[١٩١] محتاج الٰہ نہیں ہوسکتا :۔ یعنی ایک تو اللہ کی جاندار مخلوق ہے جسے تم الٰہ بناتے ہو جیسے فرشتے یا انبیاء و اولیاء وغیرہ جنہیں حاجت روا اور مشکل کشا تصور کیا جاتا ہے یا کیا جاتا رہا ہے یہ بھی الٰہ نہیں ہوسکتے تو پھر جو تم پتھر کے بت بنا کر اور انہیں خدائی کا درجہ دے کر ان کی پوجا پاٹ شروع کردیتے ہو وہ کیسے الٰہ ہوسکتے ہیں وہ تو اپنے منہ سے مکھی بھی نہیں اڑا سکتے وہ تمہاری مدد کیا کریں گے ؟ اور تمہاری کیا رہنمائی کریں گے کہ اگر تم خود انہیں راہ کی طرف بلاؤ تو وہ آ بھی نہیں سکتے تم انہیں بلاؤ یا نہ بلاؤ ایک ہی بات ہے کیونکہ وہ تو حرکت کر ہی نہیں سکتے۔
وَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ لَہُمْ نَصْرًا وَّلَآ اَنْفُسَہُمْ يَنْصُرُوْنَ ١٩٢- الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ - نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی
(١٩٢) اور یہ بت نہ اپنے آپ کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
آیت ١٩٢ (وَلاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ لَہُمْ نَصْرًا وَّلَآ اَنْفُسَہُمْ یَنْصُرُوْنَ ) ۔ - وہ تو سب کے سب خود اللہ کے بندے ہیں۔ اب یہاں بات تدریجاً بتوں کی طرف لائی جا رہی ہے۔ نظریاتی طور پر تو ان کے فلسفی بت پرستی کا جواز یہ بتاتے ہیں کہ وہ ان پتھر کے بتوں کی پوجا نہیں کرتے بلکہ ان مورتیوں کی حیثیت علامتی ہے۔ اصل دیوتا اور دیویاں چونکہ ہمارے سامنے موجود نہیں ہیں اس لیے ان کے بارے میں توجہ کے ارتکاز کے لیے ہم بتوں کو علامت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ اس فلسفہ کا خلاصہ ہے جو انڈیا کے ڈاکٹر رادھا کرشنن وغیرہ بیان کرتے رہے ہیں ‘ مگر ان کے عوام تو ان بتوں ہی کو معبود مانتے ہیں ‘ ان ہی کی پوجا کرتے ہیں ‘ بتوں ہی کے آگے جھکتے ہیں ‘ نذرانے دیتے ہیں اور انہی سے اپنی حاجات مانگتے ہیں۔