Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بہترین دعا رب جنہیں راہ دکھائے انہیں کوئی بےراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ ہی غلط راہ پر ڈال دے اس کی شومی قسمت میں کیا شک ہے ؟ اللہ کا چاہا ہوتا ہے اس کا نہ چاہا کبھی نہیں ہو سکتا ۔ ابن مسعود کی حدیث میں ہے کہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی سے ہدایت طلب کرتے ہیں اور اسی سے بخشش مانگتے ہیں ۔ ہم اپنے نفس کی شرارتوں سے اللہ کی پناہ لیتے ہیں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے بھی ۔ اللہ کے راہ دکھائے ہوئے کو کوئی بہکا نہیں سکتا اور اس کے گمراہ کئے ہوئے کو کوئی راہ راست پر لا نہیں سکتا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ معبود صرف اللہ ہی ہے وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میری گواہی ہے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ ( مسند احمد وغیرہ )

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧٨] علم گمراہی کا سبب بھی بن سکتا ہے :۔ یعنی انسان کو اس کا علم و فضل صرف اس صورت میں فائدہ دے سکتا ہے جبکہ اللہ کی طرف سے اس علم پر عمل کرنے کی توفیق بھی نصیب ہو لہذا کسی شخص کو اپنی علمی قابلیت اور فضیلت پر نازاں نہ ہونا چاہیے۔ بلکہ عقل کی کجروی سے بچنے اور سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ شیطان علم کی راہ سے بھی انسانوں کو گمراہ کرسکتا ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ سب گمراہ فرقوں کے قائدین عموماً ذہین و فطین اور عالم لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

مَنْ يَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِيْ ۚ۔۔ : ہدایت کا نور اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، وہ اس کا مالک ہے، جسے چاہے عطا کر دے اور جسے چاہے عطا نہ کرے اور وہ ضلالت کے اندھیروں میں بھٹکتا رہے۔ یہ مسئلۂ تقدیر ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس پر بھی ایمان لانا واجب ہے کہ وہ کسی کو ہدایت نہ دے تو ظالم نہیں، کیونکہ مالک جسے چاہے اپنی چیز دے جسے چاہے نہ دے اور وہ تو ایسا مالک ہے جس سے کوئی پوچھنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا، فرمایا : (لَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْــَٔــلُوْن) [ الأنبیاء : ٢٣ ] ” اس سے نہیں پوچھا جاتا اس کے متعلق جو وہ کرے اور ان سے پوچھا جاتا ہے۔ “ ہاں، یہ بات ضرور ہے کہ اس نے جو کچھ کیا ہے وہ عین عدل ہے، کیونکہ وہ ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا، فرمایا : ( وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِيْدِ ) [ حٰم آ السجدۃ : ٤٦ ] ” اور تیرا رب اپنے بندوں پر ہرگز کوئی ظلم کرنے والا نہیں۔ “ - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہر خطبہ میں حمد و ثنا کے بعد فرمایا کرتے تھے : ( مَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہُ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَا ھَادِیَ لَہُ ) [ مسلم، الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ : ٨٦٨، عن ابن عباس (رض) ] ” جسے اللہ سیدھی راہ پر لگائے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی سیدھی راہ پر نہیں لگا سکتا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت کرتا ہے سو ہدایت پانے والا وہی ہوتا ہے اور جس کو گمراہ کردے سو ایسے ہی لوگ (ابدی) خسارہ میں پڑجاتے ہیں (پھر ان سے توقع ہدایت کی کرنا اور ہدایت نہ ہونے سے مغموم ہونا بیکار) اور (جب وہ لوگ اپنے قوٰی مُدرکہ سے کام ہی نہیں لیتے تو ہدایت کہاں سے ہو، سو ان کے نصیب میں تو دوزخ ہی ہے چنانچہ) ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ (ہی میں رہنے) کے لئے پیدا کئے ہیں جن کے (نام کو تو) دل (ہیں مگر) ایسے ہیں جن سے (حق بات کو) نہیں سمجھتے (چونکہ اس کا ارادہ ہی نہیں کرتے) اور جن کے (نام کو تو) آنکھیں (ہیں مگر) ایسی ہیں جن سے (نظر استدلال کے طور پر کسی چیز کو) نہیں دیکھتے اور جن کے ( نام کو تو) کان (ہیں مگر) ایسے ہیں جن سے ( متوجہ ہو کر حق بات کو) نہیں سنتے (غرض) یہ لوگ (آخرت کی طرف متوجہ ہونے میں) چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ (اس حیثیت سے کہ چوپایوں کو آخرت کی طرف متوجہ ہونے کا مکلف تو نہیں بنایا گیا سو ان کا متوجہ نہ ہونا مذموم نہیں اور ان کو تو اس کا حکم ہے پھر بھی بےتوجہی کرتے ہیں سو اس اعتبار سے) یہ لوگ (ان چوپایوں سے بھی) زیادہ بےراہ ہیں (کیونکہ) یہ لوگ (باوجود توجہ دلانے کے آخرت سے) غافل ہیں (بخلاف چوپایوں کے، جیسا اوپر بیان ہوا)- معارف ومسائل - پہلی آیت کا مضمون یہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے صحیح راستہ کی ہدایت کردی وہ ہی ہدایت پانے والا ہے اور جن کو گمراہ کردیا تو وہ ہی خسارے اور نقصان میں پڑنے والے ہیں۔- یہ مضمون قرآن مجید کی بہت سی آیات میں بار بار آیا ہے، جس میں بتلایا گیا ہے کہ ہدایت اور گمراہی اور ہر خیر و شر، اچھے برے کا خالق صرف اللہ جل شانہ ہے، انسان کے سامنے اچھے برے، صحیح غلط دونوں راستے کردیئے گئے ہیں اور اس کو ایک خاص قسم کا اختیار دیا گیا ہے وہ اپنے اس اختیار کو اگر اچھے اور صحیح راستہ میں خرچ کرتا ہے تو ثواب اور جنت کا مستحق ہوتا ہے، برے اور غلط راستے میں لگاتا ہے تو عذاب اور جہنم میں ٹھکانا ہوتا ہے۔ - یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہدایت پانے والے کو بصیغہ مفرد ذکر کیا گیا اور گمراہی اختیار کرنے والوں کو بصیغہ جمع، اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ہدایت کا راستہ صرف ایک ہی دین حق ہے جو آدم (علیہ السلام) سے شروع ہو کر خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک سب انبیاء (علیہم السلام) کا طریق رہا ہے، اصول سب کے مشترک اور ایک ہیں، اس لئے حق کی پیروی کرنے والے خواہ کسی زمانہ میں اور کسی نبی کی امت میں اور کسی دین و مذہب سے متعلق ہوں وہ سب ایک ہیں۔- اور گمراہی کے ہزاروں راستے الگ الگ ہیں اس لئے گمراہوں کو بصیغہ جمع (آیت) فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ فرمایا گیا۔- نیز اس آیت میں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ گمراہی اختیار کرنے والوں کی سزا اور انجام بد کا ذکر کیا گیا کہ وہ لوگ خسارہ میں پڑنے والے ہیں، اس کے بالمقابل ہدایت یافتہ حضرات کی کسی خاص جزاء کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا گیا کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں۔ اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ہدایت ایسی عظیم الشان نعمت ہے جو دین و دنیا کی ساری نعمتوں اور رحمتوں پر حاوی ہے، دنیا میں حیات طیبہ اور آخرت میں جنت کی لازوال نعمتیں سب ہدایت ہی کے ساتھ وابستہ ہیں، اس لحاظ سے ہدایت خود ایک بھاری نعمت اور بہت بڑا انعام ہے جس کے بعد ان نعمتوں کے شمار کرنے کی ضرورت نہیں رہتی جو ہدایت کے صلہ میں ملنے والی ہیں۔- اس کی مثال ایسی ہے کوئی بڑی حکومت و سطلنت کا مالک کسی شخص کو یہ کہہ دے کہ تم ہمارے مقرب ہو ہم تمہاری بات سنیں اور مانیں گے تو ہر جاننے والا جانتا ہے کہ اس سے بڑا کوئی عہدہ و منصب یا کوئی دولت اس کے لئے نہیں ہوسکتی۔- اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کو ہدایت یافتہ کا خطاب دے دیا تو اس کو دین و دنیا کی ساری نعمتیں حاصل ہوگئیں، اسی لئے بزرگان سلف نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر و عبادت خود ہی اپنی جزاء اور اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان عطا ہے، جو شخص ذکر اللہ میں مشغول ہے وہ اسی وقت اللہ تعالیٰ کا انعام نقد پارہا ہے، آخرت و جنت کا انعام دوسری نعمت ہے، اسی سے قرآن کریم کی اس آیت کا مفہوم بھی سمجھ میں آجاتا ہے جس میں فرمایا (آیت) جَزَاۗءً مِّنْ رَّبِّكَ عَطَاۗءً ، کہ ایک ہی چیز کو جزاء بھی فرمایا گیا اور عطاء بھی، حالانکہ دونوں چیزیں الگ الگ ہیں، جزاء کسی عمل کا معاوضہ ہوتا ہے اور عطاء بلا معاوضہ۔- اس میں جزاء وعطاء کی حقیقت بتلادی کہ جس چیز کو تم جزاء اور عمل کا بدلہ سمجھتے ہو وہ بھی درحقیقت ہماری عطاء و انعام ہی ہے کیونکہ جس عمل کا یہ بدلہ ملا ہے وہ عمل خود ہمارا انعام تھا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَنْ يَّہْدِ اللہُ فَہُوَالْمُہْتَدِيْ۝ ٠ ۚ وَمَنْ يُّضْلِلْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِـرُوْنَ۝ ١٧٨- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- اهْتِدَاءُ- يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] ، - الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو - ( ضل)إِضْلَالُ- والإِضْلَالُ ضربان : أحدهما : أن يكون سببه الضَّلَالُ ، وذلک علی وجهين : إمّا بأن يَضِلَّ عنک الشیءُ کقولک : أَضْلَلْتُ البعیرَ ، أي : ضَلَّ عنّي، وإمّا أن تحکم بِضَلَالِهِ ، والضَّلَالُ في هذين سبب الإِضْلَالِ.- والضّرب الثاني :- أن يكون الإِضْلَالُ سببا لِلضَّلَالِ ، وهو أن يزيّن للإنسان الباطل ليضلّ کقوله : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء 113] ، أي يتحرّون أفعالا يقصدون بها أن تَضِلَّ ، فلا يحصل من فعلهم ذلك إلّا ما فيه ضَلَالُ أنفسِهِم، وقال عن الشیطان : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء 119] ، وقال في الشّيطان : وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس 62] ، وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 60] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص 26] ،- وإِضْلَالُ اللهِ تعالیٰ للإنسان علی أحد وجهين :- أحدهما - أن يكون سببُهُ الضَّلَالَ ، وهو أن يَضِلَّ الإنسانُ فيحكم اللہ عليه بذلک في الدّنيا، ويعدل به عن طریق الجنّة إلى النار في الآخرة، وذلک إِضْلَالٌ هو حقٌّ وعدلٌ ، فالحکم علی الضَّالِّ بضَلَالِهِ والعدول به عن طریق الجنّة إلى النار عدل وحقّ.- والثاني من إِضْلَالِ اللهِ :- هو أنّ اللہ تعالیٰ وضع جبلّة الإنسان علی هيئة إذا راعی طریقا، محمودا کان أو مذموما، ألفه واستطابه ولزمه، وتعذّر صرفه وانصرافه عنه، ويصير ذلک کالطّبع الذي يأبى علی الناقل، ولذلک قيل : العادة طبع ثان «2» . وهذه القوّة في الإنسان فعل إلهيّ ، وإذا کان کذلک۔ وقد ذکر في غير هذا الموضع أنّ كلّ شيء يكون سببا في وقوع فعل۔ صحّ نسبة ذلک الفعل إليه، فصحّ أن ينسب ضلال العبد إلى اللہ من هذا الوجه، فيقال : أَضَلَّهُ اللهُ لا علی الوجه الذي يتصوّره الجهلة، ولما قلناه جعل الإِضْلَالَ المنسوب إلى نفسه للکافر والفاسق دون المؤمن، بل نفی عن نفسه إِضْلَالَ المؤمنِ فقال : وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ- [ التوبة 115] ، فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد 4- 5] ، وقال في الکافروالفاسق : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد 8] ، وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة 26] ، كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر 74] ، وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم 27] ، وعلی هذا النّحو تقلیب الأفئدة في قوله : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام 110] ، والختم علی القلب في قوله : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] ، وزیادة المرض في قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] .- الاضلال ( یعنی دوسرے کو گمراہ کرنے ) کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا سبب خود اپنی ضلالت ہو یہ دو قسم پر ہے ۔ (1) ایک یہ کہ کوئی چیز ضائع ہوجائے مثلا کہاجاتا ہے اضللت البعیر ۔ میرا اونٹ کھو گیا ۔ (2) دوم کہ دوسرے پر ضلالت کا حکم لگانا ان دونوں صورتوں میں اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کی پہلی کے برعکس ہے یعنی اضلال بذاتہ ضلالۃ کا سبب بنے اسی طرح پر کہ کسی انسان کو گمراہ کرنے کے لئے باطل اس کے سامنے پر فریب اور جاذب انداز میں پیش کیا جائے جیسے فرمایا : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء 113] ، ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کرچکی تھی اور یہ اپنے سوا کسی کو بہکا نہیں سکتے۔ یعنی وہ اپنے اعمال سے تجھے گمراہ کرنے کی کوشش میں ہیں مگر وہ اپنے اس کردار سے خود ہی گمراہ ہو رہے ہیں ۔ اور شیطان کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء 119] اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا ۔ اور شیطان کے بارے میں فرمایا : ۔ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس 62] اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا ۔ وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 60] اور شیطان تو چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے ۔ وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں خدا کے رستے سے بھٹکادے گی ۔ اللہ تعالیٰ کے انسان کو گمراہ کرنے کی دو صورتیں ہی ہوسکتی ہیں ( 1 ) ایک یہ کہ اس کا سبب انسان کی خود اپنی ضلالت ہو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف اضلال کی نسبت کے یہ معنی ہوں گے کہ جب انسان از خود گمرہ ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں اس پر گمراہی کا حکم ثبت ہوجاتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخرت کے دن اسے جنت کے راستہ سے ہٹا کر دوزخ کے راستہ پر ڈال دیا جائے گا ۔ ( 2 ) اور اللہ تعالٰ کی طرف اضلال کی نسببت کے دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے انسان کی جبلت ہی کچھ اس قسم کی بنائی ہے کہ جب انسان کسی اچھے یا برے راستہ کو اختیار کرلیتا ہے تو اس سے مانوس ہوجاتا ہے اور اسے اچھا سمجھنے لگتا ہے اور آخر کا اس پر اتنی مضبوطی سے جم جاتا ہے کہ اس راہ سے ہٹا نایا اس کا خود اسے چھوڑ دینا دشوار ہوجاتا ہے اور وہ اعمال اس کی طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں اسی اعتبار سے کہا گیا ہے کہ عادت طبعہ ثانیہ ہے ۔ پھر جب انسان کی اس قسم کی فطرت اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے اور دوسرے مقام پر ہم بیان کرچکے ہیں کہ فعل کی نسبت اس کے سبب کی طرف بھی ہوسکتی ہے لہذا اضلال کی نسبت اللہ تعالیٰ کیطرف بھی ہوسکتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گمراہکر دیا ور نہ باری تعالیٰ کے گمراہ کر نیکے وہ معنی نہیں ہیں جو عوام جہلاء سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اللہ تعالیٰ کی طرف گمراہ کرنے کینسبت اسی جگہ کی ہے جہاں کافر اور فاسق لوگ مراد ہیں نہ کہ مومن بلکہ حق تعالیٰ نے مومنین کو گمراہ کرنے کی اپنی ذات سے نفی فرمائی ہے چناچہ ارشاد ہے ۔ وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة 115] اور خدا ایسا نہیں ہے کہ کسی قومکو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کردے ۔ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد 4- 5] ان کے عملوں کر ہر گز ضائع نہ کریگا بلکہ ان کو سیدھے رستے پر چلائے گا ۔ اور کافر اور فاسق لوگوں کے متعلق فرمایا : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد 8] ان کے لئے ہلاکت ہے اور وہ ان کے اعمال کو برباد کردیگا : وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة 26] اور گمراہ بھی کرتا ہے تو نافرمانوں ہی کو ۔ كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر 74] اسی طرح خدا کافررں کو گمراہ کرتا ہے ۔ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم 27] اور خدا بےانصافوں کو گمراہ کردیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام 110] اور ہم ان کے دلوں کو الٹ دیں گے ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے انکے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ان کے دلوں میں ( کفر کا ) مرض تھا خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ میں دلوں کے پھیر دینے اور ان پر مہر لگا دینے اور ان کی مرض میں اضافہ کردینے سے بھی یہی معنی مراد ہیں ۔- خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧٨۔ ١٧٩) جسے وہ (یعنی اللہ تعالیٰ ) اپنے دین کی ہدایت دے، وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ اپنے دین سے بےراہ کردے وہ عذاب کے وجوب سے خسارے میں ہے اور یہ سچی بات کو بالکل نہیں سمجھتے اور یہ سچی بات کو بالکل نہیں سمجھتے اور یہ سچائی کے سمجھنے میں چوپایوں سے بھی زیادہ بےراہ ہیں کیوں کہ یہ انکار کرنے والے ہیں۔- اور اس کے ساتھ ساتھ آخرت کو بھی نہیں مانتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٨ (مَنْ یَّہْدِ اللّٰہُ فَہُوَ الْمُہْتَدِیْج وَمَنْ یُّضْلِلْ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ ) - عہد الست کے حوالے سے ہم پر یہ بات واضح ہوگئی کہ انسان کا ایک وجود روحانی ہے اور دوسرا مادی یعنی حیوانی۔ اگر انسان کی توجہ اور ساری دلچسپیاں حیوانی وجود کی ضروریات پوری کرنے تک محدود رہیں گی تو پھر وہ بلعم بن باعوراء کی مثال بن جائے گا۔ یہ انفرادی سطح پر بھی ہوسکتا ہے اور قومی و اجتماعی سطح پر بھی۔ اس ضمن میں حکمت قرآنی کا تیسرا نکتہ اگلی آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ انسانوں میں سے اکثر وہ ہیں جو صرف اپنے حیوانی جسم کی پرورش میں مصروف ہیں۔ وہ اگرچہ بظاہر تو انسان ہی نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں حیوانوں کی سطح پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani