لباس اور داڑھی جمال و جلال یہاں اللہ تعالیٰ اپنا احسان یاد دلاتا ہے کہ اس نے لباس اتارا اور ریش بھی ۔ لباس تو وہ ہے جس سے انسان اپنا ستر چھپائے اور ریش وہ ہے جو بطور زینت رونق اور جمال کے پہنا جائے ۔ اول تو ضروریات زندگی سے ہے اور ثانی زیادتی ہے ۔ ریش کے معنی مال کے بھی ہیں اور ظاہری پوشاک کے بھی ہیں اور جمال و خوش لباسی کے بھی ہیں ۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے نیا کرتہ پہنتے ہوئے جبکہ گلے تک وہ پہن لیا فرمایا دعا ( الحمد اللہ الذی کسانی ما اواری بہ عورتی و اتجمل بہ فی حیاتی ) پھر فرمانے لگے میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ہے فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو شخص نیا کپڑا پہنے اور اس کے گلے تک پہنچتے ہی یہ دعا پڑھے پھر پرانا کپڑا راہ للہ دے دے تو وہ اللہ کے ذمہ میں ، اللہ کی پناہ میں اور اللہ کی حفاظت میں آ جاتا ہے زندگی میں بھی اور بعد از مرگ بھی ( ترمذی ابن ماجہ وغیرہ ) مسند احمد میں ہے حضرت علی نے ایک نوجوان سے ایک کرتہ تین درہم کو خریدا اور اسے پہنا جب پہنچوں اور ٹخنوں تک پہنچا تو آپ نے یہ دعا پڑھی ( الحمد اللہ الذی رزقنی من ریاش ما اتجمل بہ فی الناس واواری بہ عورتی ) یہ دعا سن کر آپ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ نے اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ اسے کپڑا پہننے کے وقت پڑھتے تھے یا آپ از خود اسے پڑھ رہے ہیں؟ فرمایا میں نے اسے حضور سے سنا ہے لباس التقوی کی دوسری قرأت لباس التقوی سین کے زبر سے بھی ہے ۔ رفع سے پڑھنے والے اسے مبتدا کہتے ہیں اور اس کے بعد کا جملہ اس کی خبر ہے عکرمہ فرماتے ہیں اس سے مراد قیامت کے دن پرہیز گاروں کو جو لباس عطا ہو گا وہ ہے ۔ ابن جریج کا قول ہے لباس تقوی ایمان ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں عمل صالح ہے اور اسی سے ہنس مکھ ہوتا ہے ، عروہ کہتے ہیں مراد اس سے مشیت ربانی ہے ۔ عبدالرحمن کہتے ہیں اللہ کے ڈر سے اپنی ستر پوشی کرنا لباس تقویٰ ہے ۔ یہ کل اقوال آپس میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ مراد یہ سب کچھ ہے اور یہ سب چیزیں ملی جلی اور باہم یک دیگر قریب قریب ہیں ۔ ایک ضعیف سند والی روایت میں حضرت حسن سے مرقوم ہے کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو منبر نبوی پر کھلی گھنڈیوں کا کرتا پہنے ہوئے کھڑا دیکھا اس وقت آپ کتوں کے مار ڈالنے اور کبوتر بازی کی ممانعت کا حکم دے رہے تھے ۔ پھر آپ نے فرمایا لوگو اللہ سے ڈرو خصوصاً اپنی پوشیدگیوں میں اور چپکے چپکے کانا پھوسی کرنے میں ۔ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ قسم کھا کر بیان فرماتے تھے کہ جو شخص جس کام کو پوشیدہ سے پوشیدہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسی کی چادر اس پر علانیہ ڈال دے گا اگر نیک ہے تو نیک اور اگر بد ہے تو بد ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا اس سے مراد خوش خلقی ہے ۔ ہاں صحیح حدیث میں صرف اتنا مروی ہے کہ حضرت عثمان نے جمعہ کے دن منبر پر کتوں کے قتل کرنے اور کبوتروں کے ذبح کرنے کا حکم دیا ۔
26۔ 1 سَوْآت، ُ ، ُ جسم کے وہ حصے جنہیں چھپانا ضروری ہے جیسے شرم گاہ اور وہ لباس جو حسن و رعنائی کے لئے پہنا جائے۔ گویا لباس کی پہلی قسم ضروریات سے اور دوسری قسم تتمہ اضافہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں قسموں کے لباس کے لئے سامان اور مواد پیدا فرمایا۔ 26۔ 2 اس سے مراد بعض کے نزدیک وہ لباس ہے جو متقین قیامت والے دن پہنیں گے۔ بعض کے نزدیک ایمان، بعض کے نزدیک عمل صالح مشیت الٰہی وغیرہ ہیں۔ مفہوم سب کا تقریبًا ایک ہے کہ ایسالباس، جسے پہن کر انسان تکبر کرنے کی بجائے، اللہ سے ڈرے اور ایمان و عمل صالح کے تقاضوں کا اہتمام کرے۔ 26۔ 3 اس سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ زیب وزینت اور آرائش کے لئے بھی اگرچہ لباس پہننا جائز ہے، تاہم لباس میں ایسی سادگی زیادہ پسندیدہ ہے جو انسان کے زہد اور تقوے ٰ کی مظہر ہو۔ علاوہ ازیں نیا لباس پہن کر یہ دعا بھی پڑھی جائے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا پڑھا کرتے تھے : (واَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّزِیْ کَسَانِی مَائْو وَارِیْ بِہٖ عَوْرَبِّی وَاَتَجَمَّلْ بِہِ فِیْ حَیَاتِیْ ) تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے ایسا لباس پہنایا جس میں اپنا ستر چھپالوں اور اپنی زندگی میں اس سے زینت حاصل کروں۔
[٢٣] لباس کے اخلاقی اور طبعی فوائد اور لباس کا بنیادی مقصد :۔ لباس کو نازل کرنے سے مراد یہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو فوری طور پر الہام کیا گیا کہ وہ اپنی شرمگاہوں کو ڈھانپیں اور ممکن ہے اس سے مراد شرم و حیا کی وہ فطری جبلت ہو جو انسان کے اندر رکھ دی گئی ہے اور اس سے مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آدم (علیہ السلام) کے زمین پر آجانے کے بعد بارش ہوئی جس سے زمین میں سے روئی یا دوسری ریشہ دار نباتات اگ آئیں جس سے انہوں نے لباس بنا لیا ہو اور لباس سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے بدن کو ڈھانپا جاسکے اور اس لباس کے اللہ تعالیٰ نے دو فائدے بتائے ایک اخلاقی دوسرا طبعی۔ اخلاقی فائدہ یہ ہے کہ اپنے مقامات ستر ڈھانپ کر بےحیائی سے بچا جاسکے اور طبعی فائدہ یہ ہے کہ لباس انسان کے لیے زینت ہے اور یہ سردی اور گرمی کے موسمی اثرات سے بھی بچاتا ہے اور اخلاقی فائدے کو اللہ تعالیٰ نے پہلے بیان فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ لباس کا بنیادی مقصد سترکو ڈھانپنا ہے۔- [٢٤] تقویٰ کے لباس کا مفہوم :۔ تقویٰ کے لباس کا مطلب یہ ہے کہ لباس پردہ پوش یا ساتر ہو ایسا پتلا یا شفاف نہ ہو کہ پہننے کے باوجود جسم کی سلوٹیں اور مقامات ستر سب کچھ نظر آتا رہے۔ دوسرے یہ کہ لباس فاخرانہ اور متکبرانہ نہ ہو نہ دامن دراز ہو اور نہ اپنی حیثیت سے کم تر درجہ ہی کا اور گندہ ہو کیونکہ یہ سب باتیں تقویٰ کے خلاف ہیں تیسرے وہ لباس ایسا بھی نہ ہو کہ مرد عورتوں کا لباس پہن کر عورت بننے کی کوشش کرنے لگیں اور عورتیں مردوں کا سا پہن کر مرد بننے کی کوشش کرنے لگیں کیونکہ اس سے ان کی اپنی اپنی جنس کی توہین ہوتی ہے اور چوتھے یہ کہ اپنا لباس ترک کر کے کسی حاکم یا سربر آوردہ قوم کا لباس استعمال نہ کریں کیونکہ سربر آوردہ قوم کی تہذیب و تمدن اور اس کا لباس اختیار کرنے سے جہاں تمہارا قومی تشخص مجروح ہوگا وہاں یہ بات اس قوم کے مقابلہ میں تمہاری ذہنی مرعوبیت کی بھی دلیل ہوگی اور پانچویں یہ کہ مرد ریشمی لباس نہ پہنیں۔- اور بعض علماء کے نزدیک لباس سے مراد صرف ظاہری لباس ہی نہیں بلکہ اس سے مراد رنگ ڈھنگ اور پورا طرز زندگی ہے جس میں لباس بھی شامل ہے یعنی انسان کی ایک ایک عادت ایسی ہونی چاہیے جس سے تقویٰ کا رنگ ٹپکتا ہو ان کے نزدیک لباس کا لفظ مجازی معنوں میں ہے جیسے مذہبی تقدس کا پردہ میں پردہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا : یعنی آسمان سے پانی اتارا، جس سے روئی اگتی ہے، ریشم اور پشم کا سامان مہیا ہوتا ہے، پھر تمہیں زراعت، شجرکاری، حیوان پروری، کپڑا بننے اور دوسری چیزیں بنانے کا طریقہ سکھا دیا۔ راغب نے فرمایا کہ یہاں ” اَنْزَلَ “ بمعنی ” خَلَقَ “ ہے، جیسے : (وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ ) [ الحدید : ٢٥ ] ” اور ہم نے لوہا اتارا۔ “ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی دشمن نے جنت کے کپڑے تم سے اتروائے، پھر ہم نے تم کو دنیا میں لباس کی تدبیر سکھا دی۔ “ (موضح)- يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا ۭ: یعنی لباس کا مقصد ستر پوشی اور زینت ہے۔ اس کے علاوہ وہ سردی، گرمی اور چوٹ وغیرہ سے بھی بچانے کے باعث بنتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ( وَّجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيْلَ تَـقِيْكُمُ الْحَـرَّ وَسَرَابِيْلَ تَقِيْكُمْ بَاْسَكُمْ ) [ النحل : ٨١ ] ” اور اس نے تمہارے لیے کچھ قمیص بنائیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں اور کچھ قمیصیں جو تمہیں تمہاری لڑائی میں بچاتی ہیں۔ “ - وَلِبَاس التَّقْوٰى ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ ۭ: یعنی اس ظاہری لباس کے علاوہ جس سے تم صرف بدن ڈھانکتے ہو یا زینت کا کام لیتے ہو ایک اور معنوی لباس بھی ہے جو ہر لباس سے بہتر ہے، لہٰذا تمہیں اس کا اہتمام کرنا چاہیے اور وہ ہے پرہیزگاری، یعنی اللہ کا خوف، ایمان اور عمل صالح کا لباس۔ بعض نے کہا ہے کہ ” ۭوَلِبَاس التَّقْوٰى ۙ“ سے مراد اون کھدر وغیرہ کی قسم کا کھردرا اور موٹا لباس ہے، جسے صوفی لوگ پہنتے ہیں، مگر یہ صحیح نہیں، خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سلف صالحین، جن کی پرہیزگاری بےمثال تھی، عمدہ لباس بھی پہنا کرتے تھے اور وسعت کے باوجود سادہ لباس بھی پہنتے تھے۔ بعض نے زرہ وغیرہ فوجی لباس مراد لیا ہے جو دشمن سے بچاؤ کا ذریعہ بنتا ہے۔ (قرطبی۔ روح المعانی) ہاں یہ ضرور ہے کہ جس لباس کی ممانعت آئی ہے وہ نہ پہنا جائے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ اب وہی لباس پہنو جس میں پرہیزگاری ہو، یعنی مرد ریشمی (اور زعفرانی رنگ کا) لباس نہ پہنے، دامن لمبا نہ رکھے جو ٹخنوں کو ڈھانک لے اور جو منع ہوا ہے سو نہ کرے اور عورت بہت باریک ( یا تنگ) لباس نہ پہنے کہ لوگوں کو بدن نظر آوے اور اپنی زینت نہ دکھائے۔ - لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ : تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ کی اس بڑی نعمت کی قدر کریں، یا نصیحت حاصل کریں اور برے کاموں سے بچیں۔
خلاصہ تفسیر - اے اولاد آدم (ایک ہمارا انعام یہ ہے کہ) ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہارے ستر (یعنی پردہ والے بدن) کو بھی چھپاتا ہے اور (تمہارے بدن کے لئے) موجب زینت بھی (ہوتا) ہے، اور (ظاہری لباس کے علاوہ ایک معنوی لباس بھی تمہارے لئے تجویز کیا ہے جو) تقویٰ (یعنی دینداری) کا لباس (ہے کہ) یہ اس (لباس ظاہری) سے بڑھ کر (ضروری) ہے (کیونکہ اس ظاہری لباس کا مطلوب شرعی ہونا اسی تقویٰ یعنی دینداری کی ایک فرع ہے، اصل مقصود ہر حالت میں لباس تقویٰ ہی ہے) یہ (لباس پیدا کرنا) اللہ تعالیٰ کے (فضل و کرم) کی نشانیوں میں سے ہوتا ہے، تاکہ یہ لوگ (اس نعمت کو) یاد رکھیں (اور یاد رکھ کر اپنے منعم اور محسن کا حق اطاعت ادا کریں اور وہ حق اطاعت وہی ہے جس کو لباس تقویٰ فرمایا ہے) اے اولاد آدم شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے (کہ خلاف دین وتقویٰ تم سے کوئی کام کراوے) جیسا اس نے تمہارے دادا دادی (یعنی آدم و حوا علیہما السلام) کو جنت سے باہر کرا دیا (یعنی ان سے ایسا کام کرادیا کہ اس کے نتیجہ میں وہ جنت سے باہر آگئے، اور باہر بھی) ایسی حالت سے (کرایا) کہ ان کا لباس بھی ان (کے بدن) سے اتروا دیا، تاکہ دونوں کو ایک دوسرے کے پردہ کا بدن دکھائی دینے لگے (جو شریف انسان کیلئے بڑی شرم و رسوائی ہے، غرض شیطان تمہارا قدیم دشمن ہے، اس سے بہت ہوشیار رہو اور زیادہ احتیاط اس لئے اور بھی ضروری ہے کہ) وہ اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو (عادةً ) نہیں دیکھتے ہو (ظاہر ہے کہ ایسا دشمن بہت خطرناک ہے، اس سے بچنے کا پورا اہتمام چاہئے، اور یہ اہتمام ایمان کامل اور تقویٰ سے حاصل ہوتا ہے وہ اختیار کرلو تو بچاو کا سامان ہوجائے گا کیونکہ) ہم شیطانوں کو انہی کا رفیق ہونے دیتے ہیں جو ایمان نہیں لاتے (اگر بالکل ایمان نہیں تو پوری طرح شیطان اس پر مسلط ہوجاتا ہے، اور اگر ایمان تو ہے مگر کامل نہیں تو اس سے کم درجہ کا تسلط ہوتا ہے، بخلاف مومن کامل کے کہ اس پر شیطان کا بالکل قابو نہیں چلتا، جیسا کہ قرآن کریم کی ایک آیت میں ہے : (آیت) انہ لیس لہ سلطان علی الذین آمنوا وعلی ربھم یتوکلون)- معارف و مسائل - آیات مذکورہ سے پہلے ایک پورے رکوع میں حضرت آدم (علیہ السلام) اور شیطان رحیم کا واقعہ بیان فرمایا گیا تھا، جس میں شیطانی اغواء کا پہلا اثر یہ ہوا تھا کہ آدم و حواء (علیہما السلام) کا جنتی لباس اتر گیا اور وہ ننگے رہ گئے، اور پتوں سے اپنے ستر کو چھپانے لگے۔- مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں حق تعالیٰ نے تمام اولاد آدم کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا کہ تمہارا لباس قدرت کی ایک عظیم نعمت ہے اس کی قدر کرو، یہاں خطاب صرف مسلمانوں کو نہیں، بلکہ پوری اولاد آدم کو ہے، اس میں اشارہ ہے کہ ستر پوشی اور لباس انسان کی فطری خواہش اور ضرورت ہے، بغیر امتیاز کسی مذہب و ملت کے سب ہی اس کے پابند ہیں، پھر اس کی تفصیل میں تین قسم کے لباسوں کا ذکر فرمایا : - اول : (آیت) لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ اس میں یواری، موارات سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں چھپانے کے، اور سواٰة سوءة کی جمع ہے، ان اعضاء انسانی کو سوءة کہا جاتا ہے جن کے کھلنے کو انسان فطرةً برا اور قابل شرم سمجھتا ہے، مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمہاری صلاح و فلاح کے لئے ایک ایسا لباس اتارا ہے، جس سے تم اپنے قابل شرم اعضاء کو چھپا سکو۔ - اس کے بعد فرمایا وریشاً ، ریش اس لباس کو کہا جاتا ہے جو آدمی زینت و جمال کے لئے استعمال کرتا ہے، مراد یہ ہے کہ صرف ستر چھپانے کے لئے تو مختصر سا لباس کافی ہوتا ہے، مگر ہم نے تمہیں اس سے زیادہ لباس اس لئے عطا کیا کہ تم اس کے ذریعہ زینت و جمال حاصل کرسکو، اور اپنی ہیئت کو شائستہ بنا سکو۔ - اس جگہ قرآن کریم نے انزلنا یعنی اتارنے کا لفظ استعمال فرمایا ہے، مراد اس سے عطا کرنا ہے، یہ ضروری نہیں کہ آسمان سے بنا بنایا اترا ہو، جیسے دوسری جگہ انزلنا الحدید کا لفظ آیا ہے، یعنی ہم نے لوہا اتارا، جو سب کے سامنے زمین سے نکلتا ہے، البتہ دونوں جگہ لفظ انزلنا فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ جس طرح آسمان سے اترنے والی چیزوں میں کسی انسانی تدبیر اور صنعت کو دخل نہیں ہوتا، اسی طرح لباس کا اصل مادہ جو روئی یا اون وغیرہ ہے اس میں کسی انسانی تدبیر کو ذرّہ برابر دخل نہیں، وہ محض قدرت حق تعالیٰ کا عطیہ ہے، البتہ ان چیزوں سے اپنی راحت و آرام اور مزاج کے مناسب سردی گرمی سے بچنے کے لئے لباس بنا لینے میں انسانی صنعت گری کام آتی ہے، اور وہ صنعت بھی حق تعالیٰ ہی کی بتلائی اور سکھائی ہوئی ہے، اس لئے حقیقت شناس نگاہ میں یہ سب حق تعالیٰ ہی کا ایسا عطیہ ہے جیسے آسمان سے اتارا گیا ہو۔ - لباس کے دو فائدے - اس میں لباس کے دو فائدے بتلائے گئے، ایک ستر پوشی، دوسرے سردی گرمی سے حفاظت اور آرائش بدن اور پہلے فائدہ کو مقدم کرکے اس طرف اشارہ کردیا کہ انسانی لباس کا اصل مقصد ستر پوشی ہے، اور یہی اس کا عام جانوروں سے امتیاز ہے، کہ جانوروں کا لباس جو قدرتی طور پر ان کے بدن کا جزء بنادیا گیا ہے اس کا کام صرف سردی گرمی سے حفاظت یا زینت ہے، ستر پوشی کا اس میں اتنا اہتمام نہیں، البتہ اعضائے مخصوصہ کی وضع ان کے بدن میں اس طرح رکھ دی کہ بالکل کھلے نہ رہیں، کہیں ان پر دم کا پردہ کہیں دوسری طرح کا۔- اور حضرت آدم و حواء اور اغواء شیطانی کا واقعہ بیان کرنے کے بعد لباس کے ذکر کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ انسان کے لئے ننگا ہونا اور قابل شرم اعضاء کا دوسروں کے سامنے کھلنا انتہائی ذلت و رسوائی اور بےحیائی کی علامت اور طرح طرح کے شرو فساد کا مقدمہ ہے۔ - انسان پر شیطان کا پہلا حملہ اس کو ننگا کرنے کی صورت میں ہوا آج بھی نئی شیطانی تہذیب انسان کو برہنہ یا نیم برہنہ کرنے میں لگی ہوئی ہے - اور یہی وجہ ہے کہ شیطان کا سب سے پہلا حملہ انسان کے خلاف اسی راہ سے ہوا کہ اس کا لباس اتر گیا، اور آج بھی شیطان اپنے شاگردوں کے ذریعے جب انسان کو گمراہ کرنا چاہتا ہے تو تہذیب و شائستگی کا نام لے کر سب سے پہلے اس کو برہنہ یا نیم برہنہ کرکے عام سڑکوں اور گلیوں میں کھڑا کردیتا ہے اور شیطان نے جس کا نام ترقی رکھ دیا ہے وہ عورت کو شرم و حیاء سے محروم کرکے منظر عام پر نیم برہنہ حالت میں لے آنے کے بغیر حاصل ہی نہیں ہوتی۔ - ایمان کے بعد سب سے پہلا فرض ستر پوشی ہے - شیطان نے انسان کے اس کمزور پہلو کو بھانپ کر پہلا حملہ انسان کی ستر پوشی پر کیا، تو شریعت اسلام جو انسان کی ہر صلاح و فلاح کی کفیل ہے، اس نے ستر پوشی کا اہتمام اتنا کیا کہ ایمان کے بعد سب سے پہلا فرض ستر پوشی کو قرار دیا، نماز، روزہ وغیرہ سب اس کے بعد ہے۔ - حضرت فاروق اعظم (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب کوئی شخص نیا لباس پہنے تو اس کو چاہئے کہ لباس پہننے کے وقت یہ دعا پڑھے :- الحمد للّٰہ الذی کسانی ما اواری بہ عورتی واتجمل بہ فی حیاتی۔- ” یعنی شکر اس ذات کا جس نے مجھے لباس دیا جس کے ذریعہ میں اپنے ستر کا پردہ کروں اور زینت حاصل کروں “۔- نیا لباس بنانے کے وقت پرانے لباس کو صدقہ کردینے کا ثواب عظیم - اور فرمایا کہ جو شخص نیا لباس پہننے کے بعد پرانے کو غرباء و مساکین پر صدقہ کر دے تو وہ اپنی موت وحیات کے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری اور پناہ میں آگیا۔ (ابن کثیر عن مسند احمد) - اس حدیث میں بھی انسان کو لباس پہننے کے وقت انہی دونوں مصلحتوں کو یاد دلایا گیا ہے، جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسانی لباس پیدا فرمایا ہے۔ - ستر پوشی ابتداء آفرنیش سے انسان کا فطری عمل ہے ارتقاء کا جدید فلسفہ باطل ہے - آدم (علیہ السلام) کے واقعہ اور قرآن کریم کے اس ارشاد سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ستر پوشی اور لباس انسان کی فطری خواہش اور پیدائشی ضرورت ہے جو اول دن سے اس کے ساتھ ہے، اور آج کل کے بعض فلاسفروں کا یہ قول سراسر غلط اور بےاصول ہے کہ انسان اول ننگا پھرا کرتا تھا، پھر ارتقائی منزلیں طے کرنے کے بعد اس نے لباس ایجاد کیا۔ - لباس کی ایک تیسری قسم - ستر پوشی اور راحت وزینت کے لئے دو قسم کے لباسوں کا ذکر فرمانے کے بعد قرآن کریم نے ایک تیسرے لباس کا ذکر اس طرح فرمایا (آیت) ۭوَلِبَاس التَّقْوٰى ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ بعض قراءتوں میں فتح یعنی زبر کے ساتھ لباس التقوی پڑھا گیا ہے، تو انزلنا کے تحت میں داخل ہو کر معنی یہ ہوئے کہ ہم نے ایک تیسرا لباس تقویٰ کا اتارا ہے، اور مشہور قراءت کی رو سے معنی یہ ہیں کہ یہ دو لباس تو سب جانتے ہیں، ایک تیسرا لباس تقویٰ کا ہے، اور وہ سب لباسوں سے زیادہ بہتر ہے، لباس تقویٰ سے مراد حضرت ابن عباس اور عروہ بن زبیر (رض) کی تفسیر کے مطابق عمل صالح اور خوف خدا ہے۔ (روح) - مطلب یہ ہے کہ جس طرح ظاہری لباس انسان کے قابل شرم اعضاء کے لئے پردہ اور سردی گرمی سے بچنے اور زینت حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے اسی طرح ایک معنوی لباس، صالح اور خوف خدا تعالیٰ کا ہے، جو انسان کے اخلاقی عیوب اور کمزوریوں کا پردہ ہے، اور دائمی تکلیفوں اور مصیبتوں سے نجات کا ذریعہ ہے اسی لئے وہ سب سے بہتر لباس ہے۔ - اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ایک بدکار آدمی جس میں خوف خدا نہ ہو اور وہ عمل صالح کا پابند نہ ہو وہ کتنے ہی پردوں میں چھپے مگر انجام کار رسوا اور ذلیل ہو کر رہتا ہے، جیسا کہ ابن جریر رحمة اللہ علیہ نے بروایت عثمان غنی (رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے جو شخص کوئی بھی عمل لوگوں کی نظروں سے چھپا کر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اس عمل کی چادر اڑھا کر اعلان کردیتے ہیں، نیک عمل ہو تو نیکی کا اور برا عمل ہو تو برائی کا “۔ چادر اڑھانے سے مطلب یہ ہے کہ جس طرح بدن پر اوڑھی ہوئی چادر سب کے سامنے ہوتی ہے، انسان کا عمل کتنا ہی پوشیدہ ہو اس کے ثمرات و آثار اس کے چہرے اور بدن پر اللہ تعالیٰ ظاہر کردیتے ہیں، اور اس ارشاد کی سند میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی، (آیت) وَرِيْشًا ۭوَلِبَاس التَّقْوٰى ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ ۭذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ- ظاہری لباس کا بھی اصل مقصد تقویٰ حاصل کرنا ہے - لباس التقویٰ کے لفظ سے اس طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ ظاہری لباس کے ذریعہ ستر پوشی اور زینت و تجمل سب کا اصل مقصد تقویٰ اور خوف خدا تعالیٰ ہے، جس کا ظہور اس کے لباس میں بھی اس طرح ہونا چاہئے کہ اس میں پوری ستر پوشی ہو، کہ قابل شرم اعضاء کا پورا پردہ ہو، وہ ننگے بھی نہ رہیں، اور لباس بدن پر ایسا چست بھی نہ ہو جس میں یہ اعضاء مثل ننگے کے نظر آئیں، نیز اس لباس میں فخر و غرور کا انداز بھی نہ ہو بلکہ تواضع کے آثار ہوں، اسراف بیجا بھی نہ ہو، ضرورت کے موافق کپڑا استعمال کیا جائے، عورتوں کے لئے مردانہ اور مردوں کے لئے زنانہ لباس بھی نہ ہو جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض و مکروہ ہے۔ لباس میں کسی دوسری قوم کی نقالہ بھی نہ ہو جو اپنی قوم و ملت سے غداری اور اعراض کی علامت ہے۔- اس کے ساتھ ہی اخلاق و اعمال کی دوستی بھی ہو جو لباس کا اصل مقصد ہے، آخر آیت میں ارشاد فرمای آذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ یعنی انسان کو لباس کی یہ تینوں قسمیں عطا فرمانا اللہ جل شانہ کی آیات قدرت میں سے ہے، تاکہ لوگ اس سے سبق حاصل کریں۔
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطٰنُ كَـمَآ اَخْرَجَ اَبَوَيْكُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ يَنْزِعُ عَنْہُمَا لِبَاسَہُمَا لِيُرِيَہُمَا سَوْاٰتِہِمَا ٠ ۭ اِنَّہٗ يَرٰىكُمْ ہُوَوَقَبِيْلُہٗ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَہُمْ ٠ ۭ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ لِلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ ٢٧- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- نزع - نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی:- وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] . وَانْتَزَعْتُ آيةً من القرآن في كذا، ونَزَعَ فلان کذا، أي : سَلَبَ. قال تعالی: تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] ، وقوله : وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات 1] قيل : هي الملائكة التي تَنْزِعُ الأرواح عن الأَشْباح، وقوله :إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر 19] وقوله : تَنْزِعُ النَّاسَ [ القمر 20] قيل : تقلع الناس من مقرّهم لشدَّة هبوبها . وقیل : تنزع أرواحهم من أبدانهم، والتَّنَازُعُ والمُنَازَعَةُ : المُجَاذَبَة، ويُعَبَّرُ بهما عن المخاصَمة والمُجادَلة، قال : فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء 59] ، فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه 62] ، والنَّزْعُ عن الشیء : الكَفُّ عنه . والنُّزُوعُ : الاشتیاق الشّديد، وذلک هو المُعَبَّر عنه بإِمحَال النَّفْس مع الحبیب، ونَازَعَتْنِي نفسي إلى كذا، وأَنْزَعَ القومُ : نَزَعَتْ إِبِلُهم إلى مَوَاطِنِهِمْ. أي : حَنَّتْ ، ورجل أَنْزَعُ : زَالَ عنه شَعَرُ رَأْسِهِ كأنه نُزِعَ عنه ففارَقَ ، والنَّزْعَة : المَوْضِعُ من رأسِ الأَنْزَعِ ، ويقال : امرَأَةٌ زَعْرَاء، ولا يقال نَزْعَاء، وبئر نَزُوعٌ: قریبةُ القَعْرِ يُنْزَعُ منها بالید، وشرابٌ طَيِّبُ المَنْزَعَةِ. أي : المقطَع إذا شُرِبَ كما قال تعالی: خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین 26] .- ( ن زع ) نزع - ( ن زع ) نزع اشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کمانکو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ آیت کو کسی واقعہ میں بطور مثال کے پیش کرنا ۔ نزع فلان کذا کے معنی کسی چیز کو چھین لینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات 1] ان فرشتوں کی قسم جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نازعات سے مراد فرشتے ہیں جو روحوں کو جسموں سے کھینچتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر 19] ہم نے ان پر سخت منحوس دن میں آندھی چلائی وہ لوگوں کو اس طرح اکھیڑ ڈالتی تھی ۔ میں تنزع الناس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہو اپنی تیز کی وجہ سے لوگوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکال باہر پھینک دیتی تھی بعض نے کہا ہے کہ لوگوں کی روحوں کو ان کے بد نوں سے کھینچ لینا مراد ہے ۔ التنازع والمنازعۃ : باہم ایک دوسرے کو کھینچا اس سے مخاصمت اور مجا دلہ یعنی باہم جھگڑا کرنا مراد ہوتا ہے ۔ چناچہ ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء 59] اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو رجوع کرو ۔ فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه 62] تو وہ باہم اپنے معاملہ میں جھگڑنے لگے ۔ النزع عن الشئی کے معنی کسی چیز سے رک جانے کے ہیں اور النزوع سخت اشتیاق کو کہتے ہیں ۔ وناز عتنی نفسی الیٰ کذا : نفس کا کسی طرف کھینچ کرلے جانا کس کا اشتیاق غالب آجانا ۔ انزع القوم اونٹوں کا پانے وطن کا مشتاق ہونا رجل انزع کے معنی سر کے بال بھڑ جانا کے ہیں ۔ اور نزعۃ سر کے اس حصہ کو کہتے ہیں جہاں سے بال جھڑ جائیں ۔ اور تانیث کے لئے نزعاء کی بجائے زعراء کا لفظ استعمال ہوتا ہے بئر نزدع کم گہرا کنواں جس سے ہاتھ کے - لبس - لَبِسَ الثّوب : استتر به، وأَلْبَسَهُ غيره، ومنه :- يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف 31] واللِّبَاسُ واللَّبُوسُ واللَّبْسُ ما يلبس . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] وجعل اللّباس لكلّ ما يغطّي من الإنسان عن قبیح، فجعل الزّوج لزوجه لباسا من حيث إنه يمنعها ويصدّها عن تعاطي قبیح . قال تعالی:- هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة 187] فسمّاهنّ لباسا کما سمّاها الشاعر إزارا في قوله :- فدی لک من أخي ثقة إزاري«1» وجعل التّقوی لِبَاساً علی طریق التّمثیل والتّشبيه، قال تعالی: وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف 26] وقوله : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء 80] يعني به : الدِّرْعَ ، وقوله : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل 112] ، وجعل الجوع والخوف لباسا علی التّجسیم والتشبيه تصویرا له، وذلک بحسب ما يقولون : تدرّع فلان الفقر، ولَبِسَ الجوعَ ،- ( ل ب س ) لبس الثوب - ۔ کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور البسہ کے معنی دوسرے کو پہنانا کے ۔ قرآن میں ہے : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف 31] اور وہ سبز کپڑے پہنا کریں گے ۔ اللباس واللبوس واللبس وہ چیز جو پہنی جائے ۔ قرآن میں ہے : قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈاھانپے ۔ اور لباس کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے ۔ جو انسان کے برے کاموں پر پردہ ڈال سکے ۔ چناچہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو قبائح کے ارتکاب سے روکتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة 187] وہ تمہاری پوشاک اور تم ان کی پوشاک ہو ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعرنے اپنی بیوی کو ازار کہا ہے ۔ اے میرے قابل اعتماد بھائی پر میری ازار یعنی بیوی قربان ہو ۔ اور تمثیل و تشبیہ کے طور پر تقوی کو بھی لباس قرار دیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف 26] اور جو پر ہیزگاری کا لباس ہے ۔ اور آیت کریمہ : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء 80] اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک طرح کا لباس بنانا ۔۔۔۔۔ میں لبوس سے زر ہیں مراد ہیں اور آیت کریمہ : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل 112] تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا ۔ میں جوں یعنی بھوک اور خوف کی تصویر کھینچے کے لئے اس لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔- (1) قَبِيلُ- والقَبِيلُ : جمع قَبِيلَةٍ ، وهي الجماعة المجتمعة التي يقبل بعضها علی بعض . قال تعالی: وَجَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَقَبائِلَ [ الحجرات 13] ، وَالْمَلائِكَةِ قَبِيلًا[ الإسراء 92] ، أي : جماعة جماعة . وقیل : معناه كفيلا . من قولهم : قَبلْتُ فلانا وتَقَبَّلْتُ به، أي : تكفّلت به، وقیل مُقَابَلَةً ، أي : معاینة، ويقال : فلان لا يعرف قَبِيلًا من دبیر أي : ما أَقْبَلَتْ به المرأة من غزلها وما أدبرت به .- القبیل - یہ قبیلہ کی جمع ہے یعنی وہ جماعت جو ایک دوسرے پر متوجہ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَقَبائِلَ [ الحجرات 13] تمہاری قو میں اور قبیلے بنائے ، وَالْمَلائِكَةِ قَبِيلًا[ الإسراء 92] اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آؤ ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں قبیل بمعنی کفیل یعنی ضامن کے ہے اور یہ قبلت فلانا وتتبلت بہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ضامن بننے کے ہیں ۔ اور بعض نے اس کے معنی مقابلہ یعنی معائنہ کئے ہیں ۔ مثل مشہور ہے : ۔ وہ عورت کے اگلے اور پچھلے سوت میں تمیز نہیں کرسکتا یعنی بیوقوف ہے ۔- حيث - حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة 149] .- ( ح ی ث ) حیث - ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] اور تم جہاں ہوا کرو - ولي - والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62]- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الولی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
لباس کی حقیقت - قول باری ہے یا بنی ادم قدانزلنا علیکم لباساً یواری سواتکم وریشاً ولباس التقوی ذلک خیر۔ اے اولاد آدم ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لئے جسم کی حفاظت اور نیت کا ذریعہ بھی ہو اور بہترین لباس تقوی ٰ کا لباس ہے) یہ انسانوں میں سے تمام مکلفین کے لئے خطاب عام ہے جس طرح یہ قول باری یایھا الناس اتقواربکم۔ اے لوگو اپنے رب سے ڈرو) ان تمام مکلفین کے لئے خطاب ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں موجود تھے اور جو اس زمانے کے بعد کے زمانوں میں آنے والے تھے۔ البتہ جو لوگ اس وقت موجود نہیں تھے ان کے لئے یہ خطاب وجود میں آجانے اور کمال عقل کو پہنچنے کی شرط کے ساتھ مشروط تھا۔ قول باری قد انزلنا علیکم لباساً یواری سواتکم) نیز قول باری (وطفقا یغصفان علیھا من ورق الجنۃ۔ اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے) ستر عورت کی فرضیت پر دلالت کرتے ہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اس نے ہم پر لباس نازل کیا تاکہ ہم اس کے ذریعے اپنے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانک لیں۔- نزول لباس کی کیفیت - اللہ تعالیٰ نے (انزلنا) فرمایا اس لئے کہ لباس یا تو زمین کی پیداوار یعنی روئی وغیرہ سے تیار ہوتا ہے یا جانوروں کی کھالوں اور اون سے بنایا جاتا ہے۔ ان سب کی بنیاد بارش ہے جو آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ ایک قول کے مطابق لباس کو آسمان سے نازل کرنے کی بات اس لئے کہی گئی کہ تمام برکتوں کی نسبت آسمان سے اترنے کی طرف کی جاتی ہے جس طرح یہ قول باری ہے وانزلنا الحدید فیہ باس شدید و منافع للناس اور ہم نے لوہا نازل کیا جس میں زبردست طاقت ہے اور لوگوں کے لئے اس میں بڑے بڑے فائدے ہیں) ۔ قول باری ریشاً کے بارے میں ایک قول ہے کہ اس سے گھریلو سامان مراد ہے مثلاً بستر چادریں وغیرہ ایک قول کے مطابق اس سے مراد وہ لباس ہے جو زینت کا ذریعہ بنتا ہے اسی بنا پر پرندے کے پروں کو ریش کہا جاتا ہے۔- لباس التقوی کیا ہے ؟- قول باری (ولباس التقویٰ ) کے متعلق حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس سے عمل صالح مراد ہے۔ اسے لباس کے نام سے اس لئے موسوم کی گیا کہ عمل صالح کے ذریعے انسان اللہ کے عذاب سے بچ جاتا ہے جس طرح لباس کے ذریعے گرمی سردی سے بچتا ہے۔ قتادہ اور سدی کے قول کے مطابق اس سے ایمان مراد ہے۔ جن کا قول ہے کہ اس سے حیا مراد ہے جس کے نتیجے میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ اس سے ادنیٰ لباس نیز ایسا موٹا لباس مراد ہے جو تواضع کے طور پر نیز عبادت میں زہد و ریاضت کی بنا پر پہنا جاتا ہے۔ آیت ستر عورت کی فرضیت کے لزوم پر دلالت کرتی ہے اس پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایات بھی منقول ہیں۔- تنہائی میں برہنگی - بہزبن حکیم نے اپنے والد سے انہوں بہز کے دادا سے روایت کی ہے۔ انہوں نے پوچھا تھا “۔ اللہ کے رسول ہم اپنی شرمگاہوں کے سلسلے میں کیا کریں اور کیا نہ کریں ؟ “ آپ نے جواب میں فرمایا ” اپنی بیوی یا لونڈی کے سوا اپنی شرمگاہ کو ہر ایک سے بچا کے رکھو “۔ میں نے عرض کیا ” اگر ہم میں سے کوئی شخص تنہا ہو تو کیا وہ اپنی شرمگاہ برہنہ کرسکتا ہے ؟ “ آپ نے فرمایا ” اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی ذات اس بات کی زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے “۔ حضرت ابوسعید خدری (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کوئی مرد کسی مرد کی شرمگاہ پر اور کوئی عورت کسی عورت کی شرمگاہ پر نظر نہ ڈالے “۔- نگاہ کی حفاظت - ایک اور روایت میں آپ نے فرمایا ” وہ شخص ملعون ہے جو اپنے بھائی کی شرمگاہ پر نظر ڈالتا ہے “۔ قول باری ہے قل للمومنین یغضوا من ابصارھم۔ اہل ایمان سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں) نیز فرمایا وقل للمومنت یغضضن من البصار ھن۔ مومن خواتین سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں) یعنی دوسروں کے جسم کے اس حصے پر نظر ڈالنے سے جس کا ڈھانکنا فرض ہے۔ اس لئے کہ جسم کے جس حصے کو ڈھانکنا فرض ہے اس کے سوا جسم کے دوسروں حصوں پر نظر ڈالنے کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
(٢٦) روئی، اون اور بالوں وغیرہ کے کپڑے تمہارے لیے پیدا کیے اور تمہیں دیے تاکہ تم اس سے اپنے پردہ دار جسم کو چھپاؤ اور مال اور گھریلو سامان بھی دیا، باقی توحید وعفت کا لباس روئی کے لباس سے بہت زیادہ بہتر ہے اور یہ کپڑے اللہ کے عجائبات میں سے ہیں تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
آیت ٢٦ (یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا ط) ۔ - عربوں کے ہاں زمانۂ جاہلیت کے غلط رسم و رواج اور نظریات میں سے ایک راہبانہ نظریہ یا تصور یہ بھی تھا کہ لباس انسانی جسم کے لیے خواہ مخواہ کا تکلف ہے اور یہ شرم کا احساس جو انسان نے اپنے اوپر اوڑھ رکھا ہے یہ بھی انسان کا خود اپنا پیدا کردہ ہے۔ اس نظریے کے تحت ان کے مرد اور عورتیں مادر زاد ننگے ہو کر کعبۃ اللہ کا طواف کرتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ نفہ ذات ( ) کا بہت بڑا مظاہرہ تھا اور یوں اللہ تعالیٰ کے قرب کا ایک خاص ذریعہ بھی۔ اس طرح کے خیالات و نظریات بعض معاشروں میں آج بھی پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی بعض ملنگ قسم کے لوگ لباس پر عریانی کو ترجیح دیتے ہیں ‘ جبکہ عوام الناس عام طور پر ایسے لوگوں کو اللہ کے مقرب بندے سمجھتے ہیں۔ اس آیت میں در اصل ایسے جاہلانہ نظریات کی نفی کی جا رہی ہے کہ تمہارے لیے لباس کا تصور اللہ کا ودیعت کردہ ہے۔ یہ نہ صرف تمہاری ستر پوشی کرتا ہے بلکہ تمہارے لیے زیب وزینت کا باعث بھی ہے۔ - (وَلِبَاس التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ ط) ۔ - سب سے بہتر لباس تقویٰ کا لباس ہے ‘ اگر یہ نہ ہو تو بسا اوقات انسان لباس پہن کر بھی ننگا ہوتا ہے ‘ جیسا کہ انتہائی تنگ لباس ‘ جس میں جسم کے نشیب و فراز ظاہر ہو رہے ہوں یا عورتوں کا اس قدر باریک لباس جس میں جسم جھلک رہا ہو۔ ایسا لباس پہننے والی عورتوں کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ‘ یعنی جو لباس پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں۔ ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ عورتیں جنت میں داخل ہونا تو درکنار ‘ جنت کی ہوا بھی نہ پاسکیں گی ‘ جبکہ جنت کی ہوا پانچ سو سال کی مسافت سے بھی محسوس ہوجاتی ہے (١) ۔ چناچہ لِبَاس التَّقْوٰی سے مراد ایک طرف تو یہ ہے کہ انسان جو لباس زیب تن کرے وہ حقیقی معنوں میں تقویٰ کا مظہر ہو اور دوسری طرف یہ بھی کہ انسانی شخصیت کی اصل زینت وہ لباس ہے جس کا تانا بانا شرم و حیا اور خدا خوفی سے بنتا ہے۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :15 اب قصہ آدم و حوا کے ایک خاص پہلو کی طرف توجہ منعطف کر کے اہل عرب کے سامنے خود ان کی اپنی زندگی کے اندر شیطانی اغوا کے ایک نمایاں ترین اثر کی نشان دہی فرمائی جاتی ہے ۔ یہ لوگ لباس کو صرف زینت اور موسمی اثرات سے جسم کی حفاظت کے لیے استعمال کرتے تھے ، لیکن اس کی سب سے پہلی بنیادی غرض ، یعنی جسم کےقابل شرم حصّوں کی پردہ پوشی آپ کے نزدیک کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی ۔ اُنہیں اپنے ستر دوسروں کے سامنے کھول دینے میں کوئی باک نہ تھا ۔ برہنہ منظرِ عام پر نہا لینا ، راہ چلتے قضائے حاجت کے لیے بیٹھ جانا ، ازار کھل جائے تو ستر کے بے پردہ ہو جانے کی پروا نہ کرنا ان کے شب و روز کے معمولات تھے ۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان میں سے بکثرت لوگ حج کے موقع پر کعبہ کے گرد برہنہ طواف کرتے تھے اور اس معاملہ میں ان کی عورتیں ان کے مردوں سےبھی کچھ زیادہ بے حیا تھیں ۔ ان کی نگاہ میں یہ ایک مذہبی فعل تھا اور نیک کام سمجھ کر وہ اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔ پھر چونکہ یہ کوئی عربوں ہی کی خصوصیت نہ تھی ، دنیا کی اکثر قومیں اسی بے حیائی میں مبتلا رہی ہیں اور آج تک ہیں اس لیے خطاب اہل عرب کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ عام ہے ، اور سارے نبی آدم کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ دیکھو ، یہ شیطانی اغوا کی ایک کھلی ہوئی علامت تمہاری زندگی میں موجود ہے ۔ تم نے اپنے رب کی رہنمائی سے بےنیاز ہو کر اور اس کے رسولوں کی دعوت سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو شیطان کےحوالے کر دیا اور اس نے تمہیں انسانی فطرت کے راستے سے ہٹاکر اسی بے حیائی میں مبتلا کر دیا جس میں وہ تمہارے پہلے باپ اور ماں کو مبتلا کرنا چاہتا تھا ۔ اس پر غور کرو تو یہ حقیقت تم پر کھل جائے کہ رسولوں کی رہنمائی کے بغیر تم اپنی فطرت کے ابتدائی مطالبات تک کو نہ سمجھ سکتے ہو اور نہ پورا کر سکتے ہو ۔
11: آیات ۲۶ تا ۳۲ اہل عرب کی ایک عجیب وغریب رسم کے پس منظر میں نازل ہوئی ہیں، جس کی تفصیل یہ ہے کہ مکہ مکرَّمہ کے قریب رہنے والے کچھ قبیلے مثلا قریش، ’’حمس‘‘ کہلاتے تھے۔ عرب کے دوسرے تمام قبیلے حرم کی پاسبانی کی وجہ سے ان لوگوں کی بڑی عزت کرتے تھے۔ اسی کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ عربوں کے عقیدے کے مطابق کپڑے پہن کر طواف کرنا صرف انہی کا حق تھا۔ دوسرے لوگ کہتے تھے کہ جن کپڑوں میں ہم نے گناہ کئے ہیں، ان کے ساتھ ہم بیت اللہ کا طواف نہیں کرسکتے۔ چنانچہ یہ لوگ جب طواف کے لئے آتے تو ’’حمس‘‘ کے کسی آدمی سے کپڑے مانگتے، اگر اس کے کپڑے مل جاتے تو انہیں پہن کر طواف کرلیتے، لیکن اگر کسی کو ’’حمس‘‘ میں سے کسی کے کپڑے نہ ملتے تو وہ بالکل عریاں ہو کر طواف کرتے تھے۔ یہ آیتیں اس بے ہودہ رسم کی تردید کے لئے نازل ہوئی ہیں، اور ان میں اِنسان کے لئے لباس کی اہمیت بھی بیان فرمائی گئی ہے، اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ لباس کا اصل مقصد جسم کا پردہ ہے، اور ساتھ ہی لباس اِنسان کے لئے زینت اور خوشنمائی کا بھی ذریعہ ہے۔ ایک اچھے لباس کی صفت یہ ہونی چاہئے کہ وہ یہ دونوں مقصد پورے کرے۔ اور جس لباس سے پردے کا مقصد حاصل نہ ہو وہ اِنسانی فطرت کے خلاف ہے۔ 12: لباس کا ذکر آیا تو یہ حقیقت بھی واضح فرمادی گئی کہ جس طرح لباس اِنسان کے ظاہری جسم کی پردہ داری کرتا ہے، اسی طرح تقویٰ اِنسان کو گناہوں سے پاک رکھتا ہے، اور اس کے ظاہر اور باطن دونوں کی حفاظت کرتا ہے۔ اور اس لحاظ سے تقویٰ کا لباس بہترین لباس ہے۔ لہٰذا ظاہری لباس پہننے کے ساتھ ساتھ اِنسان کو یہ فکر بھی رکھنی چاہئے کہ وہ تقویٰ کے لباس سے آراستہ ہو۔ 13: یعنی لباس کا پیدا کرنا اﷲ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کی نشانیوں میں سے ایک ہے