Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 مطلب یہ ہے کہ ہر خیر اور شر کے راستے پر بیٹھوں گا۔ خیر سے روکوں گا اور شر کو ان کی نظروں میں پسندیدہ بنا کر ان کو اختیار کرنے کی ترغیب دوں گا۔ 17۔ 2 شاکرین کے دوسرے معنی موحدین کے کیے گئے ہیں۔ یعنی اکثر لوگوں کو میں شرک میں مبتلا کر دوں گا۔ شیطان نے اپنا یہ گمان فی الواقع سچا کر دکھایا، (وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ اِبْلِيْسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 34 ۔ سبأ :20) شیطان نے اپنا گمان سچا کر دکھایا، اور مومنوں کے ایک گروہ کو چھوڑ کر سب لوگ اس کے پیچھے لگ گئے۔ اسی لئے حدیث میں شیطان سے پناہ مانگنے اور قرآن میں اس کے مکر و کید سے بچنے کی بڑی تاکید آئی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ لَاٰتِيَنَّهُمْ مِّنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ ۔۔ : اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شیطان اور دوسری تمام آفات سے تمام اطراف سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے، چناچہ عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ صبح و شام یہ کلمات پڑھا کرتے تھے اور کبھی ان میں ناغہ نہیں کرتے تھے : ( اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَسْءَلُکَ الْعَفْوَ وَاْلعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ، اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَسْءَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِیْ دِیْنِیْ وَ دُنْیَایَ وَأَھْلِیْ وَمَالِیْ ، اَللّٰھُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِی وَآمِنْ رَّوْعَاتِی، اَللّٰھُمَّ احْفَظْنِیْ مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَ مِنْ خَلْفِیْ وَعَنْ یَّمِیْنِیْ وَعَنْ شِمَالِیْ وَمِنْ فَوْقِیْ وَاَعُوْذُ بِعَظْمَتِکَ اَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِیْ ) [ أحمد : ٢؍٢٥، ح : ٤٨٨٤۔ أبو داوٗد، الأدب، باب ما یقول إذا أصبح : ٥٠٧٤ ]” اے اللہ میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں معافی اور عافیت کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ میں تجھ سے اپنے دین میں اور اپنی دنیا میں اور اپنے اہل میں اور مال میں معافی اور عافیت کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ تو میری پردے والی چیزوں پر پردہ ڈال دے اور میری گھبراہٹوں کو امن عطا فرما۔ اے اللہ میری حفاظت فرما میرے آگے سے اور میرے پیچھے سے اور میرے دائیں سے اور میرے بائیں سے اور میرے اوپر سے اور میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے نیچے سے اچانک پکڑ لیا جاؤں۔ “ - وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِيْنَ : ابلیس کو غیب کی خبر تو نہ تھی محض گمان پر اس نے یہ دعویٰ کردیا مگر ظالم نے اپنا یہ گمان واقعی سچا کر دکھایا، جیسا کہ سورة سبا (٢٠) میں ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ اخْرُجْ مِنْہَا مَذْءُوْمًا مَّدْحُوْرًا۝ ٠ ۭ لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْہُمْ لَاَمْلَــــَٔـنَّ جَہَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِيْنَ۝ ١٨- ذأم - قال تعالی: اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُماً [ الأعراف 18] أي : مذموما . يقال : ذمته أذيمه ذيما، وذممته أذمّه ذمّا، وذَأَمْتُهُ ذَأْماً.- ( ذ ء م ) ذآ مہ یذء مہ ذاما اور ذمہ ( ن ) زما اور ذامہ کے ایک ہی معنی ہیں یعنی کسی کو حقیر اور مذموم گرد اننا ۔ قرآن میں ہے : ۔ اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُماً [ الأعراف 18] یہاں سے ذلیل و خوار ہو کر نکل جا جو شخص ان میں تیرا کہنا مانے گا میں ضرور تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔- دحر - الدَّحْر : الطّرد والإبعاد، يقال : دَحَرَهُ دُحُوراً ، قال تعالی: اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُماً مَدْحُوراً- [ الأعراف 18] ، وقال : فَتُلْقى فِي جَهَنَّمَ مَلُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء 39] ، وقال : وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] .- ( د ح ر ) - الدحر والداحور ۔ ( ن) کے معنی دھتکار دینے اور دور کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُماً مَدْحُوراً [ الأعراف 18] نکل جا یہاں سے ذلیل دھتکارا ہوا ۔ فَتُلْقى فِي جَهَنَّمَ مَلُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء 39] ملامت زدہ اور درگاہ خدا سے راندہ بنا کر جہنم میں ڈال دیئے جاؤ گے ۔ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] اور ہر طرف سے ( ان پر انگارے ) پھینگے جاتے ہیں ۔ ( یعنی وہاں سے ) نکال دینے کو ۔- مِلْء) بهرنا)- مقدار ما يأخذه الإناء الممتلئ، يقال : أعطني ملأه ومِلْأَيْهِ وثلاثة أَمْلَائِهِ.- الملأ کسی چیز کی اتنی مقدار جس سے کوئی بر تن بھر جائے محاورہ ہے : ۔ اعطنی ملاءہ وملاء بہ وثلاثۃ املائہ - جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - جہنم کے مختلف طبقات ( درکات) علی سبیل التنزل یہ ہیں۔ - (1) جہنم (2) لظیٰ (3) حطمہ (4) سعیر (5) سقر (6) جحیم (7) ہاویۃ۔ سب سے نیچے منافقوں کا یہی ٹھکانہ ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ابلیس کے وار انسان پر - قول باری ہے ثم لا تینھم من بین ایدیھم ومن خلفھم وعن ایمانھم وعن شمائلھم پھر ان کے آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں ہر طرف سے ان کو گھیروں گا) حضرت ابن عباس، ابراہیم، قتادہ، الحکم اور سدی سے منقول ہے کہ من بین ایدیھم ومن خلفھم) سے مراد ہے ” ان کی دنیا اور آخرت کی طرف سے، ان کی نیکیوں اور بدیوں کی جہت ہے “ مجاہد کا قول ہے۔” ان کی نظروں کے سامنے ہو کر اور ان کی نظروں سے چھپ کر “ ایک قول ہے ” ہر اس جہت سے جس میں انہیں اپنے پھندے میں پھانسنا ممکن ہوگا “۔ شیطان نے انسانوں کے خلاف اپنی فتنہ سا مانیوں کے لئے ایک جہت کا ذکر نہیں کیا یعنی ” ومن فوقھم “ (اور ان کے اوپر سے) نہیں کہا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ انسانوں پر اللہ کی رحمت اوپر سے نازل ہوتی ہے اس لئے اس جہت کو شیطان سے آزاد رکھا گیا۔ اسی طرح ومن تحت ارجلھم (اور ان کے قدموں کے نیچے سے) نہیں کہا اس لئے اگر اس کے حقیقی معنی مراد لئے جائیں تو اس جہت سے کوئی کارروائی ناممکن اور ممتنع ہوتی ہے۔ قول باری ہے ولاتقرباھذہ الشجرۃ فتکونا من الظالمین۔ مگر اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے ہو جائو گے) اللہ تعالیٰ نے درخت سے دونوں کے قرب کو مقرون کردیا۔ البتہ یہ بات معلوم ہے کہ اس میں یاد کی شرط لگائی تھی اور جان بوجھ کر اس کا علم رکھتے ہوئے کھانے کی شرط عائد کی تھی۔ اس لئے کہ نسیان اور خطا کی بنا پر کسی کام کے کرلینے میں جس پر کوئی دلیل قاطمع موجود نہ ہو، مواخذہ نہیں ہوتا۔ ان دونوں کا درخت سے کھا لینا معصیت کبیرہ نہیں تھی بلکہ دو وجوہ سے معصیت صغیرہ تھی۔ ایک تو یہ کہ دونوں اس معصیت کی وعید کو بھول گئے تھے اور یہ خیال کر بیٹھے تھے کہ یہ نہی استجباب پر مبنی ہے ایجاب پر مبنی نہیں ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (فنسی ولم نجدلہ عزماً ۔ سو ان سے بھول ہوگئی اور ہم نے ان میں پختگی نہیں پائی) دوسری وجہ یہ ہے کہ انہیں ایک متعین درخت کا اشارہ دیا گیا تھا اور انہوں نے اس سے عین درخت مراد سمجھی تھی جبکہ جنس درخت مرا د تھی جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سونا اور ریشم ہاتھ میں پکڑ کر فرمایا تھا ھذان مھلکا امتی۔ یہ دونوں چیزی میری امت کے لئے مہلک ہیں) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنس سونا اور جنس ریشم مراد لی تھی، صرف وہی سونا اور ریشم مراد نہیں تھے جنہیں آپ نے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :12 یہ وہ چیلنج تھا جو ابلیس نے خدا کو دیا ۔ اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ مہلت جو آپ نے مجھے قیامت تک کے لیے دی ہے اس سے فائدہ اُٹھا کر میں یہ ثابت کرنے کے لیے پورا زور صرف کر دوں گا کہ انسان اس فضیلت کا مستحق نہیں ہے جو آپ نے میرے مقابلہ میں اسے عطا کی ہے ۔ میں آپ کو دکھا دوں گا کہ یہ کیسے ناشکرا ، کیسا نمک حرام اور کیسا احسان فراموش ہے ۔ یہ مہلت جو شیطان نے مانگی اور خدا نے اسے عطا فرمادی ، اس سے مراد محض وقت ہی نہیں ہے بلکہ اس کام کا موقع دینا بھی ہے جو وہ کرنا چاہتا تھا ۔ یعنی اس کا مطالبہ یہ تھا کہ مجھے انسان کو بہکانے اور اس کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھا کر اس کی نااہلی ثابت کرنے کا موقع دیا جائے ، اور یہ موقع اللہ تعالیٰ نے اسے دے دیا ۔ چنانچہ سورہ بنی اسرائیل آیات ٦١ ۔ ٦۵ میں اس کی تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اختیار دے دیا کہ آدم اور اس کی اولاد کو راہ راست سے ہٹا دینے کے لیے جو چالیں وہ چلتا چاہتا ہے ، چلے ۔ ان چال بازیوں سے اسے روکا نہیں جائے گا بلکہ وہ سب راہیں کُھلی رہیں گی جن سے وہ انسان کو فتنہ میں ڈالنا چاہے گا ۔ لیکن اس کے ساتھ شرط یہ لگا دی کہ اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِم سُلْطَانٌ ، یعنی میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار نہ ہوگا ۔ تو صرف اس بات کا مجاز ہوگا کہ ان کو غلط فہمیوں میں ڈالے ، جھوٹی امیدیں دلائے ، بدی اور گمراہی کو ان کے سامنے خوش نما بنا کر پیش کرے ، لذتوں اور فائدوں کے سبز باغ دکھا کر ان کو غلط راستوں کی طرف دعوت دے ۔ مگر یہ طاقت تجھے نہیں دی جائے گی کہ انہیں ہاتھ پکڑ کر زبردستی اپنے راستے پر کھینچ لے جائے اور اگر وہ خود راہِ راست پر چلنا چاہیں تو انہیں نہ چلنے دے ۔ یہی بات سورہ ابراہیم آیت ۲۲ میں فرمائی ہے کہ قیامت میں عدالتِ الہٰی سے فیصلہ صادر ہو جانے کے بعد شیطان اپنے پیرو انسانوں سے کہےگا وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّن سُلْطَانٍ اِلَّا ٓاَنْ دَعَوْتَکُمْ فَاسْتَجِبْتُم لِی ْفَلَا تَلُوْ مُوْنِی وَلُوْمُوْٓااَنْفُسَکُمْ ، یعنی میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں کہ میں نے اپنی پیروی پر تمہیں مجبور کیا ہو ، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ تمہیں اپنی راہ پر بلایا اور تم نے میری دعوت قبول کر لی ۔ لہذٰا اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو ۔ اور جو شیطان نے خدا پر الزام عائد کیا ہے کہ تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان اپنی معصیّت کی ذمہ داری خدا پر ڈالتا ہے ۔ اس کو شکایت ہے کہ آدم کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دے کر تو نے مجھے فتنے میں ڈالا اور میرے نفس کے تکبر کو ٹھیس لگا کر مجھے اس حالت میں مبتلا کر دیا کہ میں نے تیری نافرمانی کی ۔ گویا اس احمق کی خواہش یہ تھی کہ اس کے نفس کی چوری پکڑی نہ جاتی بلکہ جس پندارِ غلط اور جس سرکشی کو اس نے اپنے اندر چھپا رکھا تھا اس پر پردہ ہی پڑا رہنے دیا جاتا ۔ یہ ایک کُھلی ہوئی سفیہانہ بات تھی جس کا جواب دینے کی کوئی ضرورت نہ تھی ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے سرے سے اس کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani