Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف یعنی بعض لوگ حق وعدل پر قائم ہیں ۔ حق بات ہی زبان سے نکالتے ہیں ، حق کام ہی کرتے ہیں ، حق کی طرف ہی اوروں کو بلاتے ہیں ، حق کے ساتھ ہی انصاف کرتے ہیں اور بعض آثار میں مروی ہے کہ اس سے مراد امت محمد یہ ہے چنانجہ حضرت قتادہ فرماتے ہیں مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اس آیت کی تلاوت فرماتے تو فرماتے کہ یہ تمہارے لئے ہے تم سے پہلے یہ وصف قوم موسیٰ کا تھا ۔ ربیع بن انس فرماتے ہیں کہ حضور کا ارشاد ہے میری امت میں سے ایک جماعت حق پر قائم رہے گی یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ بن مریم اتریں وہ خواہ کبھی بھی اتریں ۔ بخاری و مسلم میں ہے آپ فرماتے ہیں میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ظاہر رہے گا انہیں ان کی دشمنی کرنے والے کچھ نقصان نہ پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ قیامت آ جائے ایک اور روایت میں ہے یہاں تک کہ اللہ کا امر آ جائے وہ اسی پر رہیں گے ۔ ایک روایت میں ہے ( اس وقت ) وہ شام میں ہوں گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨٢] ایک فرقہ ہمیشہ حق پر رہتا ہے :۔ بلکہ ہر امت میں ایک گروہ ایسا رہا ہے جو حق پر قائم رہتا ہے خواہ اس کی تعداد کتنی ہی کم ہو اور یہ اس لیے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں پر اتمام حجت ہوتی رہے چناچہ امت محمدیہ کے متعلق بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت (73) تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی تاہم ان میں ایک فرقہ ایسا ہوگا جو ہمیشہ حق پر قائم رہے گا تاآنکہ قیامت قائم ہو۔ (بخاری۔ کتاب الاعتصام۔ باب لاتزال طائفۃ من امتی۔۔ )- اور سیدنا ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم بھی پہلے لوگوں کی راہوں پر جا پڑو گے اگر وہ بالشت بھر بڑھے تو تم ہاتھ بھر بڑھو گے۔ حتیٰ کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں گھسے تھے تو تم بھی ضرور گھسو گے۔ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے لوگوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں ؟ فرمایا اور کون ہیں ؟ (مسلم، کتاب العلم، باب النھی عن اتباع متشابہ القرآن)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بالْحَقِّ : یہی وصف اس سے پہلے آیت (١٥٩) میں موسیٰ (علیہ السلام) کی امت کے بعض اشخاص کا بیان ہوا ہے۔ یہاں مراد امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے، کیونکہ اب حق صرف اس امت کے پاس ہے۔ اس میں صحابہ کرام (رض) ، تابعین، سلف صالحین اور وہ تمام لوگ شامل ہیں جو کتاب و سنت کو چھوڑ کر نئے راستے اختیار نہیں کرتے، بلکہ صرف کتاب و سنت پر خود بھی عمل کرتے ہیں اور دوسرے لوگوں کی بھی اسی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، کیونکہ حق یہی ہے اور اسی کے مطابق تمام معاملات میں لوگوں کے درمیان انصاف کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنی آخری کوشش تک لگا دیتے ہیں، یعنی جہاد کرتے ہیں۔ معاویہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا : ” میری امت میں سے ایک گروہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر قائم رہے گا، نہ انھیں وہ شخص نقصان پہنچا سکے گا جو انھیں چھوڑ دے اور نہ وہ جو ان کی مخالفت کرے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آئے گا اور وہ اسی پر قائم ہوں گے۔ “ [ بخاری، المناقب، باب : ٣٦٤١ ] اس جماعت کی خاص صفت کتاب و سنت پر عمل کے ساتھ کفار سے لڑنا بھی ہے۔ جابر بن سمرہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا، مسلمانوں کی ایک جماعت اس کی خاطر لڑتی رہے گی، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو۔ “ [ مسلم، الإمارۃ، باب قولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) :- لاتزال طائفۃ من أمتی۔۔ : ١٩٢٠ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہماری مخلوق جن و انس میں ( سب گمراہ ہی نہیں بلکہ) ایک جماعت ( ان میں) ایسی بھی ہے جو ( دین) حق ( یعنی السلام) کے موافق ( لوگوں کو) ہدایت ( بھی) کرتے ہیں اور اسی کے موافق ( اپنے اور غیروں کے معاملات میں) انصاف بھی کرتے ہیں اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ہم ان کو بتدریج ( جہنم کی طرف) لئے جارہے ہیں اس طور کہ ان کو خبر بھی نہیں اور ( دنیا میں عذاب نازل کر ڈالنے سے) ان کو مہلت دیتا ہوں، بیشک میری تدبیر بہت مضبوط ہے کیا ان لوگوں نے اس بات میں غور نہ کیا کہ ان کا جن سے سابقہ ہے ان کو ذرا بھی جنون نہیں وہ تو صرف ایک صاف صاف ( عذاب سے) ڈرانے والے ہیں ( جو کہ اصالةً پیغمبر کا کام ہوتا ہے) اور کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا آسمانوں اور زمین کے عالم میں اور ( نیز) دوسری چیزوں میں جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں ( تاکہ ان کو توحید کا علم استدلالی حاصل ہوجاتا) اور اس بات میں ( بھی غور نہیں کیا) کہ ممکن ہے کہ ان کی اجل قریب ہی آپہنچی ہو ( تاکہ احتمال عذاب سے ڈرتے اور اس سے بچنے کی فکر کرتے اور اس فکر سے دین حق مل جاتا اور امکان قرب اجل ہر وقت ہے اور جب قرآن جیسے موثر کلام سے ان کی فکر تک کو حرکت نہیں ہوتی تو) پھر قرآن کے بعد کونسی بات پر یہ لوگ ایمان لائیں گے۔ - معارف ومسائل - پچھلی آیات میں اہل جہنم کے حالات وصفات اور ان کی گمراہی کا یہ سبب بیان کیا تھا کہ انہوں نے خداداد عقل و بصیرت اور فطری قوتوں کو ان کے اصلی کام میں نہ لگایا اور ضائع کردیا پھر اس کے بعد ان کے مرض کا علاج اسماء الہیہ اور ذکر اللہ کے ذریعہ بتلایا گیا تھا، مذکورہ آیات سے پہلی آیت میں ان کے بالمقابل اہل ایمان اور اہل حق کا ذکر ہے جنہوں نے عقل خداداد سے کام لے کر صحیح راستہ اختیار کیا، ارشاد ہے (آیت) وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ ، یعنی جن لوگوں کو ہم نے پیدا کیا ہے ان میں ایک امت ایسی ہے جو حق کے موافق ہدایت کرتے ہیں یعنی لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، اور جب ان کے آپس میں کوئی نزاع یا مقدمہ پیش آئے تو اپنے جھگڑوں کا فیصلہ بھی حق یعنی قانون الہی کے ماتحت کرتے ہیں۔- امام تفسیر ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کو تلاوت کرکے ارشاد فرمایا کہ یہ امت جس کا ذکر اس آیت میں ہے، میری امت ہے، جو اپنے سب جھگڑوں کے فیصلے حق و انصاف یعنی قانون الہی کے مطابق کریں گے اور لینے دینے کے تمام معاملات میں حق و انصاف کو سامنے رکھیں گے۔ - اور عبد بن حمید کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو خطاب کرکے فرمایا کہ یہ آیت تمہارے حق میں آئی ہے اور تم سے پہلے بھی ایک امت کو یہ صفات عطا ہوچکی ہیں، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی، (آیت) وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ ، مراد یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت میں بھی ایک جماعت ان صفات کی حامل تھی کہ لوگوں کی رہنمائی میں اور باہمی جھگڑوں کے تصفیہ میں حق یعنی شریعت الہیہ کا مکمل اتباع کرتی تھی، اور امت محمدیہ کو بھی حق تعالیٰ نے ان صفات میں خصوصی امتیاز بخشا ہے۔- خلاصہ اس کا دو خصلتیں ہیں ایک یہ کہ دوسرے لوگوں کی قیادت اور رہنمائی یا مشورہ میں شریعت کا اتباع کریں، دوسرے یہ کہ اگر کوئی جھگڑا آپس میں پیش آجائے تو اس کا فیصلہ شریعت کے قانون کے مطابق کریں۔- غور کیا جائے تو یہی دو صفتیں ہیں جو کسی قوم اور جماعت کی خیر و خوبی اور فلاح دنیا و آخرت کی ضامن ہوسکتی ہیں کہ صلح و جنگ اور دوستی اور عداوت کی ہر حالت میں ان کا نصب العین حق و انصاف ہی ہو، اپنے دوستوں اور رفیقوں کو جو طریقہ کار بتلائیں اس میں بھی حق کا اتباع ہو اور دشمنوں اور حریفوں کے جھگڑوں میں بھی حق کے آگے اپنے سارے خیالات و خواہشات کو ترک کردیں، جس کا خلاصہ ہے حق پر ستی۔- امت محمدیہ کی دوسری تمام امتوں پر فضیلت اور فوقیت کا راز اور ان کا طغرائے امتیاز یہی حق پرستی ہے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی کو حق کے تابع بنایا، جس جماعت یا پارٹی کی قیادت اور رہنمائی کی وہ بھی خالص حق کے تقاضوں کے مطابق کی، اپنی ذاتی خواہشات اور خاندانی یا قومی رسوم کو اس میں مطلق دخل نہیں دیا، اور باہمی نزاعات میں بھی ہمیشہ حق کے سامنے گردن جھکا دی، صحابہ وتابعین کی پوری تاریخ اس کی آئینہ دار ہے۔- اور جب سے اس امت میں ان دو خصلتوں کے اندر خلل اور نقصان آیا اسی وقت سے اس کا تنزل و انحطاط شروع ہوگیا۔- نہایت رنج و افسوس کا مقام ہے کہ آج یہی حق پرست امت خالص ہوا پرست بن کر رہ گئی ہے، اس کی پارٹیاں اور جماعتیں بنتی ہیں تو وہ بھی خالص نفسانی اغراض اور دنیا کی حقیر و ذلیل منفعت کی بنیادوں پر بنتی ہیں، ایک دوسرے کو جن امور کی پابندی طرف دعوت دی جاتی ہے وہ بھی خالص اہواء نفسانی یا خاندانی رسوم ہوتی ہیں، کوئی ان کے خلاف کرنے لگے تو سب اس کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں، لیکن حق و شریعت کے مطابق چلنے کا نہ کہیں معاہدہ ہوتا ہے نہ کوئی اس کی پیروی کرنے کے لئے کسی کو کہتا ہے نہ اس کی خلاف ورزی کرنے سے کسی کی پیشانی پر بل آتا ہے۔- اسی طرح باہیمی جھگڑوں اور نزاعی مقدمات میں دنیا کے چند روزہ موہوم نفع کی خاطر اللہ کے قانون کو چھوڑ کر طاغوتی قوانین کے ذریعہ فیصلہ کرانے پر راضی ہیں۔- اسی کا یہ انجام بد ہے جو ہر جگہ ہر ملک میں مشاہدہ میں آرہا ہے کہ یہ امت ہر جگہ ذلیل و خوار نظر آتی ہے، الا ماشاء اللہ، انہوں نے حق سے منہ موڑا، حق نے ان کی نصرت و امداد سے رخ پھیرلیا۔- حق پرستی کے بجائے ہَوا پرستی اختیار کرکے شخصی طور پر کسی کسی فرد کو جو دنیوی منافع مل گئے وہ اس پر مگن ہیں، مگر پوری قوم و ملت کی تباہی جو اس کا لازمی نتیجہ ہے اس کا کوئی دیکھنے سننے والا نہیں، اگر پوری امت کی فلاح و ترقی پیش نظر ہو تو اس کے سوا کوئی راہ نہیں کہ ان قرآنی اصول کو مضبوطی سے پکڑا جائے، خود بھی اس پر عمل کیا جائے اور دوسروں کو بھی اس کا پابند بنانے کی کوشش کی جائے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّۃٌ يَّہْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِہٖ يَعْدِلُوْنَ۝ ١٨١ ۧ- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] أي : كل نوع منها علی طریقة قد سخرها اللہ عليها بالطبع، فهي من بين ناسجة کالعنکبوت، وبانية کالسّرفة «4» ، ومدّخرة کالنمل ومعتمدة علی قوت وقته کالعصفور والحمام، إلى غير ذلک من الطبائع التي تخصص بها كل نوع . وقوله تعالی: كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً [ البقرة 213] أي : صنفا واحدا وعلی طریقة واحدة في الضلال والکفر، وقوله : وَلَوْ شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً واحِدَةً [هود 118] أي : في الإيمان، وقوله : وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ [ آل عمران 104] أي : جماعة يتخيّرون العلم والعمل الصالح يکونون أسوة لغیرهم، وقوله : إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ [ الزخرف 22] أي : علی دين مجتمع . قال : وهل يأثمن ذو أمّة وهو طائع وقوله تعالی: وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ [يوسف 45] أي : حين، وقرئ ( بعد أمه) أي : بعد نسیان . وحقیقة ذلك : بعد انقضاء أهل عصر أو أهل دين . وقوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّهِ [ النحل 120] أي : قائما مقام جماعة في عبادة الله، نحو قولهم : فلان في نفسه قبیلة . وروي :«أنه يحشر زيد بن عمرو بن نفیل أمّة وحده» وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران 113] أي : جماعة، وجعلها الزجاج هاهنا للاستقامة، وقال : تقدیره : ذو طریقة واحدة فترک الإضمار أولی.- الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں ۔ میں امم سے ہر وہ نوع حیوان مراد ہے جو فطری اور ت سخیری طور پر خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہو ۔ مثلا مکڑی جالا بنتی ہے اور سرفۃ ( مور سپید تنکوں سے ) اپنا گھر بناتی ہے اور چیونٹی ذخیرہ اندوزی میں لگی رہتی ہے اور چڑیا کبوتر وغیرہ وقتی غذا پر بھروسہ کرتے ہیں الغرض ہر نوع حیوان اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق ایک خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہے اور آیت کریمہ :۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة البقرة 213) ( پہلے تو سب ) لوگ ایک امت تھے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تما لوگ صنف واحد اور ضلالت و کفر کے ہی کے مسلک گامزن تھے اور آیت کریمہ :۔ وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة المائدة 48) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ہی شریعت پر کردیتا ۔ میں امۃ واحدۃ سے وحدۃ بحاظ ایمان مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ( سورة آل عمران 104) کے معنی یہ ہیں کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے جو علم اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرے اور دوسروں کے لئے اسوۃ بنے اور آیت کریمہ ؛۔ إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ ( سورة الزخرف 22 - 23) ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک متفقہ دین پر پایا ہے ۔ میں امۃ کے معنی دین کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہی ع (25) وھل یاثمن ذوامۃ وھوطائع ( طویل ) بھلا کوئی متدین آدمی رضا اور رغبت سے گناہ کرسکتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ ( سورة يوسف 45) میں امۃ کے معنی حین یعنی عرصہ دارز کے ہیں اور ایک قرات میں بعد امہ ( ربالھاء ) ہے یعنی نسیان کے بعد جب اسے یاد آیا ۔ اصل میں بعد امۃ کے معنی ہیں ایک دور یا کسی ایک مذہب کے متبعین کا دورگزر جانے کے بعد اور آیت کریمہ :۔ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا ( سورة النحل 120) کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم عبادت الہی میں ایک جماعت اور قوم بمنزلہ تھے ۔ جس طرح کہ محاورہ ہے ۔ فلان فی نفسہ قبیلۃ کہ فلاں بذات خود ایک قبیلہ ہے یعنی ایک قبیلہ کے قائم مقام ہے (13) وروی انہ یحشر زیدبن عمرابن نفیل امۃ وحدہ اورا یک روایت میں ہے کہ حشر کے دن زید بن عمر و بن نفیل اکیلا ہی امت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ - لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ ( سورة آل عمران 113) وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ ( حکم خدا پر ) قائم بھی ہیں ۔ میں امۃ بمعنی جماعت ہے زجاج کے نزدیک یہاں قائمۃ بمعنی استقامت ہے یعنی ذو و طریقہ واحدۃ تو یہاں مضمر متردک ہے - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- عدل - العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما .- والعَدْلُ ضربان :- مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك .- وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ- [ النحل 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311-- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ- [ الطلاق 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً- [ النساء 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» .- ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ - کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ،- العدل دو قسم پر ہے - عدل مطلق - جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ - دوم عدل شرعی - جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨١) اور امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچائی اور حق کا حکم دیتی ہے اور خود بھی حق پر عمل پیرا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨١ (وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّۃٌ یَّہْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَ ) ۔ - یقیناً ہر دور میں کچھ لوگ حق کے علمبردار رہے ہیں اور ایسے لوگ ہمیشہ رہیں گے۔ جیسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ضمانت دی ہے :- (لَا تَزَالُ طَاءِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِیْ ظَاھِرِیْنَ عَلَی الْحَقِّ ) (١)- میری امت میں ایک گروہ ضرور حق پر قائم رہے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani