شیطانی چکر اللہ تعالیٰ جل شانہ کی اتنی بڑی وسیع بادشاہت میں سے اور زمین و آسمان کی ہر طرح کی مخلوق میں سے کسی ایک چیز نے بھی بعد از غور وفکر انہیں یہ توفیق نہ دی کہ یہ با ایمان ہو جاتے ؟ اور رب کو بےنظیر و بےشبہ واحد و فردا مان لیتے ؟ اور جان لیتے کہ اتنی بڑی خلق کا خالق اتنے بڑے ملک کا واحد مالک ہی عبادتوں کے لائق ہے؟ پھر یہ ایمان قبول کر لیتے اسی کی عبادتوں میں لگ جاتے اور شرک و کفر سے یکسو ہو جاتے ؟ انہیں ڈر لگنے لگتا کہ کیا خبر ہماری موت کا وقت قریب ہی آ گیا ہو؟ ہم کفر پر ہی مر جائیں تو ابدی سزاؤں میں پڑ جائیں؟ جب انہیں اتنی نشانیوں کے دیکھ لینے کے بعد ، اس قدر باتیں سمجھا دینے کے بعد بھی ایمان و یقین نہ آیا ، اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کے آ جانے کے بعد بھی یہ راہ رست پر نہ آئے تو اب کس بات کو مانیں گے؟ مسند کی ایک حدیث میں ہے کہ معراج والی رات جب میں ساتویں آسمان پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ گویا اوپر کی طرف بجلی کڑک اور کھڑ کھڑاہٹ ہو رہی ہے ، میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس پہنچا جن کے پیٹ بڑے بڑے گھروں جتنے اونچے تھے جن میں سانپ بھر رہے تھے جو باہر سے ہی نظر آتے تھے میں نے حضرت جبرائیل سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتلایا یہ سود خور ہیں جب میں وہاں سے اترنے لگا تو آسمان اول پر آکر میں نے دیکھا کہ نیچے کی جانب دھواں ، غبار اور شور غل ہے میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ جبرائیل نے کہا یہ شیاطین ہیں جو اپنی خرمستیوں اور دھینگا مشتیوں سے لوگوں کی آنکھوں پر پردے ڈال رہے ہیں کہ وہ آسمان و زمین کی بادشاہت کی چیزوں میں غورو فکر نہ کر سکیں اگر یہ بات نہ ہوتی تو وہ بڑے عجائبات دیکھتے ۔ اس کے ایک راوی علی بن زید بن جادعان کی بہت سی روایات منکر ہیں ۔
مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں پر بھی اگر یہ غور کریں تو یقینا یہ اللہ پر ایمان لے آئیں اس کے رسول کی تصدیق اور اس کی اطاعت اختیار کرلیں اور انہوں نے جو اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں۔ انہیں چھوڑ دیں اور اس بات سے ڈریں کہ انہیں موت اس حال میں آجائے کہ وہ کفر پر قائم ہوں۔ 185۔ 2 حَدِ یْث، سے مراد یہاں قرآن کریم ہے۔ یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انداز و تہدید اور قرآن کریم کے بعد بھی اگر یہ ایمان نہ لائیں تو ان سے بڑھ کر انہیں ڈرانے والی چیز کیا ہوگی جو اللہ کی طرف سے نازل ہو اور پھر یہ اس پر ایمان نہ لائیں۔
[١٨٥] یہاں حدیث سے مراد قرآن کریم ہے یعنی ان کے ساتھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ان کے اخروی انجام سے متنبہ کردیا ہے جس سے انہیں یقیناً دو چار ہونا پڑے گا اور موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں لہذا ان کو جلد از جلد اس رسول پر اور اس کتاب پر ایمان لانا چاہیے ایسا نہ ہو کہ تم اپنی سوچ بچار میں یا اس کی مخالفت میں لگے رہو اور یکدم تمہیں موت آجائے تو پھر افسوس اور حسرت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
اَوَلَمْ يَنْظُرُوْا فِيْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ : ” مَلَكُوْتِ “ یہ ” مُلْکٌ“ کے لفظ میں واؤ اور تاء کا اضافہ معنی میں وسعت کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” عظیم الشان سلطنت “ کیا گیا ہے۔ دلائل کونیہ یعنی اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان سلطنت سے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچے نبی ہونے کا ثبوت مل رہا ہے، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس توحید کی طرف دعوت دے رہے ہیں وہ آسمان و زمین کی عظیم الشان سلطنت اور پوری کائنات کی ایک ایک چیز بلکہ ایک ایک ذرے سے ثابت ہو رہی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے (وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ ۙ ) کے الفاظ کے ساتھ اس سلطنت میں جو بھی بڑی سے بڑی یا چھوٹی سے چھوٹی چیز پیدا فرمائی ہے اس کی طرف نگاہ کرنے کی بھی دعوت دی ہے۔ اتنی بڑی سلطنت کا ہر ذرہ گواہی دے رہا ہے کہ مجھے کوئی پیدا کرنے والا ہے اور وہ ایک ہے کہ اس عظیم الشان سلطنت کے کسی حصے میں کوئی خرابی، کوئی ٹکراؤ یا حادثہ نہیں۔ - وَّاَنْ عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ ۚ : اور کیا انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ ان کا مقرر وقت بالکل قریب آپہنچا ہو، یعنی موت کا مقرر وقت تو کسی کو معلوم نہیں، انسان کو کم از کم یہی سمجھ کر اپنے عقائد و اعمال کی پڑتال کرتے رہنا چاہیے کہ شاید اس کی موت کی گھڑی قریب آگئی ہو، مگر یہ بدبخت اتنا بھی نہیں سمجھتے۔ - تفکر اور غور وفکر کی دعوت اس بات کی دلیل ہے کہ تقلید کا عذر قیامت کے دن کسی کام نہیں آئے گا۔ - فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۢ بَعْدَهٗ يُؤْمِنُوْنَ : یعنی قرآن سے بڑا معجزہ کیا ہوگا اور اس سے بہتر نصیحت کس کتاب میں ہوگی اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہتر سمجھانے والا اور کون ہوگا، جس کی باتوں پر یہ ایمان لائیں گے ؟ آئندہ آیت سے معلوم ہو رہا ہے کہ ان کے ایمان نہ لانے کا اصل باعث ان کا تکبر اور سرکشی ہیں جو انھیں غور و فکر کرنے ہی نہیں دیتے۔
پانچویں آیت میں ان کو دو چیزوں کی طرف دعوت فکر دی گئی ہے، اول اللہ تعالیٰ کی مخلوقات آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی بیشمار مصنوعات عجیبہ میں غور و فکر۔ دوسرے اپنی مدت عمر اور فرصت پر نظر۔- مصنوعات قدرت میں ذرا بھی عقل و فہم کے ساتھ غور کیا جائے تو ایک موٹی سمجھ والے انسان کو بھی اللہ تعالیٰ کی شان قدرت کی معرفت اور نظارہ ہونے لگتا ہے، اور ذرا گہری نظر کرنے والے کے لئے تو عالم کا ذرہ ذرہ قادر مطلق اور حکیم کی حمد و ثنا کا تسبیح خوان نظر آنے لگتا ہے، جس کے بعد اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ایک فطری تقاضہ بن جاتا ہے۔- اور اپنی مدت عمر میں غور و فکر کا یہ نتیجہ ہے کہ جب انسان یہ سمجھ لے کہ موت کا وقت معلوم نہیں کب آجائے تو ضروری کاموں کے پورا کرنے میں غفلت سے باز آجاتا ہے، اور مستعدی سے کام کرنے لگتا ہے، موت سے غفلت ہی انسان کو تمام خرافات اور جرائم میں مبتلا رکھتی ہے، اور موت کا استحضار ہی وہ چیز ہے جو انسان کو بہت سے جرائم سے بچنے پر آمادہ کردیتا ہے۔ اسی لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اکثروا ذکر ھاذم اللذات الموت یعنی تم اس چیز کو کثرت سے یاد کیا کرو جو سب لذتوں کو ختم کردینے والی ہے یعنی موت۔- اسی لئے آیت مذکورہ میں فرمایا گیا (آیت) اَوَلَمْ يَنْظُرُوْا فِيْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ ۙ وَّاَنْ عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ ، لفظ ملکوت ملک کے معنی میں مبالغہ کے لئے بولا جاتا ہے اس کے معنی ہیں ملک عظیم، معنی آیت کے یہ ہیں کہ ان منکرین نے کیا اللہ تعالیٰ کے ملک عظیم میں غور نہیں کیا جو آسمانوں اور زمینوں اور بیشمار اشیاء پر محیط ہے، اور کیا اس پر نظر نہیں کی کہ یہ ہوسکتا ہے کہ ان کی موت قریب ہو جس کے بعد ایمان و عمل کی فرصت ختم ہوجائے گی۔- آخر آیت میں فرمایا (آیت) فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۢ بَعْدَهٗ يُؤ ْمِنُوْنَ ، یعنی جو لوگ قرآن کریم کی ایسی واضح نشانیوں سے بھی ایمان نہیں لاتے وہ اور کس چیز پر ایمان لائیں گے۔
اَوَلَمْ يَنْظُرُوْا فِيْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللہُ مِنْ شَيْءٍ ٠ ۙ وَّاَنْ عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُہُمْ ٠ ۚ فَبِاَيِّ حَدِيْثٍؚبَعْدَہٗ يُؤْمِنُوْنَ ١٨٥- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - عسی - عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] ، أي : کونوا راجین - ( ع س ی ) عسیٰ- کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے - قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، وقوله : وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] . وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] . وفي الحظوة : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] ، وقال في عيسى: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45] ، عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] ، فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] ، قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114] ، وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] . ويقال للحظوة : القُرْبَةُ ، کقوله : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] ، تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] . وفي الرّعاية نحو : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] ، وقوله : فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] - وفي القدرة نحو : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] . قوله وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ [ الواقعة 85] ، يحتمل أن يكون من حيث القدرة- ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] اور مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو ۔۔۔ اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا کے متعلق فرمایا : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] اور نہ مقرب فرشتے ( عار ) رکھتے ہیں ۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45]( اور جو ) دنیا اور آخرت میں آبرو اور ( خدا کے ) خاصوں میں سے ہوگا ۔ عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے ( خدا کے ) مقرب پئیں گے ۔ فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] پھر اگر وہ خدا کے مقربوں میں سے ہے : قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114]( فرعون نے ) کہا ہاں ( ضرور ) اور اس کے علاوہ تم مقربوں میں داخل کرلئے جاؤ گے ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] اور باتیں کرنے کے لئے نزدیک بلایا ۔ اور القربۃ کے معنی قرب حاصل کرنے کا ( ذریعہ ) کے بھی آتے ہیں جیسے فرمایا : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] اس کو خدا کی قربت کا ذریعہ ۔ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] دیکھو وہ بےشبہ ان کے لئے ( موجب ) قربت ہے۔ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ۔ اور رعایت ونگہبانی کے متعلق فرمایا : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے ۔ فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] میں تو تمہارے پاس ہوں ۔ جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اسکی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اور قرب بمعنی قدرہ فرمایا : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔- أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- أيا - أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص 28]- ( ا ی ی ) ای ۔- جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔- حدیث - وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ- [يوسف 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه،- حدیث - ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔- أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
کائنات پر دعوت فکر - قول باری ہے اولم ینظروا فی ملکوت السموت والارض وما خلق اللہ من شئی ۔ کیا ان لوگوں نے آسمان و زمین کے انتظام پر کبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا) آیت میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کائنات اس کی کاریگری اور حسن انتظام پر غور کرنے، اس کی ذات پر استدلال کرنے اور اس معاملے پر تدبر و تفکر سے کام لینے پر ابھارا گیا ہے اس لئے کہ یہ تمام باتیں اللہ کی ذات، اس کی حکمت، اس کی مہارت اور اس کے عدل پر دلالت کرتی ہے۔ آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اس کی پیدا کی ہوئی تمام چیزوں میں اس کی ذات کی نشاندہی موجود ہے اور یہ تمام چیزیں اس کی ذات کی طرف انسانوں کے فہم و شعور کو دعوت فکر دیتی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو متنبہ کیا ہے کہ اگر لوگوں نے کائنات پر غور و فکر کے ذریعے اس کی ذات کی معرفت میں کوتاہی کی حتی کہ موت کا وقت آگیا اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی واحدانیت کی معرفت پر کائنات سے استدلال کا موقع ہاتھ سے نکل گیا تو یہ موقعہ پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا۔ اسی بنا پر ارشاد ہوا وان عسی ان یکون قد اقترب اجلھم فبای حدیث بعدہ یومنون۔ اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید ان کی مہلت زندگی پوری ہونے کا وقت قریب آلگا ہو پھر آخر پیغمبر کی اس تنبیہ کے بعد اور کون سی بات ایسی ہوسکتی ہے جس پر یہ ایمان لائیں ؟ )
(١٨٥) جسے یہ لوگ سمجھتے ہیں، اہل مکہ نے سورج، چاند، تارے، بادل، اور زمین میں جو کچھ درخت، پہاڑ، سمندر اور جانور ہیں اور دوسری تمام چیزوں میں جن کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، غور نہیں کیا اور اس بات میں کہ اللہ کی طرف سے ان کی ہلاکت و بربادی قریب آپہنچی ہے۔- یہ لوگ اگر کتاب اللہ پر ایمان نہیں لاتے تو اس کے بعد پھر کس کتاب پر ایمان لائیں گے۔
آیت ١٨٥ (اَوَلَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَکُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنْ شَیْءٍلا ) وَّاَنْ عَسآی اَنْ یَّکُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُہُمْ ج) ۔ - اس سے پہلے اسی سورت میں ہم پڑھ آئے ہیں : (وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ج) (آیت ٣٤) اور ہر قوم کے لیے ایک وقت معین ہے۔ جس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ لہٰذا یہ لوگ کیونکر بےفکر ہوسکتے ہیں
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :143 رفیق سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ آپ انہی لوگوں میں پیدا ہوئے ، انہی کے درمیان رہے بسے ، بچے سے جوان اور جوان سے بوڑھے ہوئے ۔ نبوت سے پہلے ساری قوم آپ کو ایک نہایت سلیم الطبع اور صحیح الدماغ آدمی کی حیثیت سے جانتی تھی ۔ نبوت کے بعد جب آپ نے خدا کا پیغام پہنچانا شروع کیا تو یکایک آپ کو مجنون کہنے لگی ۔ ظاہر ہے کہ یہ حکمِ جُنون ان باتوں پر نہ تھا جو آپ نبی ہونے سے پہلے کرتے تھے بلکہ صرف اُنہی باتوں پر لگایا جارہا تھا جن کی آپ نے نبی ہونے کے بعد تبلیغ شروع کی ۔ اسی وجہ سے فرمایا جارہا ہے کہ ان لوگوں نے کبھی سوچا بھی ہے ، آخر ان باتوں میں کونسی بات جنون کی ہے؟ کونسی بات بے تُکی ، بے اصل اور غیر معقول ہے؟ اگر یہ آسمان و زمین کے نظام پر غور کرتے ، یا خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کو بھی بنظرِ تامل دیکھتے تو انہیں خود معلوم ہو جاتا کہ شرک کی تردید ، توحید کے اثبات ، بندگی رب کی دعوت اور انسان کی ذمہ داری و جواب دہی کے بارے میں جو کچھ ان کا بھائی انہیں سمجھا رہا ہے اس کی صداقت پر یہ پورا نظام کائنات اور خلق اللہ کا ذرہ ذرہ شہادت دے رہا ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :144 یعنی نادان اتنا بھی نہیں سوچتے کہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہے ، کچھ خبر نہیں کہ کب کس کی اجل آن پوری ہو ۔ پھر اگر ان میں سے کسی کا آخری وقت آگیا اور اپنے رویہ کی اصلاح کے لیے جو مہلت اسے ملی ہوئی ہے وہ انہی گمراہیوں اور بداعمالیوں میں ضائع ہوگئی تو آخر اس کا حشر کیا ہوگا ۔