194۔ 1 یعنی جب وہ زندہ تھے، بلکہ اب تو تم خود ان سے زیادہ کامل ہو، اب وہ دیکھ نہیں سکتے، تم دیکھتے ہو، وہ سن نہیں سکتے، تم سنتے ہو۔ وہ کسی بات کو سمجھ نہیں سکتے، تم سمجھتے ہو، وہ جواب نہیں دے سکتے، تم دیتے ہو اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین، جن کی مورتیاں بنا کر پوجتے تھے، وہ بھی پہلے اللہ کے بندے یعنی انسان ہی تھے جیسے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم پانچ بتوں کی بابت عقیدہ رکھتی تھی جیسا کہ صحیح بخاری میں صراحتا موجود ہے کہ وہ اللہ کے نیک بندے تھے۔
[١٩٢] جو پکار نہ سن سکے وہ الٰہ نہیں :۔ یہ دوسری قسم کے الٰہ ہیں یعنی وہ انبیاء اور بزرگ جو فوت ہوچکے اور انہیں حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر پکارا جاتا ہے اس لیے کہ پتھر کے بتوں کے لیے عباد کا لفظ استعمال نہیں ہوتا اور ان کے الٰہ ہونے کی تردید کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جب تم انہیں پکارتے ہو تو وہ جواب بھی نہیں دے سکتے اور وہ تمہارے ہی جیسے ہیں تم سے کوئی بالاتر مخلوق نہیں۔
اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ ۔۔ : بت پرستوں نے اللہ کے نبیوں اور نیک لوگوں کے مجسمے ہی بت بنا کر رکھے ہوئے تھے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نوح (٢٣) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بتوں کی صورت میں تمہارے یہ معبود جنھیں تم پکارتے ہو، تمہارے جیسے بندے ہی ہیں۔ یہ الفاظ بھی دلیل ہیں کہ وہ لوگ صرف پتھروں کو نہیں بلکہ بتوں کی صورت میں بزرگوں کو پوجتے اور پکارتے تھے، کیونکہ پتھروں کو تمہارے جیسے بندے نہیں کہا جاسکتا۔ بزرگ خواہ بت کی صورت میں ہوں، خواہ پختہ قبر میں مدفون ہوں، بات ایک ہی ہے کہ تمہاری طرح عبد ہیں، معبود نہیں، یعنی تمہارے عقیدے کے مطابق اگر ان میں عقل و فہم مان بھی لیں، یا ان کے زندہ ہونے کے وقت کو سامنے رکھ لیں تو زیادہ سے زیادہ ان کا تمہارے جیسا بندہ ہونا ثابت ہوسکتا ہے، عبادت کے لائق ہونا نہیں، مگر یہ تو تمہاری طرح کے جاندار بھی نہیں، جیسا کہ بعد کی آیت میں ” اَمْثَالُكُمْ “ (تمھارے جیسے) ہونے کی بھی نفی کردی ہے۔ فرمایا انھیں پکارو کہ تمہاری دعاؤں کو قبول اور تمہاری مرادوں کو پورا کریں۔ یہ بات مشرکوں کو لاجواب کرنے کے لیے فرمائی۔
خلاصہ تفسیر - (غرض) واقعی تم خدا کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم ہی سے ( اللہ کے مخلوق) بندے ہیں ( یعنی تم سے بڑھ کر نہیں خواہ گھٹے ہوئے ہوں) سو ( ہم تو تم کو سچا جب جانیں کہ) تم ( تو) ان کو پکارو ( اور) پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا کردیں، اگر تم ( ان کے اعتقاد الوہیت میں) سچے ہو ( اور وہ بیچارے تمہارا کہنا تو کیا کریں گے، کہنا ماننے کے آلات تک ان کو نصیب نہیں، دیکھ لو) کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہوں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے کسی چیز کو تھام سکیں یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوں یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہوں ( جب ان میں قوٰی فاعلہ تک نہیں تو کوئی فعل ان سے کیا صادر ہوگا اور) آپ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ ( جس طرح وہ اپنے معتقدین کو نفع پہنچانے سے عاجز ہیں اسی طرح اپنے مخالفین کو ضرر بھی نہیں پہنچا سکتے، جیسا تم کہا کرتے ہو کہ ہمارے بتوں کی بےادبی نہ کیا کرو ورنہ وہ تم پر کوئی آفت نازل کردیں گے۔ اخرجہ فی اللباب عن عبد الرزاق فی قولہ تعالیٰ (آیت) وَيُخَوِّفُوْنَكَ بالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ، اور اگر تم سمجھتے ہو کہ وہ مجھ کو ضرر پہنچا سکتے ہیں تو) تم ( اپنا ارمان نکال لو اور) اپنے سب شرکاء کو بلا لو پھر ( سب مل کر) میری ضرر رسانی کی تدبیر کرو پھر ( جب تدبیر بن جائے تو) مجھ کو ذرا مہلت مت دو ( بلکہ فورا اس کو نافذ کردو، دیکھوں کیا ہوتا ہے اور خاک بھی نہیں ہوگا کیونکہ شرکاء تو مہمل محض ہیں، رہ گئے تم جو کچھ ہاتھ پاؤں ہلا سکتے ہو تو تم میرا اس لئے کچھ نہیں کرسکتے کہ) یقینا میرا مددگار اللہ تعالیٰ ہے جس ( کے مددگار اور رفیق ہونے کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ اس) نے ( مجھ پر) یہ کتاب ( مبارک جامع خیر دارین) نازل فرمائی ( اور اگر میرا رفیق و معین نہ ہوتا تو اتنی بڑی نعمت کیوں عطا فرماتا) اور ( علاوہ اس دلیل خاص کے ایک عام قاعدہ سے بھی اس کا مددگار ہونا معلوم ہے وہ قاعدہ یہ ہے کہ) وہ ( عموما) نیک بندوں کی مدد کیا کرتا ہے ( تو انبیاء تو ان نیک بندوں میں فرد کامل ہیں اور میں نبی ہوں تو میرا بھی ضرور مددگار ہوگا، غرض یہ کہ جن کے ضرر سے ڈراتے ہو وہ عاجز اور جو مجھ کو ضرر سے بچاتا ہے وہ قادر، پھر اندیشہ کا ہے کا) اور ( گو ان کا عاجز ہونا اوپر بابلغ وجوہ بیان ہوچکا ہے لیکن چونکہ وہاں بیان عجز مقصود بالغیر تھا اور مقصود بالذات نفی استحقاق معبودیت تھی اس لئے آگے مقصود بیان عجز کا فرماتے ہیں کہ) تم جن لوگوں کی خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ (تمہارے دشمن کے مقابلہ میں جیسا میں ہوں) تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے اور نہ ( اپنے دشمن کے مقابلہ میں جیسا میں ہوں) اپنی مدد کرسکتے ہیں اور ( مدد کرنا تو بڑی بات ہے) ان کو ( تو) اگر کوئی بات بتلانے کو پکارو تو اس کو ( بھی تو) نہ سنیں ( اس کے بھی وہی مذکورہ بالا دونوں معنی ہو سکتے ہیں) اور ( جیسے ان کے پاس سننے کا آلہ نہیں اسی طرح دیکھنے کا آلہ بھی نہیں اور ان کی تصویر میں جو آنکھیں بنادی جاتی ہیں وہ محض نام ہی کی ہوتی ہیں کام کی نہیں چنانچہ) ان ( بتوں) کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں ( کیونکہ شکل تو آنکھوں کی سی بنی ہوئی ہے) اور وہ ( واقع میں) کچھ بھی نہیں دیکھتے ( کیونکہ حقیقت میں تو وہ آنکھیں نہیں اسی پر دوسرے قوٰی فاعلہ ایدی و ارجل کی نفی سمجھ لینا چاہئے، پس ایسے عاجز کا کیا ڈراوا دکھلاتے ہو)
اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ فَادْعُوْہُمْ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ١٩٤- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- استجاب - والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24]- ( ج و ب ) الجوب - الاستاأبتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ - صدق - والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1]- ( ص دق) الصدق ۔- الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔
معبودان باطل بھی اللہ کی ملکیت ہیں - قول باری ہے ان الذین تدعون من دوان اللہ عبادا مثالکم فادعوھم تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں جیسے تم بندے ہو۔ ان سے دعائیں مانگ دیکھو) پہلی دعا اور پکار سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے بتوں کو معبودوں کے نام سے موسوم کردیا تھا جبکہ دوسری دعا اور پکار سے منافع کی طلب اور آنے والی مصیبتوں سے رہائی مراد ہے۔ اس بارے میں انہیں ان کی طرف سے مکمل مایوسی کا سامنا ہے قول باری عبادا مثالکم کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ ان معبودان باطل کو عباد اس لئے کہا گیا کہ یہ بھی اللہ کی ملکیت ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ مشرکین کو یہ وہم تھا کہ یہ معبودان باطل نفع و نقصان کے مالک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بتادیا کہ ان کا یہ وہم ان معبودان باطل کو پیدا کئے گئے بندوں کے حکم سے خارج نہیں کرتا حسن کا قول ہے کہ جو لوگ ان بتوں کو پکارتے ہیں وہ بھی تمہاری طرح مخلوق ہیں۔ قول باری ہے الھم ارجل یمشون بھا۔ کیا یہ پائوں رکھتے ہیں کہ ان سے چلیں ؟ ) آیت میں ان لوگوں کو جھڑ دیا گیا ہے جنہوں نے ایسی بےبس اور لاچار چیزوں کو اپنے معبود بنا رکھا ہے۔ اس لئے کہ کسی شخص کو اس بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس قسم کے بےبس معبودوں کی پرستش کرنے والے ان لوگوں کی بہ نسبت زیادہ قابل ملامت ہیں جو اعضا وجوارح رکھنے والے معبودوں کی پرستش کرتے ہیں۔ ان معبودوں کے لئے کم از کم اپنے اعضاء وجوارح سے نفع و نقصان پہنچانا ممکن تو ہے۔- ” کیا “ باطل پرست اپنے معبودوں سے افضل ہیں ؟- ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پرستش کرنے والوں کے سامنے آیت میں مذکورہ باتوں کا پیمانہ پیش کر کے انہیں بتادیا کہ یہ اپنے معبودوں سے افضل ہیں اس لئے کہ ان کے اعضاء و جوارح موجود ہیں جن کے ذریعے یہ کام کاج اور دیگر تصرفات کرسکتے ہیں جبکہ ان کے بت ان تمام تصرفات سے محروم ہیں، پھر یہ کس طرح ان بتوں کی پرستش کرتے ہیں جبکہ یہ خود ان بتوں سے افضل ہیں۔ اور پھر تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع سے روگرداں ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید میں معجزات کی صورت میں نشانیاں بھی عطا کی ہیں اور قوی دلائل بھی دیئے ہیں۔ یہ مشرکین آپ کی اتباع سے اس لئے روگرداں ہیں کہ ان کے خیال میں آپ ان کی طرح ایک انسان ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں تو انہیں خیال آگیا لیکن بتوں کی پرستش کے وقت انہیں خیال نہیں آیا کہ جن پتھروں کو یہ پوجتے ہیں ان میں نہ کوئی قدرت ہے اور نہ ہی وہ کسی تصرف پر قادر ہیں بلکہ وہ خود ان معبودان باطل سے بایں معنی افضل ہیں کہ ان میں نفع و ضرر کی قدرت ہے۔ نیز ان میں زندگی بھی ہے اور علم بھی۔
(١٩٤) اور جو لوگ بتوں کی عبادت کرتے ہیں تو وہ بت بھی ان ہی جیسے ہیں تو تم ان بتوں کو پکار کر دیکھو اگر تم اپنی بات میں سچے ہو کہ وہ تمہیں نفع پہنچاتے ہیں پھر دیکھو کہ کیا تمہاری بات سنتے ہیں اور اس کا جواب دے سکتے ہیں۔
آیت ١٩٤ (اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ ) - وہ فرشتے ہوں یا جنات ‘ دیوی دیوتا ہوں یا اولیاء اللہ ‘ سب تمہاری طرح اللہ ہی کے بندے ہیں ۔- (فَادْعُوْہُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) ۔ - اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو کہ وہ لائق پرستش ہیں اور کچھ اختیار بھی رکھتے ہیں تو تمہاری پکار یا دعا پر ان کی طرف سے کچھ نہ کچھ جواب تو ضرور ملنا چاہیے۔ بلکہ سورة یونس میں تو یہاں تک واضح کیا گیا ہے کہ روز محشر وہ کہیں گے کہ ہمیں تو خبر ہی نہیں تھی کہ تم لوگ ہماری پوجا پاٹ کرتے رہے ہو : (اِنْ کُنَّا عَنْ عِبَادَتِکُمْ لَغٰفِلِیْنَ ) یعنی ہم تو اس سب کچھ سے غافل تھے کہ تم لوگ ہمیں پکارتے رہے ہو ‘ ہماری دہائیاں دیتے رہے ہو۔ یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیءًا لِلّٰہ جیسے مشرکانہ ورد کرتے رہے ہو۔ اب اگلی آیت میں خاص طور پر بتوں کی طرف اشارہ ہے۔