف مذاہب پیدا ہوئے، یہ احوال اس امت کو سنایا کہ یہ سب کچھ ان پر بھی ہوگا۔ حدیث میں فرمایا ہے کہ اس امت میں بعض بندر اور سور ہوجائیں گے۔ اللہ گمراہی سے پناہ دے۔ “ (موضح) یہ حدیث بخاری میں ہے، فرمایا : ( وَ یَمْسَخُ آخَرِیْنَ قِرَدَۃً وَ خَنَازِیْرَ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ) [ بخاری، الأشربہ، باب ما جاء فیمن یستحل الخمر۔۔ : ٥٥٩٠ ] ” اور ان میں سے بہت سوں کو قیامت تک کے لیے بندروں اور خنزیروں کی صورت میں مسخ کر دے گا۔ “
دوسری آیت میں یہودیوں پر ایک اور سزا کا ذکر ہے، جو اسی دنیا میں ان کو دی گئی وہ یہ کہ ان کی آبادی دنیا کے مختلف حصوں میں منتشر اور متفرق ہوگئی، کسی جگہ ایک ملک میں ان کا اجتماع نہ رہا، (آیت) وَقَطَّعْنٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اُمَمًا کا یہی مطلب ہے قَطَّعنَا، مصدر تقطیع سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں ٹکڑے ٹکڑے کردینا، اور امم، امة کی جمع ہے جسکے معنی ہیں، ایک جماعت یا ایک فرقہ، مطلب یہ ہے کہ ہم نے یہود کی قوم کے ٹکڑے ٹکرے زمین کے مختلف حصوں میں متفرق کردیئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی قوم کا ایک جگہ اجتماع اور اکثریت اللہ تعالیٰ کا انعام و احسان ہے اور اس کا مختلف جگہوں میں منتشر ہوجانا ایک طرح کا عذاب الہی، مسلمانوں پر حق تعالیٰ کا یہ انعام ہمیشہ رہا ہے اور انشاء اللہ تا قیامت رہے گا کہ وہ جس جگہ رہے ان کی ایک زبردست اجتماعی قوت وہاں پیدا ہوگئی، مدینہ طیبہ سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور مشرق و مغرب میں اسی کیفیت کے ساتھ حیرت انگیز طریقہ پر بھیلا، مشرق بعید میں، پاکستان، انڈونیشیا وغیرہ مستقل اسلامی حکومتیں اسی کے نتیجہ میں بنیں، اس کے بالمقابل یہودیوں کا حال ہمیشہ یہ رہا کہ مختلف ملکوں میں منتشر رہے، مالدار کتنے بھی ہوں مگر اقتدار و اختیار ان کے ہاتھ نہ آیا۔- چند سال سے فلسطین کے ایک حصہ میں ان کے اجتماع اور مصنوعی اقتدار سے دھوکہ نہ کھایا جائے اجتماع تو ان کا اس جگہ میں آخری زمانہ میں ہونا ہی چا ہئے تھا کیونکہ صادق مصدوق رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث صحیحہ میں قرب قیامت کے لئے یہ خبر دی گئی ہے کہ آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نازل ہوں گے، نصاری سب مسلمان ہوجائیں گے اور یہودیوں سے جہاد کر کے ان کو قتل کریں گے، خدا کا مجرم وارنٹ اور پولیس کے ذریعہ پکڑ کر نہیں بلایا جاتا بلکہ وہ تکوینی اسباب ایسے جمع کردیتے ہیں کہ مجرم اپنے پاؤں چل کر ہزاروں کوششیں کرکے اپنی قتل گاہ پر پہنچتا ہے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول ملک شام دمشق میں ہونے والا ہے، یہودیوں کے ساتھ معرکہ بھی یہیں بننا ہے تاکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے ان کا قلع قمع کردینا سہل ہو، قدرت نے دنیا کی پوری عمر میں تو یہیودیوں کو مختلف ملکوں میں منتشر رکھ کر محکومیت اور بےقدری کا عذاب چکھا یا اور آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی آسانی کے لئے ان کو ان کے مقتل میں جمع فرمادیا اس لئے یہ اجتماع اس عذاب کے منافی نہیں۔ - رہا ان کی موجودہ حکومت اور مصنوعی اقتدار کا قضیہ سو یہاں ایک ایسا دھوکہ ہے جس پر آج کی مہذب دنیا نے اگرچہ بہت خوبصورت ملمع کا پردہ چڑھایا ہوا ہے لیکن کوئی دنیا کی سیاست سے باخبر انسان ایک منٹ کے لئے بھی اس سے دھوکہ نہیں کھا سکتا کیونکہ آج جس خطہ کو اسرائیل مملکت کا نام دیا جاتا ہے وہ در حقیقت روس، امریکہ اور انگلینڈ کی ایک مشترک چھاؤ نی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی وہ محض ان حکومتوں کی امداد سے زندہ ہے اور ان کے تابع فرمان رہنے ہی میں اس کے وجود کا راز مضمر ہے، ظاہر ہے کہ اس حقیقی غلامی کو مجازی حکومت کا نام دے دینے سے اس قوم کو کوئی اقتدار حاصل نہیں ہوجاتا، قرآن کریم نے ان کے بارے میں تا قیامت رسوائی اور خواری کے جس عذاب کا ذکر کیا ہے وہ آج بھی بدستور موجود ہے جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ان الفاظ کے ساتھ آیا ہے، (آیت) وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِ مَنْ يَّسُوْمُهُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ ، یعنی جب کہ آپ کے رب نے پختہ ارادہ کرلیا کہ ان لوگوں پر کسی ایسی طاقت کو قیامت تک مسلط کردے گا جو ان کو برا عذاب چکھائے۔ - جیسا کہ اول سلیمان (علیہ السلام) کے ہاتھ سے پھر بخت نصر کے ذریعہ اور آخر میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ سے اور باقیماندہ حضرت فاروق اعظم کے ذریعہ ہر جگہ سے ذلت و خواری کے ساتھ ان کا نکالا جانا مشہور و معروف اور تاریخ کے مسلمات میں سے ہے۔- اس آیت کا دوسرا جملہ یہ ہے (آیت) مِنْهُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَمِنْهُمْ دُوْنَ ذٰلِكَ ، یعنی ان لوگوں میں کچھ لوگ نیک ہیں اور کچھ دوسری طرح کے، دوسری طرح سے مراد کفار فجار بدکار لوگ ہیں مطلب یہ ہے کہ یہودیوں میں سب ایک ہی طرح کے لوگ نہیں، کچھ نیک بھی ہیں، مراد اس سے وہ لوگ ہیں جو تورات کے زمانہ میں احکام تورات کے پورے پابند رہے، نہ ان کی نافرمانی میں مبتلا ہوئے نہ کسی تاویل و تحریف کے درپے ہوئے۔ - اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد وہ حضرات ہوں جو نزول قرآن کے بعد قرآن کے تایع ہوگئے، اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے، اس کے بالمقابل وہ لوگ ہیں جنہوں نے تورات کو آسمانی کتاب ماننے کے باوجود اس کی خلاف ورزی کی یا اس کے احکام میں تحریف کرکے اپنی آخرت کو دنیا کی گندی چیزوں کے بدلہ میں بیچ ڈالا۔- آخر آیت میں ارشاد ہے (آیت) وَبَلَوْنٰهُمْ بالْحَسَنٰتِ وَالسَّيِّاٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ، یعنی ہم نے اچھی بری حالتوں سے ان کا امتحان لیا تاکہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں۔ اچھی حالتوں سے مراد ان کو مال و دولت کے ذخیرے اور عیش و عشرت کے سامان دینا ہے، اور بری حالتوں سے مراد یا تو ذلت و خواری کے وہ واقعات ہیں جو ہر زمانہ میں مختلف صورتوں سے پیش آتے رہے اور یا کسی وقت کا قحط و افلاس جو ان پر ڈالا گیا وہ مراد ہے، بہرحال مطلب یہ ہے کہ انسان کی فرماں برداری یا سرکشی کا امتحان لینے کے دو ہی طریقے ہیں، دونوں استعمال کر لئے گئے ایک یہ کہ احسانات و انعامات کرکے اس کی آزمائش کی جائے کہ وہ احسان کرنے والے اور انعام دینے والے کے شکر گزار فرمانبردار ہر تے ہیں یا نہیں، دوسرے یہ کہ ان کو مختلف تکلیفوں اور پریشانیوں میں مبتلا کرکے اس کی آزمائش کی جائے کہ وہ اپنے رب کی طرف رجوع ہوتے اور اپنی بد اعمالیوں سے توبہ کرتے ہیں یا نہیں۔ - لیکن قوم یہود ان دونوں امتحانوں میں فیل ہوگئی۔- جب اللہ تعالیٰ نے ان پر نعمت کے دروازے کھولے، مال و دولت کی فراوانی عطا فرمائی تو کہنے لگے (آیت) اِنَّ اللّٰهَ فَقِيْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِيَاۗءُ ، یعنی ( معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ فقیر ہیں اور ہم غنی، اور جب ان کو افلاس و ناداری سے آزمایا گیا تو کہنے لگے ید اللہ مغلولة، یعنی اللہ کا ہاتھ تنگ ہوگیا۔- فوائد :- اس آیت سے ایک فائدہ تو یہ حاصل ہوا کہ کسی قوم کا ایک جگہ اجتماع اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اس کا منتشر ہونا عذاب، دوسرا فائدہ یہ حاصل ہوا کہ اس دنیا کی راحت و کلفت اور خوشی و غم درحقیقت خداوندی امتحان کے مختلف پرچے ہیں جن کے ذریعے اس کے ایمان اور خدا پرستی کی آزمائش کی جاتی ہے، نہ یہاں کی تکلیف کچھ زیادہ رونے دھونے کی چیز ہے نہ کوئی راحت مسرور و غرور ہوجانے کا سامان، عاقبت اندیش عقلمند کے لئے یہ دونوں چیزیں قابل توجہ نہیں۔- نہ شادی داد سامانے نہ غم آورد نقصانے بہ پیش ہمت ماہر چہ آمد بود مہمانے
وَقَطَّعْنٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اُمَمًا ٠ ۚ مِنْہُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَمِنْہُمْ دُوْنَ ذٰلِكَ ٠ ۡوَبَلَوْنٰہُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّـيِّاٰتِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ ١٦٨- قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] أي : كل نوع منها علی طریقة قد سخرها اللہ عليها بالطبع، فهي من بين ناسجة کالعنکبوت، وبانية کالسّرفة «4» ، ومدّخرة کالنمل ومعتمدة علی قوت وقته کالعصفور والحمام، إلى غير ذلک من الطبائع التي تخصص بها كل نوع . وقوله تعالی: كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً [ البقرة 213] أي : صنفا واحدا وعلی طریقة واحدة في الضلال والکفر، وقوله : وَلَوْ شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً واحِدَةً [هود 118] أي : في الإيمان، وقوله : وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ [ آل عمران 104] أي : جماعة يتخيّرون العلم والعمل الصالح يکونون أسوة لغیرهم، وقوله : إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ [ الزخرف 22] أي : علی دين مجتمع . قال : وهل يأثمن ذو أمّة وهو طائع وقوله تعالی: وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ [يوسف 45] أي : حين، وقرئ ( بعد أمه) أي : بعد نسیان . وحقیقة ذلك : بعد انقضاء أهل عصر أو أهل دين . وقوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّهِ [ النحل 120] أي : قائما مقام جماعة في عبادة الله، نحو قولهم : فلان في نفسه قبیلة . وروي :«أنه يحشر زيد بن عمرو بن نفیل أمّة وحده» وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران 113] أي : جماعة، وجعلها الزجاج هاهنا للاستقامة، وقال : تقدیره : ذو طریقة واحدة فترک الإضمار أولی.- الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں ۔ میں امم سے ہر وہ نوع حیوان مراد ہے جو فطری اور ت سخیری طور پر خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہو ۔ مثلا مکڑی جالا بنتی ہے اور سرفۃ ( مور سپید تنکوں سے ) اپنا گھر بناتی ہے اور چیونٹی ذخیرہ اندوزی میں لگی رہتی ہے اور چڑیا کبوتر وغیرہ وقتی غذا پر بھروسہ کرتے ہیں الغرض ہر نوع حیوان اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق ایک خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہے اور آیت کریمہ :۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة البقرة 213) ( پہلے تو سب ) لوگ ایک امت تھے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تما لوگ صنف واحد اور ضلالت و کفر کے ہی کے مسلک گامزن تھے اور آیت کریمہ :۔ وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة المائدة 48) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ہی شریعت پر کردیتا ۔ میں امۃ واحدۃ سے وحدۃ بحاظ ایمان مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ( سورة آل عمران 104) کے معنی یہ ہیں کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے جو علم اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرے اور دوسروں کے لئے اسوۃ بنے اور آیت کریمہ ؛۔ إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ ( سورة الزخرف 22 - 23) ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک متفقہ دین پر پایا ہے ۔ میں امۃ کے معنی دین کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہی ع (25) وھل یاثمن ذوامۃ وھوطائع ( طویل ) بھلا کوئی متدین آدمی رضا اور رغبت سے گناہ کرسکتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ ( سورة يوسف 45) میں امۃ کے معنی حین یعنی عرصہ دارز کے ہیں اور ایک قرات میں بعد امہ ( ربالھاء ) ہے یعنی نسیان کے بعد جب اسے یاد آیا ۔ اصل میں بعد امۃ کے معنی ہیں ایک دور یا کسی ایک مذہب کے متبعین کا دورگزر جانے کے بعد اور آیت کریمہ :۔ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا ( سورة النحل 120) کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم عبادت الہی میں ایک جماعت اور قوم بمنزلہ تھے ۔ جس طرح کہ محاورہ ہے ۔ فلان فی نفسہ قبیلۃ کہ فلاں بذات خود ایک قبیلہ ہے یعنی ایک قبیلہ کے قائم مقام ہے (13) وروی انہ یحشر زیدبن عمرابن نفیل امۃ وحدہ اورا یک روایت میں ہے کہ حشر کے دن زید بن عمر و بن نفیل اکیلا ہی امت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ - لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ ( سورة آل عمران 113) وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ ( حکم خدا پر ) قائم بھی ہیں ۔ میں امۃ بمعنی جماعت ہے زجاج کے نزدیک یہاں قائمۃ بمعنی استقامت ہے یعنی ذو و طریقہ واحدۃ تو یہاں مضمر متردک ہے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- بلی - يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي : أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ [يونس 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] ، وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة 155] ، وقال عزّ وجل : إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، - وسمي التکليف بلاء من أوجه :- أحدها : أن التکالیف کلها مشاق علی الأبدان، فصارت من هذا الوجه بلاء .- والثاني : أنّها اختبارات، ولهذا قال اللہ عزّ وجل : وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] .- والثالث : أنّ اختبار اللہ تعالیٰ للعباد تارة بالمسار ليشکروا، وتارة بالمضار ليصبروا، فصارت المحنة والمنحة جمیعا بلاء، فالمحنة مقتضية للصبر، والمنحة مقتضية للشکر .- والقیام بحقوق الصبر أيسر من القیام بحقوق الشکر فصارت المنحة أعظم البلاء ین، وبهذا النظر قال عمر : ( بلینا بالضراء فصبرنا وبلینا بالسراء فلم نشکر) «4» ، ولهذا قال أمير المؤمنین : من وسع عليه دنیاه فلم يعلم أنه قد مکر به فهو مخدوع عن عقله «1» .- وقال تعالی: وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء 35] ، وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً [ الأنفال 17] ، وقوله عزّ وجل : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] ، راجع إلى الأمرین، إلى المحنة التي في قوله عزّ وجل : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49] ، وإلى المنحة التي أنجاهم، وکذلک قوله تعالی: وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان 33] ، راجع إلى الأمرین، كما وصف کتابه بقوله : قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت 44] . وإذا قيل : ابْتَلَى فلان کذا وأَبْلَاهُ فذلک يتضمن أمرین : أحدهما تعرّف حاله والوقوف علی ما يجهل من أمره، والثاني ظهور جو دته ورداء ته، وربما قصد به الأمران، وربما يقصد به أحدهما، فإذا قيل في اللہ تعالی: بلا کذا وأبلاه فلیس المراد منه إلا ظهور جو دته ورداء ته، دون التعرف لحاله، والوقوف علی ما يجهل من أمره إذ کان اللہ علّام الغیوب، وعلی هذا قوله عزّ وجل : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] . ويقال : أَبْلَيْتُ فلانا يمينا : إذا عرضت عليه الیمین لتبلوه بها - ( ب ل ی )- بلی الوقب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔ ۔ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة 155] اور ہم کسی قدر خوف سے تمہاری آزمائش کریں گے ۔ إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ اور تکلف کو کئی وجوہ کی بناہ پر بلاء کہا گیا ہے ایک اسلئے کہ تکا لیف بدن پر شاق ہوتی ہیں اس لئے انہیں بلاء سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ دوم یہ کہ تکلیف بھی ایک طرح سے آزمائش ہوتی ہے ۔ جیسے فرمایا وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] اور ہم تو لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ جو تم میں لڑائی کرنے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں ان کو معلوم کریں ۔ سوم اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کبھی تو بندوں کو خوش حالی سے آزماتے ہیں کہ شکر گزار بنتے ہیں یا نہیں اور کبھی تنگی کے ذریعہ امتحان فرماتے ہیں کہ ان کے صبر کو جانچیں ۔ لہذا مصیبت اور نعمت دونوں آزمائش ہیں محنت صبر کا تقاضا کرتی ہے اور منحتہ یعنی فضل وکرم شکر گزاری چاہتا ہے ۔ اور اس میں شک نہیں کہ کہا حقہ صبر کرنا کہا حقہ شکر گزاری سے زیادہ آسان ہوتا ہے اس لئے نعمت میں یہ نسبت مشقت کے بڑی آزمائش ہے اسی بنا پر حضرت عمر فرماتے ہیں کہ تکا لیف پر تو صابر رہے لیکن لیکن فراخ حالی میں صبر نہ کرسکے اور حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس پر دنیا فراخ کی گئی اور اسے یہ معلوم نہ ہوا کہ آزامائش کی گرفت میں ہے تو و فریب خوردہ اور عقل وفکر سے مخزوم ہے قرآن میں ہے ۔ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء 35] اور ہم تم لوگوں کو سختی اور آسودگی میں آزمائش کے طور پر مبتلا کرتے ہیں ۔ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً «2» [ الأنفال 17] اس سے غرض یہ تھی کہ مومنوں کو اپنے ( احسانوں ) سے اچھی طرح آزما لے ۔ اور آیت کریمہ : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہاراے پروردگار کی طرف سے بڑی ( سخت ) آزمائش تھی میں بلاء کا لفظ نعمت و مشقت دونوں طرح کی آزمائش کو شامل ہی چناچہ آیت : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49]( تہمارے بیٹوں کو ) تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔ میں مشقت کا بیان ہے اور فرعون سے نجات میں نعمت کا تذکرہ ہے اسی طرح آیت وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان 33] اور ان کو نشانیاں دی تھیں جنیہں صریح آزمائش تھی میں دونوں قسم کی آزمائش مراد ہے جیسا کہ کتاب اللہ کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت 44] ( کسی کا امتحان کرنا ) یہ دو امر کو متضمن ہوتا ہے ( 1) تو اس شخص کی حالت کو جانچنا اور اس سے پوری طرح باخبر ہونا مقصود ہوتا ہے دوسرے ( 2 ) اس کی اچھی یا بری حالت کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا ۔ پھر کبھی تو یہ دونوں معنی مراد ہوتے ہیں اور کبھی صرف ایک ہی معنی مقصود ہوتا ہے ۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تو صرف دوسرے معنی مراد ہوتے ہیں یعنی اس شخص لہ خوبی یا نقص کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ کیونکہ ذات ہے اسے کسی کی حالت سے باخبر ہونے کی ضرورت نہیں لہذا آیت کریمہ : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] اور پروردگار نے چند باتوں میں ابراھیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے ۔ دوسری معنی پر محمول ہوگی ( یعنی حضرت ابراھیم کے کمالات کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود تھا ) ابلیت فلانا یمینا کسی سے آزمائش قسم لینا ۔- حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے
(١٦٨) اور ہم نے ان کو جدا جدا جماعتیں کردیا اور وہ ساڑھے نو خاندان وراء النہر کی طرف تھے اور بقیہ مومن خاندان بنی اسرائیل کے تھے یا یہ کہ بقیہ بنی اسرائیل کے خاندان کافر تھے اور ہم نے ان کی فراخی، خوشحالی اور قحط ہر قسم کی سختیوں سے آزمایش کی تاکہ وہ اپنی معصیت اور کفر سے رجوع کرسکیں۔
آیت ١٦٨ (وَقَطَّعْنٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًا ج) ۔ - بنی اسرائیل کا یہ دور انتشار ( ) ٧٠ عیسوی میں شروع ہوا ‘ جب رومن جنرل ٹائٹس نے ان کے معبد ثانی (2 ) کو شہید کیا (جو حضرت عزیر (علیہ السلام) کے زمانے میں دوبارہ تعمیر ہوا تھا) ۔ ٹائٹس کے حکم سے یروشلم میں ایک لاکھ تینتیس ہزار یہودیوں کو ایک دن میں قتل کیا گیا اور بچ جانے والوں کو فلسطین سے نکال باہر کیا گیا۔ چناچہ یہاں سے ملک بدر ہونے کے بعد یہ لوگ مصر ‘ ہندوستان ‘ روس اور یورپ کے مختلف علاقوں میں جا بسے۔ پھر جب امریکہ دریافت ہوا تو بہت سے یہودی خاندان وہاں جا کر آباد ہوگئے۔ اس آیت میں ان کے اسی انتشار کی طرف اشارہ ہے کہ پوری دنیا میں انہیں منتشر کردیا گیا اور اس طرح ان کی اجتماعیت ختم ہو کر رہ گئی۔ دوسری طرف وہ جہاں کہیں بھی گئے وہاں ان سے شدید نفرت کی جاتی رہی ‘ جس کے باعث ان پر یورپ میں بہت ظلم ہوئے۔ عیسائیوں کی ان سے نفرت اور شدید دشمنی کا ذکر قرآن میں بھی ہے : (فَاَغْرَیْنَا بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط) ( المائدۃ : ١٤) پس ہم نے ان کے درمیان عداوت اور بغض قیامت تک کے لیے ڈال دیا۔ یہ دشمنی یہودیوں کے ان گستاخانہ عقائد کی وجہ سے تھی جو وہ حضرت مسیح اور حضرت مریم (علیہ السلام) کے بارے میں رکھتے تھے۔- پھر جنگ عظیم دوم میں ہٹلر کے ہاتھوں تو یہودیوں پر ظلم کی انتہاہو گئی۔ اس کے حکم پر پورے مشرقی یورپ سے یہودیوں کو اکٹھا کر کے میں جمع کیا گیا اور ان کے اجتماعی قتل کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ‘ جس کے لیے لاکھوں لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے جدید آٹو میٹک پلانٹ نصب کیے گئے۔ چناچہ مردوں ‘ عورتوں اور بچوں کو اجتماعی طور پر ایک بڑے ہال میں جمع کیا جاتا ‘ وہاں ان کے کپڑے اتروائے جاتے اور بال مونڈدیے جاتے (بعد میں ان بالوں سے قالین تیار کیے گئے جو نازیوں نے اپنے دفتروں میں بچھائے) ‘ اور پھر انہیں وہاں سے بڑے بڑے گیس چیمبر زمین داخل کردیا جاتا۔ وہاں مرنے کے بعد مشینوں کے ذریعے سے لاشوں کا چورا کیا جاتا اور پھر خاص قسم کے کیمیکلز کی مدد سے انسانی گوشت کو ایک سیاہ رنگ کے سیال مادے میں تبدیل کر کے کھیتوں میں بطور کھاد استعمال کیا جاتا۔ یہ سب کچھ بیسویں صدی میں آج کے اس مہذب دور میں ہوا۔ اس طریقے سے ہٹلر کے ہاتھوں ساٹھ لاکھ یہودی قتل ہوئے۔ یہود کے اس قتل عام کو کا نام دیا جاتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ساٹھ لاکھ کی تعداد مبالغے پر مبنی ہے ‘ اصل تعداد چالیس لاکھ تھی۔ چالیس لاکھ ہی سہی ‘ اتنی بڑی تعداد میں قتل عام قومی سطح پر کتنا دردناک عذاب ہے یہ ان کی تاریخ کے اب تک کے حالات و واقعات میں سے (مَنْ یَّسُوْمُہُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ ط) کی ایک جھلک ہے۔ اور اس سلسلے میں قیامت تک مزید کیا کچھ ہونے والا ہے اس کی خبر ابھی پردۂغیب میں ہے۔- بہر حال یہودیوں کا آخری وقت بہت جلد آنے والا ہے ‘ مگر جیسے چراغ کا شعلہ بجھنے سے پہلے بھڑکتا ہے ‘ بالکل اسی انداز سے آج کل ہمیں ان کی حکومت اور طاقت نظر آرہی ہے۔ اور شاید یہ سب کچھ اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ عربوں (جو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخاطب اول اور وارث اوّل ہونے کے باوجود دین سے پیٹھ پھیرنے کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں) کو ایک مغضوب علیہم قوم کے ہاتھوں ہزیمت سے دو چار کر کے سزا دینا اور کے مصداق اس ذلیل قوم کے ہاتھوں عربوں کی تذلیل مقصود ہے۔ اندریں حالات ایسا نظر آتا ہے کہ وہ دن اب زیادہ دور نہیں جب مسجد اقصیٰ شہید کردی جائے گی اور اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں جو طوفان اٹھے گا وہ یہودیوں کا سب کچھ بہا کرلے جائے گا ‘ لیکن ان کے اس سلسلۂ عذاب کی آخری شکل حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ظہور کے بعد سامنے آئے گی۔ جیسے پہلے تمام رسولوں کے منکرین ان کی موجودگی میں ختم کردیے گئے تھے (چھ رسولوں اور ان کی قوموں کے واقعات تکرار کے ساتھ قرآن میں آئے ہیں) اسی طرح حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے منکرین کو بھی ان کی موجود گی میں ختم کیا جائے گا۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) بنی اسرائیل کی طرف اللہ کے رسول تھے : (وَرَسُوْلاً اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ .........) (آل عمران : ٤٩) ۔ یہودی نہ صرف آپ ( علیہ السلام) کے منکر ہوئے بلکہ (بزعم خویش) انہوں نے آپ ( علیہ السلام) کو قتل بھی کردیا۔ لہٰذا بحیثیت قوم ان کا اجتماعی استیصال بھی حضرت مسیح (علیہ السلام) ہی کے ہاتھوں ہوگا۔