(1) خلف (لام پر فتح کیساتھ) اولاد صالح کو اور خلف (بسکون اللام) نالائق اولاد کو کہتے ہیں۔ اردو میں بھی ناخلف کی ترکیب نالائق اولاد کے معنی میں مستعمل ہے۔ 169۔ 1 أدنی دنو (قریب) سے ماخوذ ہے یعنی قریب کا مال حاصل کرتے ہیں جس سے دنیا مراد ہے یا یہ دَنَآءَۃ سے ماخوذ ہے جس سے مراد حقیر گرا پڑا مال ہے۔ مطلب دونوں سے اس دنیا کے مال متاع کے حرص کی وضاحت ہے۔ 169۔ 2 یعنی طالب دنیا ہونے کے باوجود، مغفرت کی امید رکھتے ہیں، جیسے آجکل کے مسلمانوں کا بھی حال ہے۔ 169۔ 3 اس کے باوجود وہ اللہ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنے سے باز نہیں آتے، مثلاً وہی مغفرت کی بات، جو اوپر گزری۔ 169۔ 4 اس کا ایک دوسرا مفہوم مٹانا بھی ہوسکتا ہے، جیسے دَرَسَتِ الرِّیْحُ الاَ ثَارَ (ہوا نے نشانات مٹا ڈالے) یعنی کتاب کی باتوں کو مٹا ڈالا، محو کردیا یعنی ان پر عمل ترک کردیا۔
[١٧١] یعنی ان یہود کے اسلاف میں کچھ اچھے لوگ بھی تھے اور کچھ فاسق تھے، اگرچہ اکثریت ان فاسقوں ہی کی تھی مگر ان کے اخلاف تو بالکل ناخلف اور نااہل ثابت ہوئے انہوں نے اللہ کی کتاب کو بیچنا شروع کردیا اور دنیا کے کتے بن گئے مزید ستم یہ کہ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ ہم جیسے بھی عمل کرلیں ہمیں اللہ عذاب نہیں کرے گا اور معاف کردے گا کیونکہ ہم انبیاء (علیہ السلام) کی اولاد اور اللہ کے چہیتے ہیں پھر بجائے اس کے کہ وہ گناہ کر کے نادم اور شرمسار ہوں اور اللہ کے حضور توبہ کریں وہ پھر سے تیار بیٹھے ہوتے ہیں کہ کوئی آدمی فتویٰ یا مسئلہ پوچھنے والا آئے تو اس سے بھی رشوت لے لیں یا مال و دولت جھاڑ لیں حالانکہ ان سے یہ پختہ عہد لیا گیا تھا کہ وہ کوئی غلط اور ناحق بات اللہ کی طرف منسوب نہیں کریں گے اور یہ بات وہ کتاب میں پڑھتے پڑھاتے بھی ہیں اس کے باوجود انہوں نے اللہ کے ذمہ یہ بات لگا دی کہ وہ جیسے بھی عمل کرلیں اللہ انہیں عذاب نہیں دے گا کیونکہ وہ انبیاء کی اولاد اور اللہ کے چہیتے ہیں کیا یہ بات وہ تورات سے دکھلا سکتے ہیں ؟- [١٧٢] اس جملہ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں ایک یہ کہ آخرت کا گھر اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے بہتر ہے (جیسا کہ ترجمہ کیا گیا ہے) اور جو اللہ سے نہیں ڈرتے ان کے لیے ہرگز بہتر نہیں، انہیں وہاں عذاب اور دکھ ہی سہنا پڑیں گے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے لوگ بہرحال آخرت کے گھر کو ہی بہتر سمجھتے ہیں اور دنیا کے مقابلہ میں آخرت کے گھر کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ان کی اخروی زندگی اس دنیا سے بدرجہا بہتر ہوگی کاش تم لوگوں کو اس بات کی سمجھ آجائے۔
فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ۔۔ : قرطبی (رض) نے فرمایا ” اَلْخَلْفُ “ لام کے سکون کے ساتھ، بمعنی اولاد، واحد جمع یکساں ہیں اور ” اَلْخَلَفُ “ لام کے فتح کے ساتھ پہلوں کی جگہ آنے والا، اولاد ہو یا اجنبی۔ ابن الاعرابی نے فرمایا، لام کے فتح کے ساتھ نیک جانشین اور لام کے سکون کے ساتھ نالائق جانشین اور دونوں الفاظ ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال کرلیے جاتے ہیں۔ (طنطاوی) ” عَرَضٌ“ دنیا کا سامان، کیونکہ وہ عارضی ہے۔ ” هٰذَا الْاَدْنٰى“ میں ” هٰذَا “ (اس) کے لفظ سے حقارت مراد ہے اور ” الْاَدْنٰى‘ کے لفظ سے بھی دنیا کی دنایت اور حقارت مراد ہے۔ (کشاف) پھر ان کے جانشین ایسے نالائق ہوئے جو کتاب اللہ کے وارث بنے، یعنی انھوں نے اسے پڑھا، اس کا علم حاصل کیا اور اس میں مذکور حلال و حرام اور امر و نہی سے پوری طرح آگاہ ہوئے، مگر انھوں نے اس کا اثر قبول کرنے کے بجائے اس کے احکام کی مخالفت کی اور اس کے حرام کو حلال کرلیا اور شدید حرص کی وجہ سے اس حقیر دنیا کے مال کے حصول کی کوشش میں لگ گئے، حلال طریقے سے ملے یا حرام سے، سود ہو یا رشوت یا غیر کا حق۔ اس کے باوجود یہ کہتے رہے کہ ہمیں ضرور بخش دیا جائے گا۔ ” سَيُغْفَرُ لَنَا “ میں سین تاکید کے لیے ہے۔ (آلوسی) کیونکہ ہم اللہ کے بیٹے، اس کے محبوب اور اس کے انبیاء کی نسل سے ہیں، فرمایا : (وَقَالَتِ الْيَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ ) [ المائدۃ : ١٨] ” اور یہود و نصاریٰ نے کہا ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ “- وَاِنْ يَّاْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهٗ يَاْخُذُوْهُ ۭ: یعنی گناہ کرنے اور حرام کھانے کے بعد نہ وہ شرمندہ ہوتے ہیں اور نہ ان میں توبہ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، بلکہ گناہوں پر اور حرام خوری پر ان کی جرأت بڑھتی جاتی ہے، حالانکہ بخشش کے لیے تو توبہ کی ضرورت ہے، جس کا لازمی جزو گزشتہ پر ندامت اور آئندہ کے لیے وہ کام نہ کرنے کا خالص اور پختہ عزم ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ پہلی دفعہ حرام کھانے کے بعد اسی طرح کا حرام دوبارہ مل جائے تو اسے بھی نہیں چھوڑتے۔ چناچہ ایک مرتبہ رشوت لینے کے بعد جونہی انھیں دوبارہ رشوت کا موقع ملتا ہے بلا جھجک اسے قبول کرلیتے ہیں۔ یہ ان کے علماء کا حال ہے کہ لوگوں کو غلط مسئلے بتا کر حرام کھانے کے باوجود دعویٰ کرتے ہیں کہ ہماری بخشش ہوجائے گی، حالانکہ وہ غلط کام چھوڑنے کے لیے تیار نہیں، جو بخشش کی شرط اول ہے۔- اَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِمْ مِّيْثَاقُ الْكِتٰبِ ۔۔ : یہ عہد تفصیل کے ساتھ تورات کے علاوہ آل عمران کی آیت (١٨٧) میں مذکور ہے۔ - وَدَرَسُوْا مَا فِيْهِ : اور انھوں نے جو کچھ اس میں ہے پڑھ لیا ہے، یعنی خوب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تورات میں کہیں نہیں لکھا کہ تم جو گناہ چاہو کرتے جاؤ، میں تمہیں بخش دوں گا، مگر ان کی جرأت اور بےخوفی کا یہ عالم ہے کہ گناہ بھی کیے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی آیات کو بیچ کر دنیا بھی کمائے جاتے ہیں اور اللہ عزوجل کی طرف وہ باتیں بھی منسوب کیے جاتے ہیں جو اس نے کبھی نہیں کہیں۔- وَالدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ ۭ: یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈر کر حرام کھانے سے بچنے والوں کے لیے آخرت میں جو نعمتیں تیار ہیں وہ اس حقیر دنیا کے عارضی سازوسامان سے کہیں بہتر ہیں۔ سب کچھ جانتے ہوئے حرام کھانے والو کیا تم یہ نہیں سمجھتے ؟
تیسری آیت میں ارشاد ہے (آیت) فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْكِتٰبَ يَاْخُذُوْنَ عَرَضَ هٰذَا الْاَدْنٰى وَيَقُوْلُوْنَ سَيُغْفَرُ لَنَا ۚ وَاِنْ يَّاْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهٗ يَاْخُذُوْهُ ، اس میں پہلا لفظ خَلَفَ مصدر خلافت سے مشتق ماضی کا صیغہ ہے جس کے معنی مقام اور خلیفہ ہوگئے، اور دوسرا لفظ خَلْفٌ مصدر ہے جو قائم مقام اور خلیفہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، مفرد اور جمع دونوں کے لئے یکساں بولا جاتا ہے، لیکن خلف بسکون اللام اکثر برے خلیفہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جو اپنے بڑوں کے طرز کے خلاف برائیوں میں مبتلا ہو، اور خلف بفتح لام اس کے مقابل نیک اور قابل خلیفہ کو کہا جاتا ہے جو اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلے اور ان کے مقصد کی تکمیل کرے، اس لفظ کا اکثری استعمال اسی طرح ہے کہیں کہیں اس کے خلاف بھی استعمال ہوا ہے۔- وَّرِثُوا الْكِتٰبَ وارث سے مشتق ہے، وہ چیز جو مرنے والوں کے بعد زندہ رہنے والوں کو ملتی ہے اس کو میراث یا وراثت کہا جاتا ہے، معنی یہ ہیں کہ کتاب تورات ان لوگوں کو اپنے بڑوں سے وراثت میں مل گئی یعنی ان کے مرنے کے بعد ان لوگوں کے ہاتھ آئی۔ - لفظ عَرَضَ سامان کے معنی میں بولا جاتا ہے جو نقد کے بدلہ میں خریدا جاتا ہے اور کبھی مطلقا مال کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے خواہ نقد ہو یا سامان، تفسیر مظہری میں ہے کہ اس جگہ یہی عام معنی مراد ہیں، اور اس جگہ مال کو لفظ عرض سے تعبیر کرنے میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا کا مال کتنا ہی ہو، ناپائیدار اور عارضی ہے کیونکہ عرض کا لفظ اصل میں جوھر کے بالمقابل ناپائیدار چیز کے لئے مستعمل ہوتا ہے جس کا اپنا کوئی مستقل وجود نہ ہو بلکہ وہ اپنے وجود میں دوسری کسی چیز کا تابع ہو، اسی لئے عارض کا لفظ بادل کے معنی میں آتا ہے کیونکہ اس کا وجود قائم رہنے والا نہیں، جلد زائل اور ختم ہوجاتا ہے، قرآن کریم میں ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا اسی معنی کے لئے آیا ہے۔- هٰذَا الْاَدْنٰى میں لفظ ادنی، دُنُوٌ بمعنی قرب سے بھی مشتق کہا جاسکتا ہے، اس صورت میں ادنی کے معنی اقرب کے ہوجائیں گے، اسی کا مؤ نث دنیا ہے جس کے معنی قریب کے ہیں، آخرت کے مقابلہ میں یہ جہان انسان سے زیادہ قریب ہے اس لئے اس کو ادنی اور دنیا کہا جاتا ہے، اور دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ یہ لفظ دناءة بمعنی ذلت سے مشتق ہو تو اس کے معنی ذلیل و حقیر کے ہوجائیں گے، دنیا اور اس کے سب سامان بمقابلہ آخرت کے حقیر و ذلیل ہیں اس لئے اس کو ادنی اور دنیا کہا گیا۔- معنی آیت کے یہ ہیں کہ پہلے دور کے یہودیوں میں تو دو قسم کے لوگ تھے کچھ نیک صالح، پابند شریعت تورات، اور کچھ نافرمان گنہگار، مگر ان کے بعد جو لوگ ان کی نسل میں ان کے خلیفہ اور قائم مقام اور تورات کے وارث بنے، انہوں نے یہ حرکت اختیار کی کہ اللہ کی کتاب کو سوداگری کا مال بنالیا کہ اہل غرض سے رشوت لے کر اللہ کے کلام میں تحریف کرکے ان کے مطلب کے موافق بنانے لگے۔- (آیت) وَيَقُوْلُوْنَ سَيُغْفَرُ لَنَا، اس پر مزید جرأت یہ کہ یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ ہم نے گناہ کیا ہے مگر یہ گناہ ہمارا بخش دیا جائے گا، حق تعالیٰ نے ان کی غلطی پر اگلے جملے میں اس طرح تنبیہ فرمائی (آیت) وَاِنْ يَّاْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهٗ يَاْخُذُوْهُ ، یعنی ان کا حال یہ ہے کہ اگر اس وقت بھی ان کو تحریف کلام اللہ کے بدلہ میں کوئی مال ملنے لگے تو یہ اب بھی مال لے کر تحریف کرنے سے باز نہ آئیں، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور بخشش بجا اور حق ہے مگر انہیں لوگوں کے لئے جو اپنے کئے پر نادم ہوں اور آئندہ اس کے چھوڑنے کا پختہ عزم کرلیں جس کا اصطلاحی نام توبہ ہے۔ یہ لوگ اپنے جرم پر اصرار کے باوجود مغفرت کے امیدوار ہیں حالانکہ اس وقت ان کو پیسہ ملے تو تحریف کرنے میں کوتاہی نہ کریں، گناہ پر اصرار فرتے ہوئے مغفرت کی امید رکھنا خود فریبی سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔- کیا ان لوگوں سے تورات میں یہ عہد نہیں لیا گیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرکے حق کے سوا کوئی بات نہ کہیں گے اور ان لوگوں نے اس معاہدہ کو تورات میں پڑھا پڑھایا بھی ہے، سب ان کی عاقبت نااندیشی ہے، بات یہ ہے کہ دار آخرت ہی پرہیزگاروں کے لئے بہترین لازوال دولت ہے کیا وہ اتنی بات کو نہیں سمجھتے۔
فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْكِتٰبَ يَاْخُذُوْنَ عَرَضَ ہٰذَا الْاَدْنٰى وَيَقُوْلُوْنَ سَيُغْفَرُ لَنَا ٠ ۚ وَاِنْ يَّاْتِہِمْ عَرَضٌ مِّثْلُہٗ يَاْخُذُوْہُ ٠ ۭ اَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْہِمْ مِّيْثَاقُ الْكِتٰبِ اَنْ لَّا يَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ اِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوْا مَا فِيْہِ ٠ ۭ وَالدَّارُ الْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ ٠ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ١٦٩- خلف ( پیچھے )- خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11]- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔- ورث - الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» أي : أصله وبقيّته - ( ور ث ) الوارثۃ - والا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے جو کے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ۔«اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- عرض - أَعْرَضَ الشیءُ : بدا عُرْضُهُ ، وعَرَضْتُ العودَ علی الإناء، واعْتَرَضَ الشیءُ في حلقه : وقف فيه بِالْعَرْضِ ، واعْتَرَضَ الفرسُ في مشيه، وفيه عُرْضِيَّةٌ. أي : اعْتِرَاضٌ في مشيه من الصّعوبة، وعَرَضْتُ الشیءَ علی البیع، وعلی فلان، ولفلان نحو : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] ،- ( ع ر ض ) العرض - اعرض الشئی اس کی ایک جانب ظاہر ہوگئی عرضت العود علی الاناء برتن پر لکڑی کو چوڑی جانب سے رکھا ۔ عرضت الشئی علی فلان اولفلان میں نے فلاں کے سامنے وہ چیزیں پیش کی ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ۔ - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - وثق - وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] - والمِيثاقُ :- عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] - والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] - ( و ث ق )- وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔- حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔- المیثاق - کے منیق پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔- الموثق - ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- درس - دَرَسَ الدّار معناه : بقي أثرها، وبقاء الأثر يقتضي انمحاء ه في نفسه، فلذلک فسّر الدُّرُوس بالانمحاء، وکذا دَرَسَ الکتابُ ، ودَرَسْتُ العلم : تناولت أثره بالحفظ، ولمّا کان تناول ذلک بمداومة القراءة عبّر عن إدامة القراءة بالدّرس، قال تعالی: وَدَرَسُوا ما فِيهِ- [ الأعراف 169] ، وقال : بِما كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتابَ وَبِما كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ [ آل عمران 79] ، وَما آتَيْناهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَها [ سبأ 44] ، وقوله تعالی: وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ [ الأنعام 105] ، وقرئ : دَارَسْتَ أي : جاریت أهل الکتاب، وقیل : وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف 169] ، ترکوا العمل به، من قولهم : دَرَسَ القومُ المکان، أي : أبلوا أثره، ودَرَسَتِ المرأةُ : كناية عن حاضت، ودَرَسَ البعیرُ : صار فيه أثر جرب .- ( د ر س ) درس الدار ۔ گھر کے نشان باقی رہ گئے اور نشان کا باقی رہنا چونکہ شے کے فی ذاتہ مٹنے کو چاہتا ہے اس لئے دروس کے معنی انمحاء یعنی مٹ جانا کرلئے جاتے ہیں اسی طرح کے اصل معنی کتاب یا علم حفظ کرکے اس کا اثر لے لینے کے ہیں اور اثر کا حاصل ہونا مسلسل قراءت کے بغیر ممکن نہیں اس لئے درست الکتاب کے معیر مسلسل پڑھنا کے آتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف 169] اور جو کچھ اس ( کتاب ) میں لکھا ہ اس کو انہوں نے پڑھ بھی لیا ہے ۔ بِما كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتابَ وَبِما كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ [ آل عمران 79] کیونکہ تم کتاب ( خدا کی ) تعلیم دینے اور اسے پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو ۔ وَما آتَيْناهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَها [ سبأ 44] اور ہم نے نہ تو ان کو کتابیں دیں جن کو یہ پڑھتے ہیں اور یہ آیت کریمہ : ۔ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ [ الأنعام 105] میں ایک قراءت وارسلت بھی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کافر یہ نہ کہیں کہ تم نے کتاب کو دوسروں سے پڑھ لیا ۔ بعض نے کہا ہے وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف 169] کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اس پر عمل ترک کردیا اور یہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے ۔ یعنی انہوں نے مکان کے نشانات مٹادیئے درست المرءۃ ( کنایہ ) عورت کا حائضہ ہونا ۔ درس البعیر ۔ اونٹ کے جسم پر خارش کے اثرات ظاہر ہونا ۔- دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
خلف کون ہے ؟- قول باری ہے فخلف من بعد ھم خلف۔ پھر اگلی نسلوں کے بعد ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے) ایک قول کے مطابق لفظ خلف میں لام کلمہ ساکن ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کا اکثر استعمال مذمت کے معنوں میں ہوتا ہے۔ بعید کا مصرعہ ہے۔- وبقیت فی خلف کجلدالاجرب - میں ایسے ناخلف لوگوں میں رہ گیا جو خارشی اونٹ کی کھال کی طرح تھے۔ بعض دفعہ یہ لفظ لام کلمہ کے سکون کے ساتھ مدح کے لئے بھی آتا ہے۔ حضرت حسان (رض) کا شعر ہے۔ لنا القدم العلیا الیک وخلفنا لاولنا فی طاعۃ اللہ تابع۔۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے شاعر کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آنے میں ہمیں اولیت حاصل ہے اور اللہ کی فرمانبرداری کے سلسلے میں ہمارے جانشین اس شخص کے پیچھے ہیں جو ہم میں سب سے اول ہے۔ قول باری ہے یاخذون عرض ھذا الادنیٰ ۔ اس دنیائے دنی کے فائدے سمیٹتے ہیں) ایک قول کے مطابق عرض اس چیز کا نام ہے جس کی بقا بہت کم عرصے کے لئے ہو۔ کہا جاتا ہے عرض ھذا الامرعرضاً (یہ معاملہ عارضی ثابت ہوا ہے) عارض کا لفظ لازم کی ضد ہے۔ قول باری ہے ھذا عارض ممطرنا۔ یہ بادل ہے جو ہم پر بارش برسائے گا) عارض سے مراد بادل ہے اس لئے کہ وہ تھوڑے عرصے کے لئے رہتا ہے۔ قول باری ہے عرض ھذا الادنیٰ کے متعلق ایک قول ہے کہ اس سے مراد فیصلوں میں رشوت خوری ہے۔ قول باری ہے وان یاتھم عرض مثلہ یاخذوہ۔ اور اگر وہی متاع دنیا پھر سامنے آتی ہے تو پھر لپک کر اسے لے لیتے ہیں) مجاہد قتادہ اور سدی کا قول ہے کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو اپنے گناہوں پر اصرار کرتے ہیں حسن کا قول ہے کہ اس کے معنی ہیں کوئی چیز انہیں سیر نہیں کرتی۔
(١٦٩) نتیجتا ان نیکوکاروں کے بعد دوسرے بدترین یہودی پیدا ہوئے جنہوں نے تورات لی اور اس میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو صفت تھی اسے چھپایا تاکہ آپ کی تعریف و توصیف چھپا کر دنیا میں رشوت وغیرہ کا حرام مال حاصل کریں۔- اور پھر یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو گناہ ہم دن میں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی رات کو اور جو رات میں گناہ سرزد ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی دن میں بخشش فرمادیتے ہیں، حالانکہ جیسا پہلے ان کے پاس حرام مال آتا تھا آج بھی ویسا ہی آنے لگے تو اسے حلال سمجھ لیں، کیا ان سے سچ بولنیپر کتاب میں وعدہ نہیں لیا گیا تھا اور انہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف و توصیف میں تبدیلی سے بچتے ہیں، جنت کا گھر دنیا سے بہتر ہے، پھر نہیں سمجھتے کہ دنیا فانی اور آخرت باقی رہنے والی ہے۔
آیت ١٦٩ (فَخَلَفَ مِنْم بَعْدِہِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْکِتٰبَ یَاْخُذُوْنَ عَرَضَ ہٰذَا الْاَدْنٰی) - وہ ایسے لوگ ہیں جو حلال اور حرام سے بےنیاز ہو کر دنیاوی مفادات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کو آخرت کے بارے میں کسی قسم کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔- (وَیَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُ لَنَا ج) ۔ - ان کا کہنا ہے کہ ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں ‘ پیغمبروں کی اولاد ہیں ‘ اللہ کے چہیتے ہیں ‘ ہماری بخشش تو یقینی ہے۔ ہمارے لیے سب معاف کردیا جائے گا۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :129 یعنی گناہ کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ گناہ ہے مگر اس بھروسے پر اس کا ارتکاب کرتے ہیں کہ ہماری تو کسی نہ کسی طرح بخشش ہو ہی جائے گی کیونکہ ہم خدا کے چہیتے ہیں اور خواہ ہم کچھ ہی کریں بہرحال ہماری مغفرت ہونی ضروری ہے ۔ اسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ گناہ کرنے کے بعد وہ نہ شرمندہ ہوتے ہیں نہ توبہ کرتے ہیں بلکہ جب پھر ویسے ہی گناہ کا موقع سامنے آتا ہے تو پھر اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ بدنصیب لوگ اس کتاب کے وارث ہوئے جو ان کو دنیا کا امام بنانے والی تھی ، مگر ان کی کم ظرفی اور پست خیالی نے اس نسخہ کیمیا کو لے کر دنیا کی متاع حقیر کمانے سے زیادہ بلند کسی چیز کا حوصلہ نہ کیا اور بجائے اس کے کہ دنیا میں عدل و راستی کے علمبردار اور خیر و صلاح کے رہنما بنتے ، محض دنیا کے کُتے بن کر رہ گئے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :130 یعنی یہ خود جانتے ہیں کہ توراة میں کہیں بھی بنی اسرائیل کے لیے نجات کے غیر مشروط پروانے کا ذکر نہیں ہے ۔ نہ خدا نے کبھی ان سے یہ کہا اور نہ ان کے پیغمبروں نے کبھی ان کو یہ اطمینان دلایا کہ تم جو چاہو کرتے پھرو بہرحال تمہاری مغفرت ضرور ہوگی ۔ پھر آخر انہیں کیا حق ہے کہ خدا کی طرف وہ بات منسوب کریں جو خود خدا نے کبھی نہیں کہی حالانکہ ان سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ خدا کے نام سے کوئی بات خلاف ِ حق نہ کہیں گے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :131 اس آیت کے دو ترجمے ہوسکتے ہیں ۔ ایک وہ جو ہم نے متن میں اختیار کیا ہے ۔ دوسرا یہ کہ ”خدا ترس لوگوں کے لیے تو آخرت کی قیام گاہ ہی بہتر ہے“ ۔ پہلے ترجمہ کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ مغفرت کسی کا ذاتی یا خاندانی اجارہ نہیں ہے ، یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ تم کام تو وہ کرو جو سزا دینے کے لائق ہوں مگر تمہیں آخرت میں جگہ مل جائے اچھی محض اس لیے کہ تم یہودی یا اسرائیلی ہو ۔ اگر تم میں کچھ بھی عقل موجود ہو تو تم خود سمجھ سکتے ہو کہ آخرت میں اچھا مقام صرف اُنہی لوگوں کو مل سکتا جو دنیا میں خدا ترسی کے ساتھ کام کریں ۔ رہا دوسرا ترجمہ تو اس کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ دنیا اور اس کے فائدوں کو آخرت پر ترجیح دینا تو صرف ان لوگوں کا کام ہے جو ناخدا ترس ہوں ، خدا ترس لوگ تو لازماً دنیا کی مصلحتوں پر آخرت کی مصلحت کو اور دنیا کے عیش پر آخرت کی بھلائی کو ترجیح دیتے ہیں ۔
86: یہ ان کی اس بد عنوانی کا ذکر ہے کہ وہ رشوت لے کر اللہ کی کتاب کی غلط تفسیر کردیتے تھے، اور ساتھ ہی بڑے یقین کے ساتھ یہ بھی کہتے کہ ہمارے اس گناہ کی بخشش ہوجائے گی۔ حالانکہ بخشش تو توبہ سے ہوتی ہے، جس کا لازمی حصہ یہ ہے کہ آئندہ اس گناہ سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن ان کا حال یہ تھا کہ اگر انہیں دوبارہ رشوت کی پیشکش کی جاتی تو وہ دوبارہ لینے کو بے تکلف تیار رہتے تھے۔ اور یہ سب کچھ وہ دنیا کی خاطر کرتے تھے۔ حالانکہ اگر عقل ہوتی تو یہ دیکھتے کہ آخر کی زندگی کہیں بہتر ہے۔