Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

202۔ 1 یعنی شیطان کافروں کو گمراہی کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں، پھر وہ کافر (گمراہی کی طرف جانے میں) یا شیطان انکو لے جانے میں کوتاہی میں کمی نہیں کرتے۔ یعنی لَا یَقْصِرُوْنَ کا فاعل کافر بھی بن سکتے ہیں اور اِخْوَان الْکُفَّاِرِ شیاطین بھی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٠٠] لیکن ایسا ہی وسوسہ اگر شیطان کسی کے نافرمان یا باغی کے دل میں ڈال دے اور ایسے لوگ فوراً اس وسوسہ میں پھنس کر معصیت کی رو میں بہہ جاتے ہیں اس کے بعد بھی شیطان انہیں معاف نہیں کرتا بلکہ ان کا حوصلہ بڑھاتا رہتا ہے اور اسے جب بھی موقع ملے اپنے ان بھائیوں کو گمراہی میں کھینچتا چلا جاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِخْوَانُهُمْ يَمُدُّوْنَهُمْ فِي الْغَيِّ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے مقابلے میں ان کفار و منافقین کا جو اپنی شرارت اور خباثت نفس میں شیاطین کے بھائی ہیں، یہ حال ہے کہ ان کے بھائی شیاطین انھیں گمراہی میں بڑھاتے اور گھسیٹتے ہی لیے جاتے ہیں اور انھیں بھٹکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ (ابن کثیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِخْوَانُہُمْ يَمُدُّوْنَہُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لَا يُقْصِــرُوْنَ۝ ٢٠٢- أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- مد - أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] . وأكثر ما جاء الإمْدَادُ في المحبوب والمدُّ في المکروه نحو : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور 22] أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون 55] ، وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح 12] ، يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران 125] ، أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ- [ النمل 36] ، وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم 79] ، وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ- [ البقرة 15] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف 202] ، وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان 27] فمن قولهم : مَدَّهُ نهرٌ آخرُ ، ولیس هو مما ذکرناه من الإمدادِ والمدِّ المحبوبِ والمکروهِ ، وإنما هو من قولهم : مَدَدْتُ الدّواةَ أَمُدُّهَا «1» ، وقوله : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف 109] والمُدُّ من المکاييل معروف .- ( م د د ) المد - کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ مددتہ فی غیہ ۔ گمراہی پر مہلت دینا اور فورا گرفت نہ کرنا ۔ مددت الابل اونٹ کو مدید پلایا ۔ اور مدید اس بیج اور آٹے کو کہتے ہیں جو پانی میں بھگو کر باہم ملا دیا گیا ہو امددت الجیش بمدد کا مددینا ۔ کمک بھیجنا۔ امددت الانسان بطعام کسی کی طعام ( غلہ ) سے مددکرنا قرآن پاک میں عموما امد ( افعال) اچھی چیز کے لئے اور مد ( ثلاثی مجرد ) بری چیز کے لئے ) استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور 22] اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے ۔ أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون 55] کیا یہ لوگ خیا کرتے ہیں ک ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں ۔ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح 12] اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا ۔ يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران 125] تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیجے گا ۔ أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل 36] کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو ۔ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم 79] اور اس کے لئے آراستہ عذاب بڑھاتے جاتے ہیں ۔ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15] اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت اور سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف 202] اور ان ( کفار) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں لیکن آیت کریمہ : وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان 27] اور سمندر ( کا تمام پانی ) روشنائی ہو اور مہار ت سمندر اور ( روشنائی ہوجائیں ) میں یمددہ کا صیغہ مدہ نھرا اخر کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ امداد یا مد سے نہیں ہے جو کسی محبوب یا مکروہ وہ چیز کے متعلق استعمال ہوتے ہیں بلکہ یہ مددت الداواۃ امد ھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دوات میں روشنائی ڈالنا کے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف 109] اگرچہ ہم دیسا اور سمندر اس کی مددکو لائیں ۔ میں مداد یعنی روشنائی کے معنی مراد ہیں ۔ المد۔ غلہ ناپنے کا ایک مشہور پیمانہ ۔ ۔- غوی - الغَيُّ : جهل من اعتقاد فاسد، وذلک أنّ الجهل قد يكون من کون الإنسان غير معتقد اعتقادا لا صالحا ولا فاسدا، وقد يكون من اعتقاد شيء فاسد، وهذا النّحو الثاني يقال له غَيٌّ. قال تعالی: ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم 2] - ( غ و ی ) الغی - ۔ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلط اعتقاد پر مبنی ہو ۔ کیونک جہالت کبھی تو کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے اور کبھی عقیدہ کو اس میں داخل نہیں ہوتا پہلی قسم کی جہالت کا نام غی گمراہی ہے قرآن پاک میں ہے : ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم 2] کہ تمہارے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں - قصر - القِصَرُ : خلاف الطّول، وهما من الأسماء المتضایفة التي تعتبر بغیرها، وقَصَرْتُ كذا :- جعلته قَصِيراً ، والتَّقْصِيرُ : اسم للتّضجیع، وقَصَرْتُ كذا : ضممت بعضه إلى بعض، ومنه سمّي الْقَصْرُ ، وجمعه : قُصُورٌ. قال تعالی: وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج 45] ، وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان 10] ، إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات 32] ، وقیل : الْقَصْرُ أصول الشّجر، الواحدة قَصْرَةٌ ، مثل : جمرة وجمر، وتشبيهها بالقصر کتشبيه ذلک في قوله : كأنّه جمالات صفر [ المرسلات 33] ، وقَصَرْتُه جعلته : في قصر، ومنه قوله تعالی:- حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن 72] ، وقَصَرَ الصلاةَ : جعلها قَصِيرَةً بترک بعض أركانها ترخیصا . قال : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء 101] وقَصَرْتُ اللّقحة علی فرسي : حبست درّها عليه، وقَصَرَ السّهمِ عن الهدف، أي : لم يبلغه، وامرأة قاصِرَةُ الطَّرْفِ : لا تمدّ طرفها إلى ما لا يجوز . قال تعالی: فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن 56] . وقَصَّرَ شعره : جزّ بعضه، قال : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح 27] ، وقَصَّرَ في كذا، أي : توانی، وقَصَّرَ عنه لم : ينله، وأَقْصَرَ عنه : كفّ مع القدرة عليه، واقْتَصَرَ علی كذا : اکتفی بالشیء الْقَصِيرِ منه، أي : القلیل، وأَقْصَرَتِ الشاة : أسنّت حتی قَصَرَ أطراف أسنانها، وأَقْصَرَتِ المرأة : ولدت أولادا قِصَاراً ، والتِّقْصَارُ : قلادة قَصِيرَةٌ ، والْقَوْصَرَةُ معروفة «1» .- ( ق ص ر ) القصر یہ طول کی ضد ہے اور یہ دونوں اسمائے نسبتی سے ہیں جو ایک دوسرے پر قیاس کے ذریعہ سمجھے جاتے ہیں ۔ قصرت کذا کے معنی کسی چیز کو کوتاہ کرنے کے ۔ ہیں اور تقصیر کے معنی اور سستی کے ہیں اور قصرت کذا کے معنی سکیٹر نے اور کسی چیز کے بعض اجزاء کو بعض کے ساتھ ملانا کے بھی آتے ہیں ۔ اسی سے قصر بمعنی محل ہے اس کی جمع قصور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج 45] اور بہت سے محل : ۔ وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان 10] نیز تمہارے لئے محل بنادے گا ۔ إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات 32] اس سے آگ کی اتنی ( بڑی بڑی ) چنگاریاں اٹھتی ہیں ۔ جیسے محل ۔ بعض نے کہا ہے کہ قصر جمع ہے اور اس کے معنی درخت کی جڑوں کے ہیں ۔ اس کا واحد قصرۃ ہے جیسے جمرۃ وجمر اور ان شراروں کو قصر کے ساتھ تشبیہ دینا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ان کا ۔ كأنّه جمالات صفر [ المرسلات 33] گویا زور درنگ کے اونٹ ہیں ۔ کہا ہے کہ اور قصرتہ کے معنی محل میں داخل کرنے کے ہیں اور اسی سے ارشاد الہٰی ہے ۔ حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن 72] وہ حوریں ہیں جو خیموں میں ستور ہیں ۔- قصرالصلٰوۃ - بموجب رخصت شرعی کے نماز کے بعض ارکان کو ترک کرکے اسے کم کرکے پڑھنا ۔ قرآن پاک میں ہے : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء 101] تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو ۔ قصرت اللقحتہ علٰی فرسی اونٹنی کا دودھ اپنی گھوڑی کے لئے مخصوص کردیا قصرالسھم عن الھدف ۔ تیر کا نشانے تک نہ پہنچنا ۔ امراءۃ قاصرۃ الطرف وہ عورت ناجائز نظر اٹھا کے نہ دیکھے ۔ قرآن پاک میں ہے : فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن 56] ان میں نیچی نگاہ والی عورتیں ۔ قصری شعرہ بال کتروانا قرآن پاک میں ہے : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح 27] اپنے سر منڈاوا کر اور بال کتروا کر ۔ قصرفی کذا : کسی کام میں سستی کرنا قصر عنہ کسی کام کے کرنے سے عاجز ہونا ۔ اقصرت عنہ ۔ باوجود قدرت کے کسی کام کرنے سے باز رہنا ۔ اقتصر علیٰ کذا تھوڑی چپز پر صبر کرنا ۔ اقتصرت الشاۃ بوڑھا ہونے کی وجہ سے بکری کے دانتوں کا کوتاہ ہوجانا ۔ اقصرت المرءۃ چھوٹی قد اولاد جننا تقصار چھوٹا سا رہا ۔ القوصرہ کھجور ڈالنے زنبیل جو کھجور پتوں یا نرکل کی بنئی ہوئی ہوتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٠٢) جو شیاطین اور مشرکوں کے بھائی بند ہیں تو وہ ان کو کفر وگمراہی اور گناہ میں گھسیٹ کرلے جاتا ہے پھر وہ اس سے باز نہیں آتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠٢ (وَاِخْوَانُہُمْ یَمُدُّوْنَہُمْ فِی الْْغَیِّ ثُمَّ لاَ یُقْصِرُوْنَ ) ۔ - شیطان کا جو دوست بنے گا پھر اس پر شیطان کا حکم تو چلے گا۔ شیاطین اپنے بھائی بندوں کو گمراہی میں گھسیٹتے ہوئے دور تک لے جاتے ہیں اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ یعنی گمراہی کی آخری حد تک پہنچا کر رہتے ہیں۔ جیسے بلعم بن باعوراء کو شیطان نے اپناشکار بنایا تھا اور اسے گمراہی کی آخری حد تک پہنچا کر دم لیا ‘ لیکن جو اللہ کے مخلص اور متقی بندے ہیں ان پر شیطان کا اختیار نہیں چلتا۔ ان کی کیفیت وہ ہوتی ہے جو اس سے پچھلی آیت میں بیان ہوئی ہے ‘ یعنی جو نہی منفی اثرات کا سایہ ان کو اپنی طرف بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے وہ یکدم چونک کر اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :150 ان آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت تبلیغ اور ہدایت و اصلاح کی حکمت کے چند اہم نکات بتائے گئے ہیں اور مقصود صرف حضور ہی کو تعلیم دینا نہیں ہے بلکہ حضور کے ذریعہ سے ان سب لوگوں کو بھی حکمت سکھانا ہے جو حضور کے قائم مقام بن کر دنیا کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے اُٹھیں ۔ ان نکات کو سلسلہ وار دیکھنا چاہیے: ۔ ( ١ ) داعی حق کے لیے جو صفات سب سے زیادہ ضروری ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے نرم خو متحمل اور عالی ظرف ہونا چاہیے ۔ اس کو اپنے ساتھیوں کے لیے شفیق ، عامتہ الناس کے لیے رحیم اور اپنے مخالفوں کے لیے حلیم ہونا چاہیے ۔ اس کو اپنے رفقا کی کمزوریوں کو بھی برداشت کرنا چاہیے اور اپنے مخالفین کی سختیوں کو بھی ۔ اسے شدید سے شدید اشتعال انگیز مواقع پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے ، نہایت ناگوار باتوں کو بھی عالی ظرفی کے ساتھ ٹال دینا چاہیے ، مخالفوں کی طرف سے کیسی ہی سخت کلامی بہتان تراشی ، ایذا رسانی اور شریرانہ مزاحمت کا اظہار ہو ، اس کو درگزر ہی سے کام لینا چاہیے ۔ سخت گیری ، درشت خوئی ، تلخ گفتاری اور منتقمانہ اشتعال طبع اس کام کے لیے زہر کا حکم رکھتا ہے اور اس سے کام بگڑتا ہے بنتا نہیں ہے ۔ اسی چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا ہے کہ میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ ” غضب اور رضا ، دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں ، جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں ، جو مجھے میرے حق سے محروم کرے میں اسے اس کا حق دوں ، جو میرے ساتھ ظلم کرے میں اس کو معاف کردوں“ ۔ اور اسی چیز کی ہدایت آپ ان لوگوں کو کرتے تھے جنہیں آپ دین کے کام پر اپنی طرف سے بھیجتے تھے کہ بشروا ولا تنفروا و یسرواولا تعسروا ، یعنی”جہاں تم جاؤ وہاں تمہاری آمد لوگوں کے لیے مژدہ جانفزا ہو نہ کہ باعث نفرت ، اور لوگوں کے لیے تم سہولت کے موجب بنو نہ کہ تنگی و سختی کے “ ۔ اور اسی چیز کی تعریف اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمائی ہے کہ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْ ا مِنْ حَوْ لکَ ۔ یعنی”یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم ہو ورنہ اگر تم درشت خو اور سنگدل ہوتےتو یہ سب لوگ تمہارے گردو پیش سے چَھٹ جاتے“ ۔ ( آل عمران ، ١۵۹ ) ( ۲ ) دعوت حق کی کامیابی کا گُر یہ ہے کہ آدمی فلسفہ طرازی اور دقیقہ سنجی کے بجائے لوگوں کو معروف یعنی ان سیدھی اور صاف بھلائیوں کی تلقین کرے جنہیں بالعموم سارے ہی انسان بھلا جانتے ہیں یا جن کی بھلائی کو سمجھنے کے لیے وہ عقلِ عام ( ) کافی سونی ہے جو ہر انسان کو حاصل ہے ۔ اس طرح داعی حق کا اپیل عوام و خواص سب کو متاثر کرتا ہے اور ہر سامع کے کان سے دل تک پہنچنے کی راہ اب نکال لیتا ہے ۔ ایسی معروف دعوت کے خلاف جو لوگ شورش برپا کرتے ہیں وہ خود اپنی ناکامی اور اس دعوت کی کامیابی کا سامان فراہم کرتے ہیں ۔ کیونکہ عام انسان ، خواہ وہ کتنے ہی تعصبات میں مبتلا ہوں ، جب یہ دیکھتے ہیں کہ ایک طرف ایک شریف النفس اور بلند اخلاق انسان ہے جو سیدھی سیدھی بھلائیوں کی دعوت دے رہا ہے اور دوسری طرف بہت سے لوگ اس کی مخالفت میں ہر قسم کی اخلاق و انسانیت سے گری ہوئی تدبیریں استعمال کر رہے ہیں ، تو رفتہ رفتہ ان کے دل خود بخود مخالفینِ حق سے پھرتے اور داعی حق کی طرف متوجہ ہوتے چلے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ آخر کار میدان مقابلہ میں صرف وہ لوگ رہ جاتے ہی جن کے ذاتی مفاد نظام باطل کے قیام ہی سے وابستہ ہوں ، یا پھر جن کے دلوں میں تقلیدِ اسلاف اور جاہلانہ تعصبات نے کسی روشنی کے قبول کرنے کی صلاحیت باقی ہی نہ چھوڑی ہو ۔ یہی وہ حکمت تھی جس کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر آپ کے بعد تھوڑی ہی مدت میں اسلام کا سیلاب قریب کے ملکوں پر اس طرح پھیل گیا کہ کہیں سوفی صدی اور کہیں ۸۰ اور ۹۰ فی صدی باشندے مسلمان ہو گئے ۔ ( ۳ ) اس دعوت کے کام میں جہاں یہ بات ضروری ہے کہ طالبینِ خیر کو معروف کی تلقین کی جائے وہاں یہ بات بھی اتنی ہی ضروری ہے کہ جاہلوں سے نہ اُلجھا جائے خواہ وہ اُلجھنے اور اُلجھانے کی کتنی ہی کوشش کریں ۔ داعی کو اس معاملہ میں سخت محتاط ہونا چاہیے کہ اس کا خطاب صرف ان لوگوں سے رہے جو معقولیت کے ساتھ بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہوں ۔ اور جب کوئی شخص جہالت پر اُتر آئے اور حجت بازی ، جھگڑالو پن اور طعن و تشنیع شروع کر دے تو داعی کو اس کا حریف بننے سے انکار کر دینا چاہیے ۔ اس لیے کہ اس جھگڑے میں اُلجھنے کا حاصل کچھ نہیں ہے اور نقصان یہ ہے کہ داعی کی جس قوت کو اشاعتِ دعوت اور اصلاح نفوس میں خرچ ہونا چاہیے وہ اس فضول کام میں ضائع ہوجاتی ہے ۔ ( ٤ ) نمبر ۳ میں جو ہدایت کی گئی ہے اسی کے سلسلہ میں مزید ہدایت یہ ہے کہ جب کبھی داعی حق مخالفین کے ظلم اور ان کی شرارتوں اور ان کے جاہلانہ اعتراضات و الزامات پر اپنی طبیعت میں اشتعال محسوس کرے تو اسے فوراً سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نزغِ شیطانی ( یعنی شیطان کی اکساہٹ ) ہے اور اسی وقت خدا سے پناہ مانگنی چاہیے کہ اپنے بندے کو اس جوش میں بہ نکلنے سے بچائے ور ایسا بے قابو نہ ہونے دے کہ اس سے دعوت حق کو نقصان پہنچانے والی کوئی حرکت سرزد ہو جائے ۔ دعوت حق کا کام بہر حال ٹھنڈے دل سے ہی ہو سکتا ہے اور وہی قدم صحیح اٹھ سکتا ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں بلکہ موقع و محل کو دیکھ کر ، خوب سوچ سمجھ کر اُٹھایا جائے ۔ لیکن شیطان ، جو اس کام کو فروغ پاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھ سکتا ، ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اپنے بھائی بندوں سے داعی حق پر طرح طرح کے حملے کرائے اور پھر ہر حملے پر داعی حق کو اکسائے کہ اس حملے کا جواب تو ضرور ہونا چاہیے ۔ یہ اپیل جو داعی کے نفس سے کرتا ہے ، اکثر بڑی بڑی پر فریب تاویلوں اور مذہبی اصلاحوں کے غلاف میں لپٹا ہوا ہوتا ہے لیکن اس کی تہ میں بجز نفسانیت کے اور کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ اسی لیے آخری دو آیتوں میں فرمایا کہ جو لوگ متقی ( یعنی خدا ترس اور بدی سے بچنے کے خواہشمند ) ہیں وہ تو اپنے نفس میں کسی شیطانی تحریک کا اثر اور کسی برے خیال کی کھٹک محسوس کرتے ہی فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آجاتا ہے کہ اس موقع پر دعوت دین کا مفاد کس طرزِ عمل کے اختیار کرنے میں ہے اور حق پرستی کا تقاضا کیا ہے ۔ رہے وہ لوگ جن کے کام میں نفسانیت کی لاگ لگی ہوئی ہے اور اس وجہ سے جن کا شیاطین کے ساتھ بھائی چارے کا تعلق ہے ، تو وہ شیطانی تحریک کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتے اور اس سے مغلوب ہو کر غلط راہ پر چل نکلتے ہیں ۔ پھر جس جس وادی میں شیطان چاہتا ہے انہیں لیے پھرتا ہے اور کہیں جا کر ان کے قدم نہیں رُکتے ۔ مخالف کی ہر گالی کے جواب میں ان کے پاس گالی اور ہر چال کے جواب میں اس سے بڑھ کر چال موجود ہوتی ہے ۔ اس ارشاد کا ایک عمومی محمل بھی ہے اور وہ یہ کہ اہل تقویٰ کا طریقہ بالعموم اپنی زندگی میں غیر متقی لوگوں سے مختلف ہوتا ہے ۔ جو لوگ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ برائی سے بچیں ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ برے خیال کا ایک ذرا سا غبار بھی اگر ان کے دال کو چھو جاتا ہے تو انہیں ویسی ہی کھٹک محسوس ہونے لگتی ہے جیسی کھٹک اُنگلی میں پھانس چُبھ جانے یا آنکھ میں کسی ذرے کے گر جانے سے محسوس ہوتی ہے ۔ چونکہ وہ برے خیالات ، بری خواہشات اور بری نیتوں کے خوگر نہیں ہوتے اس وجہ سے یہ چیزیں ان کے لیے اسی طرح خلاف مزاج ہوتی ہے ۔ چونکہ وہ برے خیالات ، بری خواہشات اور بری نیتوں کے خوگر نہیں ہوتے اس وجہ سے یہ چیزیں ان کے لیے اسی طرح خلاف مزاج ہوتی ہیں جس طرح اُنگلی کے لیے پھانس یا آنکھ کے لیے ذرہ یا ایک نفیس طبع اور صفائی پسند آدمی کے لیے کپڑوں پر سیاہی کا ایک داغ یا گندگی کی ایک چھینٹ ۔ پھر جب یہ کھٹک انہیں محسوس ہو جاتی ہے تو ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ان کا ضمیر بیدار ہو کر اس غبار شر کو اپنے اوپر سے جھاڑ دینے میں لگ جاتا ہے ۔ بخلاف اس کے جو لوگ نہ خدا سے ڈرتے ہیں ، نہ بدی سے بچنا چاہتے ہیں ، اور جن کی شیطان سے لاگ لگی ہوئی ہے ، ان کے نفس میں برے خیالات ، برے ارادے ، برے مقاصد پکتے رہتے ہیں اور وہ ان گندی چیزوں سے کوئی اُپراہٹ اپنے اندر محسوس نہیں کرتے ، بالکل اسی طرح جیسے کسی دیگچی میں سور کا گوشت پک رہا ہو اور وہ بے خبر ہو کہ اس کے اندر کیا پک رہا ہے ، یا جیسے کسی بھنگی کا جسم اور اس کے کپڑے غلاظت میں لتھڑے ہوئے ہوں اور اسے کچھ احساس نہ ہو کہ وہ کن چیزوں میں آلودہ ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani