اسماء الحسنیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ایک کم ایک سو نام ہیں انہیں جو محفوظ کر لے وہ جنتی ہے وہ وتر ہے طاق کو ہی پسند فرماتا ہے ( بخاری وغیرہ ) ترمذی میں ہے ننانوے نام اس طرح ہیں دعا ( اللہ الذی لا الہ الا ھو الرحمن الرحیم الملک القدوس السلام المومن المھیمن العزیز الجبار المتکبر الاخالق الباری المصور الغفار القھار الوھاب الرزاق الفتاح العلیم القابض الباسط الخافض الرافع المعز المذل السمیع البصیر الحکم العدل اللطیف الخبیر الحلیم العظیم الغفور الشکور العلی الکبیر الحفیظ المقیت الہسیب الجلیل الکریم الرقیب المجیب الواسع الحکیم الودود المجید الباعث الشھید الحق الوکیل القوی المتین الولی الحمید المحصی المبدی المعید المحی الممیت الحی القیوم الواجد الواحد الا حد الفرد الصمد القادر المقتدر المقدم الموخر الا ول الاخر الظاہر الباطن الوالی المتعالیٰ البر التواب المنتقم العفو الروف مالک الملک ذوالجلال والا کرام المقسط الجامع الغنی المغنی المانع الضار النافع النور الھادی البدیع الباقی الوارث الرشید الصبور ) ۔ یہ حدیث غریب ہے کچھ کمی زیادتی کے ساتھ اسی طرح یہ نام ابن ماجہ کی حدیث میں بھی وارد ہیں ۔ بعض بزرگوں کا خیال ہے کہ یہ نام راویوں نے قرآن میں چھانٹ لئے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ یہ یاد رہے کہ یہی ننانوے نام اللہ کے ہوں اور نہ ہوں یہ بات نہیں ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جسے کبھی بھی کوئی غم و رنج پہنچے اور وہ یہ دعا کرے ( اللھم انی عبدک ابن عبدک ابن امتک ناصیتی بیدک ماض فی حکمک عدل فی قصاوک اسالک بکل اسم ھولک سمیت بہ نفسک وانزلتہ فی کتابک اوعلمتہ احد امن خقک اواستاثرت بہ فی علم الغیب عندک ان تجعل القران العظیم ربیع قلبی ونور صدری و جلاء حزنی و ذھاب ہمی ) ۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے غم و رنج کو دور کر دے گا اور اس کی جگہ راحت و خوشی عطا فرمائے گا ۔ آپ سے سوال کیا گیا کہ پھر کیا ہم اسے اوروں کو بھی سکھائیں؟ آپ نے فرمایا ہاں بیشک جو اسے سنے اسے چاہئے کہ دوسروں کو بھی سکھائے ۔ امام ابو حاتم بن حبان بستی بھی اس روایت کو اسی طرح اپنی صحیح میں لائے ہیں ۔ امام ابو بکر بن عربی بھی اپنی کتاب الاحوذی فی شرح الترمذی میں لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی کتاب و سنت سے جمع کئے ہیں جن کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی ہے ، واللہ اعلم ۔ اللہ کے ناموں سے الحاد کرنے والوں کو چھوڑ دو جیسے کہ لفظ اللہ سے کافروں نے اپنے بت کا نام لات رکھا اور عزیز سے مشتق کر کے عزی نام رکھا ۔ یہ بھی معنی ہیں کہ جو اللہ کے ناموں میں شریک کرتے ہیں انہیں چھوڑو ۔ جو انہیں جھٹلاتے ہیں ان سے منہ موڑ لو ۔ الحاد کے لفظی معنی ہیں درمیانہ سیدھے راستے سے ہٹ جانا اور گھوم جانا ۔ اسی لئے بغلی قبر کو لحد کہتے ہیں کیونکہ سیدھی کھدائی سے ہٹا کر بنائی جاتی ہے ۔
180۔ 1 حسنی احسن کی تانیث ہے۔ اللہ کے اچھے ناموں سے مراد اللہ کے وہ نام ہیں جن سے اس کی مختلف صفات، اس کی عظمت و جلالت اور اس کی قدرت و طاقت کا اظہار ہوتا ہے، صحیحین کی حدیث میں انکی تعداد 99 ایک کم 100 بتائی گئی ہے فرمایا جو ان کو شمار کرے گا، جنت میں داخل ہوگا اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق کو پسند فرماتا ہے۔ نیز علماء نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ اللہ کے ناموں کی تعداد 99 میں منحصر نہیں ہے بلکہ اس سے زیادہ ہیں۔ (ابن کثیر) 180۔ 2 الحاد کے معنی ہیں کسی ایک طرف مائل ہونا، اسی سے لحد ہے جو اس قبر کو کہا جاتا ہے جو ایک طرف بنائی جاتی ہے۔ دین میں الحاد اختیار کرنے کا مطلب کج روی اور گمراہی اختیار کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں (کج روی) الحاد کی تین صورتیں ہیں 1۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں تبدیلی کردی جائے جیسے مشرکین نے کہا۔ مثلا اللہ کی اسی نام سے اپنے ایک بت کا نام لات اور اس کے صفاتی ناموں عزیز سے عُزَّا بنا لیا 2، یا اللہ کے ناموں میں اپنی طرف سے اضافہ کرلینا جس کا حکم اللہ نے نہیں دیا۔ 3۔ یا اس کے ناموں میں کمی کردی جائے مثلاً اسے ایک ہی مخصوص نام سے پکارا جائے اور دوسرے صفاتی ناموں سے پکارنے کو برا سمجھا جائے (فتح القدیر) اللہ کے ناموں میں الحاد کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ان میں تاویل یا تعطیل یا تشبیہ سے کام لیا جائے (ایسر التفاسیر) جس طرح معتزلہ، معطلہ اور مشبہ وغیرہ گمراہ فرقوں کا طریقہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان سب سے بچ کر رہو۔
[١٨١] الحاد اور اس کی قسمیں :۔ اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام صرف اللہ تعالیٰ ہے باقی اس کے جتنے بھی نام ہیں سب صفاتی ہیں۔ صحیح احادیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو شخص انہیں یاد کرلے وہ جنت میں داخل ہوگا (بخاری کتاب التوحید باب ان للہ مائۃ اسم الا واحدۃ) اور اللہ تعالیٰ کے ان ناموں یا صفات میں کجروی کا ہی دوسرا نام الحاد ہے اور الحاد کی کئی قسمیں ہیں مثلاً ایک یہ کہ جو صفات اللہ تعالیٰ سے مختص ہیں وہ کسی دوسرے میں بھی تسلیم کرنا جیسے کسی اور کو بھی عالم الغیب یا رزاق اور داتا اور حاجت روا، مشکل کشا اور کار ساز سمجھنا اور دوسرے یہ کہ انہیں ناموں سے استدلال کر کے باطل چیزوں کے امکان پر بحث کرنا جیسے مثلاً یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ تو سب کچھ جانتا ہے کیا وہ جادو کا علم بھی جانتا ہے یا یہ بحث کہ اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے تو کیا وہ جھوٹ بولنے پر بھی قادر ہے۔ تیسرے یہ کہ ان صفات میں فلسفیانہ موشگافیاں پیدا کرنا جیسے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی صفات حادث ہیں یا قدیم۔ مثلاً کلام کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے تو قرآن حادث اور مخلوق ہے یا نہیں ؟ یا یہ کہ اللہ جو ہر جگہ موجود ہے اور ہر شخص کی شہ رگ سے بھی قریب ہے تو وہ عرش پر کیسے ہوا ؟ غرض الحاد کی جتنی بھی صورتیں ہیں سب کفر و شرک اور گمراہی کی طرف لے جانے والی ہیں لہذا ایک مسلمان کو کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کو زیر بحث لا کر اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ بات اس کے بس سے باہر ہے انسان کی عقل محدود اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی وسعت لامحدود ہے نیز اللہ تعالیٰ نے خود بھی (فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ 74) 16 ۔ النحل :74) کہہ کر ایسی باتوں سے منع فرما دیا ہے۔ پھر یہ اعتقادی بیماریاں ایک تو آگے منتقل ہوتی جاتی ہیں دوسرے زندگی کا رخ غلط راہوں پر ڈال دیتی ہیں۔
وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى: ” الْحُسْنٰى“ یہ ” اَلْأَحْسَنُ “ کی مؤنث ہے، سب سے اچھے نام۔ ” لِلّٰهِ “ خبر کو پہلے لانے سے حصر پیدا ہوگیا کہ سب سے اچھے نام اور صفات صرف اور صرف اللہ کی ہیں۔ معلوم ہوا کہ پچھلی آیت میں مذکور ضلالت اور جہنم سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ انھی ناموں کے ساتھ اسے پکارو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ لِلّٰہِ تِسْعَۃً وَّ تِسْعِیْنَ اسْمًا، مِاءَۃً إِلَّا وَاحِدَۃً ، مَنْ أَحْصَاھَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ )” بیشک اللہ تعالیٰ کے ننانوے یعنی ایک کم سو نام ہیں، جو ان کا احصاء کرلے جنت میں داخل ہوگا۔ “ [ بخاری، الشروط، باب ما یجوز من الاشتراط ۔۔ : ٢٧٣٦، عن أبی ہریرہ (رض) ] احصاء کا معنی یاد کرنا، شمار کرنا اور حفاظت کرنا سبھی آتے ہیں، یعنی ان کے معانی پر ایمان لائے، برکت اور ثواب کے لیے اخلاص کے ساتھ انھیں گن گن کر پڑھے، انھیں حفظ کرے اور ان کے تقاضوں کے مطابق اپنے عمل کو ڈھالے۔ حدیث کے جو الفاظ اوپر ذکر ہوئے ہیں وہ تو بہت سی روایات میں صحیح سندوں کے ساتھ آئے ہیں، البتہ ترمذی کی ایک روایت میں ان ننانوے ناموں کی تصریح بھی کردی گئی ہے، مگر اہل علم کا تقریباً اتفاق ہے کہ یہ نام بعض راویوں نے قرآن مجید سے ترتیب دے کر روایت میں شامل کردیے ہیں، ورنہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت روایت میں یہ نام نہیں ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان ناموں کے سوا اللہ تعالیٰ کے اور نام نہیں بلکہ قرآن و حدیث میں کئی اور نام بھی آئے ہیں۔ علماء نے اسمائے حسنیٰ پر کتابیں لکھی ہیں، بعض علماء نے قرآن و حدیث سے ہزار سے زیادہ اسمائے حسنیٰ نکالے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی صفات کا شمار نہیں تو اس کے اسماء کا شمار بھی نہیں ہوسکتا۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کئی نام ایسے ہیں جو اس نے کسی کو بھی نہیں بتائے، عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس شخص کو جب بھی کوئی فکر یا غم لاحق ہو وہ یہ دعا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کا غم و فکر دور کردیتا ہے۔ “ آپ سے عرض کیا گیا : ” یا رسول اللہ ہم اسے سیکھ نہ لیں ؟ “ فرمایا : ” جو بھی اسے سنے اسے اس کو سیکھ لینا چاہیے۔ “ دعا یہ ہے : ( اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ عَبْدُکَ وَ ابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ أَمَتِکَ نَاصِیَتِیْ بِیَدِکَ ، مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ ، عَدْلٌ فِیَّ قَضَاءُ کَ اَسْأَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ھُوَ لَکَ سَمَّیْتَ بِہِ نَفْسَکَ اَوْ عَلَّمْتَہُ اَحَدًا مِّنْ خَلْقِکَ أَوْ أَنْزَلْتَہُ فِیْ کِتَابِکَ اَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِہِ فِیْ عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِیْعَ قَلْبِیْ وَ نُوْرَ صَدْرِیْ وَجَلَاءَ حُزْنِیْ وَ ذَھَابَ ھَمِّیْ )” اے اللہ بیشک میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں اور تیری بندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، تیرا فیصلہ مجھ پر نافذ ہے، تیرا فیصلہ میرے بارے میں عین انصاف ہے، میں تیرے ہر نام کے وسیلے سے جسے تو نے خود اپنا نام رکھا ہے، یا اسے اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے، یا اپنی کتاب میں نازل کیا ہے، یا تو نے اسے علم غیب میں اپنے پاس رکھنے کو ترجیح دی ہے، میں تجھ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار، میرے سینے کا نور، میرے غم کا ازالہ اور میرے فکر کو دور کرنے کا ذریعہ بنا دے۔ “ [ أحمد : ١؍٣٩١، ح : ٣٧١١ ] ابن حبان : (٩٧٢) اور ابو یعلٰی (٩؍١٩٨، ١٩٩، ح : ٥٢٩٧) میں الفاظ میں کچھ فرق ہے۔ - اس مبارک دعا میں اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء کے واسطے سے دعا کی گئی ہے اور یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام صرف ننانوے تک محدود نہیں ہیں۔ حدیث شفاعت میں مذکور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اللہ تعالیٰ کے ہاں حاضری کی اجازت ہوگی اور آپ سجدے میں گرجائیں گے تو اس وقت آپ اللہ تعالیٰ کی ایسی حمد و ثنا کریں گے جو صرف اسی وقت اللہ تعالیٰ آپ کو سکھائے گا۔ [ بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ : ( وجوہ یومئذ ناضرۃ۔۔ ) : ٧٤٤٠۔- مسلم : ١٩٤ ]- فَادْعُوْهُ بِهَا ۠ وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اَسْمَاۗىِٕهٖ : اللہ کا ذاتی نام ایک ہی ہے اور وہ اللہ ہے، باقی صفاتی نام ہیں۔ فرمایا ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں کج روی اختیار کرتے، یعنی سیدھے راستے سے ہٹتے ہیں۔ سیدھے راستے سے ہٹنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے پاس سے اس کا کوئی نام رکھ لے، یا ایسے لفظ سے پکارے جس سے اللہ تعالیٰ کی شان میں کمی ہوتی ہو۔ بعض قوموں میں اللہ تعالیٰ کے ایسے نام رائج ہیں جو ایک سے زائد معبودوں میں سے کسی ایک پر بولے جاتے ہیں، مثلاً یزدان، بھگوان اور رام وغیرہ، ایسے نام اللہ تعالیٰ پر بولنے سے بچنا فرض ہے۔ سیدھے راستے سے ہٹنے کی ایک صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کو بگاڑ کر بتوں کے نام رکھے جائیں، جسے اللات، العزیٰ اور منات کہ یہ لفظ اللہ، عزیز اور منان کی بگاڑی ہوئی شکلیں ہیں۔ (ابن کثیر) شاہ عبد القادر (رض) نے کج روی کی ایک صورت یہ بھی لکھی ہے : ” اللہ تعالیٰ کے اسماء کو ٹونے ٹوٹکوں میں استعمال کیا جائے، ایسے لوگوں کو دنیوی مطلب اگرچہ حاصل ہوجائے مگر سزا ان کو ضرور ملے گی۔ “ (موضح) اللہ تعالیٰ کے ناموں میں الحاد کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ ان کے واضح معنی سے انکار کردیا جائے (یہ تعطیل ہے) ، یا تحریف کردی جائے اور اسے تاویل کا نام دیا جائے، یا ان کو مخلوق کے مشابہ سمجھا جائے (یہ تشبیہ ہے) ، یا کہا جائے کہ معلوم ہی نہیں ان کا معنی کیا ہے (یہ تفویض ہے) بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ان صفات پر مشتمل الفاظ کا جو معنی ہے وہ سب کو معلوم ہے، مثلاً ” سَمِیْعٌ“ کا معنی سننے والا ہے، مگر وہ اس طرح ہے جس طرح اللہ کی شان کے لائق ہے۔ رہا یہ کہ وہ کیسے ہے ؟ اس کی کیفیت کیا ہے ؟ یہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردی جائے۔ عربی زبان میں اللہ تعالیٰ کے کسی صفاتی نام کا اگر ترجمہ اپنی زبان میں کردیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، مثلاً رب کو پروردگار، یا پالنے والا، رزاق کو روزی دینے والا کہہ دیا جائے تو یہ جائز ہے۔
خلاصہ تفسیر - اور اچھے اچھے ( مخصوص) نام اللہ ہی کے لئے ( خاص) ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور (دوسروں پر ان ناموں کا اطلاق مت کیا کرو بلکہ) ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے (مذکورہ) ناموں میں کج روی کرتے ہیں (اس طرح سے کہ غیر اللہ پر ان کا اطلاق کرتے ہیں جیسا وہ لوگ ان کو معبود اور الہ اعتقاد کے ساتھ کہتے تھے) ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی۔- معارف ومسائل - پچھلی آیات میں اہل جہنم کا ذکر تھا جنہوں نے اپنی عقل و حواس کو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کے دیکھنے، سننے اور سمجھنے سوچنے میں صرف نہیں کیا اور آخرت کی دائمی اور لازوال زندگی کے لئے کوئی سامان فراہم نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہوگیا کہ وہ خداداد عقل و بصیرت کو ضائع کرکے ذکر اللہ کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح و فلاح سے غافل ہوگئے اور جانوروں سے زیادہ گمراہی اور بےوقوفی میں مبتلا ہوگئے۔- مذکورہ آیت میں ان کے مرض کا علاج اور درد کی دوا بتلائی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا اور ذکر اللہ کی کثرت ہے، فرمایا (آیت) وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا، یعنی اللہ ہی کے لئے ہیں اچھے نام، تو تم پکارو اس کو انہی ناموں سے۔- اسماء حسنی کی تشریح :- اچھے نام سے مراد وہ نام ہیں جو صفات کمال کے اعلی درجہ پر دلالت کرنے والے ہیں، اور ظاہر ہے کہ کسی کمال کا اعلی درجہ جس سے اوپر کوئی درجہ نہ ہوسکے وہ صرف خالق کائنات جل و عل شانہ ہی کو حاصل ہے اس کے سوا کسی مخلوق کو یہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا، کیونکہ ہر کامل سے دوسرا شخص اکمل اور فاضل سے افضل ہوسکتا ہے (آیت) فَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ، کا یہی مطلب ہے کہ ہر ذی علم سے بڑھ کر کوئی دوسرا علیم ہوسکتا ہے۔- اسی لئے اس آیت میں ایسی عبارت اختیار کی گئی جس سے معلوم ہو کہ یہ اسماء حسنی صرف اللہ ہی کی خصوصیت ہے دوسروں کو حاصل نہیں، (آیت) فَادْعُوْهُ بِهَا، یعنی جب یہ معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے اسماء حسنی ہیں اور وہ اسماء اسی کی ذات کے ساتھ خاص ہیں تو لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کو پکارو اور انہی اسماء حسنی کے ساتھ پکارو۔ - پکارنا یا بلانا دعا کا ترجمہ ہے، اور دعا کا لفظ قرآن میں دو معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے، ایک اللہ تعالیٰ کا ذکر اس کی حمد و ثنا، تسبیح و تمجید کے ساتھ، دوسرے حاجات و مشلات کے وقت اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت طلب کرنا اور مصائب وآفات سے نجات اور مشکلات کی آسانی کی درخواست کرنا، اس آیت میں فادْعُوْهُ بِهَا کا لفظ دونوں معنی کو شامل ہے تو معنی آیت کے یہ ہوئے کہ حمد و ثنا اور تسبیح کے لائق بھی صرف اسی کی ذات پاک ہے اور مشکلات و مصائب سے نجات اور حاجت روائی بھی صرف اسی کے قبضہ میں ہے، اس لئے حمد و ثنا کرو تو اسی کی کرو اور حاجت روائی، مشکل کشائی کے لئے پکارو تو اسی کو پکارو۔ - اور پکارنے کا طریقہ بھی یہ بتلا دیا کہ انہی اسماء حسنی کے ساتھ پکارو جو اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں۔- دعا کے بعض آداب :- اس لئے اس آیت سے دو ہدایتیں امت کو ملیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ذات حقیقی حمد و ثنا یا مشکل کشائی اور حاجت روائی کے لئے پکارنے کے لائق نہیں، دوسرے یہ کہ اس کے پکارنے کے لئے بھی ہر شخص آزاد نہیں کہ جو الفاظ چاہے اختیار کرلے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں وہ الفاظ بھی بتلا دیئے جو اس کے شایاں ہیں اور ہمیں پابند کردیا کہ انہی الفاظ کے ساتھ اس کو پکاریں، اپنی تجویز سے دوسرے الفاظ نہ بدلیں کیونکہ انسان کی قدرت نہیں کہ تمام پہلوؤں کی رعایت کرکے شایان شان الفاظ بنا سکے۔- بخاری و مسلم نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے (99) نام ہیں جو شخص ان کو محفوظ کرلے وہ جنت میں داخل ہوگیا، یہ ننانوے نام امام ترمزی اور حاکم نے تفصیل کے ساتھ بتلائے ہیں۔ - اللہ تعالیٰ کے یہ ننانوے نام پڑھ کر جس مقصد کے لئے دعا کی جائے قبول ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے (آیت) ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ یعنی تم مجھے پکارو توں میں تمہاری دعا قبول کروں گا، حاجات و مشکلات کے لئے دعا سے بڑھ کر کوئی تدبیر ایسی نہیں جس میں کسی ضرر کا خطرہ نہ، ہو اور نفع یقینی ہو، اپنی حاجات کے لئے اللہ جل شانہ سے دعا کرنے میں کسی نقصان کا تو کوئی احتمال ہی نہین، اور ایک نفع نقد ہے کہ دعا ایک عبادت ہے، اس کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے، حدیث میں ہے الد عاء مخ العبادة یعنی دعا کرنا عبادت کا مغز ہے اور جس مقصد کے لئے اس نے دعا کی ہے اکثر تو وہ مقصد بعینہ پورا ہوجاتا ہے، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس چیز کو اس نے اپنا مقصد بنایا تھا وہ اس کے حق میں مفید نہ تھی، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی دعا کو دوسری طرف پھیر دیتے ہیں جو اس کے لئے مفید ہو، اور حمد و ثنا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا ایمان کی غذا ہے جس کے نیتجہ میں انسان کی رغبت و محبت اللہ تعالیٰ سے وابستہ ہوجاتی ہے اور دنیا کی تکلیفیں اگر پیش بھی آویں تو حقیر اور آسان ہوجاتی ہیں۔ - اسی لئے بخاری، مسلم، ترمذی نسائی کی صحیح احادیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص کو کوئی غم یا بےچینی یا مہم کام پیش آئے اس کو چاہئے کہ یہ کلمات پڑھے، سب مشکلات آسان ہوجائیں گی وہ کلمات یہ ہیں : لآ الہ الا اللہ العظیم الحلیم، لآ الہ الا الہ اللہ رب العرش العظیم، لآ الہ الا الہ اللہ رب السموب والارض ورب العرش الکریم، اور مستدرک حاکم میں بروایت انس (رض) مذکور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ زہراء سے فرمایا کہ تمہارے لئے اس سے کیا چیز مانع ہے کہ تم میری وصیت کو سن لو ( اور اس پر عمل کیا کرو) وہ وصیت یہ ہے کہ صبح شام یہ دعا کرلیا کرو : یاحی یاقیوم برحمتک استغیث اصلح لی شانی کلہ ولا تکلنی الی نفسی طرفة عین۔ - یہ دعا بھی تمام حاجت و مشکلات کے لئے بےنظیر ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ آیت مذکورہ کے اس جملہ میں دو ہدایتیں امت کو دی گئیں، ایک یہ کہ حمد و ثنا اور مشکلات و حاجات کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کو پکارو مخلوقات کو نہیں، دوسرے یہ کہ اس کو انہی ناموں سے پکارو جو اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں، اس کے الفاظ نہ بدلو۔ - آیت کے اگلے جملہ میں اسی کے متعلق ارشاد فرمایا (آیت) وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اَسْمَاۗىِٕهٖ ۭ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ، یعنی چھوڑ یے ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں الحاد یعنی کجروی کرتے ہیں، ان کو ان کی کجروی کا بدلہ مل جائے گا، الحاد کے معنی لغت میں میلان اور درمیانی راہ سے ہٹ جانے کے آتے ہیں، اسی لئے قبر کی لحد کو لحد کہا جاتا ہے کیونکہ وہ درمیانی راہ ہٹی ہوئی ہوتی ہے، قرآن کریم میں لفظ الحاد قرآن کریم کے صحیح معانی کو چھوڑ کر ادھرا دھر کی تاویل و تحریف کرنے کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اس آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ آپ ایسے لوگوں سے تعلق بھی چھوڑدیں جو اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں الحاد یعنی تحریف اور کجروی سے کام لیتے ہیں۔ - اسماء الہیہ میں کجروی کی ممانعت اور اس کی مختلف صورتیں : - اسماء الہیہ میں تحریف یا کجروی کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں وہ سب اس آیت کے مضمون میں داخل ہیں : - اول یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے وہ نام استعمال کیا جائے جو قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت نہیں، علماء حق کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام اور صفات میں کسی کو یہ اختیار نہیں کہ جو چاہے نام رکھ دے یا جس صفت کے ساتھ چاہے اس کی حمد و ثنا کرے بکہ صرف وہی الفاظ ہونا ضروری ہیں جو قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کے لئے بطور نام یا صفت کے ذکر کئے گئے ہیں، مثلا اللہ تعالیٰ کو کریم کہہ سکتے ہیں، سخی نہیں کہہ سکتے، نور کہہ سکتے ہیں ابیض نہیں کہہ سکتے، شافی کہہ سکتے ہیں طبیب نہیں کہہ سکتے، کیونکہ یہ دوسرے الفاظ منقول نہیں، اگرچہ انہی الفاظ کے ہم معنی ہیں۔ دوسری صورت الحاد فی الاسماء کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو نام قرآن وسنت سے ثابت ہیں ان میں سے کسی نام کو نامناسب سمجھ کر چھوڑ دے، اس کا بےادبی ہونا ظاہر ہے۔- کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کے مخصوص نام سے موسوم یا مخاطب کرنا جائز نہیں : - تیسری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مخصوص ناموں کو کسی دوسرے شخص کے لئے استعمال کرے، مگر اس میں یہ تفصیل ہے کہ اسماء حسنی میں سے بعض نام ایسے بھی ہیں جن کو خود قرآن و حدیث میں دوسرے لوگوں کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے، اور بعض وہ ہیں جن کو سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کے لئے استعمال کرنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں، تو جن ناموں کا استعمال غیر اللہ کے لئے قرآن و حدیث سے ثابت ہے وہ نام تو اوروں کے لئے بھی استعمال ہوسکتے ہیں جیسے رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ، اور اسماء حسنی میں سے وہ نام جن کا غیر اللہ کے لئے استعمال کرنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں، وہ صرف اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہیں ان کو غیر اللہ کے لئے استعمال کرنا الحاد مذکور میں داخل اور ناجائز و حرام ہے مثلا رحمن، سبحان، رزاق، خالق، غفار، قدوس وغیرہ۔- پھر ان مخصوص ناموں کو غیر اللہ کے لئے استعمال کرنا اگر کسی غلط عقیدہ کی بناء پر ہے کہ اس کو ہی خالق یا رازق سمجھ کر ان الفاظ سے خطاب کررہا ہے تب تو ایسا کہنا کفر ہے اور اگر عقیدہ غلط نہیں محض بےفکری یا بےسمجھی سے کسی شخص کو خالق، رازق یا رحمن، سبحان کہہ دیا تو یہ اگرچہ کفر نہیں مگر مشرکانہ الفاظ ہونے کی وجہ سے گناہ شدید ہے۔- افسوس ہے کہ آج کل عام مسلمان اس غلطی میں مبتلا ہیں، کچھ لوگ تو وہ ہیں جنہوں نے اسلامی نام ہی رکھنا چھوڑ دیئے، ان کی صورت و سیرت سے تو پہلے بھی مسلمان سمجھنا ان کا مشکل تھا، نام سے پتہ چل جاتا تھا، اب نئے نام انگریزی طرز کے رکھے جانے لگے، لڑکیوں کے نام خواتین اسلام کے طرز کے خلاف خدیجہ، عائشہ، فاطمہ کے بجائے نسیم، شمیم، شہناز، نجمہ، پروین ہونے لگے، اس سے زیادہ افسوس ناک یہ ہے کہ جن لوگوں کے اسلامی نام ہیں، عبدالرحمن، عبدالخالق عبدالرزاق، عبدالغفار، عبدالقدوس وغیرہ، ان میں تخفیف کا یہ غلط طریقہ اختیار کرلیا گیا کہ صرف آخری لفظ ان کے نام کی جگہ پکارا جاتا ہے، رحمن، خالق، رزاق، غفار کا خطاب انسانوں کو دیا جارہا ہے اور اس سے زیادہ غضب کی بات یہ ہے کہ قدرت اللہ کو اللہ صاحب اور قدرت خدا کو خدا صاحب کے نام سے پکارا جاتا ہے یہ سب ناجائز و حرام اور گناہ کبیرہ ہے، جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں رہتا۔- یہ گناہ بےلذت اور بےفائدہ ایسا ہے جس کو ہمارے ہزاروں بھائی اپنے شب و روز کا مشغلہ بنائے ہوئے ہیں اور کوئی فکر نہیں کرتے کہ اس ذرا سی حرکت کا انجام کتنا خطرناک ہے جس کی طرف آیت مذکورہ کے آخری جملہ میں تنبیہ فرمائی گئی ہے، (آیت) سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ، یعنی ان کو اپنے کئے کا بدلہ دیا جائے گا، اس بدلہ کی تعیین نہیں کی گئی، اس ابہام سے عذاب شدید کی طرف اشارہ ہے۔- جن گناہوں میں کوئی دنیوی فائدہ یا لذت و راحت ہے ان میں تو کوئی کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میں اپنی خواہش یا ضرورت سے مجبور ہوگیا، مگر افسوس یہ ہے کہ آج مسلمان ایسے بہت سے فضول گناہوں میں بھی اپنی جہالت یا غفلت سے مبتلا نظر آتے ہیں جن میں نہ دنیا کا کوئی فائدہ ہے نہ ادنی درجہ کی کوئی راحت ولذت ہے وجہ یہ ہے کہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی طرف دھیان ہی نہ رہا۔ نعوذبا للہ منہ۔
وَلِلہِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْہُ بِہَا ٠ ۠ وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اَسْمَاۗىِٕہٖ ٠ ۭ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ١٨٠- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - اسْمُ- والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها .- وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین :- أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس .- والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ.- ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا - [ مریم 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى- [ النجم 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا - [ مریم 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره .- الاسم - کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔- حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] - ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- لحد - اللَّحْدُ : حفرة مائلة عن الوسط، وقد لَحَدَ القبرَ : حفره، کذلک وأَلْحَدَهُ ، وقد لَحَدْتُ الميّت وأَلْحَدْتُهُ : جعلته في اللّحد، ويسمّى اللَّحْدُ مُلْحَداً ، وذلک اسم موضع من : ألحدته، ولَحَدَ بلسانه إلى كذا : مال . قال تعالی: لِسانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ [ النحل 103] من : لحد، وقرئ : يلحدون من : ألحد، وأَلْحَدَ فلان : مال عن الحقّ ، والْإِلْحَادُ ضربان : إلحاد إلى الشّرک بالله، وإلحاد إلى الشّرک بالأسباب .- فالأوّل ينافي الإيمان ويبطله .- والثاني : يوهن عراه ولا يبطله . ومن هذا النحو قوله : وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الحج 25] ، وقوله : وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمائِهِ [ الأعراف 180] - والْإِلْحَادُ في أسمائه علی وجهين :- أحدهما أن يوصف بما لا يصحّ وصفه به . والثاني : أن يتأوّل أوصافه علی ما لا يليق به، والْتَحدَ إلى كذا : مال إليه . قال تعالی: وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَداً [ الكهف 27] أي : التجاء، أو موضع التجاء . وأَلْحَدَ السّهم الهدف : مال في أحد جانبيه .- ( ل ح د ) اللحد ۔- اس گڑھے یا شگاف کو کہتے ہیں جو قبر کی ایک جانب میں بنانا کے ہیں ۔ لحد المیت والحدہ میت کو لحد میں دفن کرنا اور لحد کو ملحد بھی کہا جاتا ہے جو کہ الحد تہ ( افعال ) اسے اسم ظرف ہے ۔ لحد بلسانہ الیٰ کذا زبان سے کسی کی طرف جھکنے یعنی غلط بات کہنا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لِسانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ [ النحل 103] مگر جس کی طرف تعلیم کی نسبت کرتے ہیں ۔ میں یلحدون لحد سے ہے اور ایک قرات میں یلحدون ( الحد سے ) ہے ۔ کہا جاتا ہے الحد فلان ۔ فلاں حق سے پھر گیا ۔ الحاد دو قسم پر ہے ۔ ایک شرک باللہ کی طرف مائل ہونا دوم شرک بالا سباب کی طرف مائل ہونا ۔ اول قسم کا الحا و ایمان کے منافی ہے اور انسان کے ایمان و عقیدہ کو باطل کردیتا ہے ۔ اور دوسری قسم کا الحاد ایمان کو تو باطل نہیں کرتا لیکن اس کے عروۃ ( حلقہ ) کو کمزور ضرور کردیتا ہے چناچہ آیات : ۔ وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الحج 25] اور جو اس میں شرارت سے کجروی وکفر کرنا چاہے اس کو ہم درد دینے والے عذاب کا مزہ چکھائیں گے ۔ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمائِهِ [ الأعراف 180] ، جو لوگ اس کے ناموں کے وصف میں کجروی اختیار کرتے ہیں ۔ میں یہی دوسری قسم کا الحاد مراد ہے اور الحاد فی اسمآ ئہ یعنی صفات خدا وندی میں الحاد کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ باری تعالیٰ کو ان اوٖاف کے ساتھ متصف ماننا جو شان الو ہیت کے منافی ہوں دوم یہ کہ صفات الہیٰ کی ایسی تاویل کرنا جو اس کی شان کے ذیبا نہ ہو ۔ التحد فلان الٰی کذا ۔ وہ راستہ سے ہٹ کر ایک جانب مائل ہوگیا اور آیت کریمہ : وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَداً [ الكهف 27] اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے میں ملتحد ا مصدر میمی بمعنی التحاد بھی ہوسکتا ہے اور اسم ظرف بھی اور اس کے معنی پناہ گاہ کے ہیں التحد السھم عن الھدف تیر نشانے سے ایک جانب مائل ہوگیا یعنی ہٹ گیا ۔- جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے
(١٨٠) اعلی صفات یعنی علم وقدرت سمع وبصر سب اسی کے لیے ہیں اور جو اسمائے الہی اور اس کی صفات کے منکر یا ان کے اقرار سے اعراض کرتے ہیں یا کہ اس کے اسماء وصفات میں شرک کرتے ہیں یعنی اس کے اسماء کے ساتھ لات وعزی اور منات کو تشبیہ دیتے ہیں تو دنیا میں یہ جو شرآمیز باتیں کرتے تھے، آخرت میں ان کو ان کا بدلہ مل جائے گا۔
آیت ١٨٠ (وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَاص) ۔ - اللہ تعالیٰ کی صفات کے اعتبار سے اس کے بیشمار نام ہیں۔ ان میں سے کچھ قرآن میں آئے ہیں اور کچھ احادیث میں۔ ایک حدیث جو حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے ‘ اس میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام گنوائے ہیں۔ ان ناموں میں اللہ سب سے بڑا اور اہم ترین نام ہے۔ یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سب نام اچھے ہیں ‘ ان ناموں کے حوالے سے اس کو پکارا کرو ‘ ان ناموں کے ذریعے سے دعا کیا کرو۔ جیسے یاسَتَّارُ ‘ یَا غَفَّارُ ‘ یَا کَرِیْمُ ‘ یَا عَلِیْمُ ۔ ضمنی طور پر یہاں ایک نکتہ نوٹ کرلیں کہ قرآن مجید میں اللہ کے لیے لفظ صفت کہیں استعمال نہیں ہوا ‘ البتہ حدیث میں یہ لفظ آیا ہے۔ قرآن میں اللہ کے لیے اس حوالے سے اسماء (نام) کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے۔- (وَذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآءِہٖ ط) ۔ - ’ لحد ‘ کہتے ہیں ٹیڑھ کو۔ ’ لحد ‘ بمعنی قبر کا مفہوم یہ ہے کہ قبر کے لیے ایک سیدھا گڑھا کھود کر اس کے اندر ایک بغلی گڑھا کھودا جاتا ہے۔ اس گڑھے کو سیدھے راستے سے ہٹے ہوئے ہونے کی وجہ سے لحد کہتے ہیں۔ اسمائے الٰہی کے سلسلے میں ’ الحاد ‘ ایک تو یہ ہے کہ ان کا غلط استعمال کیا جائے۔ اللہ کے ہر نام کی اپنی تاثیر ہے ‘ اس لحاظ سے مراقبوں وغیرہ کے ذریعے سے اللہ کے ناموں کی تاثیر سے کسی کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کے بعض نام جوڑوں کی شکل میں ہیں ‘ کسی صفت کے دو رخ ہیں تو اس صفت سے نام بھی دو ہوں گے ‘ جیسے اَلْمُعِزُّ اور اَلْمُذِلُّ ‘ اَلرَّافِعُ اور اَلْخَافِضُ ‘ اَلْحَیُّ اور اَلْمُمِیْتُوغیرہ۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کے جو اسماء اس طرح کے جوڑوں کی شکل میں ہیں ان میں سے اگر ایک ہی نام بار بار پکارا جائے اور دوسرے کو چھوڑ دیا جائے تو یہ بھی الحاد ہوگا۔ مثلاً اَلْمُعِزُّ اور اَلْمُذِلُّ دو نام ایک جوڑے میں ہیں ‘ یعنی وہی عزت دینے والا اور وہی ذلت دینے والا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص یَا مُذِلُّ ‘ یَا مُذِلُّ ‘ یَا مُذِلُّکا ورد شروع کر دے تو یہ الحاد ہوجائے گا۔ کیونکہ اے ذلیل کرنے والے اے ذلیل کرنے والے مناسب ورد نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے تمام نام جب پکارے جائیں تو ہمیشہ جوڑوں ہی کی صورت میں پکارے جائیں۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :141 اب تقریر اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے اس لیے خاتمہ کلام پر نصیحت اور ملامت کے ملے جلے انداز میں لوگوں کو ان کی چند نمایاں ترین گمراہیوں پر متنبہ کیا جارہا ہے اور ساتھ ہی پیغمبر کی دعوت کے مقابلہ میں انکار و استہزا کا جو رویّہ انہوں نے اختیار کر رکھا تھا اس کی غلطی سمجھاتے ہوئے اس کے برے انجام سے اُنہیں خبردار کیا جارہا ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :142 انسان اپنی زبان میں اشیاء کے جو نام رکھتا ہے وہ دراصل اس تصور پر مبنی ہوتے ہیں جو اس کے ذہن میں ان اشیاء کے متعلق ہوا کرتا ہے ۔ تصور کا نقص نام کے نقص کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور نام کا نقص تصوّر کے نقص پر دلالت کرتا ہے ۔ پھر اشیاء کے ساتھ انسان کا تعلق اور معاملہ بھی لازماً اس تصور پر ہی مبنی ہوا کرتا ہے جو اپنے ذہن میں اس کے متعلق رکھتا ہے ۔ تصور کی خرابی تعلق کی خرابی میں رونما ہوتی ہے اور تصور کی صحت و درستی میں نمایاں ہو کر رہتی ہے ۔ یہ حقیقت جس طرح دنیا کی تمام چیزوں کے معاملہ میں صحیح ہے اسی طرح اللہ کے معاملہ میں بھی صحیح ہے ۔ اللہ کے لیے نام ( خواہ وہ اسماء ذات ہوں یا اسماء صفات ) تجویز کرنے میں انسان جو غلطی بھی کرتا ہے وہ دراصل اللہ کی ذات و صفات کے متعلق اس کے عقیدے کی غلطی کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ پھر خدا کے متعلق اپنے تصور و اعتقاد میں انسان جتنی اور جیسی غلطی کرتا ہے ، اتنی ہی اور ویسی ہی غلطی اس سے اپنی زندگی کے پورے اخلاقی رویہ کی تشکیل میں سرزد ہوتی ہے ، کیونکہ انسان کے اخلاقی رویہ کی تشکیل تمام تر منحصر ہے اس تصور پر جو اس نے خدا کے بارے میں اور خدا کے ساتھ اپنے اور کائنات کے تعلق کے بارے میں قائم کیا ہو ۔ اسی لیے فرمایا کہ خدا کے نام رکھنے میں غلطی کرنے سے بچو ، خدا کے لیے اچھے نام ہی موزوں ہیں اور اسے اُنہی ناموں سے یاد کرنا چاہیے ، اس کے نام تجویز کرنے میں الحاد کا انجام بہت بُرا ہے ۔ ”اچھے ناموں“سے مراد وہ نام ہیں جن سے خدا کی عظمت و برتری ، اس کے تقدس اور پاکیزگی ، اور اس کی صفات کمالیہ کا اظہار ہوتا ہو ۔ ”الحاد“کے معنی ہیں وسط سے ہٹ جانا ، سیدھے رخ سے منحرف ہو جانا ۔ تیر جب ٹھیک نشانے پر بیٹھنے کے بجائٕے کسی دوسری طرف جا لگتا ہے تو عربی میں کہتے ہیں اَلحد السہمُ الھدفَ ، یعنی تیر نے نشانے سے الحاد کیا ۔ خدا کے نام رکھنے میں الحاد یہ ہے کہ خدا کو ایسے نام دیے جائیں گو اس کے مرتبے سے فروتر ہوں ، جو اس کے ادب کے منافی ہوں ، جن سے عیوب اور نقائص اس کی طرف منسوب ہوتے ہوں ، یا جن سے اس کی ذات اقدس و اعلیٰ کے متعلق کسی غلط عقیدے کا اظہار ہوتا ہو ۔ نیز یہ بھی الحاد ہی ہے کہ مخلوقات میں کسی کے لیے ایسا نام رکھا جائے جو صرف خدا ہی کے لیے موزوں ہو ۔ پھر یہ فرمایا کہ اللہ کے نام رکھنے میں جو لوگ الحاد کرتے ہیں ان کو چھوڑ دو ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ سیدھی طرح سمجھانے سے نہیں سمجھتے تو ان کی کج بحثیوں میں تم کو اُلجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ، اپنی گمراہی کا انجام وہ خود دیکھ لیں گے ۔
92: اس سے پہلی آیت میں نافرمانوں کی بنیادی بیماری یہ بیان کی گئی تھی کہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کے سامنے جواب دہی کے احساس سے غافل ہیں۔ اور غور کیا جائے تو اس دنیا میں ہر قسم کی برائی کا اصل سبب ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ اس لیے اب اس بیماری کا علاج بتایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے اور اپنی ہر حاجت اسی سے مانگی جائے۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کو پکارنے کا جو لفظ یہاں استعمال ہوا ہے، وہ دونوں باتوں کو شامل ہے، اس کی تسبیح و تقدیس کے ذریعے اس کا ذکر کرنا، اور اس سے دعائیں مانگنا۔ غفلت کے دور ہونے کا یہی راستہ ہے کہ بندہ اپنے پروردگار کو دونوں طریقوں سے پکارے۔ البتہ اس کو پکارنے کے لیے یہ ضرور قرار دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو اچھے اچھے نام (اسمائے حسنی) خود اللہ تعالیٰ نے یا اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتا دئیے ہیں، انہی ناموں سے اس کو پکارا جائے۔ ان اسمائے حسنی کی طرف قرآن کریم نے کئی مقامات پر اشارہ فرمایا ہے (دیکھئے سورۃ بنی اسرائیل 110:17 و سورۃ طہ 8:20 و سورۃ حشر 24:59) اور صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں۔ یہ ننانوے نام ترمذی اور حاکم نے روایت کیے ہیں خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر انہی اسمائے حسنی میں سے کسی اسم مبارک کے ساتھ کرنا چاہئے اور اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نام نہیں گھڑ لینا چاہیے۔ 93 بہت سے کافروں کے ذہن میں اللہ تعالیٰ کا جو ناقص، ادھورا یا غلط تصور تھا اس کے مطابق انہوں نے اللہ تعالیٰ کا کوئی نام یا کوئی صفت بنالی تھی یہ آیت متنبہ کررہی ہے کہ مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ ان لوگوں کی پیروی میں وہ بھی اللہ تعالیٰ کا وہ نام یا صفت استعمال کرنا شروع کردیں۔