سامان تعیش کی کثرت عتاب الٰہی بھی ہے یعنی ایسے لوگوں کو روزی میں کشادی دی جائے گی ، معاش کی آسانیاں ملیں گی ، وہ دھوکے میں پڑ جائیں گے اور حقانیت کو بھول جائیں گے ۔ جب پورے مست ہو جائیں گے اور ہماری نصیحت کو گئی گذری کر دیں گے تو ہم انہیں ہر طرح کے آرام دیں گے یہاں تک کہ وہ مست ہو جائیں تب انہیں ہم ناگہانی پکڑ میں پکڑ لیں گے ۔ اس وقت وہ مایوسی کے ساتھ منہ تکتے رہ جائیں گے اور ان ظالموں کی رگ کٹ جائے گی ۔ حقیقتاً تعریفوں کے لائق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ انہیں میں تو ڈھیل دونگا اور یہ میرے اس داؤ سے بےخبر ہوں گے ۔ میری تدبیر کبھی ناکام نہیں ہوتی وہ بڑی مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے ۔
وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ ۔۔ : یعنی ان پر فوری گرفت نہیں کروں گا، تاکہ وہ غفلت میں پڑے رہیں اور گناہ پر گناہ کرتے جائیں، اسی کا نام ڈھیل اور استدراج (آہستہ آہستہ کھینچ کرلے جانا) ہے، جو کفار کو ان کے گناہوں کی سزا میں دی جاتی ہے، مگر وہ اپنی حماقت سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر بڑی مہربانی ہو رہی ہے، حالانکہ انھیں آخری عذاب کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ دیکھیے سورة انعام (٤٤، ٤٥) ۔
دوسری آیت میں اس شبہ کا جواب ہے کہ جب قومی ترقی کا مدار حق پرستی اور حق و انصاف کی پیروی پر ہے تو دوسری غیر مسلم قومیں جو حق سے سراسر دور ہیں وہ کیوں دنیا میں پھلتی پھولتی نظر آتی ہیں، جواب یہ ہے (آیت) وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ ، یعنی ہم اپنی آیات کے جھٹلانے والوں کو اپنی حکمت و رحمت کی بناء پر دفعةً نہیں پکڑتے بلکہ آہستہ آہستہ تدریجا پکڑتے ہیں جس کی ان کو خبر بھی نہیں ہوتی، اس لئے دنیا میں کفار و فجار کی مالداری یا عزت و جاہ سے دھوکہ نہ کھایا جائے، کیونکہ وہ درحقیقت ان کے لئے کوئی بھلائی کا سامان نہیں، بلکہ حق تعالیٰ کی طرف سے استدراج ہے، استدراج کے معنی درجہ بدرجہ، آہستہ آہستہ کوئی کام کرنے کے آتے ہیں، اصطلاح قرآن و سنت میں استدراج اس کو کہا جاتا ہے کہ بندہ کے گناہ پر دنیا میں کوئی تکلیف و مصیبت نہ آئے بلکہ جوں جوں وہ گناہ میں آگے بڑھتا جائے، دنیاوی مال و اسباب اور بڑھتے جائیں، جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ اس کو اپنی بدکرداری پر کسی وقت تنبیہ نہیں ہوتی اور غلفت سے آنکھ نہیں کھلتی اور اپنے برے اعمال اس کو برے نظر نہیں آتے کہ وہ ان سے بازآنے کی فکر کرے۔- انسان کی یہ حالت اس مریض لاعلاج کے مشابہ ہے جو بیماری ہی کو شفاء اور زہر ہی کو تریاق سمجھ کر استعمال کرنے لگے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ کبھی تو دنیا میں ہی یہ شخص دفعۃً عذاب میں پکڑ لیا جاتا ہے اور کبھی موت تک یہ سلسلہ چلتا ہے بالآخر موت ہی اس کی مستی اور بےہوشی کا خاتمہ کرتی ہے اور دائمی عذاب اس کا ٹھکانہ بن جاتا ہے۔- قرآن کریم نے مخلتف سورتوں اور آیتوں میں اس استدراج کا ذکر فرمایا ہے، ارشاد ہے (آیت) فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ ۭ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ ، یعنی جب یہ لوگ اس چیز کو بھلا بیٹھے جو ان کو یاد دلائی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے، یہاں تک کہ یہ اپنی ملی ہوئی نعمت و دولت پر اکڑ گئے تو ہم نے ان کو اچانک عذاب میں پکڑ لیا تو وہ خلاصی سے ناامید ہو کر رہ گئے۔- یہ استدراج کفار کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور مسلمان گنہگار کے ساتھ بھی، اسی لئے صحابہ اور سلف صالحین کو جب کبھی دنیا کی نعمت و دولت حق تعالیٰ نے عطا فرمائی تو غلبہ خوف کی وجہ سے استدراج سے ڈرا کرتے تھے کہ کہیں یہ دنیا کی دولت ہمارے لئے استدراج نہ ہو۔
وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا سَنَسْـتَدْرِجُہُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ ١٨٢ ۚ ۖ- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- دَّرْجُ ( استدراج)- والدَّرْجُ : طيّ الکتاب والثّوب، ويقال للمطويّ : دَرْجٌ. واستعیر الدَّرْج للموت، كما استعیر الطيّ له في قولهم : طوته المنيّة، وقولهم : من دبّ ودرج، أي : من کان حيّا فمشی، ومن مات فطوی أحواله، وقوله : سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لا يَعْلَمُونَ [ الأعراف 182] ، قيل معناه : سنطويهم طيّ الکتاب، عبارة عن إغفالهم نحو : وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنا [ الكهف 28] ، والدَّرَجُ : سفط يجعل فيه الشیء، والدُّرْجَة : خرقة تلفّ فتدخل في حياء «1» الناقة، وقیل : سَنَسْتَدْرِجُهُمْ معناه : نأخذهم درجة فدرجة، وذلک إدناؤهم من الشیء شيئا فشيئا، کالمراقي والمنازل في ارتقائها ونزولها . والدُّرَّاج : طائر يدرج في مشیته .- الدرج ۔ کتاب یا کپڑے کی تہ اور لپیٹے ہوئے مراسلہ یا کپڑے کو بھی درج کہا جاتا ہے اور بطور استعارہ درج بمعنی موت بھی آجاتا ہے ۔ جیسا کہ طوتہ المنیۃ میں طی کا لفظ موت کے لئے مستعا رہے اور محاورہ ہے ۔ من دب ودرج یعنی جو زندہ اور چل پھر رہا ہے اور جو مرچکا ہے اور اس نے اپنے دفتر زندگی کو لپیٹ لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لا يَعْلَمُونَ [ الأعراف 182] ہم ان کو بتدریج اس طریقے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم نہ ہوگا ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ ہم انہیں کتاب کی طرح لپیٹ لیں گے ۔ یہ ان کی بیخبر ی اور غفلت سے کنا یہ ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنا [ الكهف 28] اور جو شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے ۔۔۔۔۔ اس کا کہا نہ ماننا ۔ بعض نے کے معنی یہ کئے ہیں کہ ہم انہیں بتدریج پکڑیں گے بایں طور کہ انہیں آہستہ آہستہ کسی چیز ( جہنم ) کے قریب لارہے ہیں جیسا کہ سیڑھیوں اور منزلوں پر چڑھا یا ان سے نیچے اترا جاتا ہے ۔ درج چھوٹا یلا جس میں عورتیں خوشبو اور سنکا رگا دیگر سامان رکھتی ہیں ۔ الدرجۃ وہ لتہ جسے لپیٹ کرنا قہ کی کس میں رکھ دیا جاتا ہے الدراج تیتر کیونکہ وہ بھی آہستہ آہستہ چلتا ہے ۔- حيث - حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة 149] .- ( ح ی ث ) حیث - ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] اور تم جہاں ہوا کرو
(١٨٢) ابوجہل اور اس کے ساتھی جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرتے ہیں اور نزول عذاب کے بارے میں مذاق اڑاتے ہیں، تو ہم ان کو اس طرح عذاب سے پکڑیں گے کہ انھیں نزول عذاب کا علم بھی نہ ہوگا۔
آیت ١٨٢ (وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِّنْ حَیْثُ لاَ یَعْلَمُوْنَ ) - بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ ایک شخص کفر کے راستے پر بڑھتا جاتا ہے تو ساتھ ہی اس کی دنیاوی کامیابیاں بھی بڑھتی جاتی ہیں ‘ جس کی وجہ سے وہ سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے ‘ ٹھیک کر رہا ہے اور یہ دنیاوی کامیابیاں اس کی اسی روش کا ہی نتیجہ ہیں۔ لہٰذا وہ کفر اور معصیت کے راستے میں مزید آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ کیفیت کسی انسان کے لیے بہت بڑا فتنہ ہے اور اس کو استدراج کہا جاتا ہے۔ یعنی کوئی انسان جو پوری دیدہ دلیری اور ڈھٹائی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی آیات سے اعراض اور اس کے احکام سے نافرمانی کرتا ہے تو اللہ اس کو ڈھیل دیتا ہے اور اس کی رسی دراز کردیتا ہے ‘ جس کی وجہ سے وہ گناہوں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔