سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی چونکہ اوپر کی آیت میں بیان تھا کہ یہ قرآن لوگوں کے لئے بصیرت و بصارت ہے اور ساتھ ہی ہدایت و رحمت ہے اس لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ جل و علا حکم فرماتا ہے کہ اس کی عظمت اور احترام کے طور پر اس کی تلاوت کے وقت کان لگا کر اسے سنو ایسا نہ کرو جیسا کفار قریش نے کیا کہ وہ کہتے تھے آیت ( وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ 26 ) 41- فصلت:26 ) ، اس قران کو نہ سنو اور اس کے پڑھے جانے کے وقت شور غل مچا دو ۔ اس کی اور زیادہ تاکید ہو جاتی ہے جبکہ فرض نماز میں امام با آواز بلند قرأت پڑھتا ہو ۔ جیسے کہ صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت سے ہے کہ امام اقتدا کے کئے جانے کیلئے مقرر کیا گیا ہے ۔ جب وہ تکبیر کہے تم تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تم خاموش رہو ۔ اس طرح سنن میں بھی یہ حدیث بروایت حضرت ابو ہریرہ مروی ہے ۔ امام مسلم بن حجاج رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے اور اپنی کتاب میں نہیں لائے ـ ( یہ یاد رہے کہ اس حدیث میں جو خاموش رہنے کا حکم ہے یہ صرف اس قرأت کیلئے ہے جو الحمد کے سوا ہو ۔ جیسے کہ طبرانی کبیر میں صحیح حدیث میں جو خاموش رہنے کا حکم ہے یہ صرف اس قرأت کے لئے ہے جو الحمد کے سوا ہو ۔ جیسے کہ طبرانی کبیر میں صحیح حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حدیث ( من صلی خلف الا مام فلیقرا بفا تحۃ الکتاب ) یعنی جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو وہ سورہ فاتحہ ضرور پڑھ لے ۔ پس سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم ہے اور قرأت کے وقت خاموشی کا حکم ہے ، واللہ اعلم ۔ مترجم ) اس آیت کے شان نزول کے متعلق حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ پہلے نماز پڑھتے ہوئے باتیں بھی کر لیا کرتے تھے تب یہ آیت اتری اور دوسری آیت میں چپ رہنے کا حکم کیا گیا ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے ہم آپ سے میں ایک دوسرے کو سلام کیا کرتے تھے پس یہ آیت اتری ۔ آپ نے ایک مرتبہ نماز میں لوگوں کو امام کے ساتھ ہی ساتھ پڑھتے ہوئے سن کر فارغ ہو کر فرمایا کہ تم میں اس کی سمجھ بوجھ اب تک نہیں آئی کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے سنو اور چپ رہو جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے ۔ ( واضح رہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی رائے میں اس سے مراد امام کے با آواز بلند الحمد کے سوا دوسری قرأت کے وقت مقتدی کا خاموش رہنا ہے نہ کہ پست آواز کی قرأت والی نماز میں ، نہ بلند آواز کی قرأت والی نماز میں الحمد سے خاموشی ۔ امام کے پیچھے الحمد تو خود آپ بھی پڑھا کرتے تھے جیسے کہ جزاء القراۃ بخاری میں ہے حدیث ( انہ قرا فی العصر خلف الا مام فی الرکعتین الاولیین بام القران و سورۃ ) یعنی آپ نے امام کے پیچھے عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ الحمد بھی پڑھی اور دوسری سورت بھی ملائی ۔ پس آپ کے مندرجہ بالا فرمان کا مطلب صرف اسی قدر ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قرأت کرے تو مقتدی الحمد کے سوا دوسری قرأت کے وقت سنے اور چپ رہے واللہ اعلم ۔ مترجم حضرت زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس انصاری نوجوان کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کی عادت تھی کہ جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سے کچھ پڑھتے یہ بھی اسے پڑھتا پس یہ آیت اتری ۔ مسند احمد اور سنن میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز سے فارغ ہو کر پلٹے جس میں آپ نے باآواز بلند قرأت پڑھی تھی پھر پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ پڑھا تھا ؟ ایک شخص نے کہا ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ آپ نے فرمایا میں کہہ رہا تھا کہ یہ کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن کی چھینٹا جھپٹی ہو رہی ہے؟ راوی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان نمازوں میں جن میں آپ اونچی آواز سے قرأت پڑھا کرتے تھے قرأت سے رک گئے جبکہ انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ۔ امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں اور ابو حاتم رازی اس کی تصحیح کرتے ہیں ( مطلب اس حدیث کا بھی یہی ہے کہ امام جب پکار کر قرأت پڑھے اس وقت مقتدی سوائے الحمد کے کچھ نہ پڑھے کیونکہ ایسی ہی روایت ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، موطا امام مالک ، مسند احمد وغیرہ میں ہے جس میں ہے کہ جب آپ کے سوال کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا حدیث ( لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لاصلوۃ لمن لم یقراء بھا ) یعنی ایسا نہ کیا کرو صرف سورہ فاتحہ پڑھو کیونکہ جو اسے نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی ۔ پس لوگ اونچی آواز والی قرأت کی نماز میں جس قرأت سے رک گئے وہ الحمد کے علاوہ تھی کیونکہ اسی سے روکا تھا اسی سے صحابہ رک گئے ۔ الحمد تو پڑھنے کا حکم دیا تھا ۔ بلکہ ساتھ ہی فرمادیا تھا کہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں واللہ اعلم ۔ مترجم ) زہری کا قول ہے کہ امام جب اونچی آواز سے قرأت پڑھے تو انہیں امام کی قرأت کافی ہے امام کے پیچھے والے نہ پڑھیں گو انہیں امام کی آواز سنائی بھی نہ دے ۔ ہاں البتہ جب امام آہستہ آواز سے پڑھ رہا ہو اس وقت مقتدی بھی آہستہ پڑھ لیا کریں اور کسی کو لائق نہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ پڑھے خواہ جہری نماز ہو خواہ سری ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو تم اسے سنو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ علماء کے ایک گروہ کا مذہب ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قرأت کرے تو مقتدی پر نہ سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے نہ کچھ اور ۔ امام شافعی کے اس بارے میں دو قول ہیں جن میں سے ایک قول یہ بھی ہے لیکن یہ قول پہلے کا ہے جیسے کہ امام مالک کا مذہب ، ایک اور روایت میں امام احمد کا بہ سبب ان دلائل کے جن کا ذکر گذر چکا ۔ لیکن اس کے بعد کا آپ کا یہ فرمان ہے کہ مقتدی صرف سورہ فاتحہ امام کے سکتوں کے درمیان پڑھ لے ۔ صحابہ تابعین اور ان کے بعد والے گروہ کا یہی فرمان ہے ۔ امام ابو حنیفہ اور امام احمد فرماتے ہیں مقتدی پر مطلقاً قرأت واجب نہیں نہ اس نماز میں جس میں امام آہستہ قرأت پڑھے نہ اس میں جس میں بلند آواز سے قرأت پڑھے اس لئے کہ حدیث میں ہے امام کی قرأت مقتدیوں کی بھی قرأت ہے ۔ اسے امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت جابر سے مرفوعاً روایت کیا ہے ۔ یہی حدیث موطاء امام مالک میں موقوفا مروی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے یعنی یہ قول حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا ہونا زیادہ صحیح ہے نہ کہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ( لیکن یہ بھی یاد رہے کہ خود حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ابن ماجہ میں مروی ہے کہ حدیث ( کنا نقرا فی الظھر والعصر خلف الا مام فی الرکعتین الالیین بفاتحتہ الکتاب و سورۃ وفی الاخریین بفاتحۃ الکتاب ) یعنی ہم ظہر اور عصر کی نماز میں امام کے پیچھے پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ بھی پڑھتے تھے اور کوئی اور سورت بھی اور پچھلی دور کعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے پس معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جو فرمایا کہ امام کی قرأت اسے کافی ہے اس سے مراد الحمد کے علاوہ قرأت ہے ۔ واللہ اعلم ، مترجم ) یہ مسئلہ اور جگہ نہایت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ اسی خاص مسئلے پر حضرت امام ابو عبداللہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے اور اس میں ثابت کیا ہے کہ ہر نماز میں خواہ اس میں قرأت اونچی پڑھی جاتی ہو یا آہستہ مقتدیوں پر سورہ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے واللہ اعلم ۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ آیت فرض نماز کے بارے میں ہے ۔ طلحہ کا بیان ہے کہ عبید بن عمر اور عطاء بن ابی رباح کو میں نے دیکھا کہ واعظ و عظ کہہ رہا تھا اور وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے تو میں نے کہا تم اس وعظ کو نہیں سنتے اور وعید کے قابل ہو رہے ہو؟ انہوں نے میری طرف دیکھا پھر باتوں میں مشغول ہوگئے ۔ میں نے پھر یہی کہا انہوں نے پھر میری طرف دیکھا اور پھر باتوں میں مشغول ہوگئے ۔ میں نے پھر یہی کہا انہوں نے پھر میری طرف دیکھ اور پھر اپنی باتوں میں لگ گئے ، میں نے پھر تیسری مرتبہ ان سے یہی کہا ۔ تیسری بار انہوں نے میری طرف دیکھ کر فرمایا یہ نماز کے بارے میں ہے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں نماز کے سوا جب کوئی پڑھ رہا ہو تو کلام کرنے میں کوئی حرج نہیں اور بھی بہت سے بزرگوں کافرمان ہے کہ مراد اس سے نماز میں ہے ۔ حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ یہ آیت نماز اور جمعہ کے خطبے کے بارے میں ہے ۔ حضرت عطاء سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ حسن فرماتے ہیں نماز میں اور ذکر کے وقت ، سعید بن جبیر فرماتے ہیں بقرہ عید اور میٹھی عید اور جمعہ کے دن اور جن نمازوں میں امام اونچی قرأت پڑھے ۔ ابن جریر کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ مراد اس سے نماز میں اور خطبے میں چپ رہنا ہے جیسے کہ حکم ہوا ہے امام کے پیچھے خطبے کی حالت میں چپ رہو ۔ مجاہد نے اسے مکروہ سمجھا کہ جب امام خوف کی آیت یا رحمت کی آیت تلاوت کرے تو اس کے پیچھے سے کوئی شخص کچھ کہے بلکہ خاموشی کے لئے کہا ( حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی کسی خوف کی آیت سے گزرتے تو پناہ مانگتے اور جب کبھی کسی رحمت کے بیان والی آیت سے گذرتے تو اللہ سے سوال کرتے ۔ مترجم ) حضرت حسن فرماتے ہیں جب تو قرآن سننے بیٹھے تو اس کے احترام میں خاموش رہا کر ۔ مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جو شخص کان لگا کر کتاب اللہ کی کسی آیت کو سنے تو اس کے لئے کثرت سے بڑھنے والی نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر اسے پڑھے تو اس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگا ۔
204۔ 1 یہ ان کافروں کو کہا جارہا ہے، جو قرآن کی تلاوت کرتے وقت شور کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے کہتے تھے ( لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ ) 41 ۔ فصلت :26) یہ قرآن مت سنو اور شور کرو، ان سے کہا گیا کہ اس کی بجائے تم اگر غور سے سنو اور خاموش رہو تو شاید اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت سے نواز دے۔ اور یوں تم رحمت الٰہی کے مستحق بن جاؤ۔
[٢٠٢] قرآن کا سننا باعث رحمت ہے :۔ مشرکین مکہ نے جیسے مسلمانوں پر یہ پابندی عائد کر رکھی تھی کہ وہ بیت اللہ میں داخل ہو کر نہ نماز ادا کرسکتے ہیں اور نہ طواف کرسکتے ہیں۔ اسی طرح یہ پابندی بھی لگا رکھی تھی کہ مسلمان نماز میں قرآن بلند آواز سے نہ پڑھا کریں کیونکہ اس طرح ان کے بچے اور ان کی عورتیں قرآن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ دوسرے انہوں نے آپس میں سمجھوتہ کر رکھا تھا کہ ہم میں سے کوئی شخص قرآن نہ سنے۔ اگرچہ قرآن کی فصاحت و بلاغت اور شیریں انداز کلام سے وہ خود بھی متاثر ہو کر اپنی اس تدبیر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کبھی کبھی قرآن سن لیا کرتے تھے۔ اور قرآن کی دعوت کو روکنے کے لیے ان کی تیسری تدبیر یہ تھی کہ جہاں قرآن پڑھا جا رہا ہو وہاں خوب شوروغل کیا جائے تاکہ قرآن کی آواز کسی کے کانوں میں نہ پڑ سکے اس طرح تم اپنے مشن میں کامیاب ہوسکتے ہو۔ (٤١ : ٢٦)- اسی پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس روش کو چھوڑ دو اور ذرا غور سے سنو تو سہی کہ اس میں کیا تعلیم دی گئی ہے کیا عجب کہ تم خود بھی اسی رحمت کے حصہ دار بن جاؤ جو ایمان لانے والوں کو نصیب ہوچکی ہے۔ مخالفین کی معاندانہ سرگرمیوں کے مقابلہ میں یہ ایسا دل نشین انداز تبلیغ ہے جس سے ایک داعی حق کو بہت سے سبق مل سکتے ہیں۔- قرآن کو خاموشی سے سننا :۔ اس آیت میں جو حکم دیا گیا ہے وہ مسلم اور غیر مسلم سب کے لیے عام ہے اور اس سے یہ بات بھی مستنبط ہوتی ہے کہ جہاں قرآن پڑھا اور سنا جاتا ہو وہاں اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک مسئلہ یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب جہری نمازوں میں امام قراءت کر رہا ہو تو مقتدی کو بھی بالخصوص سورة فاتحہ ساتھ ساتھ دل میں پڑھنی چاہیے یا نہیں۔ اس مسئلہ میں اگرچہ بعض علماء نے اختلاف کیا ہے تاہم ہمارے خیال میں اس مسئلہ میں وہ حدیث قول فیصل کا حکم رکھتی ہے جو سورة فاتحہ کے حاشیہ نمبر ١ میں درج کی جا چکی ہے۔
وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ ۔۔ : قرآن کی عظمت بیان کرنے کے بعد اب اس سے فائدہ اٹھانے کے آداب کی طرف اشارہ فرمایا جا رہا ہے کہ اس کے پڑھے جانے کے وقت استماع اور انصات ضروری ہے، سو توجہ اور خاموشی سے سنو، تاکہ تم پر اللہ تعالیٰ کا رحم ہوجائے۔ یہ ان ضد اور عناد کے مارے ہوئے کفار کو نصیحت ہے جن کا ذکر مسلسل چلا آ رہا ہے اور جو ہمیشہ نئے سے نئے معجزے کا مطالبہ کرتے اور جب قرآن پڑھا جاتا تو شور مچا کر دوسروں کو بھی سننے سے روکتے اور اس بےہودہ طریقے سے غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورة حم السجدہ (٢٦) میں فرمایا : ” اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا، اس قرآن کو مت سنو اور اس میں شور کرو، تاکہ تم غالب رہو۔ “ اس آیت میں تین باتیں بیان کی گئی ہیں جو کفار نے کہیں، پہلی یہ کہ اس قرآن کو مت سنو، دوسری یہ کہ اس میں شور کرو، تیسری یہ کہ تاکہ تم غالب رہو، اس کے جواب میں سورة اعراف کی زیر تفسیر آیت : (وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ ) میں تین باتوں کی تلقین فرمائی، چناچہ ” لاتستمعوا لھذا القرآن “ کے جواب میں ” فَاسْتَمِعُوْا “ فرمایا، یعنی کان لگا کر سنو اور ” والغوفیہ “ یعنی شوروغل کرو کے جواب میں ” اَنْصِتُوْا “ یعنی خاموش رہو فرمایا اور ” لعلکم تغلبون “ کے جواب میں فرمایا ” لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ “ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ جب تمہیں قرآن سنایا جائے تو شوروغل کے بجائے کان لگا کر خاموشی سے سنو۔ یہ حکم عام ہے، کافر ہوں یا مسلمان، سب کو قرآن مجید توجہ سے سننا چاہیے۔ خصوصاً نماز اور خطبہ جمعہ میں تو خاموش رہنا فرض ہے، جس کے دلائل حدیث میں موجود ہیں۔ ہاں، اگر کوئی اپنے طور پر قرآن پڑھ رہا ہے تو سب کچھ چھوڑ کر اسے سننا ضروری نہیں، ورنہ ایک مسجد کے سپیکر سے قرآن کی تلاوت پوری بستی کو خاموش کرانے کے لیے کافی ہوگی۔ بعض لوگ اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ امام کے پیچھے سورة فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے، مگر یہ استدلال بالکل بےمحل ہے، کیونکہ یہ آیت مکی ہے اور ماقبل سے مشرکین سے خطاب چلا آ رہا ہے، اس لیے نظم قرآن کا تقاضا یہ ہے کہ یہاں بھی مشرکین ہی مخاطب ہوں، اگر اس آیت کو عام بھی مان لیا جائے تو اصول فقہ کی رو سے حدیث ( لاَ صَلَاۃَ لِِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ ) (جسے امام بخاری نے متواتر قرار دیا ہے) کے ساتھ سورة فاتحہ کی تخصیص ہوجائے گی، کیونکہ اس کے بغیر امام، منفرد، مقتدی کسی کی بھی نماز نہیں ہوتی۔ مقتدی آواز کے بغیر پڑھے تو خاموشی کے خلاف بھی نہیں۔- جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ جمعہ میں خاموش رہ کر غور سے سننے کا حکم دیا، اس کے باوجود صحیح مسلم (٥٩؍٨٧٥) میں جابر (رض) سے آپ کا یہ حکم مروی ہے : ” تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے دن آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعتیں پڑھے اور انھیں مختصر پڑھے۔ “ اب ظاہر ہے کہ اس کا دو رکعتیں پڑھنا خاموشی کے خلاف نہیں، ورنہ اس صحیح حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ کے دوران میں ہر آنے والے شخص کو دو رکعتیں پڑھنے کا حکم نہ دیتے، مگر آپ کے حکم کی وجہ سے خطبہ کے دوران میں آنے پر دو رکعتیں پڑھنا ہوں گی، اسی طرح امام کے پیچھے فاتحہ بھی پڑھنی ہوگی اور خاموشی بھی قائم رہے گی۔ تعجب اس بات پر ہے کہ بعض لوگ اس وقت بھی مقتدی کو کچھ نہ پڑھنے کا حکم دیتے ہیں جب امام بلند آواز سے قراءت نہ کر رہا ہو۔ فرمائیے اس کے ساتھ اس آیت کا کیا تعلق ہے ؟ پھر ہمارے بعض بھائی امام کی قراءت سنتے ہوئے صبح کی سنتیں پڑھتے رہتے ہیں، مگر انھیں اس وقت یہ آیت یاد نہیں آتی اور سب سے زیادہ تعجب تو ان کی اس بات پر ہے کہ ان کے ہاں سورة فاتحہ امام، منفرد، یا مقتدی کسی کے لیے بھی نماز میں فرض نہیں۔ قرآن کی کوئی بھی ایک آیت پڑھ لینے سے نماز ہوجائے گی۔ بتائیے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان کہ ” جو سورة فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں “ یہ امام، منفرد یا مقتدی میں سے کسی کے لیے نہیں تو اس کا مخاطب کون ہوگا ؟
دوسری آیت میں بتلایا گیا کہ قرآن مجید مومنین کے لئے رحمت ہے مگر اس رحمت سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے کچھ شرائط وآداب ہیں جن کو خطاب عام کے ساتھ اس طرح ذکر فرمایا، (آیت) وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا، یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو تم اس پر کان لگاؤ اور خاموش رہو۔ - اس آیت کے شان نزول میں روایات مختلف ہیں کہ یہ حکم نماز کی قرأت کے بارے میں آیا ہے یا خطبہ کے یا مطلقا قرأت قرآن کے خواہ نماز یا خطبہ میں ہو یا دوسرے حالات میں، لیکن جمہور مفسرین کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ جس طرح الفاظ آیت کے عام ہیں اسی طرح اس کا حکم بھی سب حالات کے لئے عام ہے بجز خاص استثنائی مواقع کے۔ - اسی لئے حنفیہ نے اس آیت سے اس پر استدلال کیا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدیوں کو قرأت نہیں کرنا چاہئے، اور جن فقہاء نے مقتدی کو فاتحہ پڑھنے کی ہدایت کی ہے ان میں بھی بعض نے اس کی رعایت رکھی ہے کہ امام کے سکتہ کے وقت فاتحہ پڑھی جائے یہاں اس بحث کا موقعہ نہیں، اس بحث میں علماء نے مستقل کتابیں چھوٹی بڑی بہت لکھی ہیں ان کا مطالعہ کیا جائے۔- اصل مضمون آیت کا یہ ہے کہ قرآن کریم جن لوگوں کے لئے رحمت قرار دیا گیا اس کی شرط یہ ہے کہ وہ قرآن کے ادب و احترام کو پہچانیں اور اس پر عمل کریں، اور بڑا ادب قرآن کا یہ ہے کہ جب وہ پڑھا جائے تو سننے والے اپنے کان اس پر لگائیں اور خاموش رہیں۔ - کان لگانے میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کو سنیں اور یہ بھی کہ اس کے احکام پر عمل کرنے کی جد و جہد کریں، ( مظہری و قرطبی) آخر آیت میں لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ قرآن کا رحمت ہونا اس کے مذکورہ آداب بجا لانے پر موقوف ہے۔- تلاوت قرآن کے وقت خاموش رہ کر سننے کے متعلق چند ضروری مسائل :- اس کے بالمقابل یہ خود ظاہر ہے کہ اگر کسی نے اس کی خلاف ورزی کرکے قرآن کی بےحرمتی کی تو وہ رحمت کے بجائے قہر و غضب کا مستحق ہوگا۔- نماز کے اندر قرآن کی طرف کان لگانا اور خاموش رہنا تو عام طور پر مسلمانوں کو معلوم ہے گو عمل میں کوتاہی کرتے ہیں کہ بعض لوگوں کو یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ امام نے کونسی سورت پڑھی ہے، ان پر لازم ہے کہ وہ قرآن کی عظمت کو پہچانیں اور سننے کی طرف دھیان رکھیں، خطبہ جمعہ وغیرہ کا بھی شرعا یہی حکم ہے، علاوہ اس آیت کے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد خاص طور سے خطبہ کے متعلق یہ آیا ہے کہ :- اذا خرج الامام فلا صلوة ولا کلام " یعنی جب امام خطبہ کے لئے نکل آئے تو نہ نماز ہے نہ کلام "۔- اور ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ اس وقت کوئی شخص دوسرے کو نصیحت کے لئے زبان سے یہ بھی نہ کہے کہ خاموش رہو (کرنا ہی ہو تو ہاتھ سے اشارہ کردے) غرض دوران خطبہ میں کسی طرح کا کلام، تسبیح، درود یا نماز وغیرہ جائز نہیں۔- فقہاء نے فرمایا ہے کہ جو حکم خطبہ جمعہ کا ہے وہی عیدین کے خطبہ کا اور نکاح وغیرہ کے خطبہ کا ہے کہ اس وقت کان لگانا اور خاموش رہنا واجب ہے۔- البتہ نماز اور خطبہ کے علاوہ عام حالات میں کوئی شخص بطور خود تلاوت کر رہا ہے تو دوسروں کو خاموش رہ کر اس پر کان لگانا واجب ہے یا نہیں، اس میں فقہاء کے اقوال مختلف ہیں، بعض حضرات نے اس صورت میں بھی کان لگانے اور خاموش رہنے کو واجب اور اس کے خلاف کرنے کو گناہ قرار دیا ہے، اور اسی لئے ایسی جگہ جہاں لوگ اپنے کاموں میں مشغول ہوں یا آرام کرتے ہوں کسی کے لئے بآواز بلند قرآن پڑھنے کو جائز نہیں رکھا، اور جو شخص ایسے مواقع میں قرآن بآواز بلند پڑھتا ہے اس کو گناہگار فرمایا ہے، خلاصتہ الفتاوی وغیرہ میں ایسا ہی لکھا ہے۔ - لیکن بعض دوسرے فقہاء نے یہ تفصیل فرمائی ہے کہ کان لگانا اور سننا صرف ان جگہوں میں واجب ہے جہاں قرآن کو سنانے ہی کے لئے پڑھا جارہا ہو، جیسے نماز و خطبہ وغیرہ میں، اور اگر کوئی شخص بطور خود تلاوت کر رہا ہے یا چند آدمی کسی ایک مکان میں اپنی تلاوت کر رہے ہیں تو دوسرے کی آواز پر کان لگانا اور خاموش رہنا واجب نہیں، کیونکہ احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سفر میں رات کو پڑاؤ ڈالنے کے بعد صبح کو فرمایا کہ میں نے اپنے اشعری رفقائے سفر کو ان کی تلاوت کی آوازوں سے رات کے اندھیرے میں پہچان لیا کہ ان کے خیمے کس طرف اور کہاں ہیں، اگرچہ دن میں مجھے ان کے جائے قیام کا علم نہیں تھا۔- اس واقعہ میں بھی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان اشعری حضرات کو اس سے منع نہیں فرمایا کہ بلند آواز سے کیوں قرأت کی اور نہ سونے والوں کو ہدایت فرمائی کہ جب قرآن پڑھا جارہا ہو تو تم سب بیٹھو اور قرآن سنو۔ - اس قسم کی روایات سے فقہاء نے خارج نماز کی تلاوت کے معاملہ میں کچھ گنجائش دی ہے، لیکن اولی اور بہتر سب کے نزدیک یہی ہے کہ خارج نماز بھی جب کہیں سے تلاوت قرآن کی آواز آئے تو اس پر کان لگائے اور خاموش رہے اور اسی لئے ایسے مواقع میں جہاں لوگ سونے میں یا اپنے کاروبار میں مشغول ہوں تلاوت قرآن بآواز بلند کرنا مناسب نہیں۔- اس سے ان حضرات کی غلطی معلوم ہوگئی جو تلاوت قرآن کے وقت ریڈیو ایسے مجامع میں کھول دیتے ہیں جہاں لوگ اس کے سننے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے، اسی طرح رات کو لاؤڈ اسپیکر لگا کر مسجدوں میں تلاوت قرآن اس طرح کرنا کہ اس کی آواز سے باہر کے سونے والوں کی نیند یا کام کرنے والوں کے کام میں خلل آئے، درست نہیں۔- علامہ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ جس وقت امام نماز میں یا خطیب خطبہ میں کوئی مضمون جنت و دوزخ کے متعلق پڑھ رہا ہو تو اس وقت جنت کی دعاء یا دوزخ سے پناہ مانگنا بھی جائز نہیں، کیونکہ اس آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا وعدہ اس شخص کے لئے ہے جو تلاوت قرآن کے وقت خاموش رہے، اور جو خاموش نہ رہے اس سے وعدہ نہیں، البتہ نفل نمازوں میں ایسی آیات کی تلاوت کے بعد آہستہ دعا مانگنا سنت سے ثابت ہے اور موجب ثواب ہے (مظہری)
وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ٢٠٤- قرأ - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] - ( ق ر ء) قرءت المرءۃ وقرءت الدم - ۔ القراءۃ کے معنی حروف وکلمات کو ترتیل میں جمع کرنے کے ہیں کیونکہ ایک حروت کے بولنے کو قراءت نہیں کہا جاتا ہے اور نہ یہ عام ہر چیز کے جمع کے کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ لہذ ا اجمعت القوم کی بجاے قررءت القوم کہنا صحیح نہیں ہے ۔ القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] - ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ - اسْتِمَاعُ- والِاسْتِمَاعُ : الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، أي :- من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب - اسمانع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے ۔ - نصت - : نَصَتَ الرجلُ يَنْصِتُ نَصْتاً ، وأَنْصَتَ ، وَهِيَ أَعْلى، وانْتَصَتَ : سكَتَ؛ وَقَالَ الطِّرِمَّاحُ فِي الانْتِصاتِ : يُخافِتْنَ بعضَ المَضْغِ مِنْ خَشْيةِ الرَّدَى، ... ويُنْصِتْنَ للسَّمْعِ انْتِصاتَ القَناقِنِ- يُنْصِتْنَ لِلسَّمْعِ أَي يَسْكُتْنَ لِكَيْ يَسْمَعْنَ. وَفِي التَّنْزِيلِ الْعَزِيزِ : وَإِذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا قَالَ ثَعْلَبٌ: مَعْنَاهُ إِذا قرأَ الإِمام، فَاسْتَمِعُوا إِلى قراءَته، وَلَا تَتَكَلَّمُوا .- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
امام کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہوئے قرات کرنا - قول باری ہے واذاقری القران فاستمعوالہ وانصتوالعلکم ترحمون۔ اور جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو شاید کہ تم پر بھی رحمت ہوجائے) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں قرات کی اور آپ کی اقتداء میں پڑھنے والے حضرات نے بھی قرات کی جس کی وجہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرات گڈ مڈ ہوگئی۔ اس پر درج بالا آیت کا نزول ہوا ثابت بن عجلان نے سعید بن جیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے درج بالا آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ مومن کے لئے قرآن توجہ سے سننے کے حکم میں گنجائش موجود ہے البتہ اگر فرض نماز یا جمعہ کی نماز یا عیدین کی نمازیں ہوں (تو پھر توجہ سے سننا ضروری ہوگا) اور مخلدالمہاجر نے ابوالعالیہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز پڑھانے کے دوران قرات کرتے تو آپ کے پیچھے کھڑے تمام لوگ بھی قرات کرتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس کے بعد صحابہ کرام خاموش رہتے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرات کرتے۔ شعبی اور عطا نے روایت کی ہے کہ آیت میں مذکورہ قرات سے نماز کی قرات مراد ہے۔ ابراہیم بن ابی حرہ نے مجاہد سے اسی قسم کی روایت کی ہے۔ ابن ابی بخیح نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک انصاری جو ان کی نماز کے اندر قرات سنی، اس پر درج بالا آیت نازل ہوئی۔ سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ اس نے نماز کے اندر قرات کی تھی۔ مجاہد سے مروی ہے کہ اس سے نماز اور خطبہ کے دوران قرات مراد ہے لیکن یہاں خطبہ کا ذکر ایک بےمعنی بات ہے۔ اس لئے کہ خطبہ کے دوران قرات کو توجہ سے سننا اور خاموش رہنا اسی طرح واجب ہے جس طرح خطبہ کے علاوہ دوسری صورتوں میں واجب ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ لوگ نماز کے اندر باتیں کرتے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ لیکن یہ بھی بعید ازفہم تاویل ہے جو آیت کے مفہوم سے بالکل میل نہیں رکھتی۔ اس لئے آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ صرف کسی کی قرات کو غور سے سننے اور خاموش رہنے کے حکم کی بات ہے اس لئے کہ یہ محال ہے کہ ایک شخص کو اپنی قرات غور سے سننے اور خاموش رہنے کا حکم دیا جائے۔ البتہ اگر حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کے یہ معنی لئے جائیں کہ لو گ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتداء میں نماز پڑھنے کے دوران آپس میں باتیں کرتے تھے اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی تھی تو روایت کی یہ تاویل درست ہوگی۔ اگر بات اس طرح ہوجائے تو پھر یہ تاویل امام کے پیچھے قرات نہ کرنے کے سلسلے میں دوسرے حضرات کی تاویل کے مطابق ہوجائے گی۔ اس طرح سب کا اس پر اتفاق ہوجائے گا کہ آیت میں امام کے پیچھے قرات نہ کرنا بلکہ اس کی قرات کو غور سے سننا اور خاموش رہنا مرا د ہے۔ اگر امام کے پیچھے قرات نہ کرنے کے وجوب کے سلسلے میں آیت کے نزول پر سلف کے اتفاق کی روایت موجود نہ بھی ہوتی تو تنہا آیت ہی اپنے معنی کے ظہور اور اپنے الفاظ کے عموم کی بنا پر امام کی قرات خاموشی سے سننے کے وجوب پر واضح طور سے دلالت کے لئے کافی ہوتی۔ اس لئے کہ قول باری واذاقری القران فاستمعوالہ وانصتوا) یہ حکم نماز اور غیر نماز کے اندر قرات قرآن کو غور سے سننے اور خاموش رہنے کے وجوب کا مقتضی ہے۔ پھر جب غیر نماز کے اندر قرآن کی قرات کو غور سے سننے اور خاموش نہ رہنے کے جواز پر دلالت قائم ہوجائے تو اس سے نماز کے اندر قرات کو غور سے سننے اور خاموش رہنے کے ایجاب پر آیت کی دلالت کا حکم ختم نہیں ہوگا۔ نیز آیت جس طرح جہری نماز میں امام کے پیچھے قرات کرنے کی نہی پر دلالت کرتی ہے اسی طرح سری نماز کے اندر بھی امام کے پیچھے قرات کرنے کی نہی پر آیت کی دلالت ہوگی اس لئے کہ آیت نے قرات قرآن کے دوران قرات کو غور سے سننا اور خاموش رہنا واجب کردیا ہے اور اس میں یہ شرط نہیں لگائی ہے کہ قرات جہری ہو سری نہ ہو۔ اس لئے جب امام جہری قرات کر رہا ہو تو ہم پر اسے غور سے سننا اور خاموش رہنا واجب ہے اسی طرح جب وہ سری قرات کر رہا ہو ہم پر آیت کے الفاظ کے بموجب یہی حکم واجب ہوگا اس لئے کہ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ وہ قرآن کی قرات کر رہا ہے اگرچہ سراً ہی سہی۔- قرات خلف الامام پر فقہاء کی آراء - قرات خلف الامام کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب ابن سیرین، ابن ابی لیلیٰ ، سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ جہری اور سری نماز میں مقتدی امام کے پیچھے قرات نہیں کرے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ دونوں صورتوں میں مقتدی قرات کرے گا۔ امام مالک کا قول ہے کہ سری نماز میں مقتدی قرات کرے گا اور جہری نماز میں قرات نہیں کرے گا۔ المزنی کی روایت کے مطابق اما م شافعی کے نزدیک جہری اور سری دونوں نمازوں میں مقتدی قرات کرے گا۔ البویطی میں ہے کہ سری نماز میں مقتدی پہلی دو رکعتوں میں سورة فاتحہ اور اس کے ساتھ کسی اور سورت کی اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورة فاتحہ کی قرات کرے گا اور جہری نماز میں مقتدی امام کے پیچھے قرات نہیں کرے گا۔ البویطی نے یہ بھی کہا ہے کہ لیث بن سعد اور اوزاعی کا بھی یہی قول ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہم نے یہ بات واضح کردی ہے کہ آیت امام کی جہری اور سری دونوں قرات کے دوران خاموش رہنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ اہل لغت کے قول کے مطابق انصاف کے معنی کلام سے رک جانے اور قرات کو غور سے سننے کے لئے خاموش رہنے کے ہیں۔ ایک شخص جو قرات کر رہا ہو وہ کسی حالت میں کلام سے رک جانے والا اور خاموش رہنے والا نہیں کہلا سکتا۔ اس لئے کہ سکوت کلام کی ضد ہے اور سکوت کے معنی یہ ہیں کہ آلہ کلام یعنی زبان کلام کے ذریعہ حرکت میں لانے سے ساکن رکھا جائے کلام الگ الگ حرف کو ایک نظام کے تحت مربوط کر کے زبان پر لانے کا نام ہے۔ اس لئے سکوت اور کلام الہ لسان اور ہونٹوں کی حرکت کے ذریعے بولنے والے کے لئے دو متضاد کیفیتیں ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ کسی شخص کو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ متکلم اور ساکت ہے جس طرح کسی چیز کو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ متحرک اور ساکن ہے اس لئے جو شخص ساکت ہوگا وہ متکلم نہیں ہوگا اور جو متکلم ہوگا وہ ساکت نہیں ہوگا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ بعض دفعہ سری طور پر قرات کرنے والے کو بھی ساکت کہا جاتا ہے جب اس کی قرات کی آواز کان میں نہ پڑتی ہو جس طرح عمارہ نے ابوزرعہ سے اور انہوں نے ابویریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تکبیر کہتے تو تکبیر اور قرات کے درمیان خاموش رہتے۔ ایک دن میں نے عرض کیا :” میرے ماں باپ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان، مجھے بتا دیجئے کہ تکبیر اور قرات کے درمیان سکوت یعنی خاموشی کے دوران آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا پڑھتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اقول اللھم باعدبینی و بین خطایای کما باعدت بین المشرق و المغرب میں پڑھتا ہوں “ اے میرے اللہ میرے اور میری خطائوں کے درمیان اتنا فاصلہ کر دے جتنا فاصلہ تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان کردیا ہے) حضرت ابوہریرہ (رض) نے باقی ماندہ حدیث کا بھی ذکر کیا ہے حضرت ابوہریرہ (رض) نے آپ کو ساکت کے نام سے موسوم کیا حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سراً دعا مانگتے تھے یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ سکوت کے معنی کسی بات کو سرا کہنے کے ہیں۔ سرے سے بات نہ کرنے کے معنی نہیں ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے سراً بات کرنے والے کو مجازاً ساکت کا نام دیا ہے اس لئے کو جو شخص اس کی آواز نہیں سنے گا وہ اسے ساکت یعنی خاموش سمجھے گا۔ جب یہ شخص اس لحاظ سے خاموش شخص کے مشابہ ہوتا ہے تو ساکت شخص کی حالت کے ساتھ اس کی حالت قرب کی بنا پر اسے بھی ساکت کا نام دے دیا جاتا ہے جس طرح یہ قول باری ہے صم بکم عمی۔ بہرے گونگے اور اندھے ہیں) منکرین کو بہروں، گونگوں اور اندھوں کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے یہ نام دیئے گئے ہیں جس طرح اصنام کے بارے میں فرمایا وتراھم ینظرون الیک ولھم لایبصرون۔ تم انہیں دیکھو گے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ دیکھ نہیں سکتے) ان بتوں کو ایسے شخص سے تشبیہ دی گئی ہے جو دیکھ تو رہا ہے لیکن حقیقت میں ان کی آنکھیں بےنور ہوں اور وہ کچھ نہ دیکھ سکتا ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ امام کی قرات کے دوران مقتدی قرات نہیں کرے گا لیکن اس کے سکوت کے دوران تو وہ قرات کرسکتا ہے اس لئے کہ حسن نے حضرت سمرہ بن جندب (رض) سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی نماز میں دو دفعہ سکتہ کرتے تھے ایک قرات سے پہلے اور دوسری قرات کے بعدا س لئے امام کو چاہیے کہ وہ قرات سے پہلے ایک سکتہ کرے تاکہ اس کے ساتھ نماز میں ابتداء سے شامل ہونے والے مقتدی اس دوران میں سورة فاتحہ پڑھ لیں اور پھر امام کی قرات کو غور سے سنیں۔ پھر جب امام قرات سے فارغ ہوجائے تو اسے دوسری دفعہ سکتہ کرنا چاہیے تاکہ بعد میں شامل ہونے والے مقتدی سورة فاتحہ پڑھ سکیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ دو سکتوں والی روایت کا ثبوت نہیں ہے اگر یہ روایت ثابت بھی ہوجائے تو معترض کے قول پر اس کی دلالت نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ پہلا سکتہ تو نماز کی افتتاحی دعائوں کے لئے ہوتا ہے اور دوسرا سکتہ اگر ثابت بھی ہوجائے تو روایت میں یہ دلالت نہیں ہے کہ وہ اتنا طویل ہوتا تھا کہ ایک مقتدی اس دوران سورة فاتحہ پڑھ لیتا۔ بلکہ یہ سکتہ صرف قرات اور رکوع کی تکبیر کے درمیان فصل کرنے کے لئے ہوتا تھا تاکہ ایک ناواقف شخص کو یہ گمان نہ پیدا ہوجائے کہ تکبیر بھی قرات کا حصہ ہے۔ اگر تکبیر قرات کے ساتھ متصل ہوتی تو یہ گمان پیدا ہونے کی پوری گنجائش تھی اگر معترض کی بیان کردہ روایت کے مطابق دونوں سکتوں میں سے ہر ایک سورة فاتحہ پڑھنے کی مقدار کا ہوتا تو اس کی بکثرت روایت ہوتی اور اسے مختلف طرق سے نقل کیا جاتا لیکن جب اس کی بکثرت روایت نہیں ہوئی جبکہ عمومی طور پر تمام نمازیوں کو اس بنا پر اس کی ضرورت تھی کہ ہر مقتدی اس طرح قرات کی فرضیت کی ادائیگی کرسکتا تھا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دراصل ان دو سکتوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ نیز مقتدی کی حیثیت یہ ہوتی ہے کہ وہ امام کے تابع رہے لیکن یہ جائز نہیں ہوتا کہ امام مقتدی کے تابع بن جائے اگر معترض کی یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ قرات کے بعد امام اتنی دیر خاموش کھڑا رہے کہ مقتدی اس دوران سورة فاتحہ پڑھ لے تو اس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کی مخالفت لازم آتی ہے کہ انماجعل الامام لیوتم بہ، امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے) پھر معترض کے اس قول سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس حکم کا برعکس لازم آتا ہے واذا قرافانصتوا، جب امام قرات کرے تو تم خاموش رہو) وہ اس طرح کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ت مقتدی کو امام کے لئے خاموش رہنے کا حکم دیا ہے اور معترض امام کو مقتدی کے لئے خاموش رہنے کا حکم دے رہا ہے اور اسے مقتدی کے تابع قرار دے رہا ہے اس سے دلیل میں تخلف لازم آتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر امام ظہر کی دو رکعتوں کے بعد بھول کر تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے تو مقتدی پر بھی اس کی پیروی لازم ہوتی ہے لیکن اگر مقتدی بھول کر کھڑا ہوجائے تو امام پر اس کی اتباع لازم نہیں ہوتی۔ اگر مقتدی بھول جائے تو اس کی وجہ سے نہ اس پر اور نہ ہی اس کے امام پر سجدہ سہو لازم ہوتا ہے لیکن اگر امام بھول جائے اور مقتدی نہ بھی بھولے تو بھی سجدہ سہو میں اس پر امام کی اتباع لازم ہوتی ہے اس لئے یہ کہنا کیسے درست ہوسکتا ہے کہ امام کو خاموش کھڑا رہنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ اس دوران مقتدی قرات کرلے۔- قرات خلف الامام کی نہی پر روایات - قرات خلف الامام کی نہی پر مشتمل روایات مختلف طرق سے بکثرت منقول ہیں۔ قتادہ نے ابوغلاب یونس بن جبیر سے روایت کی ہے انہوں نے حطان بن عبداللہ سے اور انہوں نے حضرت ابوموسی (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اذاقراء الامام فانصتوا۔ جب امام قرات کرے تو تم خاموش رہو) ابن عجلان نے زید بن اسلم سے، انہوں نے ابوصالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انما جعل الامام لیوتم بہ فاذا قرافانصتوا، امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے اس لئے جب وہ قرات کرے تو تم خاموش رہو) یہ دونوں روایتیں امام کو قرات کے دوران مقتدیوں پر خاموشی کو واجب کرتی ہیں۔ دوسری روایت تو اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ امام کی اقتداء کے مفہوم میں اس کی قرات کو خاموشی سے سننا بھی شامل ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ مقتدی کی قرات کے لئے امام کو خاموش رہنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر اسے یہ حکم ہوتا تو گویا اسے مقتدی کی اقتداء کا حکم ہوتا اس طرح ایک ہی حالت میں امام مقتدی بن جاتا اور مقتدی امام۔ یہ کسی طرح درست نہیں ہے۔ حضرت جابر (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من کان لہ امام قراۃ الامام لہ قراۃ۔ جس کا کوئی امام ہو تو امام کی قرات اس کے لئے بھی قرات ہوگی) حضرت جابر (رض) سے ایک بڑی جماعت نے یہ روایت کی ہے اس کے بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں اذا کان لک امام فقرا تہ لک قراۃ۔ جب تمہارا امام ہو تو اس کی قرات تمہارے لئے بھی قرات ہوگی) حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امام کے پیچھے قرات کرنے سے منع فرمایا ہے۔ حجا ج بن ارطاۃ نے قتادہ سے انہوں نے زراہ بن اونیٰ سے اور انہوں نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے اس کی روایت کی ہے ہم نے شرح مخترالطحاوی میں ان روایات کی اسانید پر روشنی ڈالی ہے۔ ایک اور روایت ہے جو مالک نے ابونعیم وہب بن کیسان سے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت جابر (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا من صلی صلوۃ لم یقراً فیھا بامرالقران فھی خداج۔ جس شخص نے کوئی نماز پڑھی اور سورة فاتحہ کی قرات نہ کی اس کی یہ نما ز ناقص ہے۔ بعض طرق میں ہے لم یصل ال اوراء الامام۔ اس نے گویا کوئی نماز نہیں پڑھی الایہ کہ اس نے امام کے پیچھے پڑھی ہو) آپ نے یہ بتادیا کہ امام کے پیچھے سورة فاتحہ کی قرات نہ کرنا نماز میں کسی نقصان اور کمی کا موجب نہیں ہے اگر امام کے پیچھے قرات کا جواز ہوتا تو ترب قرات اس کی نماز میں نقصی کا موجب ہوتا جس طرح تنہا نماز پڑھنے والے کا ترک قرات اس کی نماز میں نقص کا موجب ہے۔ امام مالک نے ابن شہاب سے انہوں نے اکیمہ اللیشی سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جہری نماز سے سلام پھیرنے کے بعد لوگوں سے دریافت فرمایا کہ آیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ قرات کی ہے ؟ صحابہ کرام نے اثبات میں جواب دیا اس پر آپ نے فرمایا انی اقول مالی انازع القران۔ اسی لئے میں سوچ رہا تھا کہ قرآن کی تلاوت میں میرے ساتھ چھینا جھپٹی کیوں ہو رہی ہے) حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ اس کے بعد لوگوں نے جہری نماز میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے قرات ترک کردی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول ھل قراً معنی احدمنکم۔ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قرات کی ہے ؟ اس پر دلالت کرتا ہے کہ جن لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے قرات کی تھی انہوں نے دراصل سری قرات کی تھی جہری نہیں کی تھی، اس لئے کہ جہری قرات ہوتی تو آپ درج بالا فقرہ نہ کہتے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انی اقول مالی انازع القران) اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ اس حکم کے لحاظ سے سری اور جہری دونوں نمازیں یکساں ہیں اس لئے کہ یہ آپ نے بتایا تھا کہ مقتدی کی قرات قرآن کی تلاوت میں منازعت یعنی چھینا جھپٹی کی موجب ہوتی ہے حضرت ابوہریرہ (رض) کا قول کہ اس کے بعد لوگ جہری نمازوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے قرات کرنے سے رک گئے اس میں ان لوگوں کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے جو سری نمازوں میں امام کے پیچھے قرات کے جواز کے قائل ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ راوی کا قول اور ان کی تاویل ہے۔ اس میں یہ بات مذکور نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جہری قرات اور سری قرات کی حالتوں میں فرق کیا تھا۔ ایک اور حدیث ہے جسے یونس ابن ابی اسحاق نے ابواسحاق سے انہوں نے ابوالاحوص سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے قرات کرتے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا خلطتم علی القران تم نے قرآن کو مجھ پر گڈ مڈ کردیا) یہ روایت بھی جہر اور اخفاء کی یکسانیت پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں حالتوں میں کسی فرق کا ذکر نہیں کیا۔ زہری نے عبدالرحمن بن ہرمز سے، انہوں نے ابن لجینہ سے روایت کی ہے (ابن لجینہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی تھے) کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا کسی نے میرے ساتھ ابھی قرات کی تھی ؟ صحابہ کرام نے اثبات میں جواب دیا اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (فانی اقول مالی انازع القران) راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد صحابہ کرام (رض) آپ کے پیچھے قرات کرنے سے رک گئے۔ اس روایت میں بھی حضرت ابن نجینہ (رض) نے یہ بتایا کہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے قرات کرے سے رک گئے تھے۔ اس میں جہر اور اخفاء کے درمیا ن کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ یہ تمام روایات سری اور جہری دونوں نمازوں میں امام کے پیچھے قرات کی نہی کی موجب ہیں اس پر وہ آثار بھی دلالت کرتے ہیں جو اجلہ صحابہ سے منقول ہیں جن میں ان حضرات سے قرات خلف الامام کی نہی اور قرات کرنے والے کو ٹوکنے اور نکیر کرنے کی بات مذکور ہے اگر قرات خلف الامام کی بات عام ہوتی تو صحابہ کرام سے یہ چیز چھپی نہ رہتی اس لئے عمومی طور پر لوگوں کو اس کی ضرورت پیش آتی تھی نیز شارع (علیہ السلام) کی طرف سے پوری جماعت کو اس بارے میں ہدایت دی جاتی اور ان کی رہنمائی کی جاتی اور صحابہ کرام اس امر سے اسی طرح واقف ہوتے جس طرح نماز میں قرات کے حکم سے واقف تھے اس لئے کہ قرات خلف الامام کے بارے میں معرفت کی انہیں اسی طرح ضرورت تھی جس طرح نماز میں قرات کی معرفت کی ضرورت تھی جبکہ انسان تنہا نماز پڑھ رہا ہو یا امامت کر رہا ہو۔ جب اجد صحابہ کرام سے قرات خلف الامام پر نکیر اور اس کی تردید منقول ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قرات خلف الامام جائز نہیں ہے جن حضرات صحابہ کرام سے قرات خلف الامام کی نہی منقول ہے ان میں حضر ت علی (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت سعد (رض) ، حضرت جابر (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابوالدردا (رض) ، حضرت ابوسعید (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) ، حضرت زید بن ثابت (رض) اور حضرت انس (رض) شامل ہیں۔ عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے حضرت علی (رض) سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جس شخص نے امام کے پیچھے قرات کی وہ راہ فطرت سے ہٹ گیا۔ ابواسحاق نے علقمہ سے انہوں نے عبداللہ سے اور انہوں نے حضرت زید بن ثابت سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا جس شخص نے امام کے پیچھے قرات کی اس کا منہ مٹی سے بھر دیا جائے گا۔ وکیع نے عمر بن محمد سے انہوں نے موسیٰ بن سعد سے اور انہوں نے حضرت زید بن ثابت سے روایت کی ہے کہ جس شخص نے امام کے پیچھے قرات کی اس کی کوئی نماز نہیں۔ ابوحمزہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ آیا میں امام کے پیچھے قرات کرلوں تو آپ نے نفی میں اس کا جواب دیا۔ ابوسعید (رض) کا قول ہے کہ تمہارے لئے امام کی قرات کافی ہے۔ حضرت انس (رض) کا قول ہے کہ ” امام کے پیچھے قرات تسبیح ہے “……واللہ اعلم……رکوع کی تسبیح اور نماز کی افتتاح پر پڑھی جانے والی دعائیں منصور نے ابراہیم نخعی سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” ہم نے امام کے پیچھے قرات کی بات کسی سے نہیں سنی حتی کہ کوفہ پر مختار ثقفی کذاب کا غلبہ ہوگیا۔ لوگوں نے چونکہ اس پر بےدینی کی تہمت لگائی تھی اس لئے اس کے پیچھے نماز پڑھتے وقت خود بھی قرات کرلیتے “۔ حضرت سعد (رض) کا قول ہے کہ جو شخص امام کے پیچھے قرات کرتا ہے میرا دل چاہتا ہے کاش کہ اس کے منہ میں انگارے ہوتے “۔- روایت فاتحہ خلف الامام پر تنقید - جو لوگ قرات خلف الامام کو واجب سمجھتے ہیں انہوں نے محمد بن اسحاق کی روایت سے استدلال کیا ہے جو انہوں نے مکحول سے انہوں نے محمود بن الربیع سے اور انہوں نے حضرت عبادہ بن الصامت سے نقل کی ہے کہ ایک روز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرات کا کچھ پتہ نہ چل سکا یعنی آواز گڈمڈ ہوگئی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلام پھیر کر فارغ ہوگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے پوچھا : کیا تم لوگ بھی میرے پیچھے قرات کر رہے تھے ؟ “ لوگوں نے اثبات میں جوا ب دیا۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لاتفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لاصلوۃ لمن لم یقرا بھا۔ ایسا نہ کرو الایہ کہ سورة فاتحہ کی قرات ہو اس لئے کہ جو شخص سورة فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی) اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے نیز اس کا مرفوع ہونا بھی مختلف فیہ ہے یہ اس لئے کہ صدقہ بن خالد ن یزید بن واقد سے انہوں نے مکحول سے انہوں نے نافع بن محمود بن ربیعہ سے اور انہوں نے حضرت عبادہ (رض) سے اس کی روایت کی ہے اس روایت کا ایک راوی نافع بن محمود مجہول ہے اس کے متعلق کسی کو کوئی علم نہیں ہے۔ اس حدیث کو ابن عون نے رجاء بن حیوۃ سے انہوں نے محمد بن الربیع سے حضرت عبادۃ (رض) پر موقوفاً روایت کی ہے اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر نہیں ہے ایوب نے ابوقلابہ سے انہوں نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھائی پھر اپنا چہرہ مبارک لوگوں کی طرف پھیر کر پوچھا کیا امام کی قرات کے دوران تم لوگ بھی قرات کرتے ہو “ لوگ خاموش رہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے تین بار یہی سوال کیا۔ اس پر لوگوں نے عرض کیا کہ ” جی ہاں ہم ایسا ہی کرتے ہیں “۔ اس پر آپ نے فرمایا ” ایسا نہ کرو “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں سورة فاتحہ کی قرات کے استثناء کا ذکر نہیں فرمایا حضرت عبادہ بن الصامت (رض) کی اصل روایت وہ ہے جسے یونس نے ابن شہاب سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے محمود بن الربیع نے حضرت عبادہ بن الصامت سے بتایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لاصلوۃ لمن لم یقرا القران، جو شخص قرآن کی قرات نہیں کرتا اس کی کوئی نماز نہیں) حضرت عبادہ (رض) کی روایت سند کے اضطراب نیز رفع دوقف اور الاظ کے اختلاف کی وجہ سے اس درجے کی روایت نہیں رہی جسے ظاہر قرآن اور ان آثار صحیحہ کے بالمقابل پیش کیا جاسکے جن میں قرات خلف الامام کی نفی منقول ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد لاصلوۃ الابام القران) امام کے پیچھے سورة فاتحہ کی قرات کے ایجاب پر دلالت نہیں کرتا۔ اس لئے کہ امام کے پیچھے پڑھی جانے والی نماز میں سورة فاتحہ کی قرات ہوتی ہے۔ امام اس کی قرات کرتا ہے اور امام کی قرات مقتدی کی قرات بن جاتی ہے۔ اسی طرح علاء بن عبدالرحمن کی روایت جو انہوں نے ہشام بن زہرہ کے آزاد کردہ غلام ابوالسائب سے کی ہے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من صلی صلاۃ لم یقرا فیھا بام القرآن فھی خداج غیر تمام جس شخص نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورة فاتحہ کی تلاوت نہیں کی تو اس کی یہ نماز خداج یعنی ناتمام ہے۔- حضرت ابوہریرہ (رض) کا خیال - ابوالسائب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے عرض کیا کہ ” میں بعض دفعہ امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہوں اس صورت میں کیا کروں “۔ یہ سن کر حضرت ابوہریرہ (رض) نے میرے بازو میں انگلی مارتے ہوئے فرمایا اے فارسی شخص اسے اپنے دل میں پڑھو “۔ اس روایت میں ان حضرات کے لئے کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس روایت میں زیادہ سے زیادہ جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایسی نماز خداج ہے۔ خداج نقصان کو کہتے ہیں۔ ایسی نماز پر اسم صلوۃ کا اطلاق اس کے جواز پر دلالت کرتا ہے نیز یہ بات اس شخص کے متعلق کہی گئی ہے جو تنہا نماز پڑھ رہا ہو۔ اس توجیہ کی بنا پر اس روایت اور آیت نیز قرات خلف الامام کی نفی کرنے والے آثار کے درمیان تطبیق کی صورت پیدا ہوجاتی ہے حضرت ابوہریرہ (رض) کا یہ قول کہ ” اسے اپنے دل میں پڑھو “۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب نہیں ہے اور تنہا صحابی کے قول سے کوئی حجت ثابت نہیں ہوتی۔ قرات خلف الامام کی نفی میں ہم نے جو روایات پیش کی ہیں وہ اولی ہیں اس پر یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ جہری نماز میں امام کے پیچھے مقتدی کی قرات کی نہی کے سلسلے میں ان روایات پر سب متفقہ طور پر عمل پیرا ہیں۔ ہم سے اختلاف رکھنے والوں کی پیش کردہ روایات مختلف فیہ ہیں۔ اس لئے ایسی روایات جن پر ایک صورت میں عمل پیرا ہونے پر سب متفق ہوں ان روایات کی بہ نسبت اولی ہوں گی جن پر عمل کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم تمام روایات پر عمل پیرا ہوتے ہیں وہ اس طرح کہ قرات خلف الامام کی نہی والی روایات کو سورة فاتحہ کے ماسوا قرات پر محمول کیا جائے اور قرات کے امر والی روایات کو سورة فاتحہ کی قرات پر محمول کیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان دو ارشادات کی بنا پر باطل ہے۔ اول یہ کہ آپ نے فرمایا علمت ان بعضکم خالجینھا مجھے محسوس ہوا کہ تم میں سے بعض نے مجھے قرات کے سلسلے میں خلجان میں مبتلا کردیا ہے) نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے مالی انازع القران، یہ کیا بات ہے کہ قرآن کی قرات میں میرے ساتھ چھینا جھپٹی ہوتی ہے) قرآن تو صرف سورة فاتحہ کا نام نہیں ہے اس لئے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بشمول سورة فاتحہ سارا قرآن مراد لیا تھا وہب بن کیسان کی روایت میں جو انہوں نے حضرت جابر (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے کل صلوۃ لایقرافیھا بفاتحۃ الکتاب فھی خداج الام اوراء الامام۔ ہر وہ نماز جس میں سورة فاتحہ کی قرات نہ کی گئی ہو وہ ناقص ہے الایہ کہ کسی نے امام کے پیچھے نماز پڑھی ہو) اس روایت میں آپ نے منصوص طریقے سے امام کے پیچھے سورة فاتحہ نہ پڑھنے کا حکم بیان فرما دیا۔ اس سے معترض کی تاویل اور قرات کے امر والی روایات کو سورة فاتحہ کی قرات پر محمول کرنے والی بات باطل ہوجاتی ہے بلکہ معترض پر یہ الزام عائد ہوتا ہے کہ وہ ان روایات کو رد کرنے اور ان پر عمل پیرا نہ ہونے کا مرتکب ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے اپنے مسلک کے حق میں صحابہ کرام کے اقوال سے جو استدلال کیا ہے اس میں کوئی جان نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان حضرات کے ہم چشموں نے اس معاملہ میں ان کی مخالفت کی ہے چناچہ عبدالواحد بن زیاد نے روایت کی ہے انہیں سلیمان الشیبانی، انہوں نے یزیدبن شریک سے کہ انہوں نے خود حضرت عمر (رض) سے یہ بات کہی تھی یا کسی اور کو ان سے یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ آیا میں امام کے پیچھے قرات کروں “۔ آپ نے اثبات میں اس کا جواب دیا تھا، سائل نے دوبارہ پوچھا ” خواہ امام قرات کیوں نہ کر رہا ہو “۔ آپ نے فرمایا :” خواہ امام کیوں نہ قرات کر رہا ہو “۔ شعبہ نے ابوالفیض سے، انہوں نے ابوشیبہ سے روایت کی ہے کہ حضرت معاذ بن جبل (رض) نے فرمایا تھا کہ جب تمہیں امام کی قرات سنائی دے رہی ہو تو قل ھو اللہ احد یا اس جیسی کوئی اور سورت پڑھ لو اور اگر تمہیں امام کی قرات سنائی نہ دے رہی ہو تو اپنے دل میں پڑھ لو “۔ اشعث نے حکم اور حماد سے روایت کی ہے کہ حضرت علی (رض) امام کے پیچھے قرات کرنے کا حکم دیتے تھے لیث نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے یہ روایت کی ہے کہ ” سورة فاتحہ پڑھنا نہ چھوڑو خواہ امام جہری قرات کر رہا ہو یا سری جب صحابہ کرام سے قرات خلف الامام اور عدم قرات دونوں مروییں تو ان روایات سے استدلال کیسے درست ہوسکتا ہے اور حجت کیسے ہوسکتی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا حضرت عمر (رض) اور حضرت معاذ (رض) سے منقول رویا ات کی سندیں مجہول ہیں اس لئے ان جیسی روایات سے کوئی حجت ثابت نہیں ہوسکتی جبکہ حضرت علی (رض) سے منقول روایت کے راوی الحکم اور حماد ہیں جن کی وجہ سے یہ روایت مرسل ہے اس میں تابعی کا واسطہ غائب ہے اور ہمارے مخالف ایسی مرسل روایات کو قبول نہیں کرتے حضرت ابن عباس (رض) سے منقول روایت کے راوی لیث بن ابی سلیم ہیں جو ضعیف شمار ہوتے ہیں ان کے مقابلہ میں ابوحمزہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے قرات خلف الامام کی نہی کی روایت نقل کی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ہمارا استدلال صرف اقوال صحابہ پر مبنی نہیں ہے بلکہ ہم نے یہ کہا ہے کہ ایسے فرائض جن سے عمومی طور پر سب کو سابقہ پڑھتا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ایجاب پر لوگوں کو اپنی ہدایت اور رہنمائی کے بغیر نہیں رہنے دیتے تھے جب ہم نے دیکھا کہ صحابہ کرام میں ایسے حضرات موجود ہیں جو قرات خلف الامام کی نہی کے قائل ہیں تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ قرات خلف الامام کے وجوب پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے تمام لوگوں کو ہدایت نہیں دی گئی تھی جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ واجب نہیں۔- صحابہ کرام میں سے جن حضرات نے قرات خلف الامام کے ایجاب کا قول نقل کیا ہے ان کا یہ قول ہمارے مذکورہ استدلال کے لئے قاوح نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ یہی بات کہی جاسکتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اس بارے میں تمام لوگوں کو ہدایات نہیں دی گئی تھیں جس کی بنا پر کچھ حضرات نے تاویل یا قیاس کی بنا پر قرات کے ایجاب کا مسلک اختیار کرلیا جبکہ ان جیسے امور کا ایجاب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے تمام لوگوں کو ہدایت دینے اور امت کی طرف سے اس ہدایت کو نقل کرنے کی بنیاد پر ہوتا ہے علاوہ ازیں قرات خلف الامام کے وجوب کی نفی پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ سب کے نزدیک متفقہ طور پر امام کو رکوع کی حالت میں پالینے والا مقتدی قرات ترک کر کے امام کی متابعت کرے گا اگر قرات واجب ہوتی تو کسی حالت میں بھی اس کا ترک جائز نہ ہوتا جس طرح طہارت اور دیگر افعال صلوۃ کی صورتحال ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا صورت میں ایک ضرورت کی بنا پر قرات ترک کردی گئی وہ ضرورت رکعت فوت ہوجانے کے خوف کی صورت میں پیش آئی تھی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ رکعت فوت ہوجانے کا خوف کئی وجوہ کی بنا پر ضرورت کے نام سے موسوم نہیں کیا جاسکتا۔ ایک تو یہ کہ امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا فرض نہیں ہے اس لئے کہ اگر یہی شخص تنہا نماز ادا کرلیتا تو بھی اس کی نماز ادا ہوجاتی۔ البتہ امام کی اقتداء میں نماز کی ادائیگی ایک فضیلت ہے اس لئے رکعت فوت ہوجانے کا خوف ترک قرات کے لئے ضرورت نہیں قرار پاسکتا۔ نیز اگر کوئی شخص بےوضو ہوتاتو اس کے لئے جماعت کے فوت ہوجانے کا خوف ترک طہارت کی اباحت کا سبب نہیں بنتا۔ اسی طرح اگر ایک شخص امام کو سجدے کی حالت میں پالیتا تو یہ بات اس کے حق میں سقوط رکوع کے جواز کے لئے ضرورت نہ قرار پاتی۔ جب رکوع کی حالت میں امام کو پالینے کی بنا پر ترک قرات جائز ہوگیا دوسرے فرائض کا ترک جائز نہ ہوا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ قرات خلف الامام فرض نہیں ہے اس کی عدم فرضیت پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص امام کی اقتداء میں کوئی جہر ی نماز پڑھ رہا ہو وہ سورة فاتحہ کے ساتھ اور کوئی سورت نہیں ملائے گا۔ اگر قرات فرض ہوتی تو پھر سورة فاتحہ کے ساتھ کسی اور سورت کا ملانا قرات کی سنت میں داخل ہوتا۔ اس لئے کہ ایسی تمام نمازیں جن میں قرات فرض ہے ان میں سورة فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت ملانا سنت ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ جہری نمازوں میں مقتدی جہری قرات نہیں کریگا۔ اگر قرات فرض ہوتی تو جہری نمازوں میں مقتدی بھی امام کی طرح جہری قرات کرتا۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ قرات خلف الامام فرض نہیں ہے کیونکہ یہ تو باجماعت نماز تھی اور ان نمازوں میں سے تھی جن میں جہری قرات کی جاتی تھی اگر مقتدی پر قرات اسی طرح فرض ہوتی جس طرح امام پر فرض ہے تو پھر مناسب یہ تھا کہ جہر اور اخفا کے لحاظ سے مقتدی اور امام کی ق راتوں کے حکم میں کوئی اختلاف نہ ہوتا جبکہ یہ اختلاف موجود ہے کہ جب امام جہری قرات کرے گا تو مقتدی جہری قرات نہیں کرے گا بلکہ دل میں پڑھے گا۔- قول باری ہے واذکرربک فی نفسک تضرعاً و خیفۃ۔ اے نبی اپنے رب کو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ یاد کیا کرو) حبصاص کہتے ہیں کہ ذکر یعنی یاد الٰہی کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی، اس کے جلال و منزلت اور اس کی قدرت کے دلائل و آیات پر غورو فکر کیا جائے یہ افضل ترین ذکر ہے اس لئے اسے ہی ذکر و فکر پر ایک بندہ جس ثواب کا مستحق ہوتا ہے وہ دوسرے اذکار کی صورت میں نہیں ہوتا اور اسی ذکر و فکر کی بدولت اللہ کی ذات تک اس کی رسائی ہوجاتی ہے۔ ذکر کی دوسری صورت ذکر قولی ہے یہ ذکر کبھی دعا کی شکل میں کبھی حمد و ثناء کی صورت میں کبھی قرآن کی تلاوت اور لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کی شکل میں ہوتا ہے۔ آیت میں اس بات کی گنجائش ہے کہ فکری اور قولی دونوں ذکر مراد ہوں اس صورت میں قول باری واذکرربک فی نفسک) سے اللہ کی ذات کے دلائل و آیات پر غور و فکر مراد ہوگا اور قول باری ودون الجھرمن القول۔ اور زبان سے بھی آواز کے ساتھ) ذکر لسانی کے لئے منصوص ہوگا۔ اس ذکر لسانی سے تلاوت قرآن مراد لینا بھی جائز ہے اور دعا مراد لینا بھی درست ہے۔ اس صورت میں دعا کے اندر اخفا افضل ہوگا۔ جس طرح یہ قول باری ادعواربکم تضرعاً وخفیۃ) اگر اس سے قرآن کی تلاوت مراد ہو تو یہ اس قول باری کے ہم معنی ہوگا ولاتجھربصلاتک ولاتخافت بھا وایتغ بین ذلک سبیلاً ۔ تم نماز میں نہ تو بہت پکار کر پڑھو اور نہ ہی بہت چپکے پڑھو اور ان دونوں کے درمیان کوئی راستہ اختیار کرو) ایک قول ہے کہ دعا میں اخفا اس لئے افضل ہے کہ اس طرح ریاکاری کم سے کم ہوتی ہے اور اخلاص زیادہ سے زیادہ ہوتا ہے اور ان دو صفات کی بنا پر ایسی دعا کی قبولیت کی زیادہ امید کی جاتی ہے۔ ایک قول ہے کہ اس میں قرآن کو غور سے سننے والے کو خطاب ہے اس لئے کہ یہ قول باری اس قول باری واذا قری القران فاستمعوالہ وانصتوا) پر معطوف ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے اور معنوی طورپر تمام مکلفین کے لئے یہ حکم عام ہے جس طرح یہ قول باری ہے یایھا النبی اذا طلقتم النساء اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تم لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دو……) قتادہ کا قول ہے الاصال سے عشیات یعنی شام کے اوقات مراد ہیں۔ واللہ اعلم۔
(٢٠٤) جب فرض نمازوں میں قرآن حکیم پڑھا جاتا ہے تو اس کی قرأت کو سنو اور خاموشی اختیار کیے رکھو۔- شان نزول : (آیت) ” واذا قریء القران “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت نماز میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے آوازیں بلند کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔- اور مزید ابوہریرہ (رض) ہی سے روایت کیا ہے کہ ہم نماز میں کلام کرلیا کرتے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور جب قرآن کریم پڑھا جایا کرے، الخ، اور عبداللہ بن مغفل سے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے۔- اور ابن جریر (رح) نے بھی ان مسعود (رح) سے اسی طرح روایت کیا ہے نیز زہری (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت انصار کے کچھ نوجوانوں کے متعلق نازل ہوئی کیوں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی کچھ پڑھتے تو وہ بھی پڑھتے تھے۔- اور سعید بن منصور (رح) نے اپنی سنن میں بواسطہ ابومعشر محمد بن کعب (رح) سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرأت کو بغور سنتے تھے، آپ جب بھی (نماز میں) قرأت فرماتے تو وہ بھی آپ کے ساتھ پڑھتے تھے یہاں تک کہ سورة اعراف کی یہ آیت اتر آئی، ان روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مدینہ میں آئی ہے۔
آیت ٢٠٤ (وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ) - سَمِعَ ‘ یَسْمَعُ کے معنی ہیں سننا ‘ جبکہ اِسْتِمَاع کے معنی ہیں پوری توجہ کے ساتھ سننا ‘ کان لگا کر سننا۔ جو حضرات جہری نمازوں میں امام کے پیچھے قراءت نہ کرنے کے قائل ہیں وہ اسی آیت کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں ‘ کیونکہ اس آیت کی رو سے تلاوت قرآن کو پوری طرح ارتکاز توجہ کے ساتھ سننا فرض ہے اور ساتھ ہی خاموش رہنے کا حکم بھی ہے۔ جبکہ نماز کے دوران خود تلاوت کرنے کی صورت میں سننے کی طرف توجہ نہیں رہے گی اور خاموش رہنے کے حکم پر بھی عمل نہیں ہوگا ۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :153 یعنی یہ جو تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے تم لوگ قرآن کی آواز سنتے ہی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہو اور شور و غل برپا کرتے ہو تا کہ نہ خود سنو اور نہ کوئی دوسرا سن سکے ، اس روش کو چھوڑ دو اور غور سے سنو تو سہی کہ اس میں تعلیم کیا دی گئی ہے ۔ کیا عجب کہ اس کی تعلیم سے واقف ہو جانے کے بعد تم خود بھی اسی رحمت کے حصہ دار بن جاؤ جو ایمان لانے والوں کو نصیب ہو چکی ہے ۔ مخالفین کی طعن آمیز بات کے جواب میں یہ ایسا لطیف و شیریں اور ایسا دلوں کو مسخر کرنے والا انداز تبلیغ ہے کہ اس کی خوبی کسی طرح بیان کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ جو شخص حکمتِ تبلیغ سیکھنا چاہتا ہو وہ اگر غور کرے تو اس جواب میں بڑے سبق پاسکتا ہے ۔ اس آیت کا اصل مقصود تو وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے لیکن ضمناً اس سے یہ حکم بھی نکلتا ہے کہ جب خدا کا کلام پڑھا جا رہا ہو تو لوگوں کو ادب سے خاموش ہو جانا چاہیے اور توجہ کے ساتھ اسے سننا چاہیے ۔ اسی سے یہ بات بھی مُستَنبَط ہوتی ہے کہ امام جب نماز میں قرآن کی تلاوت کر رہا ہو تو مقتدیوں کو خاموشی کے ساتھ اس کی سماعت کرنی چاہیے ۔ لیکن اس مسئلہ میں ائمہ کے درمیان اختلاف واقع ہوگیا ہے ۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا مسلک یہ ہے کہ جبری قرأت خواہ جہری ہو یا سِرّی ، مقتدیوں کو خاموش ہی رہنا چاہیے ۔ امام مالک اور امام احمد کی رائے یہ ہے کہ صرف جہری قرأت کی صورت میں مقتدیوں کو خاموش رہنا چاہیے ۔ لیکن امام شافعی اس طرف گئے ہیں کہ جہری اور سرّی دونوں صورتوں میں مقتدی کو قرأت کرنی چاہیے کیونکہ بعض احادیث کی بنا پر وہ سمجھے ہیں کہ جو شخص نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی ۔
104: اس آیت نے بتادیا کہ جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہو تو اسے سننے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ البتہ تلاوت کرنے والے کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ایسے مقامات پر بلند آواز سے تلاوت نہ کرے جہاں لوگ اپنے کاموں میں مشغول ہوں۔ ایسی صورت میں اگر لوت تلاوت کی طرف دھیان نہیں دیں گے تو اس کا گناہ تلاوت کرنے والے کو ہوگا۔