ابلیس سے بچنے کی تاکید تمام انسانوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ ہوشیار کر رہا ہے کہ دیکھو ابلیس کی مکاریوں سے بچتے رہنا وہ تمہارا بڑا ہی دشمن ہے دیکھو اسی نے تمہارے باپ آدم کو دار سرور سے نکالا اور اس مصیبت کے قید خانے میں ڈالا ان کی پردہ دری کی ۔ پس تمہیں اس کے ہتھکنڈوں سے بچنا چاہئے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۭ بِئْسَ لِلظّٰلِمِيْنَ بَدَلً50 ) 18- الكهف ) یعنی کیا تم ابلیس اور اس کی قوم کو اپنا دوست بناتے ہو؟ مجھے چھوڑ کر ؟ حالانکہ وہ تو تمہارا دشمن ہے ظالموں کا بہت ہی برا بدلہ ہے ۔
27۔ 1 اس میں اہل ایمان کو شیطان اور اور اس کے قبیلے یعنی چیلے چانٹوں سے ڈرایا گیا ہے کہ کہیں وہ تمہاری غفلت اور سستی سے فائدہ اٹھا کر تمہیں بھی اس طرح فتنے اور گمراہی میں نہ ڈال دے جس طرح تمہارے ماں باپ (آدم حوا) کو اس نے جنت سے نکلوا دیا اور لباس جنت بھی اتروا دیا۔ بالخصوص جب کہ وہ نظر بھی نہیں آتے۔ تو اس سے بچنے کا اہتمام اور فکر بھی زیادہ ہونا چاہئے۔ 27۔ 2 یعنی بےایمان قسم کے لوگ ہی اس کے دوست اور اس کے خاص شکار ہیں۔ تاہم اہل ایمان پر بھی وہ ڈورے ڈالتا رہتا ہے۔ کچھ اور نہیں تو شرک خفی (ریاکاری) اور شرک میں ہی ان کو مبتلا کردیتا ہے اور یوں ان کو بھی ایمان کے بعد ایمان صحیح کی پونجی سے محروم کردیتا ہے۔
[٢٥] شیطانی حملہ اور اس سے بچاؤ کے لئے ہدایات :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو چند حقائق سے آگاہ فرمایا۔ ایک یہ کہ شیطان کے مکر و فریب سے ہوشیار رہیں وہ اگر تمہارے باپ کو مکر و فریب سے اور سبز باغ دکھا کر جنت سے نکلوا سکتا ہے تو تمہارے ساتھ وہ کیا کچھ نہیں کرسکتا اور دوسرے یہ کہ شیطان کا سب سے پہلا وار یہ ہوتا ہے کہ انسانوں کو فحاشی میں مبتلا کر دے بےحجابی کو عام کر دے اور تمہارے پردہ شرم و حیا کو تار تار کر دے تیسرے یہ کہ تمہارا دشمن تو تمہیں دیکھ رہا ہوتا ہے جبکہ تم اسے نہیں دیکھ سکتے اور ظاہر ہے کہ ایسا دشمن اپنے مد مقابل (انسان) پر وار اس وقت کرے گا جب وہ غفلت میں پڑا ہو اور اس کا یہ وار شدید تر ہوگا اور چوتھے یہ کہ اس کا وار صرف ان لوگوں پر چل سکے گا جو ایمان نہیں لاتے۔ کیونکہ ایمان لانے والے اور اللہ کی فرمانبرداری کرنے والے ایک ایسی ہستی کی پناہ میں آجاتے ہیں جو خود تو ان شیطانوں کو دیکھتا ہے لیکن شیطان اسے نہیں دیکھ سکتے گویا معاملہ بالکل الٹ ہوجاتا ہے اور ایسے لوگوں پر شیطان کا حملہ بہت کم کارگر ہوتا ہے اور اگر کسی وقت وہ شیطان کے بہکاوے میں آ بھی جائیں تو اللہ سے معافی مانگ کر اور اس کے دامن میں پناہ لے کر شیطانی حملے کے اثر سے پاک صاف ہوجاتے ہیں۔
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطٰنُ ۔۔ : شیطان کی کوشش یہ ہے کہ تم جنت میں نہ جانے پاؤ، جیسا کہ اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا، اس کے لیے وہ بےپردگی کو اور بےلباس ہونے کو عام کرتا ہے، تاکہ بےحیائی اور بدکاری پھیل جائے۔ دیکھنا کہیں اس فتنے میں مبتلا ہو کر جنت سے محروم نہ ہوجانا۔ - ۭاِنَّهٗ يَرٰىكُمْ هُوَ وَقَبِيْلُهٗ ۔۔ : یعنی ایسے دشمن سے تو بہت زیادہ محتاط اور چوکنا رہنا چاہیے جو ہمیں دیکھے مگر ہم اسے دیکھ نہ پائیں۔ اس آیت سے بعض اہل علم نے یہ استدلال کیا ہے کہ جنوں کو دیکھنا ممکن نہیں ہے، مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے، کیونکہ اگرچہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ اور اس کا قبیلہ ہمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں جبکہ ہم انھیں نہیں دیکھتے ہوتے، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کا دکھائی دینا کسی وقت بھی ممکن نہیں۔ یہ ” قَضْیَۃٌ مُطْلَقَۃٌ لاَ دَاءِمَۃٌ“ ہے، لہٰذا صحیح یہی ہے کہ جنوں کو دیکھنا ممکن ہے۔ احادیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنوں کو دیکھا ہے۔ (فتح القدیر) اور زکوٰۃِ رمضان کی نگرانی کے قصے میں مذکور ہے کہ ابوہریرہ (رض) مسلسل تین راتیں ایک جن کو پکڑتے رہے۔ [ بخاری : ٢٣١١١ ] اور صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” آج رات میری نماز قطع کرنے کے لیے میرے پاس ایک سرکش جن آگیا، اگر میرے بھائی سلیمان ( (علیہ السلام) ) کی دعا نہ ہوتی تو میں اسے پکڑ کر ستون سے باندھ دیتا اور صبح کو مدینہ کے بچے اس سے کھیلتے۔ “ [ مسلم : ٥٤١۔ بخاری : ٤٦١ ] سلیمان (علیہ السلام) کے پاس تو باقاعدہ جنوں کی قوم تھی۔ [ النمل : ١٧ ] اب رہا امام شافعی (رض) کا یہ فرمانا کہ جو شخص جنات کو دیکھنے کا دعویٰ کرے، اس کی شہادت مردود ہے، تو شاید ان کا مطلب یہ ہو کہ انھیں ان کی اصل شکل پر دیکھنے کا دعویٰ کرے، ورنہ احادیث سے ثابت شدہ بات مقدم ہے۔
دوسری آیت میں پھر تمام اولاد آدم کو خطاب کرکے تنبیہ فرمائی گئی ہے کہ اپنے ہر حال اور ہر کام میں مکر شیطانی سے بچتے رہو، ایسا نہ ہو کہ وہ تم کو پھر کسی فتنہ میں مبتلا کر دے، جیسا تمہارے ماں باپ حضرت آدم و حواء کو اس نے جنت سے نکلوایا، اور ان کا لباس اتار کر ان کے ستر کھولنے کا سبب بنا وہ تمہارا قدیم دشمن ہے، اس کی دشمنی کا ہمیشہ ہر وقت خیال رکھو۔ - آخر آیت میں فرمایا (آیت) ۭاِنَّهٗ يَرٰىكُمْ هُوَ وَقَبِيْلُهٗ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۭاِنَّا جَعَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ لِلَّذِيْنَ لَا يُؤ ْمِنُوْنَ اس میں لفظ قبیل کے معنی جماعت اور جھتے کے ہیں، جو جماعت ایک خاندان کی شریک ہو اس کو قبیلہ کہتے ہیں، اور عام جماعتوں کو قبیل کہا جاتا ہے، مطلب یہ ہے کہ شیطان تمہارا ایسا دشمن ہے کہ وہ اور اس کے ساتھی تو تم کو دیکھتے ہیں، تم ان کو نہیں دیکھتے، اس لئے ان کا مکر و فریب تم پر چل جانے کے زیادہ امکانات ہیں۔ لیکن دوسری آیات میں یہ بھی بتلا دیا گیا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے اور مکر شیطانی سے ہوشیار رہنے والے ہیں، ان کے لئے شیطان کا جال نہایت کمزور ہے۔ اور اس کے آخر میں بھی یہ جو فرمایا کہ ہم نے شیطانوں کو ان کا سرپرست بنادیا ہے جو ایمان نہیں رکھتے، اس میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ ایمان والوں کے لئے اس کے جال سے بچنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ - بعض حضرات سلف نے فرمایا کہ یہ دشمن جو ہمیں دیکھتا ہے اور ہم اس کو نہیں دیکھ سکتے اس کا علاج ہمارے لئے یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجائیں، جو ان شیطانوں کو اور ان کی ہر نقل و حرکت کو دیکھتا ہے اور شیطان اس کو نہیں دیکھ سکتا۔ اور یہ ارشاد کہ انسان شیاطین کو نہیں دیکھ سکتا عام حالات اور عام عادت کے اعتبار سے ہے، خرق عادت کے طور پر کوئی انسان کبھی ان کو دیکھ لے یہ اس کے منافی نہیں، جیسا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جنات کا آنا اور سوالات کرنا اور اسلام قبول کرنا وغیرہ صحیح روایات حدیث میں مذکور ہے (روح) ۔
وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَيْہَآ اٰبَاۗءَنَا وَاللہُ اَمَرَنَا بِہَا ٠ ۭ قُلْ اِنَّ اللہَ لَا يَاْمُرُ بِالْفَحْشَاۗءِ ٠ ۭ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ٢٨- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- فحش - الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] - ( ف ح ش ) الفحش - والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے :- إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ - وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا
قول باری ہے یا بنی ادم لایفتنتکم الشیطان کما اخرج ابویکم من الجنۃ۔ اے بنی آدم ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اسی طرح فتنے میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا) فتنہ کے متعلق ایک قول ہے کہ اس سے مراد وہ ابتلا ہے جس میں شہوت یا شبہ کی جہت سے معصیت کی طرف دعوت کی بنا پر کوئی پھنس جائے۔ خطاب میں انسان کو شیطان کے فتنے میں مبتلا ہونے سے روکا گیا ہے لیکن اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کو شیطان کے فتنے میں پڑنے سے ڈرایا گیا ہے اور اس پر اس سے اپنا پہلو بچانا لازم کردیا گیا ہے۔ قول باری کما اخرج ابویکم من الجنۃ) میں جنت سے آدم (علیہ السلام) و حوا کے اخراج کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان نے انہیں بہکایا تھا جس کے نتیجے میں وہ ایسی حرکت کر بیٹھے جو ان کے جنت سے اخراج پر منتج ہوئی جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرعون کی نسبت بیان فرمایا یذبح ابناء ھم و ان کے بیٹوں کو ذبح کردیا تھا) جبکہ فرعون نے انہیں ذبح کرنے کا حکم دے رکھا تھا وہ خود یہ کام نہیں کرتا تھا۔ اسی مفہوم پر اللہ نے آدم (علیہ السلام) و حوا کے لباس اتروانے کی نسبت بھی شیطان کی طرف کردی فرمایا ینزع عنھما لبا سھما۔ اور ان کے لباس ان پر سے اتروا دیئے تھے) اگر کوئی شخص اپنی قمیض نہ سینے اور اپنے غلام کی پٹائی نہ کرنے کی قسم کھالے جبکہ وہ خود یہ کام نہ کرتا ہو تو کسی اور سے یہ کام کروانے پر وہ حانث ہوجائے گا۔ اس مسئلے میں درج بالا آیت سے استدلال کیا گیا ہے۔ اسی طرح اگر اس نے گھر نہ بنانے کی قسم کھائی ہو اور پھر کسی اور کے ذریعے بنوالے تو حانث ہوجائے گا۔- لباس آدم کی کیفیت - ایک قول ہے کہ آدم (علیہ السلام) و حوا (علیہ السلام) کے جسم پر جو لباس تھا وہ جنت کے کپڑے کا بنا ہوا تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ ان کا لباس ظفر (ایک قسم کی نباتات کا تھا۔ وہب بن منبہ کا قول ہے کہ ا ن کا لباس نور کا تھا۔
(٢٧) تمہیں شیطان ہرگز میری اطاعت سے کسی خرابی میں نہ مبتلا کردے جیسا کہ اس نے آدم وحوا (علیہ السلام) کو مبتلا کیا اس نے ان سے نور کا لباس اتروا دیا تاکہ ایک دوسرے کے سامنے پردہ دار بدن ظاہر ہوجائے۔- اور شیطان اور اس کے لشکر کو تم نہیں دیکھ سکتے کیوں کہ تمہارے سینے میں ان کا مرکز ہیں، ہم شیطانوں کو ان لوگوں کا رفیق بنادیتے ہیں جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار کرتے ہیں۔
آیت ٢٧ (یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ لاَ یَفْتِنَنَّکُمُ الشَّیْطٰنُ کَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَیْکُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ یَنْزِعُ عَنْہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوْاٰتِہِمَا ط) - (اِنَّہٗ یَرٰٹکُمْ ہُوَ وَقَبِیْلُہٗ مِنْ حَیْثُ لاَ تَرَوْنَہُمْ ط) - چونکہ ابلیس کو اللہ کی طرف سے قیامت تک چھوٹ ملی ہوئی ہے لہٰذا وہ نہ صرف مسلسل زندہ ہے ‘ بلکہ اس نے اپنی اولاد اور اپنے نمائندوں کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے انسانوں کے درمیان پھیلا رکھا ہے۔ یہ جن شیاطین چونکہ غیر مرئی ( ) مخلوق ہیں اس لیے وہ ایسی ایسی جگہوں پر ہماری گھات میں بیٹھے ہوتے ہیں اور ایسے ایسے طور طریقوں سے حملہ آور ہوتے ہیں جس کا ہلکا سا اندازہ بھی ہم نہیں کرسکتے۔- (اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَ لِلَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ) ۔ - جیسے گندگی اور مکھی کا فطری ساتھ ہے ایسے ہی شیطان اور منکرین حق کا یارانہ ہے۔ جس دل میں ایمان نہیں ہوگا اور وہ اللہ کے ذکر کے نور سے محروم ہوگا ‘ وہ خانۂ خالی را دیو می گیرد کے مصداق شیطان ہی کا اڈہ بنے گا۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :16 ان آیات میں جو کچھ ارشاد ہوا ہے اس سے چند اہم حقیقتیں نکھر کر سامنے آجاتی ہیں: اوّل یہ کہ لباس انسان کے لیے ایک مصنوعی چیز نہیں ہے بلکہ انسانی فطرت کا ایک اہم مطالبہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم پر حیوانات کی طرح کوئی پوشش پیدائشی طور پر نہیں رکھی بلکہ حیا اور شرم کا مادہ اس کی فطرت میں ودیعت کر دیا ۔ اس نے انسان کے لیے اس کے اعضائے صنفی کو محض اعضائے صنفی ہی نہیں بنا یا بلکہ سَوْأة بھی بنایا جس کے معنی عربی زبان میں ایسی چیز کے ہیں جس کے اظہار کو آدمی قبیح سمجھے ۔ پھر اس فطری شرم کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اس نے کوئی بنا بنایا لباس انسان کو نہیں دے دیا بلکہ اس کی فطرت پر لباس کو الہام کیا ( اَنْزَلْنَا علَیْکُمْ لِبَاسًا ) تاکہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر اپنی فطرت کے اس مطالبے کو سمجھے اور پھر اللہ کے پیدا کردہ مواد سے کام لے کر اپنے لیے لباس فراہم کرے ۔ دوم یہ کہ اس فطری الہام سے رو سے انسان کے لیے لباس کی اخلاقی ضرورت مقدم ہے ، یعنی یہ کہ وہ اپنی سَوْأة کو ڈھانکے ۔ اور اس کی طبعی ضرورت موخر ہے ، یعنی یہ کہ اس کا لباس اس کےلیے رِیش ( جسم کی آرائش اور موسمی اثرات سے بدن کی حفاظت کا ذریعہ ) ہو ۔ اس باب میں بھی فطرةً انسان کا معاملہ حیوانات کے برعکس ہے ۔ ان کے لیے پوشش کی اصل غرض صرف اس کا ”ریش“ ہونا ہے ، رہا اس کا سترپوش ہونا تو ان کے اعضاء صنفی سرے سے سَوْأة ہی نہیں ہیں کہ اُنہیں چھپانے کے لیے حیوانات کی جبلت میں کوئی داعیہ موجود ہوتا اور اس کا تقاضا پورا کرنے کے لیے ان کے اجسام پر کوئی لباس پیدا کیا جاتا ۔ لیکن جب انسانوں نے شیطان کی رہنمائی قبول کی تو معاملہ پھر اُلٹ گیا ۔ اس نے اپنے ان شاگردوں کو اس غلط فہمی میں ڈال دیا کہ تمہارے لیے لباس کی ضرورت بعینہ وہی ہے جو حیوانات کے اعضاء سَوْأة نہیں ہیں اسی طرح تمہارے یہ اعضاء بھی سَوْأة نہیں ، محض اعضاء صنفی ہی ہیں ۔ سوم یہ کہ انسان کے لیے لباس کا صرف ذریعہ ستر پوشی اور وسیلہ زینت و حفاظت ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ فی الحقیقت اس معاملہ میں جس بھلائی تک انسان کو پہنچنا چاہیے وہ یہ ہے کہ اس کا لباس تقویٰ کا لباس ہو ، یعنی پوری طرح ساتر بھی ہو ، زینت میں بھی حد سے بڑھا ہوا یا آدمی کی حیثیت سے گرا ہوا نہ ہو ، فخر و غرور اور تکبر و ریا کی شان لیے ہوئے بھی نہ ہو ، اور پھر ان ذہنی امراض کی نمائندگی بھی نہ کرتا ہو جن کی بنا پر مرد زنانہ پن اختیار کرتے ہیں ، عورتیں مردانہ پن کی نمائش کرنےلگتی ہیں ، اور ایک قوم دوسری قوم کے مشابہہ بننے کی کوشش کرکے خود اپنی ذلت کا زندہ اشتہار بن جاتی ہے ۔ لباس کے معاملہ میں اس خیر مطلوب کو پہنچنا تو کسی طرح ان لوگوں کے بس میں ہے ہی نہیں جنہوں نے انبیاء علیہم السلام پر ایمان لاکر اپنے آپ کو بالکل خدا کی رہنمائی کے حوالے نہیں کر دیا ہے ۔ جب وہ خدا کی رہنمائی تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں تو شیاطین ان کے سر پرست بنا دیے جاتے ہیں ، پھر یہ شیاطین ان کو کسی نہ کسی غلطی میں مبتلا کرکے ہی چھوڑتے ہیں ۔ چہارم یہ کہ لباس کا معاملہ بھی اللہ کی ان بے شمار نشانیوں میں سے ایک ہے جو دنیا میں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں اور حقیقت تک پہنچنے میں انسان کی مدد کرتی ہیں ۔ بشرطیکہ انسان خود ان سے سبق لینا چاہے ۔ اُوپر جن حقائق کیطرف ہم نے اشارہ کیا ہے انہیں اگر تامُّل کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ لباس کس حیثیت سے اللہ تعالیٰ کا ایک اہم نشان ہے ۔