Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩٥] جب میرا سرپرست اور کارساز اللہ تعالیٰ ہے جس نے یہ قرآن نازل کیا ہے تو پھر مجھے تمہارے ان معبودوں سے نقصان پہنچنے کا کیا خطرہ ہوسکتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ بات صرف مجھی پر منحصر نہیں اللہ اپنے سب نیک بندوں کی سرپرستی فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی یہ سرپرستی کیا کم ہے کہ اس نے قرآن جیسی بابرکت کتاب ہمارے لیے نازل فرمائی ہے جو زندگی کے ہر پہلو میں ہماری رہنمائی کرتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ وَلِيّۦ اللّٰهُ الَّذِيْ نَزَّلَ الْكِتٰبَ ڮ ۔۔ : یہ جواب ہے مشرکین کی ان دھمکیوں کا جو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ تم ہمارے ان معبودوں کو برا کہنے سے باز آجاؤ، ورنہ تم ان کے غضب میں گرفتار ہو کر تباہ ہوجاؤ گے۔ فرمایا میرا یارومددگار اللہ ہے، مجھے تمہاری دھمکیوں کی کوئی پروا نہیں۔ نیز اس میں توحید کی دعوت بھی ہے کہ جب یہ اصنام قدرت و علم سے محروم ہیں تو جو لوگ عقل و فکر رکھتے ہیں ان کو چاہیے کہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کریں، جس نے انسانوں کی ہدایت کے لیے کامل کتاب نازل فرمائی اور وہ ہر طرح سے نیک لوگوں کا یارومددگار بھی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف ومسائل - (آیت) اِنَّ وَلِيّۦ اللّٰهُ الَّذِيْ نَزَّلَ الْكِتٰبَ ڮ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ ، یہاں ولی کے معنی محافظ و مددگار کے ہیں، اور کتاب سے مراد قرآن اور صالحین سے مراد بقول ابن عباس وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی کو برابر نہ کریں، اس میں انبیاء (علیہم السلام) سے لے کر عام نیک مسلمانوں تک سب داخل ہیں۔ - اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ مجھے تمہاری مخالفت کی اس لئے پرواہ نہیں کہ میرا محافظ و مددگار اللہ تعالیٰ ہے جس نے مجھ پر قرآن نازل کیا ہے۔- یہاں اللہ تعالیٰ کی سب صفات میں سے قرآن نازل کرنے کو خصوصیت سے اس لئے ذکر کیا کہ تم جو میری عداوت و مخالفت پر جمے ہو، اس کی وجہ قرآن کی تعلیم و دعوت ہے جو میں تمہیں دیتا ہوں تو جس نے مجھ پر یہ قرآن نازل کیا ہے وہ ہی میرا مددگار و محافظ ہے اس لئے مجھے کیوں فکر ہو۔- اس کے بعد آخری جملے میں عام ضابطہ بتلا دیا کہ انبیاء (علیہم السلام) کی تو بڑی شان ہے عام صالح اور نیک مسلمانوں کا بھی اللہ متولی اور کفیل ہوتا ہے، ان کی مدد کرتا ہے اس لئے ان کو کسی دشمن کی مخالفت اور دشمنی مضر نہیں ہوتی، اکثر اوقات تو دنیا ہی میں وہ ان پر غالب کردیا جاتا ہے اور اگر کسی وقت بتقاضائے حکمت غالب بھی نہ ہو تو بھی اس کے اصل مقصد میں کوئی خلل نہیں پڑتا وہ ظاہر میں ناکام ہو کر بھی مقصد کے لحاظ سے کامیاب ہی ہوتا ہے کیونکہ مومن صالح کا اصل مقصد ہر کام میں اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا اور اس کی اطاعت کرنا ہے، اگر وہ دنیا میں کسی وجہ سے ناکام بھی ہوجائے تو رضائے الہی کا اصل مقصد پھر بھی اس کو حاصل ہوتا ہے اور وہ کامیاب ہی ہوتا ہے۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ وَلِيِّۦ اللہُ الَّذِيْ نَزَّلَ الْكِتٰبَ۝ ٠ ۡ ۖ وَہُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ۝ ١٩٦- ولي - والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62]- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الولی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩٦) یقیناً میرا معین و مددگار اللہ ہے، جس نے بذریعہ جبریل (علیہ السلام) مجھ پر کتاب اتاری ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :149 یہ جواب ہے مشرکین کی ان دھمکیوں کا جو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے ۔ وہ کہتے تھے کہ اگر تم ہمارے ان معبودوں کی مخالفت کرنے سے باز نہ آئے اور ان کی طرف سے لوگوں کے عقیدے اسی طرح خراب کرتے رہے تو تم پر ان کا غضب ٹوٹ پڑے گا اور وہ تمہیں اُلٹ کر رکھ دیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani