Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٠٥] کیونکہ اکڑنا شیطان کا کام ہے اس کے مقابلہ میں فرشتوں کا کام یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے، اپنی غلطی کا اعتراف کرتے اور ہر وقت اس کی تسبیح و تقدیس میں لگے رہتے ہیں جیسا کہ سورة بقرہ میں قصہ آدم (علیہ السلام) و ابلیس میں گزر چکا ہے۔- [٢٠٦] اس آیت کے اختتام پر مسلمانوں کو بھی سجدہ کا حکم دیا گیا ہے تاکہ اس کا حال بھی ملائکہ مقربین کے حال کے مطابق ہوجائے۔ چناچہ :- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب ابن آدم سجدہ کی آیت پڑھتا ہے اور سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتے ہوئے علیحدہ ہوجاتا ہے اور کہتا ہے میری بربادی، ابن آدم کو سجدہ کا حکم ملا تو اس نے سجدہ کیا اور اس کے لیے جنت ہے اور مجھے حکم ملا تو میں نے انکار کیا اور میرے لیے دوزخ ہے۔ (مسلم کتاب الایمان۔ باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلوۃ)- سجدہ ہائے تلاوت :۔ قرآن کریم میں ١٤ مقامات ہیں جہاں آیات سجدہ آئی ہیں۔ لیکن سجدہ تلاوت کے وجوب میں اختلاف ہے۔ بعض علماء اسے واجب سمجھتے ہیں اور بعض سنت یا مستحب۔ علاوہ ازیں بعض علماء کے نزدیک سجدہ تلاوت کے لیے نہ وضو ضروری ہے اور نہ قبلہ رخ ہونا اور نہ سلام پھیرنا، نیز یہ سواری پر بھی سر جھکانے سے ادا ہوجاتا ہے تاہم مستحب یہی ہے کہ سجدہ تلاوت بھی انہیں آداب کے ساتھ بجا لایا جائے جیسا کہ نماز میں سجدہ کیا جاتا ہے یعنی باوضو اور قبلہ رخ ہو کر ادا کیا جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ : شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” جب مقرب فرشتے بھی اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں تو انسان کو چاہیے کہ اس کے سوا اور کسی کو سجدہ نہ کرے۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

سجدہ کے بعض فضائل اور احکام :- یہاں عبادت نماز میں سے صرف سجدہ کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ تمام ارکان نماز میں سجدہ کو خاص فضیلت حاصل ہے۔- صحیح مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت ثوبان (رض) سے کہا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتلائیے جس سے میں جنت میں جاسکوں، حضرت ثوبان خاموش رہے، اس نے پھر سوال کیا، پھر بھی خاموش رہے، جب تیسری مرتبہ سوال کو دھرایا تو انہوں نے کہا کہ میں نے یہی سوال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تھا، آپ نے مجھے یہ وصیت فرمائی کہ کثرت سے سجدے کیا کرو کیونکہ جب تم ایک سجدہ کرتے ہو تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہارا ایک درجہ بڑھا دیتے ہیں اور ایک گناہ معاف فرما دیتے ہیں، یہ شخص کہتے ہیں کہ حضرت ثوبان کے بعد میں حضرت ابوالدرداء (رض) سے ملا تو ان سے بھی یہی سوال کیا، انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔- اور صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بندہ اپنے رب کے ساتھ سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب کہ بندہ سجدہ میں ہو، اس لئے تم سجدہ کی حالت میں خوب دعا کیا کرو کہ اس کے قبول ہونے کی بڑی امید ہے۔- یاد رہے کہ تنہا سجدہ کی کوئی عبادت معروف نہیں، اس لئے امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک کثرت سجود سے مراد یہ ہے کہ کثرت سے نوافل پڑھا کریں، جتنی نفلیں زیادہ ہوں گی سجدے زیادہ ہوں گے۔- لیکن اگر کوئی شخص تنہا سجدہ ہی کرکے دعا کرلے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں اور سجدہ میں دعا کرنے کی ہدایت نفلی نمازوں کے لئے مخصوص ہے فرائض میں نیہں۔- سورة اعراف ختم ہوئی، اس کی آخری آیت سجدہ ہے، صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ متقول ہے کہ جب کوئی آدم کا بیٹا کوئی آیت سجدہ پڑھتا ہے اور پھر سجدہ تلاوت کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا بھاگتا ہے اور کہتا ہے کہ ہائے افسوس انسان کو سجدہ کرنے کا حکم ملا اور اس نے تعمیل کرلی تو اس کا ٹھکانہ جنت ہوا، اور مجھے سجدہ کا حکم ہوا میں نے نافرمانی کی تو میرا ٹھکانہ جہنم ہوا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَيُسَبِّحُوْنَہٗ وَلَہٗ يَسْجُدُوْنَ۝ ٢٠٦ ۧ۞- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( اسعاے ل ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٠٦) اور فرشتے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اظہار عبودیت سے تکبر نہیں کرتے، ہر وقت اس کی اطاعت اور اس کے سامنے سر بسجود رہتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠٦ (اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ - یعنی ملأ اعلیٰ جو ملائکہ مقربین پر مشتمل ہے ‘ جس کا نقشہ امیر خسرو (رح) ؔ نے اپنے اس خوبصورت شعر میں اس طرح بیان کیا ہے :- خدا خود میر محفل بود اندر لامکاں خسروؔ - محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم - یعنی لامکاں کی وہ محفل جس کا میر محفل خود اللہ تعالیٰ ہے اور جہاں شرکائے محفل ملائکہ مقربین ہیں اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (روح محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اس محفل میں گویا چراغ اور شمع کی حیثیت حاصل ہے۔ امیر خسرو کہتے ہیں کہ رات مجھے بھی اس محفل میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ - (لاَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَیُسَبِّحُوْنَہٗ وَلَہٗ یَسْجُدُوْنَ )- بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم۔ ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :155 مطلب یہ ہے کہ بڑائی کا گھمنڈ اور بندگی سے منہ موڑنا شیاطین کا کام ہے اور اس کا نتیجہ پستی و تنزل ہے ۔ بخلاف اس کے خدا کے آگے جھکنا اور بندگی میں ثابت قدم رہنا ملکوتی فعل ہے اور اس کا نتیجہ ترقی و بلندی اور خدا سے تقرب ہے ۔ اگر تم اس ترقی کے خواہشمند ہو تو اپنے طرزِ عمل کو شیاطین کے بجائے ملائکہ کے طرزِ عمل کے مطابق بناؤ ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :156 تسبیح کرتے ہیں ، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا بے عیب اور بے تقص اور بے خطا ہونا ، ہر قسم کی کمزوریوں سے اس کا منزہ ہونا ، اور اس کا لا شریک اور بے مثل اور بے ہمتا ہونا دل سے مانتے ہیں ، اس کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں اور دائماً اس کے اظہار و اعلان میں مشعول رہتے ہیں ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :157 اس مقام پر حکم ہے کہ جو شخص اس آیت کو پڑھے یا سنے وہ سجدہ کرے تا کہ اس کا حال ملائکہ مقربین کے حال سے مطابق ہو جائے اور ساری کائنات کا انتظام چلانے والے کارکن جس خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں اسی کے آگے وہ بھی اس سب کے ساتھ جھک جائے اور اپنے عمل سے فوراً یہ ثابت کر دے کہ وہ نہ تو کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے اور نہ خدا کی بندگی سے منہ موڑنے والا ہے ۔ قرآن مجید میں ایسے ١٤ مقامات ہیں جہاں آیات سجدہ آئی ہیں ۔ ان آیات پر سجدہ کا مشروع ہونا تو متفق علیہ ہے مگر اس کے وجوب میں اختلاف ہے ۔ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سجدہ تلاوت کو واجب کہتے ہیں اور دوسرے علماء نے اس کو سنت قرار دیا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات ایک بڑے مجمع میں قرآن پڑھتے اور اس میں جب آیت سجدہ آتی تو آپ خود بھی سجدہ میں گر جاتے تھے اور جو شخص جہاں ہوتا وہیں سجدہ ریز ہوجاتا تھا ، حتیٰ کہ کسی کو سجدہ کرنے کے لیے جگہ نہ ملتی تو وہ اپنے آگے والے شخص کی پیٹھ پر سر رکھ دیتا ۔ یہ بھی روایات میں آیا ہے کہ آپ نے فتح مکہ کے موقع پر قرآن پڑھا اور اس میں جب آیت سجدہ آئی تو جو لوگ زمین پرکھڑے تھے انہوں نے زمین پر سجدہ کیا اور جو گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تھے وہ اپنی سواریوں پر ہی جھک گئے ۔ کبھی آپ نے دوران خطبہ میں آیت سجدہ پڑھی ہے تو منبر سے اتر کر سجدہ کیا ہے اور پھر اوپر جا کر خطبہ شروع کر دیا ہے ۔ اس سجدہ کے لیے جمہور اُنہی شرائط کے قائل ہیں جو نماز کی شرطیں ہیں ، یعنی یا وضو ہونا ، قبلہ رخ ہونا ، اور نماز کی طرح سجدے میں سر زمین پر رکھنا ۔ لیکن جتنی احایث سجود تلاوة کے باب میں ہم کو ملی ہیں ان میں کہیں ان شرطوں کے لئے کو ئی دلیل موجود نہیں ہے ۔ ان سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آیت سجدہ سن کر جو شخص جہاں جس حال میں ہو جھک جائے ، خواہ با وضو ہو یا نہ ہو ، خواہ استقبالِ قبلہ ممکن ہو یا نہ ہو ، خواہ زمین پر سر رکھنے کا موقع ہو یا نہ ہو ، سلف میں بھی ہم کو ایسی شخصیتیں ملتی ہیں جن کا عمل اس طریقے پر تھا ۔ چنانچہ امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن عمر کے متعلق لکھا ہے کہ وہ وضو کے بغیر سجدہ تلاوت کرتے تھے ۔ اور ابو عبدالرحمٰن سُلّمی کے متعلق فتح الباری میں لکھا ہے کہ وہ راستہ چلتے ہوئے قرآن مجید پڑھتے جاتے تھے اور اگر کہیں آیت سجدہ آجاتی تو بس سر جھکا لیتے تھے ، خواہ وضو ہو یا نہ ہو ، اور خواہ قبلہ رخ ہوں یا نہ ہوں ۔ ان وجوہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ اگرچہ زیادہ مبنی بر احتیاط مسلک جمہور ہی کا ہے ، لیکن اگر کوئی شخص جمہور کے مسلک کے خلاف عمل کرے تو اسے ملامت بھی نہیں کی جا سکتی ، کیونکہ جمہور کی تائید میں کوئی سنت ثابتہ موجود نہیں ہے ، اور سلف میں ایسے لوگ پائے گئے ہیں جن کا عمل جمہور کے مسلک سے مختلف تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

105: اس سے اشارہ ہے کہ اِنسانوں کو اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنے کا جو حکم دیا جا رہا ہے، اس میں (معاذ اللہ) اﷲ تعالیٰ کا کوئی فائدہ نہیں ہے، کیونکہ اوّل تو اﷲ تعالیٰ کسی مخلوق کی عبادت یا ذکر سے بے نیاز ہے، دوسرے اس کی ایک بڑی مخلوق یعنی فرشتے، ہر وقت اس کے ذکر میں مشغول ہیں۔ اِنسانوں کو جو ذکر کا حکم دیا گیا ہے، اس میں خود اِنسانوں کا فائدہ ہے کہ یہ ذکر جب دل میں سما جائے تو انہیں شیطان کے تصرفات سے محفوظ رکھنے کے لئے نہایت مفید ہے، اور اس کے ذریعے وہ گناہوں اور جرائم و مظالم سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ آیت سجدۂ تلاوت کی آیت ہے، اور جو شخص عربی میں یہ آیت پڑھے، اس پر سجدہ کرنا واجب ہے۔ البتہ آیت کو پڑھے بغیر صرف دیکھنے سے سجدہ واجب نہیں ہوتا، اور صرف ترجمہ زبان سے پڑھنے میں بھی احتیاطاً سجدہ کرلینا ضروری ہے۔ قرآنِ کریم میں ایسی چودہ آیتیں ہیں، اور یہ ان میں سب سے پہلی آیت ہے۔