سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے ۔ یہ لوگ کوئی معجزہ مانگتے اور آپ اسے پیش نہ کرتے تو کہتے کہ نبی ہوتا تو ایسا کر لیتا ، بنا لیتا ، اللہ سے مانگ لیتا ، اپنے آپ گھڑ لیتا ، آسمان سے گھسیٹ لاتا ۔ الغرض معجزہ طلب کرتے اور وہ طلب بھی سرکشی اور عناد کے ساتھ ہوتی ۔ جیسے فرمان قرآن ہے آیت ( اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ اٰيَةً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُهُمْ لَهَا خٰضِعِيْنَ Ć ) 26- الشعراء:4 ) اگر ہم چاہتے تو کوئی نشان ان پر آسمان سے اتارتے جس سے ان کی گردنین جھک جاتیں ۔ وہ لوگ حضور سے کہتے رہتے تھے کہ جو ہم مانگتے ہیں وہ معجزہ اپنے رب سے طلب کر کے ہمیں ضرور دکھا دیجئے ۔ تو حکم دیا کہ ان سے فرما دیجئے کہ میں تو اللہ کی باتیں ماننے والا اور ان پر عمل کرنے والا وحی الٰہی کا تابع ہوں ۔ میں اس کی جناب میں کوئی گستاخی نہیں کر سکتا ، آگے نہیں بڑھ سکتا ، جو حکم دے صرف اسے بجا لاتا ہوں ۔ اگر کوئی معجزہ وہ عطا فرمائے دکھا دوں ۔ جو وہ ظاہر نہ فرمائے میں اسے لا نہیں سکتا میرے بس میں کچھ نہیں میں اس سے معجزہ طلب نہیں کیا کرتا مجھ میں اتنی جرات نہیں ہاں اگر اس کی اجازت پالیتا ہوں تو اس سے دعا کرتا ہوں وہ حکمتوں والا اور علم والا ہے ۔ میرے پاس تو میرے رب کا سب سے بڑا معجزہ یہ قرآن کریم ہے جو سب سے زیادہ واضح دلیل سب سے زیادہ سچی حجت اور سب سے زیادہ روشن برہان ہے جو حکمت ہدایت اور رحمت سے پر ہے اگر دل میں ایمان ہے تو اس اچھے سچے عمدہ اور اعلیٰ معجزے کے بعد دوسرے معجزے کی طلب باقی ہی نہیں رہتی ۔
203۔ 1 مراد ایسا معجزہ جو ان کے کہنے پر ان کی خواہش کے مطابق دکھایا جائے۔ جیسے ان کے بعض مطا بات سورة بنی اسرائیل، آیت 90۔ 93 میں بیان کئے گئے ہیں۔ 203۔ 2 لَوْلَا اَجْتَبْیتَھَا کے معنی ہیں، تو اپنے پاس سے ہی کیوں نہیں بنا لاتا ؟ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ آپ فرما دیں، معجزات پیش کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے میں تو صرف وحی الٰہی کا پیروکار ہوں۔ ہاں البتہ یہ قرآن جو میرے پاس آیا ہے۔ یہ بجائے خود ایک بہت بڑا معجزہ ہے، اس میں تمہارے رب کی طرف سے بصائر (دلائل وبراہین) اور ہدایت و رحمت ہے۔ بشرطیکہ کوئی ایمان لائے۔
[٢٠١] آپ پر قرآن تصنیف کرنے کا الزام اور اس کا جواب :۔ اس آیت سے موضوع سخن بدل گیا ہے اور اس میں کافروں کے ایک مطالبہ کا اور اس کے جواب کا ذکر ہے اگر اس آیت کا معنی قرآن کی کوئی آیت ہی کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جب کوئی قرآنی سورت یا آیات کے نازل ہونے میں دیر واقع ہوجاتی تو کافر کہنے لگتے کہ اپنی مرضی کی کوئی آیت تمہیں اب تک لے آنا چاہیے تھی اور ایسے استہزاء سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ پہلے جو قرآن تم ہمیں سناتے ہو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ نہیں بلکہ تمہارا اپنا ہی تصنیف کردہ ہے لہذا اب اگر دیر ہوگئی تو کیا ہوا ؟ کچھ اور بھی اپنی پسندیدہ آیات تمہیں اب تک تصنیف کر کے پیش کردینا چاہئیں تھیں۔- اور اگر آیت کا معنی معجزہ لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جس حسی معجزہ کے لانے کا ہم آپ سے مطالبہ کرچکے ہیں ان میں سے جو بات آپ کو پسند ہو اسی کے لیے آپ اللہ سے تعالیٰ کہیں کہ وہ ہمیں دکھلا دے۔- اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ انہیں واضح الفاظ میں بتلا دیجئے کہ معجزات دکھلانا میرا کام نہیں نہ میرا معجزات پر کوئی اختیار ہے میرا کام صرف یہ ہے کہ جو وحی مجھ پر نازل ہوتی ہے میں خود بھی اس کی پیروی کروں اور دوسروں کو بھی اس کی پیروی کی دعوت دوں اور اگر تم سوچو تو یہ قرآن بذات خود ایک بڑا معجزہ ہے جس میں ہر ہدایت کے متلاشی کے لیے بیشمار بصیرت افروز دلائل موجود ہیں اور چونکہ یہ کتاب دنیوی اور اخروی کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے لہذا یہ کتاب ہدایت ہونے کے علاوہ لوگوں کے لیے ایک بہت بڑی رحمت بھی ہے۔
وَاِذَا لَمْ تَاْتِهِمْ بِاٰيَةٍ ۔۔ : اس آیت میں شیاطین کے بھائیوں کی گمراہی اور بےجا ضد کی ایک مثال بیان فرمائی ہے، یعنی وہ پیغمبر سے ازراہ عناد کہتے ہیں کہ تم اپنے پاس ہی سے کوئی آیت (معجزہ) کیوں نہیں لے آتے۔ فرمایا میں تو صرف وحی الٰہی کا تابع ہوں اور اپنی طرف سے کوئی معجزہ پیش نہیں کرسکتا۔ دیکھیے سورة یونس (١٥ تا ١٧) ۔- هٰذَا بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ ۔۔ : اس میں اشارہ ہے کہ قرآن کریم ہی بڑا کافی معجزہ ہے، اس کے ہوتے ہوئے مزید معجزوں کی طلب محض نہ ماننے کا بہانہ ہے۔ دیکھیے سورة عنکبوت (٥٠، ٥١) پھر یہاں قرآن کے تین بڑے اوصاف بیان فرمائے ہیں، جو صرف اس معجزے کی خصوصیت ہیں۔
خلاصہ تفسیر - اور جب آپ (ان کے فرمائشی معجزات میں سے جن کی فرمائش براہ عناد کرتے تھے) کوئی معجزہ ان کے سامنے ظاہر نہیں کرتے (بوجہ اس کے کہ حق تعالیٰ اس معجزہ کو بمقتضائے حکمت پیدا نہیں کرتے) تو وہ لوگ ( بقصد نفی رسالت آپ سے) کہتے ہیں کہ آپ (اگر نبی ہیں تو) یہ معجزہ کیوں نہ (ظہور میں) لائے، آپ فرما دیجئے کہ (میرا کام معجزات باختیار خود لانا نہیں بلکہ میرا اصلی کام یہ ہے کہ میں اس کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے (اس میں تبلیغ بھی آگئی البتہ نبوت کے اثبات کے لئے نفس معجزہ ضروری ہے سو ان کا وقوع ہوچکا ہے چناچہ ان میں سب سے اعظم ایک یہی قرآن ہے جس کی شان یہ ہے کہ) یہ (بجائے خود) گویا بہت سی دلیلیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے (کیونکہ اس کی ہر مقدار سورت مثلا ایک معجزہ ہے تو اس حساب سے مجموعہ قرآن کتنی دلیلیں ہوا اور اس کا یہ دلیل ہونا تو عام ہے) اور (رہا اس کا نفع بالفعل تو وہ خاص ہے ماننے والوں کے ساتھ چناچہ وہ) ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو (اس پر) ایمان رکھتے ہیں اور (آپ ان سے یہ بھی کہہ دیجئے کہ) جب قرآن پڑھا جایا کرے (مثلا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تبلیغ فرمائیں) تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو (تاکہ اس کا معجز ہونا اور اس کی تعلیم کی خوبی سمجھ میں آئے جس سے) امید ہے کہ تم پر رحمت ہو (جدید یا مزید)- معارف و مسائل - آیات مذکورہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول برحق ہونے کا ثبوت اور اس پر مخالفین کے شبہات کا جواب اور ان دونوں کے ضمن میں چند احکام شرعیہ کا ذکر فرمایا گیا ہے۔- رسالت کے ثبوت کے لئے تمام انبیاء (علیہم السلام) کو معجزات دیئے جاتے ہیں، سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی مناسبت سے اتنے معجزات عطا کئے گئے جو پچھلے انبیاء کے معجزات سے بہت زائد بھی ہیں اور واضح بھی۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات جو قرآن مجید اور صحیح روایات حدیث سے ثابت ہیں ان کی بڑی تعداد ہے، علماء نے اس پر مستقل کتابیں لکھی ہیں، علامہ سیوطی (رح) کی کتاب خصائص کبری دو ضخیم جلدوں میں اسی موضوع پر لکھی ہوئی مشہور و معروف ہے۔- مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیشمار معجزات سامنے آنے کے باوجود مخالفین اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے اپنی طرف سے متعین کرکے نئے نئے معجزات دکھلانے کا مطالبہ کرتے رہتے تھے جس کا ذکر اسی سورت میں پہلے بھی آچکا ہے۔- متذکرہ دو آیتوں میں سے پہلی آیت میں ان کا ایک اصولی جواب دیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ پیغمبر کا معجزہ اس کی رسالت کی ایک شہادت اور ثبوت ہوتا ہے اور جب مدعی کا دعوی کسی معتبر شہادت سے ثابت ہوجائے اور فریق مخالف نے اس پر کوئی جرح بھی نہ کی ہو تو اس کو دنیا کی کسی عدالت میں یہ حق نہیں دیا جاتا کہ وہ مدعی سے اس کا مطالبہ کرے کہ فلاں فلاں مخصوص لوگوں کی شہادت پیش کرے تو ہم مانیں گے موجودہ شہادت پر کوئی جرح پیش کئے بغیر ہم تسلیم نہیں کرتے، اس لئے بہت سے واضح معجزات کے دیکھنے کے بعد مخالفین کا یہ کہنا کہ فلاں قسم کا خاص معجزہ دکھلایئے تو ہم آپ کو رسول مانیں۔ یہ ایک معاندانہ مطالبہ ہے جس کو کوئی عدالت صحیح تسلیم نہیں کرسکتی۔- چانچہ پہلی آیت میں ارشاد فرمایا کہ جب آپ ان لوگوں کا متعین کیا ہوا کوئی خاص معجزہ نہیں دکھلاتے تو یہ آپ کی رسالت کا انکار کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ آپ نے فلاں معجزہ کیوں نہیں دکھلایا، تو آپ ان کو یہ جواب دے دیجئے کہ میرا کام باختیار خود معجزات دکھلانا نہیں بلکہ میرا اصلی کام یہ ہے کہ میں ان احکام کا اتباع کروں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے بذریعہ وحی بھیجے جاتے ہیں جن میں تبلیغ بھی شامل ہے اس لئے میں اپنے اصلی کام میں مشغول ہوں اور رسالت کے لئے وہ دوسرے معجزات بھی کافی ہیں جو تم سب لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آچکے ہیں، ان کے دیکھنے کے بعد کسی خاص معجزہ کا مطالبہ ایک معاندانہ مطالبہ ہے جو قابل التفات نہیں۔- اور جو معجزات دکھلائے گئے ہیں ان میں سے قرآن خود ایک عظیم معجزہ ہے جس نے ساری دنیا کو اپنا بلکہ اپنی ایک چھوٹی سی سورت کا مثل لانے کا کھلا چیلنج دیا اور ساری دنیا باوجود پوری کوششوں کے اس کا مثل لانے سے عاجز ہوگئی جو نہایت واضح علامت اس بات کی ہے کہ قرآن کسی بشر کا کلام نہیں بلکہ اللہ جل شانہ کا بےمثل کلام ہے۔ - اس لئے فرمایا (آیت) هٰذَا بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ ، یعنی یہ قرآن تمہارے رب کی طرف سے بہت سی دلیلوں اور معجزوں کا مجموعہ ہے، جن میں ادنی غور کرنے والا یہ یقین کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ شانہ کا ہی ہے، کسی مخلوق کا اس میں کوئی دخل نہیں، اس کے بعد فرمایا (آیت) وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُّؤ ْمِنُوْنَ ، یعنی یہ قرآن دلیل حق تو سارے جہاں کیلئے ہے مگر مقصد تک پہنچانے والا اور رحمت حق تعالیٰ کا مستحق بنانے والا صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو اس پر ایمان لائیں۔
وَاِذَا لَمْ تَاْتِہِمْ بِاٰيَۃٍ قَالُوْا لَوْلَا اجْتَبَيْتَہَا ٠ ۭ قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِــعُ مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ مِنْ رَّبِّيْ ٠ ۚ ہٰذَا بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ وَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ٢٠٣- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- «لَوْلَا»- يجيء علی وجهين :- أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] .- والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن .- ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ - اجتباء - : الجمع علی طریق الاصطفاء . قال عزّ وجل : فَاجْتَباهُ رَبُّهُ [ القلم 50] ، وقال تعالی: وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف 203] ، أي : يقولون : هلّا جمعتها، تعریضا منهم بأنک تخترع هذه الآیات ولیست من اللہ . واجتباء اللہ العبد : تخصیصه إياه بفیض إلهيّ يتحصل له منه أنواع من النعم بلا سعي من العبد، وذلک للأنبیاء وبعض من يقاربهم من الصدیقین والشهداء، كما قال تعالی: وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف 6] ، فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم 50] ، وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام 87] ، وقوله تعالی: ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه 122] ، وقال عزّ وجل : يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری 13] ، وذلک نحو قوله تعالی: إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص 46] .- الاجتباء ( افتعال )- کے معنی انتخاب کے طور پر کسی چیز کو جمع کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف 203] اور جب تم ان کے پاس ( کچھ دنوں تک ) کوئی آیت نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے ( اپنی طرف سے ) کیوں نہیں بنائی ہیں کے معنی یہ ہوں گے کہ تم خد ہی ان کو تالیف کیوں نہیں کرلیتے دراصل کفار یہ جملہ طنزا کہتے تھے کہ یہ آیات اللہ کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ تم کود ہی اپنے طور بنالیتے ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو جن لینا کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اسے اپنے فیض کے لئے برگزیدہ کرلیتا ہے جسے گونا گون نعمتیں جدو جہد کے بغیر حاصل ہوجاتی ہیں یہ انبیاء کے ساتھ خاص ہے اور صدیقوں اور شہدوں کے لئے جوان کئ قریب درجہ حاصل کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ یوسف کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف 6] اور اسی طرح خدا تمہیں برگزیدہ ( ممتاز ) کرے گا ۔ فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم 50] پھر پروردگار نے ان کو برگزیدہ کر کے نیکو کاروں میں کرلیا ۔ وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام 87] ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا رستہ بھی دکھا یا تھا ۔ ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه 122] پھر ان کے پروردگار نے ان کو نواز اتو ان پر مہر بانی سے توجہ فرمائی اور سیدھی راہ بتائی ۔ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری 13] جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کرلیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف رستہ دکھا دیتا ہے اس احتیاء کو دوسرے مقام پر اخلاص سے تعبیر فرمایا ہے ۔ إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص 46] ہم نے ان کو ایک ( صفت ) خاص ( اخرت ) کے گھر کی یا سے ممتاز کیا تھا ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - ( بصائر)- ، جمع بصیرة، اسم جامد يدل علی العقل والفطنة والحجة، وقد يستعمل في موضع الصفة مثل جو ارحه بصیرة عليه أي شاهدة، وزنه فعیلة، وبصائر فيه قلب الیاء همزة لمجيئها زائدة بعد ألف ساکنة، وزنه فعائل .- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
(٢٠٣) مکہ والوں کے مطالبہ پر جب کوئی نبی (علیہ السلام) پر معجزہ ظاہر نہیں ہوتا تو کہتے ہیں کہ اللہ کی جانب سے معجزہ کوئی نہیں لائے یا اپنی طرف سے کیوں نہیں لائے۔- آپ ان سے کہہ دیجیے کہ میں اپنے قول وعمل میں اسی کی پیروی کرتا ہوں جو حکم میرے رب کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔ یہہ قرآن حکیم اوامرو نواہی کو بیان کرتا ہے اور جو لوگ قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں ان کے لیے عذاب سے رحمت ہے۔
آخر میں ان دونوں سورتوں کے مضامین کے عمود کا خلاصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ جس زمانے میں یہ دو سورتیں نازل ہوئیں اس وقت کفار مکہ کی طرف سے یہ مطالبہ تکرار کے ساتھ کیا جارہا تھا کہ کوئی نشانی لاؤ ‘ کوئی معجزہ دکھاؤ۔ جس طرح کے حسی معجزات حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو ملے تھے ‘ اسی نوعیت کے معجزات اہل مکہ بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ جیسے جیسے ان کی طرف سے مطالبات آتے رہے ‘ ساتھ ساتھ ان کے جوابات بھی دیے جاتے رہے۔ اب اس سلسلے میں آخری بات ہو رہی ہے۔ آیت ٢٠٣ (وَاِذَا لَمْ تَاْتِہِمْ بِاٰیَۃٍ قَالُوْا لَوْلاَ اجْتَبَیْتَہَا ط) - کفار مکہ کا کہنا تھا کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دعویٰ ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ‘ اس کے محبوب ہیں تو آپ کے لیے معجزہ دکھانا کون سا مشکل کام ہے ؟ آپ ہمارے اطمینان کے لیے کوئی معجزہ چھانٹ کرلے آئیں اس سلسلے میں تفسیر کبیر میں امام رازی (رح) نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک پھوپھی زاد بھائی تھا ‘ جو اگرچہ ایمان تو نہیں لایا تھا مگر اکثر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہتا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تعاون بھی کرتا تھا۔ اس کے اس طرح کے رویے سے امید تھی کہ ایک دن وہ ایمان بھی لے آئے گا۔ ایک دفعہ کسی محفل میں سرداران قریش نے معجزات کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت بحث و تکرار کی کہ آپ نبی ہیں تو ابھی معجزہ دکھائیں ‘ یہ نہیں تو وہ دکھا دیں ‘ ایسے نہیں تو ویسے کر کے دکھا دیں (اس کی تفصیل سورة بنی اسرائیل میں بھی آئے گی) مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی ہر بات پر یہی فرمایا کہ معجزہ دکھانا میرے اختیار میں نہیں ہے ‘ یہ تو اللہ کا فیصلہ ہے ‘ جب اللہ تعالیٰ چاہے گا دکھا دے گا۔ اس پر انہوں نے گویا اپنے زعم میں میدان مار لیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آخری حجت قائم کردی۔ اس کے بعدجب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے اٹھے تو وہاں شور مچ گیا۔ ان لوگوں نے کیا کیا اور کس کس انداز میں باتیں نہیں کی ہوں گی اور اس کے عوام پر کیا اثرات ہوئے ہوں گے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس پھوپھی زاد بھائی نے کہا کہ آج تو گویا آپ کی قوم نے آپ پر حجت قائم کردی ہے ‘ اب میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔- اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ موضوع اس ماحول میں کس قدر اہمیت اختیار کر گیا تھا اور اس طرح کی صورت حال میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس قدر دل گرفتہ ہوئے ہوں گے۔ اس کا کچھ نقشہ سورة الانعام آیت ٣٥ میں اس طرح کھینچا گیا ہے : (وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَہُمْ بِاٰیَۃٍ ط) اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اگر آپ پر بہت شاق گزر رہا ہے ان کا اعراض تو اگر آپ میں طاقت ہے تو زمین میں کوئی سرنگ بنا لیجیے یا آسمان پر سیڑھی لگا لیجیے اور ان کے لیے کہیں سے کوئی نشانی لے آیئے (ہم تو نہیں دکھائیں گے ) ۔ یہ پس منظر ہے ان حالات کا جس میں فرمایا جا رہا ہے کہ معجزات کے مطالبات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو بتائیں کہ معجزہ دکھانے یا نہ دکھانے کا فیصلہ اللہ نے کرنا ہے ‘ مجھے اس کا اختیار نہیں ہے۔ - (قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْ ج) (ہٰذَا بَصَآءِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ) - میں آپ لوگوں کے سامنے جو پیش کر رہا ہوں ‘ یہ وہی کچھ ہے جو اللہ نے مجھ پر وحی کیا ہے اور میں خود بھی اسی کی پیروی کر رہا ہوں۔ اس سے بڑھ کر میں نے کبھی کوئی دعویٰ کیا ہی نہیں۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :151 کفار کے اس سوال میں ایک صریح طعن کا انداز پایا جاتا تھا ۔ یعنی ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میاں جس طرح تم نبی بن بیٹھے ہو اسی طرح کوئی معجزہ بھی چھانٹ کر اپنے لیے بنا لائے ہوتے ۔ لیکن آگے ملاحظہ ہو کہ اس طعن کا جواب کس شان سے دیا جاتا ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :152 یعنی میرا منصب یہ نہیں ہے کہ جس چیز کی مانگ ہو یا جس کی میں خود ضرورت محسوس کروں اسے خود ایجاد یا تصنیف کر کے پیش کردوں ۔ میں تو ایک رسول ہوں اور میرا منصب صرف یہ ہے کہ جس نے مجھے بھیجا ہے اس کی ہدایت پر عمل کروں ۔ معجزے کے بجائے میرے بھیجنے والے نے جو چیز میرے پاس بھیجی ہے وہ یہ قرآن ہے ۔ اس کے اندر بصیرت افروز روشنیاں موجود ہیں اور اس کی نمایاں ترین خوبی یہ ہے کہ جو لوگ اس کو مان لیتے ہیں ان کو زندگی کا سیدھا راستہ مل جاتا ہے اور ان کے اخلاق حسنہ میں رحمت الہٰی کے آثار صاف ہویدا ہونے لگتے ہیں ۔
102: آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت سے معجزے ان لوگوں کے سامنے آ چکے تھے، لیکن وہ ضد میں آکر نئے نئے معجزات کا مطالبہ کرتے تھے، یہ اس کا جواب ہے کہ میں اپنی طرف سے کوئی کام نہیں کرسکتا۔ میں تو ہر بات میں وحی الٰہی کا اتباع کرتا ہوں۔ 103: یعنی قرآن کریم بذات خود ایک معجزہ ہے، اس میں جو بصیرتیں ہیں، وہ ایک امی کی زبان پر جاری ہو رہی ہیں جس نے کبھی لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا۔ اس کے بعد کسی معجزے کی ضرورت ہے۔