Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ کی یاد بکثرت کرو مگر خاموشی سے اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے کہ صبح شام اس کی بکثرت یاد کر ۔ یہاں بھی یہ فرمایا اور جگہ بھی ہے آیت ( فسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب ) یعنی اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کیا کرو سورج طلوع اور سورج غروب ہونے سے پہلے ۔ یہ آیت مکیہ ہے اور یہ حکم معراج سے پہلے کا ہے غدو کہتے ہیں دن کے ابتدائی حصے کو اصال جمع ہے اصیل کی ۔ جیسے کہ ایمان جمع ہے یمین کی ۔ حکم دیا کہ رغبت ، لالچ اور ڈر خوف کے ساتھ اللہ کی یاد اپنے دل میں اپنی زبان سے کرتے رہو چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں ۔ اسی لئے مستحب یہی ہے کہ پکار کے ساتھ اللہ کی یاد اپنے دل میں اپنی زبان سے کرتے رہو چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں ۔ اسی لئے مستحب یہی ہے کہ پکار کے ساتھ اور چلا چلا کر اللہ کا ذکر نہ کیا جائے ۔ صحابہ نے جب حضور سے سوال کیا کہ کیا ہمارا رب قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی چپکے چپکے کر لیا کریں یا دور ہے کہ ہم پکار پکار کر آوازیں دیں ؟ تو اللہ تعالیٰ جل و علا نے یہ آیت اتاری ( واذا سألک عبادی عنی الخ ) ، جب میرے بندے تجھ سے میری بابت سوال کریں تو جواب دے کہ میں بہت ہی نزدیک ہوں ۔ دعا کرنے والے کی دعا کو جب بھی وہ مجھ سے دعا کرے قبول فرمالیا کرتا ہوں ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ لوگوں نے ایک سفر میں باآواز بلند دعائیں کرنی شروع کیں تو آپ نے فرمایا لوگو اپنی جانوں پر ترس کھاؤ تم کسی بہرے کو یا کسی غائب کو نہیں پکار رہے جسے تم پکارتے ہو وہ تو بہت ہی پست آواز سننے والا اور بہت ہی قریب ہے تمہاری سواری کی گردن جتنی تم سے قریب ہے اس سے بھی زیادہ وہ تم سے نزدیک ہے ، ہو سکتا ہے کہ مراد اس آیت سے بھی وہی ہو جو آیت ( ولا تجھر بصلاتک الخ ) ، سے ہے ۔ مشرکین قرآن سن کر قرآن کو جبرائل کو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور خود اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے لگتے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ نہ تو آپ اس قدر بلند آواز سے پڑھیں کہ مشرکین چڑ کر بکنے جھکنے لگیں نہ اس قدر پست آواز سے پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ اس کے درمیان کا راستہ ڈھونڈ نکالیں یعنی نہ بہت بلند نہ بہت آہستہ ۔ یہاں بھی فرمایا کہ بہت بلند آواز سے نہ ہو اور غافل نہ بننا ۔ امام ابن جریر اور ان سے پہلے حضرت عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے فرمایا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اوپر کی آیت میں قرآن کے سننے والے کو جو خاموشی کا حکم تھا اسی کو دہرایا جا رہا ہے کہ اللہ کا ذکر اپنی زبان سے اپنے دل میں کیا کرو ۔ لیکن یہ بعید ہے اور انصاف کے منافی ہے جس کا حکم فرمایا گیا ہے اور یہ کہ مراد اس سے یا تو نماز میں ہے یا نماز اور خطبے میں اور یہ ظاہر ہے کہ اس وقت خاموشی بہ نسبت ذکر ربانی کے افضل ہے ۔ خواہ وہ پوشیدہ ہو خواہ ظاہر پس ان دونوں کی متابعت نہیں کی گئی ۔ پس مراد اس سے بندوں کو صبح شام ذکر کی کثرت کی رغبت دلانا ہے تاکہ وہ غافلوں میں سے نہ ہو جائیں ۔ ( ان دونوں بزرگوں کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عباس وغیرہ کا بھی یہی فرمان ہے ۔ تفسیر بیضاوی وغیرہ میں بھی یہی ہے دونوں آیتوں کے ظاہری ربط کا تقاضا بھی یہی ہے واللہ اعلم ) اسی لئے فرشتوں کی تعریف بیان ہوئی کہ وہ رات دن اللہ کی تسبیح میں لگے رہتے ہیں بالکل تھکتے نہیں ۔ پس فرماتا ہے کہ جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے ۔ ان کا ذکر اس لئے کیا کہ اس کثرت عبادت و اطاعت میں ان کی اقتدا کی جائے ، اسی لئے ہمارے لئے بھی شریعت نے سجدہ مقرر کیا فرشتے بھی سجدہ کرتے رہتے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے تم اسی طرح صفیں کیوں نہیں باندھتے جیسے کہ فرشتے اپنے رب کے پاس صفیں باندھتے ہیں کہ وہ پہلے اول صف کو پورا کرتے ہیں اور صفوں میں ذرا سی بھی گنجائش اور جگہ باقی نہیں چھوڑتے ۔ اس آیت پر اجماع کے ساتھ سجدہ واجب ہے پڑھنے والے پر بھی اور سننے والے پر بھی ۔ قرآن میں تلاوت کا پہلا سجدہ یہی ہے ۔ ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کو سجدے کی آیتوں میں سے گنا ۔ الحمد اللہ سورہ اعراف کی تفسیر ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٠٣] تلاوت قرآن کے آداب :۔ صبح و شام سے مراد یہ دونوں مخصوص وقت بھی ہوسکتے ہیں اور صبح و شام کی نمازیں بھی اور صبح و شام بطور محاورہ استعمال ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر وقت اللہ کو یاد کرتے رہنا یا دل میں اس کی یاد رکھنا چاہیے۔ اسی طرح ذکر سے مراد قرآن کریم کی تلاوت بھی ہوسکتی ہے کیونکہ سب سے بڑا ذکر تو خود قرآن کریم ہے اور نمازیں بھی ہوسکتی ہیں جن میں اللہ کو یاد کیا جاتا ہے اور ہر وقت دل میں یاد رکھنا بھی مراد ہوسکتا ہے اور جس ذکر میں دل اور زبان دونوں مشغول ہوں تو دل میں عاجزی اور خضوع ہونا چاہیے اور آواز پست ہونا چاہیے خواہ یہ ذکر جہراً ہی کیا جا رہا ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا یہی تقاضا ہے۔- [٢٠٤] سب سے بڑی غفلت تو یہی ہے کہ انسان یہ بھول جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اس دنیا میں جو دارالامتحان ہے اسے اللہ کا بندہ بن کر ہی رہنا چاہیے۔ نیز یہ بھول جائے کہ آخرت میں اس کے سب اعمال پر جواب طلبی اور مواخذہ ہوگا۔ دنیا میں جب بھی کوئی فتنہ و فساد پیدا ہوا ہے تو اسی قسم کی غفلت سے پیدا ہوا ہے اسی لیے مسلمانوں کو بار بار تاکید کی جا رہی ہے کہ انہیں کسی وقت بھی ایسی غفلت میں نہ رہنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہنا چاہیے جو اس غفلت کا صحیح علاج ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِك۔۔ : ” بِالْغُدُوِّ “ سے مراد فجر سے لے کر سورج طلوع ہونے تک کا وقت ہے اور ” الْاٰصَالِ “ ” اَصِیْلٌ“ کی جمع ہے، جیسے ” اَیْمَانٌ“ ” یَمِیْنٌ“ کی جمع ہے، اس سے مراد عصر سے لے کر مغرب تک کا وقت ہے۔ ان اوقات میں دل کی حاضری کے ساتھ اللہ کا ذکر غفلت دور کرنے میں بیحد مفید ہے۔ بعض اوقات صبح و شام بول کر ہر وقت بھی مراد لیا جاتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کی تاکید اور اس کے آداب بیان ہوئے ہیں : 1 ” فِيْ نَفْسِكَ “ ذکر دل کے ساتھ کرے، صرف زبان چل رہی ہو اور دل حاضر نہ ہو تو خاص فائدہ نہیں۔ 2 ” تَضَرُّعًا “ ذکر خوب عاجزی کے ساتھ اور گڑ گڑا کر کیا جائے۔ 3 ” خِيْفَةً ‘ اللہ کا خوف دل پر طاری ہو اور اپنی عملی کوتاہی اور اللہ تعالیٰ کی گرفت کا ڈر ہو۔ 4 ” َدُوْنَ الْجَــهْرِ مِنَ الْقَوْلِ “ اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک تو یہ کہ آواز کے بغیر ہو، کیونکہ یہ اخلاص سے قریب اور ریا سے دور ہے۔ دوسرا یہ کہ ذکر اور قرآن کی تلاوت نہ بالکل آہستہ ہو نہ بہت بلند آواز سے، بلکہ درمیانی آواز کے ساتھ پڑھا جائے۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١١٠) اور جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز تہجد میں ابوبکر (رض) کو آواز کچھ بلند کرنے اور عمر (رض) کو کچھ پست کرنے کا حکم دیا تھا۔ [ أبوداوٗد، التطوع، باب فی رفع الصوت۔۔ : ١٣٢٩ ] دونوں صورتوں میں دل کی حاضری کے ساتھ زبان سے الفاظ کا ادا ہونا بھی ضروری ہے، صرف دل میں ذکر کو فکر کہتے ہیں، ذکر نہیں۔ اگر کوئی شخص نماز صرف دل سے پڑھتا جائے، زبان سے الفاظ ادا نہ کرے تو اس کی نماز نہیں ہوگی۔ 5 ” وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ “ ذکر ہر وقت جاری رہے، خصوصاً صبح و شام کے اوقات میں اور کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ ہو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور (آپ ہر شخص سے یہ بھی کہہ دیجئے) اے شخص اپنے رب کی یاد کیا کر (قرآن سے یا تسبیح وغیرہ سے خواہ) اپنے دل میں (یعنی آہستہ آواز سے) عاجزی کے ساتھ اور (خواہ) زور کی آواز نسبت کم آواز کے ساتھ (اسی عاجزی اور خوف کے ساتھ) صبح و شام (یعنی علی الدوام) اور (دوام کا مطلب یہ ہے کہ) اہل غفلت میں شمار مت ہونا ( کہ اذکار مامور بہا بھی ترک کردو) یقینا جو (ملائکہ) تیرے رب کے نزدیک (مقرب) ہیں اس کی عبادت سے ( جس میں اصلی عقائد ہیں) تکبر نہیں کرتے اور اس کی پاکی بیان کرتے ہیں (جو کہ اطاعت لسانی ہے) اور اس کو سجدہ کرتے ہیں (جو کہ اعمال جوارح سے ہے) ۔- معارف و مسائل - ان سے پہلی آیات میں قرآن مجید سننے کا ذکر اور اس کے آداب کا بیان تھا، ان دو آیتوں میں جمہور کے نزدیک مطلق ذکر اللہ کا حکم اور اس کے آداب کا بیان ہے جس میں تلاوت قرآن بھی شامل ہے، اور حضرت عبداللہ بن عباس کے نزدیک اس میں بھی ذکر سے مراد قرآن ہی ہے اور جو آداب اس میں بیان ہوئے ہیں وہ بھی تلاوت قرآن ہی سے متعلق ہیں، لیکن یہ کوئی اختلاف نہیں کیونکہ علاوہ قرآن کے دوسرے اذکار کا بھی سب کے نزدیک یہی حکم اور یہی آداب ہیں۔- خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں انسان کو اللہ کی یاد اور ذکر کا حکم اور اس کے ساتھ اس کے اوقات اور آداب کا بیان ہے۔- ذکر خفی اور ذکر جہر کے احکام : - پہلا ادب ذکر کے آہستہ یا بلند آواز سے کرنے کے متعلق ہے اس کے بارے میں قرآن کریم نے اس آیت میں دو طرح کا اختیار دیا ہے، ذکر خفی اور ذکر جہر۔ ذکر خفی کے بارے میں فرمایا (آیت) وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ یعنی اپنے رب کو یاد کیا کرو اپنے دل میں، اس کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ بغیر زبان کی حرکت کے صرف دل میں دھیان اور خیال اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا رکھے جس کو ذکر قلبی یا تفکر کہا جاتا ہے، دوسرے یہ کہ اس کے ساتھ زبان سے بھی آہستہ آواز میں اسماء الہیہ کے حروف ادا کرے، سب سے افضل اور بہتر صورت یہی ہے کہ جو ذکر کررہا ہے اس کے مفہوم کو سمجھ کر دل میں بھی اس کا پورا استحضار اور دھیان ہو اور زبان سے بھی ادا کرے کیونکہ اس صورت میں قلب کے ساتھ زبان بھی ذکر میں شریک ہوجاتی ہے اور اگر صرف دل میں دھیان اور تفکر میں مشغول رہے زبان سے کوئی حرف ادا نہ کرے وہ بھی بڑا ثواب ہے اور سب سے کم درجہ اس کا ہے کہ صرف زبان پر ذکر ہو اور قلب اس سے خالی اور غافل ہو، ایسے ہی ذکر کو مولانا رومی نے فرمایا ہے :- بر زباں تسبیح و در دل گاؤ خر ایں چنیں تسبیح کے دارد اثر - اور مقصد مولانا رومی کا یہ ہے کہ قلب غافل کے ذکر کرنے سے ذکر کے آثار و برکات کامل حاصل نہیں ہوتے، اس کا انکار نہیں کہ یہ صرف زبانی ذکر بھی ثواب اور فائدہ سے خالی نہیں، کیونکہ بعض اوقات یہ زبانی ذکر ہی قلبی ذکر کا ذریعہ اور سبب بن جاتا ہے، زبان سے کہتے کہتے قلب بھی متاثر ہونے لگتا ہے اور کم از کم ایک عضو تو ذکر میں مشغول ہے ہی، وہ بھی ثواب سے خالی نہیں، اس لئے جن لوگوں کو ذکر و تسبیح میں دل جمعی اور دھیان اور استحضار نہیں ہوتا وہ بھی ایسے ذکر کو بےفائدہ سمجھ کر چھوڑیں نہیں، جاری رکھیں اور استحضار کی کوشش کرتے رہیں۔- دوسرا طریقہ ذکر کا اسی آیت میں یہ بتلایا (آیت) وَّدُوْنَ الْجَــهْرِ مِنَ الْقَوْلِ ، یعنی زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ یعنی ذکر اللہ میں مشغول ہونے والے کو یہ بھی اختیار ہے کہ آواز سے ذکر کرے مگر اس کا ادب یہ ہے کہ بہت زور سے چیخ کر نہ کرے متوسط آواز کے ساتھ کرے جس میں ادب و احترام ملحوظ رہے، بہت زور سے ذکر و تلاوت کرنا اس کی علامت ہوتی ہے کہ مخاطب کا ادب و احترام اس کے دل میں نہیں، جس ہستی کا ادب و احترام اور رعب انسان کے دل میں ہوتا ہے اس کے سامنے طبعی طور پر انسان بہت بلند آواز سے نہیں بول سکتا، اس لئے عام ذکر اللہ ہو یا تلاوت قرآن جب آواز سے پڑھا جائے تو اس کی رعایت رکھنا چاہئے کہ ضرورت سے زائد آواز بلند نہ ہو۔ - خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت سے ذکر اللہ اور تلاوت قرآن کے تین طریقے حاصل ہوئے، ایک یہ کہ صرف ذکر قلبی یعنی معانی قرآن اور معانی ذکر کے تصور اور تفکر پر اکتفاء کرے، زبان کو بالکل حرکت نہ ہو، دوسرے یہ کہ اس کے ساتھ زبان کو بھی حرکت دے مگر آواز بلند نہ ہو جس کو دوسرے آدمی سن سکیں، یہ دونوں طریقے ذکر کے ارشاد ربانی (آیت) وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ میں داخل ہیں اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ استحضار قلب اور دھیان کے ساتھ زبان کی حرکت بھی ہو اور آواز بھی، مگر اس طریق کے لئے ادب یہ ہے کہ آواز کو زیادہ بلند نہ کرے، متوسط حد سے آگے نہ بڑھائے، یہ طریقہ ارشاد قرآنی (آیت) وَّدُوْنَ الْجَــهْرِ مِنَ الْقَوْلِ میں تلقین فرمایا گیا ہے، قرآن کریم کی ایک دوسرے آیت نے اس کی مزید وضاحت ان لفظوں میں فرمائی ہے، (آیت) ۚ وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا، اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہے کہ اپنی قرأت میں نہ زیادہ جہر کیا کریں اور نہ بالکل اخفاء بلکہ جہر اور اخفاء کے درمیانی کیفیت رکھا کریں۔- نماز میں قرأت قرآن کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صدیق اکبر اور فاروق اعظم (رض) کو یہی ہدایت فرمائی۔- صحیح حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخر رات میں گھر سے نکلے، حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے مکان پر پہنچے تو دیکھا کہ وہ نماز میں مشغول تھے مگر تلاوت آہستہ کررہے تھے، پھر حضر عمر بن خطاب (رض) کے مکان پر پہنچے تو دیکھا کہ بہت بلند آواز سے تلاوت کر رہے تھے، جب صبح کو یہ دونوں حضرات حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے صدیق اکبر سے فرمایا کہ میں رات تمہارے پاس گیا تو دیکھا کہ تم پست آواز سے تلاوت آپ کر رہے تھے، صدیق نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے جس ذات کو سنانا تھا اس نے سن لیا یہ کافی ہے، اسی طرح فاروق اعظم سے فرمایا کہ آپ بلند آواز سے تلاوت کررہے تھے، انہوں نے عرض کیا کہ قرأت میں جہر کرنے سے میرا مقصد یہ تھا کہ نیند کا غلبہ نہ رہے اور شیطان اس کی آواز سے بھاگے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ فیصلہ فرمایا کہ صدیق اکبر کو یہ ہدایت کی کہ ذرا کچھ آواز بلند کیا کریں اور فاروق اعظم کو یہ کہ کچھ پست کیا کریں۔ ( ابوداؤد) - ترمذی میں روایت ہے کہ حضرت عائشہ (رض) سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاوت کے بارے میں بعض حضرات نے سوال کیا کہ جہرا کرتے تھے یا سِرًّا ؟ انہوں نے فرمایا کہ کبھی جہرا کبھی سرا دونوں طرح تلاوت فرماتے تھے۔- رات کی نفل نماز میں اور خارج نماز تلاوت میں بعض حضرات نے جہر پسند کیا بعض نے آہستہ کو، اسی لئے امام اعظم ابوحنیفہ نے فرمایا کہ تلاوت کرنے والے کو اختیار ہے جس طرح چاہے تلاوت کرے، البتہ آواز سے تلاوت کرنے میں چند شرائط سب کے نزدیک ضروری ہیں، اول یہ کہ اس میں نام و نمود اور ریاء کا اندیشہ نہ ہو، دوسرے اس کی آواز سے دوسرے لوگوں کا حرج یا تکلیف نہ ہو، کسی دوسرے شخص کی نماز و تلاوت یا کام میں یا آرام میں خلل انداز نہ ہو، اور جہاں نام و نمود اور ریاء کا یا دوسرے لوگوں کے کام یا آرام میں خلل کا اندیشہ ہو تو سب کے نزدیک آہستہ ہی پڑھنا افضل ہے۔- اور جو حکم تلاوت قرآن کا ہے وہی دوسرے اذکار و تسبیح کا ہے کہ آہستہ اور بلند آواز سے دونوں طرح جائز ہے بشرطیکہ آواز اتنی بلند نہ ہو جو خشوع و خضوع اور ادب کے خلاف ہو نیز اس کی آواز سے دوسرے لوگوں کے کام یا آرام میں خلل نہ آتا ہو۔ - اور اس کا فیصلہ کہ سراً اور جہراً میں سے افضل کیا ہے، اشخاص اور حالات کے اعتبار سے مختلف ہے، بعض لوگوں کے لئے جہر بہتر ہوتا ہے بعض کے لئے آہستہ، نیز بعض اوقات جہر بہتر ہوتا ہے بعض وقت سرا، (تفسیر مظہری و روح البیان وغیرہ) - دوسرا ادب تلاوت اور ذکر کا یہ ہے کہ عاجزی اور تضرع کے ساتھ ذکر کیا جاوے جو نتیجہ اس کا ہوتا ہے کہ انسان کو حق تعالیٰ کی عظمت و جلال مستحضر ہو اور جو ذکر کررہا ہے اس کے معنی و مفہوم پر نظر ہو۔ - تیسرا ادب اسی آیت میں لفظ خیفہ سے یہ بتلایا گیا کہ ذکر و تلاوت کے وقت انسان پر ہیبت اور خوف کی کیفیت ہونا چاہئے، خوف اس کا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت اور عظمت کا حق ادا نہیں کرسکتے، ممکن ہے کہ ہم سے کوئی بےادبی ہوجائے، نیز اپنے گناہوں کے استحضار سے عذاب الہی کا خوف نیز انجام اور خاتمہ کا خوف کہ معلوم نہیں ہمارا خاتمہ کس حال پر ہونا ہے، بہرحال ذکر و تلاوت اس طرح کیا جائے جیسے کوئی ہیبت زدہ ڈرنے والا کیا کرتا ہے۔- یہی آداب دعا اسی سورة اعراف کے شروع میں بھی ایک آیت میں اس طرح آئے ہیں (آیت) اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ، اس میں خیفة کے بجائے خفیة کا لفظ آیا ہے جس کے معنی آہستہ آواز سے ذکر کرنے کے ہیں، گویا ذکر و تلاوت کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ آہستہ پست آواز سے کیا جائے، لیکن اس آیت نے اس کے معنی بھی واضح کردیئے کہ اگرچہ آواز سے ذکر کرنا بھی ممنوع نہیں، مگر شرط یہ ہے کہ ضرورت سے زائد آواز بلند کرے، نیز اتنی بلند نہ کرے جس میں خشوع خضوع اور عاجزی و تضرع کی کیفیت جاتی رہے۔- آخر آیت میں ذکر و تلاوت کے اوقات بتلائے کہ صبح و شام ہونا چاہئے اس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ کم از کم دن میں دو مرتبہ صبح اور شام ذکر اللہ میں مشغول ہونا چاہئے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صبح شام بول کر مراد تمام لیل و نہار کے اوقات ہوں جیسے مشرق مغرب بول کر سارا عالم مراد لیا جاتا ہے، اس صورت میں معنی آیت کے یہ ہوں گے کہ انسان پر لازم ہے کہ ہمیشہ ہر حال میں ذکر و تلاوت کا پابند رہے، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر وقت ہر حال میں اللہ کی یاد میں مشغول رہتے تھے۔ - آخر آیت میں فرمایا (آیت) وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ ، یعنی اللہ کی یاد کو چھوڑ کر غفلت والوں میں شامل نہ ہوجانا کہ یہ بہت بڑا خسارہ ہے۔- دوسری آیت میں لوگوں کی عبرت و نصیحت کے لئے مقربان بارگاہ الہی کا ایک مخصوص حال بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ کے پاس ہونے سے مراد اللہ تعالیٰ کا مقبول ہونا ہے، جس میں سب فرشتے اور تمام انبیاء (علیہم السلام) اور صالحین امت شامل ہیں، اور تکبر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھ کر ان عبادات میں قصور نہیں کرتے بلکہ اپنے کو عاجز و محتاج سمجھ کر ہمیشہ اللہ کی یاد اور عبادت میں مشغول اور تسبیح کرتے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے رہتے ہیں۔- اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو دائمی عبادت اور یاد خدا کی توفیق ہوتی ہے تو یہ اس کی علامت ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کے پاس ہیں اور اللہ تعالیٰ کی معیت ان کو حاصل ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَــہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ۝ ٢٠٥- ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] ، وقوله :- هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] ، أي :- شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] ، أي : الکتب المتقدّمة .- وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه .- وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) .- ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ- [ الكهف 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] ، وقوله :- فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته،- ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔- ضرع - الضَّرْعُ : ضَرْعُ الناقةِ ، والشاة، وغیرهما، وأَضْرَعَتِ الشاةُ : نزل اللّبن في ضَرْعِهَا لقرب نتاجها، وذلک نحو : أتمر، وألبن : إذا کثر تمره ولبنه، وشاةٌ ضَرِيعٌ: عظیمةُ الضَّرْعِ ، وأما قوله : لَيْسَ لَهُمْ طَعامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ [ الغاشية 6] ، فقیل : هو يَبِيسُ الشَّبْرَقِ «1» ، وقیل : نباتٌ أحمرُ منتنُ الرّيحِ يرمي به البحر، وكيفما کان فإشارة إلى شيء منكر . وضَرَعَ إليهم : تناول ضَرْعَ أُمِّهِ ، وقیل منه : ضَرَعَ الرّجلُ ضَرَاعَةً : ضَعُفَ وذَلَّ ، فهو ضَارِعٌ ، وضَرِعٌ ، وتَضَرّعَ :- أظهر الضَّرَاعَةَ. قال تعالی: تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأنعام 63] ، لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ- [ الأنعام 42] ، لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ [ الأعراف 94] ، أي : يَتَضَرَّعُونَ فأدغم، فَلَوْلا إِذْ جاءَهُمْ بَأْسُنا تَضَرَّعُوا[ الأنعام 43] ، والمُضَارَعَةُ أصلُها : التّشارک في الضَّرَاعَةِ ، ثمّ جرّد للمشارکة، ومنه استعار النّحويّون لفظَ الفعلِ المُضَارِعِ.- ( ض ر ع ) الضرع اونٹنی اور بکری وغیرہ کے تھن اضرعت الشاۃ قرب دلادت کی وجہ سے بکری کے تھنوں میں دودھ اتر آیا یہ اتمر والبن کی طرح کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں زیادہ دودھ یا کھجوروں والا ہونا اور شاۃ ضریع کے معنی بڑے تھنوں والی بکری کے ہیں مگر آیت کریمہ : ۔ لَيْسَ لَهُمْ طَعامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ [ الغاشية 6] اور خار جھاڑ کے سوا ان کے لئے کوئی کھانا نہیں ہوگا میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں ضریع سے خشک شبرق مراد ہے اور بعض نے سرخ بدبو دار گھاس مراد لی ہے ۔ جسے سمندر باہر پھینک دیتا ہے بہر حال جو معنی بھی کیا جائے اس سے کسی مکرو ہ چیز کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔ ضرع البھم چوپایہ کے بچہ نے اپنی ماں کے تھن کو منہ میں لے لیا بعض کے نزدیک اسی سے ضرع الرجل ضراعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی کمزور ہونے اور ذلت کا اظہار کرنے کے ہیں الضارع والضرع ( صفت فاعلی کمزور اور نحیف آدمی تضرع اس نے عجز وتزلل کا اظہار کیا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأنعام 63] عاجزی اور نیاز پنہانی سے ۔ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ [ الأنعام 42] تاکہ عاجزی کریں لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ [ الأعراف 94] تاکہ اور زاری کریں ۔ یہ اصل میں یتضرعون ہے تاء کو ضاد میں ادغام کردیا گیا ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ فَلَوْلا إِذْ جاءَهُمْ بَأْسُنا تَضَرَّعُوا[ الأنعام 43] تو جب ان پر ہمارا عذاب آتا رہا کیوں نہیں عاجزی کرتے رہے ۔ المضارعۃ کے اصل معنی ضراعۃ یعنی عمز و تذلل میں باہم شریک ہونے کے ہیں ۔ پھر محض شرکت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے اسی سے علماء نحو نے الفعل المضارع کی اصطلاح قائم کی ہے کیونکہ اس میں دوز مانے پائے جاتے ہیں )- خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- جهر - جَهْر يقال لظهور الشیء بإفراط حاسة البصر أو حاسة السمع .- أمّا البصر فنحو : رأيته جِهَارا، قال اللہ تعالی: لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة 55] ، أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] - ( ج ھ ر ) الجھر - ( ف) اس کے اصل معنی کسی چیز کا حاسہ سمع یا بصر میں افراط کے سبب پوری طرح ظاہر اور نمایاں ہونے کے ہیں چناچہ حاسہ بصر یعنی نظروں کے سامنے کسی چیز کے ظاہر ہونے کے متعلق کہا جاتا ہے رایتہ جھرا کہ میں نے اسے کھلم کھلا دیکھا قرآن میں ہے :۔ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة 55] کہ جب تک ہم خدا کو سامنے نمایاں طور پر نہ دیکھ لیں تم پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ - أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] ہمیں نمایاں اور ظاہر طور پر خدا دکھا دو ۔- غدا - الْغُدْوَةُ والغَدَاةُ من أول النهار، وقوبل في القرآن الغُدُوُّ بالآصال، نحو قوله : بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ- [ الأعراف 205] ، وقوبل الغَدَاةُ بالعشيّ ، قال : بِالْغَداةِ وَالْعَشِيِ [ الأنعام 52] ، غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ [ سبأ 12] - ( غ د و ) الغدوۃ - والغداۃ کے معنی دن کا ابتدائی حصہ کے ہیں قرآن میں غدو ( غدوۃ کی جمع ) کے مقابلہ میں اصال استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : ۔ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف 205] صبح وشام ( یا د کرتے رہو ) ( غدو ( مصدر ) رواح کے مقابلہ میں ) جیسے فرمایا : ۔ غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ [ سبأ 12] اس کا صبح کا جانا ایک مہینہ کی راہ ہوتی ہے اور شام کا جانا بھی ایک مہینے کی ۔- أصل - وأَصْلُ الشیء : قاعدته التي لو توهّمت مرتفعة لارتفع بارتفاعه سائره لذلک، قال تعالی:- أَصْلُها ثابِتٌ وَفَرْعُها فِي السَّماءِ [إبراهيم 24] ، وقد تَأَصَّلَ كذا وأَصَّلَهُ ، ومجد أصيل، وفلان لا أصل له ولا فصل . بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف 205] أي : العشایا، يقال للعشية : أَصِيل وأَصِيلَة، فجمع الأصيل أُصُل وآصَال، وجمع الأصيلة : أَصَائِل، وقال تعالی: بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفتح 9] .- ( ا ص ل ) اصل - الشئی ( جڑ ) کسی چیز کی اس بنیاد کو کہتے ہیں کہ اگر اس کا ارتفاع فرض کیا جائے تو اس شئے کا باقی حصہ بھی معلوم ہوجائے قرآن میں ہے : أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء [إبراهيم : 24] (14 ۔ 25) اس کی جڑ زمین میں ) پختگی سے جمی ہے اور شاخیں آسمان میں ۔ اور تاصل کذا کے معنی کسی چیز کے جڑ پکڑنا ہیں اس سے اصل اور خاندانی بزرگی مجد اصیل کہا جاتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ فلان لااصل لہ ولا فصل یعنی نیست اور احسب ونہ زبان ۔ الاصیل والاصیلۃ کے معنی ( عشیۃ ) عصر اور مغرب کے درمیانی وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الأحزاب : 42] اور صبح و شام کی تسبیح بیان کرتے رہو۔ اصیل کی جمع اصل واٰصال اور اصیلۃ کی جمع اصائل ہے قرآن میں ہے ۔- غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٠٥) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ امام ہوں تو صرف آپ ہی عاجزی اور خوف کے ساتھ قرأت کیجیے، زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ صبح وشام یعنی صبح کی نماز اور مغرب و عشاء کی نمازوں میں اور اگر آپ اکیلے ہوں یاتنہا نماز پڑھ رہے ہوں تو نماز میں قرآن حکیم کی قرأت کو نہ چھوڑیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠٥ (وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً ) - اس عاجزی کی انتہا اور عبدیت کاملہ کا مظہر تو وہ دعائے ماثور ہے جو میں نے نقل کی ہے مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق نامی اپنے کتابچے کے آخر میں۔ ان دونوں آیات (قرآن کی عظمت اور دعا میں عاجزی) کے حوالے سے اس دعا کے مندرجہ ذیل الفاظ کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں اتارنے کی کوشش کریں :- اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ عَبْدُکَ اے اللہ میں تیرا بندہ ہوں - وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ اَمَتِکَ تیرے ایک ناچیز غلام اور ادنیٰ کنیز کا بیٹا ہوں - وَفِیْ قَبْضَتِکَ ‘ نَا صِیَتِیْ بِیَدِکَ اور مجھ پر تیرا ہی کامل اختیار ہے ‘ میری پیشانی تیرے ہی ہاتھ ہے۔ - مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ ‘ عَدْلٌ فِیَّ قَضَاءُ کَ نافذ ہے میرے بارے میں تیرا ہر حکم ‘ اور عدل ہے میرے بارے میں تیرا ہر فیصلہ۔ - اَسْءَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ھُوَ لَکَ ‘ سَمَّیْتَ بہٖ نَفْسَکَ میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں تیرے ہر اس اسم کے واسطے سے جس سے تو نے اپنی ذات مقدس کو موسوم فرمایا - اَوْ اَنْزَلْتَہٗ فِیْ کِتَابِکَ یا اپنی کسی کتاب میں نازل فرمایا - اَوْ عَلَّمْتَہٗ اَحَدً ا مِنْ خَلْقِکَ یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو تلقین فرمایا - اَوِاسْتَأثَرْتَِ بہٖ فِیْ مَکْنُوْنِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ یا اسے اپنے مخصوص خزانہ غیب ہی میں محفوظ رکھا - اَنْ تَجْعَلَ الْقُرْاٰنَ رَبِیْعَ قَلْبِیْ وَ نُوْرَ صَدْرِیْ وَجِلَا ءَ حُزْنِیْ وَ ذَھَابَ ھَمِّیْ وَ غَمِّیْ (١) کہ تو بنا دے قرآن مجید کو میرے دل کی بہار اور میرے سینے کا نور اور میرے رنج و حزن کی جلا اور میرے تفکرات اور غموں کے ازالے کا سبب - آمِیْن یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ ایسا ہی ہو اے تمام جہانوں کے پروردگار - (وَّدُوْنَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ ) - البتہ جب آدمی دعا مانگے تو اس طرح مانگے کہ خود سن سکے تاکہ اس کی سماعت بھی اس سے استفادہ کرے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہو تو قراءت ایسے کرے کہ خود سن سکے ‘ اگرچہ سری نماز ہی کیوں نہ ہو۔- (بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ ) (اور اس طرح آپ اپنے رب کا ذکر کرتے رہیں ) صبح کے وقت بھی اور شام کے اوقات میں بھی - جیسے سورة الانعام کی پہلی آیت کی تشریح کے ضمن میں ذکر آیا تھا کہ لفظ نور قرآن میں ہمیشہ واحد آتا ہے جبکہ ظُلُمات ہمیشہ جمع ہی آتا ہے ‘ اسی طرح لفظ غُدُوّ (صبح) بھی ہمیشہ واحد اور آصال (شام) ہمیشہ جمع ہی آتا ہے۔ یہ اَصِیل کی جمع ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ صبح کی نماز تو ایک ہی ہے یعنی فجر ‘ جبکہ سورج ذرا مغرب کی طرف ڈھلناشروع ہوتا ہے تو پے در پے نمازیں ہیں ‘ جو رات تک پڑھی جاتی رہتی ہیں یعنی ظہر ‘ عصر ‘ مغرب اور عشاء۔ سورة بنی اسرائیل کی آیت ٧٨ (اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ ) میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :154 یاد کرنے سے مراد نماز بھی ہے اور دوسری قسم کی یاد بھی ، خواہ وہ زبان سے ہو یا خیال سے ۔ صبح و شام سے مراد یہی دونوں وقت بھی ہیں اور ان اوقات میں اللہ کی یاد سے مقصود نماز ہے ، اور صبح و شام کا لفظ”دائماً“ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس سے مقصود ہمیشہ خدا کی یاد میں مشغول رہنا ہے ۔ یہ آخری نصیحت ہے جو خطبہ کو ختم کرتے ہوئے ارشاد فرمائی گئی ہے اور اس کی غرض یہ بیان کی گئی ہے کہ تمہارا حال کہیں غافلوں کا سا نہ ہو جائے ۔ دنیا میں جو کچھ گمراہی پھیلی ہے اور انسان کے اخلاق و اعمال میں جو فساد بھی رونما ہوا ہے اس کا سبب صرف یہ ہے کہ انسان اس بات کو بھول جاتا ہے کہ خدا اس کا رب ہے اور وہ خدا کا بندہ ہے اور دنیا میں اس کو آزمائش کے لیے بھیجا گیا ہے اور دنیا کی زندگی ختم ہونے کے بعد اسے اپنے رب کو حساب دینا ہوگا ۔ پس جو شخص راہ راست پر چلنا اور دنیا اس پر چلانا چاہتا ہو اس کو سخت اہتمام کرنا چاہیے کہ یہ بھول کہیں خود اس کو لاحق نہ ہو جائے ۔ اسی لیے نماز اور ذکر الہٰی اور دائمی توجہ الی اللہ کی بار بار تاکید کی گئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani