اسی طرح کی آیت ( وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ ۭ خُذُوْا مَآ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّاذْكُرُوْا مَا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ 63 ) 2- البقرة:63 ) ہے یعنی ہم نے ان کے سروں پر طور پہاڑ لا کھڑا کیا ۔ اسے فرشتے اٹھا لائے تھے ۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام انہیں ارض مقدس کی طرف لے چلے اور غصہ اتر جانے کے بعد تختیاں اٹھا لیں اور ان میں جو حکم احکام تھے ، وہ انہیں سنائے تو انہیں وہ سخت معلوم ہوئے اور تسلیم و تعمیل سے صاف انکار کر دیا تو بحکم الہی فرشتوں نے پہاڑ اٹھا کر ان کے سروں پر لا کھڑا کر دیا ( نسائی میں ) مروی ہے کہ جب کلیم اللہ علیہ صلوات نے فرمایا کہ لوگو اللہ کی کتاب کے احکام قبول کرو تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں سناؤ اس میں کیا احکام ہیں؟ اگر آسان ہوئے تو ہم منظور کرلیں گے ورنہ نہ مانیں گے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بار بار کے اصرار پر بھی یہ لوگ یہی کہتے رہے آخر اسی وقت اللہ کے حکم سے پہاڑ اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کے سروں پر معلق کھڑا ہو گیا اور اللہ کے پیغمبر نے فرمایا بو لو اب مانتے ہو یا اللہ تعالیٰ تم پر پہاڑ گرا کر تمہیں فنا کر دے؟ اسی وقت یہ سب کے سب مارے ڈر کے سجدے میں گر پڑے لیکن بائیں آنکھ سجدے میں تھی اور دائیں سے اوپر دیکھ رہے تھے کہ کہیں پہاڑ گر نہ پڑے ۔ چنانچہ یہودیوں میں اب تک سجدے کا طریقہ یہی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اسی طرح کے سجدے نے ہم پر سے عذاب الٰہی دور کر دیا ہے ۔ پھر جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان تختیوں کو کھولا تو ان میں کتاب تھی جسے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا اسی وقت تمام پہاڑ درخت پتھر سب کانپ اٹھے ۔ آج بھی یہودی تلاوت تورات کے وقت کانپ اٹھتے ہیں اور ان کے سر جھک جاتے ہیں ۔
171۔ 1 یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس تورات لائے اور اس کے احکام ان کو سنائے، تو انہوں نے پھر حسب عادت ان پر عمل کرنے سے انکار و اعراض کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر پہاڑ کو بلند کردیا کہ تم پر گرا کر تمہیں کچل دیا جائے گا، جس سے ڈرتے ہوئے انہوں تورات پر عمل کرنے کا عہد کیا۔ بعض کہتے ہیں کہ رفع جبل کا یہ واقعہ ان کے مطالبے پر پیش آیا، جب انہوں نے کہا کہ ہم تورات پر عمل اس وقت کریں گے جب اللہ تعالیٰ پہاڑ کو ہمارے اوپر بلند کرکے دکھائے، لیکن پہلی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے واللہ اعلَم۔ یہاں مطلق پہاڑ کا ذکر ہے۔ لیکن اس سے قبل سورة بقرہ آیت 63 اور آیت 93 میں دو جگہ اس واقعہ کا ذکر آیا ہے۔ وہاں اس کا نام صراحت کے ساتھ کوہ طور بتلایا گیا۔
[١٧٤] اس کی تشریح سورة بقرہ کی آیت نمبر ٦٣ کے تحت لکھی جا چکی ہے وہاں ملاحظہ کرلی جائے۔
وَاِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ ۔۔ : ” نَتَقَ یَنْتِقُ “ کا معنی ” کسی چیز کو زور سے کھینچ کر ہلانا “ ہے۔ (راغب) یہاں پہاڑ کا ذکر ہے اور سورة بقرہ میں طور کا ذکر ہے، یا تو وہ طور نامی پہاڑ تھا اور یا لفظ ” طور “ عام پہاڑ کے معنی میں بھی آتا ہے، دونوں جگہ دونوں مراد ہوسکتے ہیں۔ بنی اسرائیل کی سابقہ سرکشیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان سے تورات کے احکام پر عمل کا پختہ عہد لینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے زلزلے کے ساتھ پہاڑ کو اکھاڑ کر ان کے سروں پر سایہ فگن کردیا اور انھیں یقین ہوگیا کہ یہ ہم پر گرنے ہی والا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ اس ہیبت ناک ماحول میں وہ اللہ سے ڈرتے ہوئے عمل کا سچا عہد کریں۔ قوت کے ساتھ پکڑنے کا مطلب اس پر عمل کرنا ہے۔
اس آیت میں لفظ نَتَقْنَا، نتق سے مشتق ہے جس کے معنی کھینچنے اور اٹھانے کے ہیں، سورة بقرہ میں اسی واقعہ کا ذکر لفظ رَفَعنَا سے کیا گیا ہے اس لئے یہاں بھی حضرت ابن عباس نے نَتَقْنَا کی تفسیر رَفَعنَا سے فرمائی ہے۔ - اور لفظ ظُلَّـةٌ، ظل بمعنی سایہ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں سائبان، مگر لفظ سائبان عرف میں ایسی چیز کیلئے بولا جاتا ہے جس کا سایہ سر پر پڑتا ہو مگر وہ کسی عمود پر قائم ہو، اور اس واقعہ میں پہاڑ ان کے سر پر معلق کردیا گیا تھا سائبان کی صورت میں نہ تھا اسی لئے اس کو حرف تشبیہ کے ساتھ ذکر کیا گیا۔ - معنی آیت کے یہ ہیں کہ وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب کہ ہم نے بنی اسرائیل کے سروں پر پہاڑ کو اٹھا کر معلق کردیا جس سے وہ سمجھنے لگے کہ اب ہم پر پہاڑ گرا چاہتا ہے، اس حالت میں ان سے کہا گیا (آیت) خُذُوْا مَآ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ یعنی مضبوط پکڑو ان احکام کو جو ہم نے تمہیں دیئے ہیں اور یاد رکھو تورات کی ہدایات کو تاکہ تم برے اعمال و اخلاق سے باز آجاؤ۔ - واقعہ اس کا یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کی خواہش اور فرمائش کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے کتاب و شریعت مانگی اور حسب الحکم اس سلسلہ میں چالیس راتوں کا اعتکاف کوہ طور پر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی یہ کتاب ملی اور بنی اسرائیل کو سنائی تو اس میں بہت سے احکام ایسے پائے جو ان کی طبیعت اور سہولت کے خلاف تھے ان کو سن کر انکار کرنے لگے کہ ہم سے تو ان احکام پر عمل نہیں ہوسکتا، اس وقت حق تعالیٰ نے جبریل امین کو حکم دیا انہوں نے کوہ طور کو اس بستی کے اوپر معلق کردیا جس میں بنی اسرائیل آباد تھے، اس کا رقبہ تاریخی روایتوں میں تین مربع میل بیان کیا گیا ہے، اس طرح ان لوگوں نے موت کو اپنے سامنے کھڑا دیکھا تو سب سجدہ میں گر گئے اور احکام تورات کی پابندی کا عہد کرلیا، لیکن اس کے باوجود پھر بار بار خلاف ورزی ہی کرتے رہے - دین میں جبر واکراہ نہیں اس کا صحیح مطلب اور شبہ کا جواب :- یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ قرآن کریم کا عام اعلان ہے (آیت) لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ یعنی دین میں جبر واکراہ نہیں کہ کسی کو زبردستی دین حق کے قبول کرنے پر مجبور کیا جائے، اور اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کو دین کے قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ لیکن ذرا غور کیا جائے تو فرق کھلا ہوا ہے کہ کسی غیر مسلم کو اسلام کے قبول کرنے پر کبھی کہیں مجبور نہیں کیا گیا، لیکن جو شخص مسلمان ہو کر اسلامی عہد و میثاق کا پابند ہوگیا اس کے بعد وہ اگر احکام اسلام کی خلاف ورزی کرنے لگے تو اس پر ضرور جبر کیا جائے گا اور خلاف ورزی کی صورت میں سزا دی جائے گی، اسلامی تعزیرات میں بہت سی سزائیں ایسے لوگوں کے لئے مقرر ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ (آیت) لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کا تعلق غیر مسلموں سے ہے کہ ان کو بجبر مسلمان نہیں بنایا جائے گا، اور بنی اسرائیل کے اس واقعہ میں کسی کو اسلام قبول کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا گیا بلکہ ان لوگوں نے مسلمان ہونے کے باوجود احکام تورات کی پابندی سے انکار کردیا، اس لئے ان پر جبر واکراہ کرکے پابندی کرنا (آیت) لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کے خلاف نہیں۔
وَاِذْ نَـتَقْنَا الْجَــبَلَ فَوْقَہُمْ كَاَنَّہٗ ظُلَّـۃٌ وَّظَنُّوْٓا اَنَّہٗ وَاقِعٌۢ بِہِمْ ٠ ۚ خُذُوْا مَآ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاذْكُرُوْا مَا فِيْہِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ١٧١ ۧ- نتق - نَتَقَ الشیءَ : جَذَبَهُ ونَزَعَهُ حتی يسترخِيَ ، كنَتْقِ عُرَى الحِمْل . قال تعالی: وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ [ الأعراف 171] ، ومنه استعیر : امرأة نَاتِقٌ: إذا کثُر ولدُها، وقیل : زِنْدٌ نَاتِقٌ: وَارٍ ، تشبيهاً بالمرأة النَّاتِق .- ( ن ت ق ) نتق الشئی کے معنی کسی چیز کو کھنیچ کر ڈھیلا کردینے کے ہیں ۔ جیسے نتق عر ی الحمل اس نے بوجھ کی گر ہیں کھول دیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ [ الأعراف 171] اور جب ہم نے ان کے سروں پر پہاڑا ٹھا کھڑا کیا ۔ اسی سے استعارہ کے طور پر کثیرالا ولا عورت کو امراۃ ناتق کہا جاتا ہے اور اس عورت کو امراۃ ناتق کہا جاتا ہے اور اس عورت کے ساتھ تشبیہ دے کر زدر وآتش افزوز چقماق کو بھی زند ناتق کہتے ہیں ۔- جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟- فوق - فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة،- وذلک أضرب :- الأول : باعتبار العلوّ.- نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] - الثاني : باعتبار الصّعود والحدور - . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] .- الثالث : يقال في العدد .- نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] .- الرابع : في الکبر والصّغر - مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] .- الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة .- نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] .- السادس : باعتبار القهر والغلبة .- نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] - ( ف و ق ) فوق - یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے - اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے - اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے - ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں - اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے - ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی - ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ - ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی - دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔- 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے - جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] کافروں پر فائق ۔- 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط - کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ - ظُّلَّةُ :- سحابةٌ تُظِلُّ ، وأكثر ما يقال فيما يستوخم ويكره . قال تعالی: كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ- [ الأعراف 171] ، عَذابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ [ الشعراء 189]- اور ظلۃ سایہ فگن بدلی کو کہتے ہیں اور عام طور پر اس کا استعمال ناخوشگوار مواقع پر ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ [ الأعراف 171] گویا وہ سایہ دار بدلی ہے عذاب يَوْمِ الظُّلَّةِ [ الشعراء 189] سائبان کی طرح چھا جانیوالے دن کے عذاب نے۔ - ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - وقع - الوُقُوعُ : ثبوتُ الشیءِ وسقوطُهُ. يقال : وَقَعَ الطائرُ وُقُوعاً ، والوَاقِعَةُ لا تقال إلّا في الشّدّة والمکروه، وأكثر ما جاء في القرآن من لفظ «وَقَعَ» جاء في العذاب والشّدائد نحو : إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] ،- ( و ق ع ) الوقوع - کے معنی کیس چیز کے ثابت ہونے اور نیچے گر نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ وقع الطیر وقوعا پر ندا نیچے گر پڑا ۔ الواقعۃ اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں سختی ہو اور قرآن پاک میں اس مادہ سے جس قدر مشتقات استعمال ہوئے ہیں وہ زیادہ تر عذاب اور شدائد کے واقع ہونے کے متعلق استعمال ہوئے ہیں چناچہ فرمایا ۔- إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں ۔ - أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسعمارل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔
(١٧١) اور جس وقت ہم نے پہاڑ کو اکھاڑ کر چھت کی طرح اٹھا کر ان کے سروں پر لٹکا دیا اور انھیں پورا یقین ہوگیا کہ اگر ہم نے کتاب کو قبول نہ کیا تو ہمارے اوپر گرا دیا جائے گا۔- اس وقت اللہ تعالیٰ نے کہا جو ہم نے تمہیں دیا ہے اس پر پوری مضبوطی اور استقامت سے عمل کرو اور ثواب و عذاب کو یاد رکھو یا یہ کہ اس کتاب میں جو اوامرو نواہی ہیں اسے محفوظ رکھو یا یہ کہ جو اس میں حلال و حرام ہیں، اس پر عمل کرو تاکہ غصہ اور عذاب سے نجات حاصل ہو اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہو۔
(خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاذْکُرُوْا مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ) ۔ - اب آخری تین رکوعوں میں فلسفۂ دین کے اعتبار سے بہت اہم مضامین آ رہے ہیں۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :132 اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جو موسیٰ علیہ السلام کو شہادت نامہ کی سنگین لوحیں عطا کیے جانے کے موقع پر کوہِ سینا کے دامن میں پیش آیا تھا ۔ بائیبل میں اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ”اور موسیٰ لوگوں کو خیمہ گاہ سے باہر لایا کہ خدا سے ملائے اور وہ پہاڑ کے نیچے آ کھڑے ہوئے اور کوہِ سینا اُوپر سے نیچے تک دھوئیں سے بھر گیا کیونکہ خداوند شعلہ میں ہو کر اس پر اُترا اور دھواں تنور کے دھوئیں کی طرح اوپر کو اٹھ رہا تھا اور وہ سارا پہاڑ زور سے ہل رہا تھا“ ( خروج ١۹: ١۷ ۔ ١۸ ) اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے کتاب کی پابندی کا عہد لیا اور عہد لیتے ہوئے خارج میں ان پر ایسا ماحول طاری کر دیا جس سے انہیں خدا کے جلال اور اس کی عظمت و برتری اور اس کے عہد کی اہمیت کا پورا پورا احساس ہو اور وہ اس شہنشاہ کائنات کے ساتھ میثاق استوار کرنے کو کوئی معمولی سی بات نہ سمجھیں ۔ اس سے یہ گمان نہ کرنا چاہیے کہ وہ خدا کے ساتھ میثاق باندھنے پر آمادہ نہ تھے اور انہیں زبردستی خوف زدہ کر کے اس پر آمادہ کیا گیا ۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ سب کے سب اہل ایمان تھے اور دامن کوہ میں میثاق باندھنے ہی کے لیے گئے تھے ، مگر اللہ تعالیٰ نے معمولی طور پر ان سے عہد و اقرار لینے کے بجائے مناسب جانا کہ اس عہد و اقرار کی اہمیت ان کو اچھی طرح محسوس کرادی جائے تا کہ اقرار کرتے وقت انہیں یہ احساس رہے کہ وہ کس قادر مطلق ہستی سے اقرار کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ بد عہدی کرنے کا انجام کیا کچھ ہو سکتا ہے ۔ یہاں پہنچ کر بنی اسرائیل سے خطاب ختم ہو جاتا ہے اور بعد کے رکوعوں میں تقریر کا رخ عام انسانوں کی طرف پھرتا ہے جن میں خصوصیت کے ساتھ روئے سخن ان لوگوں کی جانب ہے جو براہ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب تھے ۔
87: یہ واقعہ سورۃ بقرہ (63:2) اور سورۃ نساء (154:4) میں بھی گذرا ہے اور سورۃ بقرہ کی متعلقہ آیت کے تحت ہم نے اس کا خلاصہ بیان کیا ہے وہاں ہم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ عربی زبان کے لحاظ سے اس آیت کا یہ ترجمہ بھی ممکن ہے کہ : ہم نے پہاڑ کو ان کے اوپر اس طرح زور زور سے ہلایا کہ انہیں یہ گمان ہوگیا کہ وہ ان کے اوپر گرنے والا ہے۔ْ