Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جہالت اور طواف کعبہ مشرکین ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جیسے ہم پیدا ہوئے ہیں اسی حالت میں طواف کریں گے ۔ عورتیں بھی آگے کوئی چمڑے کا ٹکڑا یا کوئی چیز رکھ لیتی تھیں اور کہتی تھیں ۔ الیوم یبدو بعضہ اوکلہ وما بدا منہ فلا احلہ آج اس کا تھوڑا سا حصہ ظاہر ہو جائے گا اور جتنا بھی ظاہر ہو میں اسے اس کے لئے جائز نہیں رکھتی ۔ اس پر آیت ( واذا فعلوا ) الخ ، نازل ہوئی ہے ۔ یہ دستور تھا کہ قریش کے سوا تمام عرب بیت اللہ شریف کا طواف اپنے پہنے ہوئے کپڑوں میں نہیں کرتے تھے سمجھتے تھے کہ یہ کپڑے جنہیں پہن کر اللہ کی نافرمانیاں کی ہیں اس قابل نہیں رہے کہ انہیں پہنے ہوئے طواف کر سکیں ہاں قریش جو اپنے تئیں حمس کہتے تھے اپنے کپڑوں میں بھی طواف کرتے تھے اور جن لوگوں کو قریش کپڑے بطور ادھار دیں وہ بھی ان کے دیئے ہوئے کپڑے پہن کر طواف کر سکتا تھا یا وہ شخص کپڑے پہنے طواف کر سکتا تھا جس کے پاس نئے کپڑے ہوں ۔ پھر طواف کے بعد ہی انہیں اتار ڈالتا تھا اب یہ کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتے تھے ۔ پس جس کے پاس نیا کپڑا نہ ہو اور حمس بھی اس کو اپنا کپڑا نہ دے تو اسے ضروری تھا کہ وہ ننگا ہو کر طواف کرے ۔ خواہ عورت ہو خواہ مرد عورت اپنے آگے کے عضو پرذرا سی کوئی چیز رکھ لیتی اور وہ کہتی جس کا بیان اوپر گذرا لیکن عموماً عورتیں رات کے وقت طواف کرتی تھیں یہ بدعت انہوں نے از خود گھڑ لی تھی اس فعل کی دلیل سوائے باپ دادا کی تقلید کے اور ان کے پاس کچھ نہ تھی لیکن اپنی خوش فہمی اور نیک ظنی سے کہ دیتے تھے کہ اللہ کا بھی یہی حکم ہے ۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر یہ فرمودہ رب نہ ہوتا تو ہمارے بزرگ اس طرح نہ کرتے ۔ اس لئے حکم ہوتا ہے کہ اے نبی آپ ان سے کہدیجئے کہ اللہ تعالیٰ بےحیائی کے کاموں کا حکم نہیں کرتا ۔ ایک تو برا کام کرتے ہوں دوسرے جھوٹ موٹ اس کی نسبت اللہ کی طرف کرتے ہو یہ چوری اور سینہ زوری ہے ۔ کہدے کہ رب العالمیں کا حکم تو عدل و انصاف کا ہے ، استقامت اور دیانت داری کا ہے ، برائیوں اور گندے کاموں کے چھوڑنے کا ہے ، عبادات ٹھیک طور پر بجا لانے کا ہے جو اللہ کے سچے رسولوں کے طریقہ کے مطابق ہوں ، جن کی سچائی ان کے زبردست معجزوں سے اللہ نے ثابت کر دی ہے ، ان کی لائی ہوئی شریعت پر اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہوں ۔ جب تک اخلاص اور پیغمبر کی تابعداری کسی کام میں نہ ہو اللہ کے ہاں وہ مقبول نہیں ہوتا ۔ اس نے جس طرح تمہیں اول اول پیدا کیا ہے اسی طرح وہ دوبارہ بھی لوٹائے گا ، دنیا میں بھی اسی نے پیدا کیا ، آخرت کے دن بھی وہی قبروں سے دوبارہ پیدا کرے گا ، پہلے تم کچھ نہ تھے اس نے تمہیں بنایا ۔ اب مرنے کے بعد پھر بھی وہ تمہیں زندہ کر دے گا ۔ جیسے اس نے شروع میں تمہاری ابتداء کی تھی اس طرح پھر سے تمہارا اعادہ کرے گا چنانچہ حدیث میں بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وعظ میں فرمایا لوگو تم اللہ کے سامنے ننگے پیروں ننگے بدنوں بےختنہ جمع کئے جاؤ گے جیسے کہ ہم نے تمہیں پیدائش میں کیا تھا اسی کو پھر دوہرائیں گے یہ ہمارا وعدہ ہے اور ہم اسے کر کے ہی رہنے والے ہیں ۔ یہ روایت بخاری و مسلم میں بھی نکالی گئی ہے ۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جیسے ہم نے لکھ دیا ہے ویسے ہی تم ہوؤ گے ۔ ایک روایت میں ہے جیسے تمہارے اعمال تھے ویسے ہی تم ہوؤ گے یہ بھی معنی ہیں کہ جس کی ابتداء میں بدبختی لکھ دی ہے وہ بدبختی اور بداعمالی تھے ویسے ہی تم ہوؤ گے یہ بھی معنی ہیں کہ جس کی ابتداء میں بدبختی لکھ دی ہے وہ بدبختی اور بداعمالی کی طرف ہی لوٹے گا گو درمیان میں نیک ہو گیا اور جس کی تقدیر میں شروع سے ہی نیکی اور سعادت لکھ دی گئی ہے وہ انجام کار نیک ہی ہو گا گو اس سے کسی وقت برائی کے اعمال بھی سرزد ہو جائیں ۔ جیسے کہ فرعون کے زمانے کے جادوگر کہ ساری عمر سیاہ کاریوں اور کفر میں کٹی لیکن آخر وقت مسلمان اولیاء ہو کر مرے ۔ یہ بھی معنی ہیں کہ اللہ تم میں سے ہر ایک کو ہدایت پر یا گمراہی پر پیدا کر چکا ہے ایسے ہی ہو کر تم ماں کے بطن سے نکلو گے ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کی پیدائش مومن و کافر ہونے کی حالت میں کی جیسے فرمان ہے آیت ( ھو الذی خلقکم فمنکم کافر و منکم مومن ) پھر انہیں اسی طرح قیامت کے دن لوٹائے گا یعنی مومن و کافر کے گروہوں میں ۔ اسی قول کی تائید صحیح بخاری شریف کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں حضور فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے سوا کوئی اور معبود نہیں کہ تم میں سے ایک شخص جنتیوں کے اعمال کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک بام بھر کا یا ہاتھ بھر کا فرق رہ جاتا ہے پھر اس پر لکھا ہوا سبقت کر جاتا ہے اور دوزخیوں کے اعمال شروع کر دیتا ہے اور اسی میں داخل ہو جاتا ہے اور کوئی جہنمیوں کے اعمال کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ جہنم سے ایک ہاتھ یا ایک بام دور رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھا آگے آ جاتا ہے اور وہ جنتیوں کے اعمال کرنے لگتا ہے اور جنت نشین ہو جاتا ہے ، دوسری روایت بھی اسی طرح کی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ اس کے وہ کام لوگوں کی نظروں میں جہنم اور جنت کے ہوتے ہیں ۔ اعمال کا دارو مدار خاتمے پر ہے اور حدیث میں ہے ہر نفس اسی پر اٹھایا جائے گا جس پر تھا ( مسلم ) ایک اور روایت میں ہے جس پر مرا ۔ اگر اس آیت سے مرد یہی لی جائے تو اسمیں اس کے بعد فرمان آیت ( فاقم وجھک ) میں اور بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں اور صحیح مسلم کی حدیث جس میں فرمان باری ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو موحد و حنیف پیدا کیا پھر شیطان نے ان کے دین سے انہیں بہکا دیا ، اس میں کوئی جمع کی وجہ ہونی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے انہیں دوسرے حال میں مومن و کافر ہونے کیلئے پیدا کیا ۔ گو پہلے حال میں تمام مخلوق کو اپنی معرفت و توحید پر پیدا کیا تھا کہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔ جیسے کہ اس نے ان سے روز میثاق میں عہد بھی لیا تھا اور اسی وعدے کو ان کی جبلت گھتی میں رکھ دیا تھا اس کے باوجود اس نے مقدمہ کیا تھا کہ ان میں سے بعض شقی اور بد بخت ہوں گے اور بعض سعید اور نیک بخت ہوں گے ۔ جیسے فرمان ہے اسی نے تمہیں پیدا کیا پھر تم میں سے بعض کافر ہیں اور بعض مومن اور حدیث میں ہے ہر شخص صبح کرتا ہے پھر اپنے نفس کی خرید فروخت کرتا ہے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اسے آزاد کرا لیتے ہیں کچھ ایسے ہیں جو اسے ہلاک کر بیٹھتے ہیں ۔ اللہ کی تقدیر ، اللہ کی مخلوق میں جاری ہے ، اسی نے مقدر کیا اسی نے ہدایت کی ، اسی نے ہر ایک کو اس کی پیدائش دی پھر رہنمائی کی ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ جو لوگ سعادت والوں میں سے ہیں ان پر نیکوں کے کام آسان ہوں گے اور جو شقاوت والے ہیں ان پر بدیاں آسان ہوں گی ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے اس فرقے نے راہ پائی اور ایک فرقے پر گمراہی ثابت ہو چکی ۔ پھر اس کی وجہ بیان فرمائی کہ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنا لیا ہے ، اس آیت سے اس مذہب کی تردید ہوتی ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو کسی معصیت کے عمل پر یا کسی گمراہی کے عقیدے پر عذاب نہیں کرتا تا وقتیکہ اس کے پاس صحیح چیز صاف آ جائے اور پھر وہ اپنی برائی پر ضد اور عناد سے جما رہے ۔ کیونکہ اگر یہ مذہب صحیح ہوتا تو جو لوگ گمراہ ہیں لیکن اپنے تئیں ہدایت پر سمجھتے ہیں اور جو واقعی ہدایت پر ہیں ان میں کوئی فرق نہ ہونا چاہئے تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان دونوں میں فرق کیا ان کے نام میں بھی اور ان کے احکام میں بھی ۔ آیت آپ کے سامنے موجود ہے پڑھ لیجئے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 اسلام سے قبل مشرکین بیت اللہ کا ننگا طواف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اس حالت کو اختیار کرکے طواف کرتے ہیں جو اس وقت تھی جب ہماری ماؤں نے جنا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ اس کی یہ تاویل کرتے تھے کہ ہم جو لباس پہنے ہوتے ہیں اس میں ہم اللہ کی نافرمانی کرتے رہتے ہیں، اس لئے اس لباس میں طواف کرنا مناسب نہیں۔ چناچہ وہ لباس اتار کر طواف کرتے اور عورتیں بھی ننگی طواف کرتیں، اس لئے، صرف اپنی شرم گاہ پر کوئی کپڑا یا چمڑے کا ٹکڑا رکھ لیتیں۔ اپنے اس شرم ناک فعل کے لئے دو عذر انہوں نے اور پیش کیے۔ ایک تو یہ کہ اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ اللہ نے اس کی تردید فرمائی کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بےحیائی کا حکم دے ؟ یوں ہی تم اللہ کے ذمہ وہ بات لگاتے ہو جو اس نے نہیں کہی۔ جب انہیں حق کی بات بتائی جاتی ہے تو اس کے مقابلے میں یہی عذر پیش کرتے ہیں کہ ہمارے بڑے یہی کرتے آئے ہیں یا ہمارے امام اور پیر و شیخ کا یہی حکم ہے، یہی وہ خصلت ہے جس کی وجہ سے یہودی، یہودیت پر، نصرانی نصرانیت پر اور بدعتی بدعتوں پر قائم رہے (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٦] ننگے طواف کرنا برہنگی ہر جاہلی تہذیب کا جزء ہے :۔ دور جاہلیت میں عرب لوگ ننگا ہوجانے کو کوئی معیوب فعل تصور نہیں کرتے تھے۔ بغیر پردہ یا اوٹ کے ننگے نہانا، راستے میں ہی بلا جھجک رفع حاجت کے لیے بیٹھ جانا یا محفل میں کسی کے ستر کھل جانے کو وہ عیب نہیں سمجھتے تھے اور اہل عرب ہی کا کیا ذکر ہر جاہلی معاشرہ میں یہی حالت ہوتی ہے۔ اہل عرب میں جو اس سے بھی زیادہ شرمناک فعل تھا وہ یہ تھا کہ وہ کعبہ کا طواف بھی ننگے ہو کر کرتے تھے اور انہوں نے اپنے اس فعل کو مذہبی تقدس کا درجہ دے رکھا تھا عورتیں اس شرمناک فعل میں مردوں سے بھی دو ہاتھ آگے تھیں جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔- عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایام جاہلیت میں عورت برہنہ ہو کر کعبہ کا طواف کرتی اور کہتی جاتی کہ کوئی ہے جو مجھے عاریتاً ایک کپڑا دے تاکہ میں اس سے شرمگاہ ڈھانپ لوں۔ پھر کہتی آج یا تو کچھ شرمگاہ کھلی رہے گی یا پوری کھلی رہے گی بہرحال جتنی بھی کھلی رہے گی میں اسے کسی پر حلال نہیں کروں گی۔ آیت (خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ 31؀ ) 7 ۔ الاعراف :31) اسی بارے میں نازل ہوئی (مسلم۔ کتاب التفسیر)- اور یہ بد رسم فتح مکہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے ختم کی گئی۔ ٩ ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کو امیر حج بنا کر بھیجا اور بعد میں تاکید مزید کے طور پر سیدنا علی (رض) کو بھیجا۔ چناچہ حج کے اجتماع میں جو عام اعلان کیا گیا اس کے دو اہم نکات یہ تھے کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک بیت اللہ میں داخل نہیں ہوسکتا اور دوسرا یہ کہ آئندہ کوئی ننگے ہو کر کعبہ کا طواف نہیں کرسکتا۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب لایطوف بالبیت عریانا )- جس کام میں بےحیائی ہو وہ اللہ کا حکم نہیں ہوسکتا :۔ مشرکین مکہ اگرچہ برہنگی کو باعث عار اور معیوب فعل نہیں سمجھتے تھے تاہم انہیں یہ اعتراف ضرور تھا کہ ایسی برہنگی اور بےحیائی کوئی اچھا کام نہیں پھر جب انہیں اس کام سے روکا جاتا تو وہ جواب یہ دیتے کہ ہمارے آباو اجداد اور بڑے بزرگ بھی کعبہ کا طواف ننگے ہو کر کرتے آئے ہیں وہ بزرگ ہم سے زیادہ دیندار تھے پھر بھلا ہم کیوں نہ کریں۔ تقلید آباء کے رد میں اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا کہ جب تمہارے سب سے بڑے باپ اور بزرگ آدم شیطان کے بہکاوے میں آگئے تھے تو پھر یہ بزرگ کیوں شیطان کے ہتھے نہیں چڑھ سکتے اور چونکہ وہ اس طواف کو متبرک اور دین ہی کا حکم سمجھتے تھے لہذا فوراً کہہ دیتے کہ یہ اللہ ہی کا حکم ہوگا جو ہمارے بزرگ برہنہ ہو کر طواف کرتے تھے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ اللہ تعالیٰ تو بےحیائی کے کاموں سے روکتا ہے وہ اس کا حکم کیسے دے سکتا ہے ؟ بالفاظ دیگر جس چیز میں بےحیائی پائی جاتی ہو وہ اللہ کا حکم کبھی نہیں ہوسکتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً ۔۔ : یہاں ” فَاحِشَۃٌ“ اور ” فَحْشَاءُ “ سے مراد وہ عبادات ہیں جو انھوں نے از خود ایجاد کرلی تھیں، مثلاً ان کے مرد اور عورتیں ننگے ہو کر طواف کرتے کہ جن کپڑوں میں ہم گناہ کرتے ہیں ان میں طواف کیسے کریں ؟ اس کے علاوہ اس آیت میں مشرکین کے اپنی بےحیائی اور بدکاری پر قائم رہنے کے دو عذر بیان کیے گئے ہیں، ایک یہ کہ ہم نے بڑوں کو ایسا کرتے پایا ہے اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے۔ پہلی بات یعنی اپنے بڑوں کو ایسا کرتے ہوئے پانے کی چونکہ درست تھی اس لیے یہاں اس کی نفی نہیں کی گئی۔ ہاں دوسری کئی آیات میں بتایا گیا ہے کہ باپ دادا کے نقش قدم پر چلتے رہنا کوئی دلیل نہیں ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٧٠) اور سورة مائدہ (١٠٤) ۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” یعنی سن چکے کہ باپ نے شیطان کا فریب کھایا، پھر باپ کی سند کیوں لاتے ہو ؟ “ (موضح) رہا دوسرا عذر تو چونکہ بطور واقعہ بھی غلط تھا اور بطور دلیل بھی، اس لیے یہاں اس کی تردید فرمائی گئی۔ مطلب یہ ہے کہ جب انبیاء کی زبان سے ان کاموں کا برا اور قبیح ہونا ثابت ہوچکا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قسم کی بےحیائی کا حکم دے۔ (رازی) - اَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ ۔۔ : اس آیت میں ان لوگوں کو بھی سخت تنبیہ ہے جو محض باپ دادا کی رسموں کو دین سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہونے کو ثواب سمجھتے ہیں اور ان مقلدین کے لیے بھی جو امام پرستی، شیخ پرستی یا کسی بھی شخصیت پرستی میں گرفتار ہیں، جب بھی انھیں حق کی بات دلیل کے ساتھ پیش کی جاتی ہے اور وہ لاجواب ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں کو کیا اس کا علم نہ تھا ؟ کیا وہ جاہل تھے ؟ ہمارے بڑے یہی کرتے آئے ہیں، ہم بھی اسی پر قائم رہیں گے۔ یہی وہ خصلت ہے جس کی وجہ سے یہودی یہودیت پر، نصرانی نصرانیت پر اور بدعتی بدعت پر قائم رہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور وہ لوگ جب کوئی فحش کام کرتے ہیں (یعنی ایسا کام جس کی برائی کھلی ہوئی ہو اور انسانی فطرت اس کو برا سمجھتی ہو، جیسے ننگے ہو کر طواف کرنا) تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ داد کو اسی طریق پر پایا ہے اور (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے بھی ہم کو یہی بتلایا ہے (اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے جاہلانہ استدلال کے جواب میں) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ فحش کام کی کبھی تعلیم نہیں دیتا، کیا (تم ایسا دعویٰ کرکے) خدا کے ذمہ ایسی باتیں لگاتے ہو جس کی تم کوئی سند نہیں رکھتے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ (تم نے جن فحش اور غلط کاموں کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے وہ تو غلط ہے، اب وہ بات سنو جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے واقعی طور پر دیا ہے وہ یہ ہے کہ) میرے رب نے تو حکم دیا ہے انصاف کرنے کا، اور یہ کہ تم ہر سجدہ (یعنی عبادت) کے وقت اپنا رخ سیدھا (اللہ کی طرف) رکھا کرو (یعنی کسی مخلوق کو اس کی عبادت میں شریک نہ کرو) اور اللہ کی عبادت اس طور پر کرو کہ اس عبادت کو خالص اللہ ہی کے واسطے رکھا کرو (اس مختصر جملہ میں تمام مامورات شرعیہ اجمالاً آگئے، قسط میں حقوق العباد، اقیموا میں اعمال وطاعت، مخلصین میں عقائد) تم کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح شروع میں پیدا کیا تھا اسی طرح تم (ایک وقت) پھر دوبارہ پیدا ہوگے، بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے (دنیا میں) ہدایت کی ہے، (ان کو اس وقت جزاء ملے گی) اور بعض پر گمراہی کا ثبوت ہوچکا ہے (ان کو سزا ملے گی) ان لوگوں نے شیطانوں کو اپنا رفیق بنا لیا، اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اور (باوجود اس کے پھر اپنی نسبت) خیال رکھتے ہیں کہ وہ راہ راست پر ہیں، اے اولاد آدم تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت (نماز کے لئے ہو یا طواف کے لئے) اپنا لباس پہن لیا کرو اور (جس طرح ترک لباس گناہ تھا، ایسے ہی حلال چیزوں کے کھانے پینے کو ناجائز سمجھنا بھی بڑا گناہ ہے، اس لئے حلال چیزوں کو) خوب کھاؤ اور پیو اور حد شرعی سے مت نکلو، بیشک اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے حد سے نکل جانے والوں کو - معارف و مسائل - اسلام سے پہلے جاہلیت عرب کے زمانہ میں شیطان نے لوگوں کو جن شرمناک اور بیہودہ رسموں میں مبتلا کر رکھا تھا ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ قریش کے سوا کوئی شخص بیت اللہ کا طواف اپنے کپڑوں میں نہیں کرسکتا تھا، بلکہ یا وہ کسی قریشی سے اس کا لباس عاریت کے طور پر مانگے یا پھر ننگا طواف کرے۔ - اور ظاہر ہے کہ سارے عرب کے لوگوں کو قریش کے لوگ کہاں تک کپڑے دے سکتے تھے، اس لئے ہوتا یہی تھا کہ یہ لوگ اکثر ننگے ہی طواف کرتے تھے، مرد بھی عورتیں بھی، اور عورتیں عموماً رات کے اندھیرے میں طواف کرتی تھیں، اور اپنے اس فعل کی شیطانی حکمت یہ بیان کرتے تھے کہ ” جن کپڑوں میں ہم نے گناہ کئے ہیں انہی کپڑوں میں بیت اللہ کے گرد طواف کرنا خلاف ادب ہے اور عقل کے اندھے یہ نہ سمجھتے تھے کہ ننگے طواف کرنا اس سے زیادہ خلاف ادب اور خلاف انسانیت ہے، صرف قریش کا قبیلہ بوجہ خدام حرم ہونے کے اس عریانی کے قانون سے مستثنیٰ سمجھا جاتا تھا “۔ - آیات مذکورہ میں پہلی آیت اسی بیہودہ رسم کو مٹانے اور اس کی خرابی کو بتلانے کے لئے نازل ہوئی ہے، اس آیت میں فرمایا کہ جب یہ لوگ کوئی فحش کام کرتے تھے تو جو لوگ ان کو اس فحش کام سے منع کرتے تو ان کا جواب یہ ہوتا تھا کہ ہمارے باپ دادا اور بڑے بوڑھے یونہی کرتے آئے ہیں، ان کے طریقہ کو چھوڑنا عار اور شرم کی بات ہے، اور یہ بھی کہتے تھے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔ (ابن کثیر)- اس آیت میں فحش کام سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک یہی ننگا طواف ہے اور اصل میں فحش، فحشاء، فاحشہ ہر ایسے برے کام کو کہا جاتا ہے جس کی برائی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہو، اور عقل و فہم اور فطرت سلیمہ کے نزدیک بالکل واضح اور کھلی ہوئی ہو (مظہری) اور اس درجہ میں حسن و قبح کا عقلی ہونا سب کے نزدیک مسلّم ہے (روح) - پھر ان لوگوں نے اس بیہودہ رسم کے جواز کے لئے دو دلیلیں پیش کیں، ایک تقلید آبائی کہ باپ داداوں کا اتباع کوئی معقول چیز نہیں، ذرا سی عقل و ہوش رکھنے والا انسان بھی اس کو سمجھ سکتا ہے، کہ کسی طریقہ کے جواز کی یہ کوئی دلیل نہیں ہوسکتی کہ باپ دادا ایسا کرتے تھے، کیونکہ اگر کسی طریقہ اور کسی عمل کی صحت اور جواز کے لئے باپ داداوں کا طریقہ ہونا کافی سمجھا جاوے تو دنیا میں مختلف لوگوں کے باپ دادا مختلف اور متضاد طریقوں پر عمل کیا کرتے تھے اس دلیل سے تو دنیا بھر کے سارے گمراہ کن طریقے جائز اور صحیح قرار پاتے ہیں، غرض ان جاہلوں کی یہ دلیل کچھ قابل توجہ تھی، اس لئے یہاں قرآن کریم نے اس کا جواب دینا ضروری سمجھا اور دوسری روایات میں اس کا بھی جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر باپ دادا کوئی جہالت کا کام کریں تو وہ کس طرح قابل تقلید و اتباع ہوسکتا ہے۔- دوسری دلیل ان لوگوں نے اپنے ننگے طواف کے جواز پر یہ پیش کی کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ہی ایسا حکم دیا ہے، یہ سراسر بہتان اور حق تعالیٰ کے حکم کے خلاف اس کی طرف ایک غلط حکم کو منسوب کرنا ہے، اس کے جواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا : (آیت) قُلْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَاْمُرُ بالْفَحْشَاۗءِ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ کبھی کسی فحش کام کا حکم نہیں دیا کرتے، کیونکہ ایسا حکم دینا حکمت اور شان قدوسی کے خلاف ہے، پھر ان لوگوں کے اس بہتان و افتراء علی اللہ اور باطل خیال کو پوری طرح ادا کرنے کے لئے ان لوگوں کو اس طرح تنبیہ کی گئی، ۭاَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ، یعنی کیا تم لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی چیزوں کو منسوب کرتے ہو جس کا تم کو علم نہیں، یعنی جس کے یقین کرنے کے لئے تمہارے پاس کوئی حجت نہیں، اور ظاہر ہے کہ بلا تحقیق کسی شخص کی طرف بھی کسی کام کو منسوب کرنا انتہائی دلیری اور ظلم ہے تو اللہ جل شانہ کی طرف کسی نقل کی ایسی غلط نسبت کرنا کتنا بڑا جرم اور ظلم ہوگا، حضرات مجتہدین آیات قرآنی سے بذریعہ اجتہاد جو احکام نکالتے اور بیان کرتے ہیں وہ اس میں داخل نہیں، کیونکہ ان کا استخراج قرآن کے الفاظ و ارشادات سے ایک حجت کے ماتحت ہوتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَمَرَ رَبِّيْ بِالْقِسْطِ۝ ٠ ۣ وَاَقِيْمُوْا وُجُوْہَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝ ٠ۥۭ كَـمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَ۝ ٢٩ ۭ- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] . وعلی هذا قوله تعالی: وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران 80] أي : آلهة، وتزعمون أنهم الباري مسبّب الأسباب، والمتولّي لمصالح العباد، وبالإضافة يقال له ولغیره، نحو قوله : رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات 126] ، ويقال : رَبُّ الدّار، ورَبُّ الفرس لصاحبهما، وعلی ذلک قول اللہ تعالی: اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف 42] ، وقوله تعالی: ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف 50] ، وقوله : قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف 23] ، قيل : عنی به اللہ تعالی، وقیل : عنی به الملک الذي ربّاه والأوّل أليق بقوله . والرَّبَّانِيُّ قيل : منسوب إلى الرّبّان، ولفظ فعلان من : فعل يبنی نحو :- عطشان وسکران، وقلّما يبنی من فعل، وقد جاء نعسان . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ الذي هو المصدر، وهو الذي يربّ العلم کالحکيم، وقیل : منسوب إليه، ومعناه، يربّ نفسه بالعلم، وکلاهما في التحقیق متلازمان، لأنّ من ربّ نفسه بالعلم فقد ربّ العلم، ومن ربّ العلم فقد ربّ نفسه به . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ ، أي : اللہ تعالی، فالرّبّانيّ کقولهم : إلهيّ ، وزیادة النون فيه كزيادته في قولهم : لحیانيّ ، وجسمانيّ قال عليّ رضي اللہ عنه : (أنا ربّانيّ هذه الأمّة) والجمع ربّانيّون . قال تعالی: لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة 63] ، كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران 79] ، وقیل : ربّانيّ لفظ في الأصل سریانيّ ، وأخلق بذلک فقلّما يوجد في کلامهم، وقوله تعالی: رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران 146] ، فالرِّبِّيُّ کالرّبّانيّ. والرّبوبيّة مصدر، يقال في اللہ عزّ وجلّ ، والرِّبَابَة تقال في غيره، وجمع الرّبّ أرْبابٌ ، قال تعالی: أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف 39] ، ولم يكن من حقّ الرّبّ أن يجمع إذ کان إطلاقه لا يتناول إلّا اللہ تعالی، لکن أتى بلفظ الجمع فيه علی حسب اعتقاداتهم، لا علی ما عليه ذات الشیء في نفسه، والرّبّ لا يقال في التّعارف إلّا في الله، وجمعه أربّة، وربوب، قال الشاعر - کانت أربّتهم بهز وغرّهم ... عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا وقال آخر :- وكنت امرأ أفضت إليك ربابتي ... وقبلک ربّتني فضعت ربوب ويقال للعقد في موالاة الغیر : الرِّبَابَةُ ، ولما يجمع فيه القدح ربابة، واختصّ الرّابّ والرّابّة بأحد الزّوجین إذا تولّى تربية الولد من زوج کان قبله، والرّبيب والرّبيبة بذلک الولد، قال تعالی: وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء 23] ، وربّبت الأديم بالسّمن، والدّواء بالعسل، وسقاء مربوب، قال الشاعر : فکوني له کالسّمن ربّت بالأدم والرَّبَابُ : السّحاب، سمّي بذلک لأنّه يربّ النبات، وبهذا النّظر سمّي المطر درّا، وشبّه السّحاب باللّقوح . وأَرَبَّتِ السّحابة : دامت، وحقیقته أنها صارت ذات تربية، وتصوّر فيه معنی الإقامة فقیل : أَرَبَّ فلانٌ بمکان کذا تشبيها بإقامة الرّباب، وَ «رُبَّ» لاستقلال الشیء، ولما يكون وقتا بعد وقت، نحو : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا - [ الحجر 2] .- ( ر ب ب ) الرب - ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کمال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ ورببہ تینوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گناہ بخشنے والا پروردگار ،۔ نیز فرمایا :۔ وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران 80] اور وہ تم سے ( کبھی بھی ) یہ نہیں کہے گا کہ فرشتوں اور انبیاء کرام کو خدا مانو ( یعنی انہیں معبود بناؤ ) اور مسبب الاسباب اور مصالح عباد کو کفیل سمجھو ۔ اور اضافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور دوسروں پر بھی ۔ چناچہ فرمایا :۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [ الفاتحة 1] ہر طرح کی حمد خدا ہی کو ( سزا وار ) ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات 126] یعنی اللہ کو جو تمہارا ( بھی ) پروردگار ( ہے ) اور تمہارے پہلے آباؤ اجداد کا ( بھی ) رب الدار گھر کا مالک ۔ رب الفرس گھوڑے کا مالک اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا :۔ اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف 42] اپنے آقا سے میرا بھی تذکرہ کرنا ۔ سو شیطان نے اس کو اپنے آقا سے تذکرہ کرنا بھلا دیا ۔ ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف 50] اپنے سردار کے پاس لوٹ جاؤ ۔ اور آیت :۔ قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف 23] ( یوسف نے کہا ) معاذاللہ وہ تمہارا شوہر میرا آقا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ربی سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اور بعض نے عزیز مصر مراد لیا ہے ۔ لیکن پہلا قول انسب معلوم ہوتا ہے ۔ ربانی بقول بعض یہ ربان ( صیغہ صفت ) کی طرف منسوب ہے ۔ لیکن عام طور پر فعلان ( صفت ) فعل سے آتا ہے ۔ جیسے عطشان سکران اور فعل ۔ ( فتحہ عین سے بہت کم آتا ہے ) جیسے نعسان ( من نعس ) بعض نے کہا ہے کہ یہ رب ( مصدر ) کی طرف منسوب ہے اور ربانی وہ ہے جو علم کی پرورش کرے جیسے حکیم ( یعنی جو حکمت کو فروغ دے ۔ ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رب مصدر کی طرف ہی منسوب ہے اور ربانی وہ ہے ۔ جو علم سے اپنی پرورش کرے ۔ درحقیقت یہ دونوں معنی باہم متلازم ہیں کیونکہ جس نے علم کی پرورش کی تو اس نے علم کے ذریعہ اپنی ذات کی بھی تربیت کی اور جو شخص اس کے ذریعہ اپنی ذات کی تربیت کریگا وہ علم کو بھی فروغ بخشے گا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ رب بمعنی اللہ کی طرف منسوب ہے اور ربانی بمعنی الھی ہے ( یعنی اللہ والا ) اور اس میں الف نون زائدتان ہیں جیسا کہ جسم ولحی کی نسبت میں جسمانی ولحیانی کہا جاتا ہے ۔ حضرت علی کا قول ہے : انا ربانی ھذہ الامۃ میں اس امت کا عالم ربانی ہوں اس کی جمع ربانیون ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة 63] انہیں ان کے ربی ( یعنی مشائخ ) کیوں منع نہیں کرتے ۔ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران 79]( بلکہ دوسروں سے کہیگا ) کہ تم خدا پرست ہو کر رہو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ ربانی اصل میں سریانی لفظ ہے اور یہی قول انسب معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ عربی زبان میں یہ لفظ بہت کم پایا جاتا ہے اور آیت :۔ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران 146] بہت سے اللہ والوں نے ۔ میں ربی بمعنی ربانی ہے ۔ یہ دونوں مصدر ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ربوبیۃ اور دوسروں کے لئے ربابیۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ الرب ( صیغہ صفت ) جمع ارباب ۔ قرآن میں ہے : أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف 39] بھلا ( دیکھو تو سہی کہ ) جدا جدا معبود اچھے یا خدائے یگانہ اور زبردست ۔ اصل تو یہ تھا کہ رب کی جمع نہ آتی ۔ کیونکہ قرآن پاک میں یہ لفظ خاص کر ذات باری تعالیٰ کیلئے استعمال ہوا ہے لیکن عقیدہ کفار کے مطابق بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے اور ارباب کے علاوہ اس کی جمع اربۃ وربوب بھی آتی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( بسیط) کانت اربتھم بھز وغرھم عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا ان کے ہم عہد بنی بہز تھے جنہیں عقد جوار نے مغرور کردیا اور درحقیقت وہ غدار لوگ ہیں ۔ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 129) وکنت امرءا افضت الیک ربابتی وقبلک ربنی فضعت ربوب تم آدمی ہو جس تک میری سر پرستی پہنچتی ہے تم سے پہلے بہت سے میرے سرپرست بن چکے ہیں مگر میں ضائع ہوگیا ہوں ۔ ربابۃ : عہد و پیمان یا اس چیز کو کہتے ہیں جس میں قمار بازی کے تیر لپیٹ کر رکھے جاتے ہیں ۔ رابۃ وہ بیوی جو پہلے شوہر سے اپنی اولاد کی تربیت کررہی ہو ۔ اس کا مذکر راب ہے ۔ لیکن وہ اولاد جو پہلے شوہر سے ہو اور دوسرے شوہر کی زیر تربیت ہو یا پہلی بیوی سے ہو اور دوسری بیوی کی آغوش میں پرورش پا رہی ہو ۔ اسے ربیب یا ربیبۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع ربائب آتی ہے قرآن میں ہے : وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء 23] اور تمہاری بیویوں کی ( پچھلی ) اولاد جو تمہاری گودوں میں ( پرورش پاتی ) ہے ۔ ربیت الادیم بالسمن میں نے چمڑے کو گھی لگا کر نرم کیا ۔ ربیت الدواء بالعسل میں نے شہد سے دوا کی اصلاح کی سقاء مربوب پانی مشک جسے تیل لگا کر نرم کیا گیا ہو ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 170) فکونی لہ کالسمن ربت لہ الادم اس کے لئے ایسی ہوجاؤ جیسے رب لگا ہوا چمڑا گھی کے لئے ہوتا ہے ۔ الرباب : بادل کو کہتے ہیں کیونکہ وہ نباتات کی پرورش کرتا اور اسے بڑھاتا ہے اسی معنی کے اعتبار سے مطر کو در ( دودھ ) اور بادل کو تشبیہا لقوح ( یعنی دودھیلی اونٹنی ) کہا جاتا ہے محاورہ ہے ۔ اربت السحابۃ بدلی متواتر برستی رہی اور اسکے اصل معنی ہیں بدلی صاحب تربیت ہوگئی اس کے بعد اس سے ٹھہرنے کا معنی لے کر یہ لفظ کسی جگہ پر مقیم ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے ارب فلان بمکان کذا اس نے فلان جگہ پر اقامت اختیار کی ۔- رب تقلیل کے لئے آتا ہے اور کبھی تکثیر کے معنی بھی دیتا ہے ۔ جیسے فرمایا : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کافر بہترے ہی ارمان کریں گے ( کہ ) اے کاش ( ہم بھی ) مسلمان ہوئے ہوتے ۔- قسط - الْقِسْطُ : هو النّصيب بالعدل کالنّصف والنّصفة . قال تعالی: لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] والقِسْطُ : هو أن يأخذ قسط غيره، وذلک جور، والْإِقْسَاطُ : أن يعطي قسط غيره، وذلک إنصاف، ولذلک قيل : قَسَطَ الرّجل : إذا جار، وأَقْسَطَ : إذا عدل . قال : أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً- [ الجن 15] وقال : وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ- [ الحجرات 9] ، وتَقَسَّطْنَا بيننا، أي : اقتسمنا، والْقَسْطُ : اعوجاج في الرّجلین بخلاف الفحج، والقِسْطَاسُ : المیزان، ويعبّر به عن العدالة كما يعبّر عنها بالمیزان، قال : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] .- ( ق س ط ) القسط ( اسم )- ( ق س ط ) القسط ( اسم ) نصف ومصفۃ کی طرح قسط بھی مبنی بر عدل حصہ کو کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور قسط کے معنی دوسرے کا حق مررنا بھیآتے ہیں اس لئے یہ ظلم اور جو رے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے القسط پاؤں میں ٹیڑھا پن یہ افجع کی ضد ہے جس کے نزدیک اور ایڑیوں کی جانب سے دور ہو نیکے ہیں ۔ الا قساط اس کے اصل معنی کسی کو اس کا حق دینے کے ہیں اسی چیز کا نام انصاف ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ قسط الرجل فھو قاسط ) کے معنی ظلم کرنے اوراقسط کے معنی انصاف کرنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن 15] اور گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات 9] اور انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ فقسطنا بیننا ہم نے ( کسی چیز کو آپس میں برا بر تقسیم کرلیا چناچہ القسطاس تراز دکو کہتے ہیں اور لفظ میزان کی طرح اس سے بھی عدل ونصاف کے معنی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] اور جب تول کر دو تو ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔- اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے - مَسْجِدُ- : موضع الصلاة اعتبارا بالسجود، وقوله : وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] ، قيل : عني به الأرض، إذ قد جعلت الأرض کلّها مسجدا وطهورا کما روي في الخبر وقیل : الْمَسَاجِدَ : مواضع السّجود : الجبهة والأنف والیدان والرّکبتان والرّجلان، وقوله : أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25] أي : يا قوم اسجدوا، وقوله : وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] ، أي : متذلّلين، وقیل : کان السّجود علی سبیل الخدمة في ذلک الوقت سائغا، وقول الشاعر : وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِعنی بها دراهم عليها صورة ملک سجدوا له . المسجد ( ظرف ) کے معنی جائے نماز کے ہیں اور آیت وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] اور مسجدیں تو خدا ہی ( کی عبادت کے لئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے روئے زمین مراد ہے کیونکہ آنحضرت کے لئے تمام زمین کو مسجد اور طھور بنایا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مروی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے اعضاء سجود یعنی پیشانی ناک دونوں ہاتھ دونوں زانوں اور دونوں پاؤں مراد ہیں اور آیت : ۔ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25]( اور نہیں سمجھتے ) کہ اللہ کو ۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کیوں نہ کریں ۔ میں لا زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ میری قوم اللہ ہی کو سجدہ کرو ۔ اور آیت : ۔ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ۔ میں اظہار عاجزی مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مراد سجدہ خدمت ہے جو اس وقت جائز تھا اور شعر ( الکامل ) وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِمیں شاعر نے وہ دراھم مراد لئے ہیں جن پر بادشاہ کی تصویر ہوتی تھی اور لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے ۔- خلص - الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه،- وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] - ( خ ل ص ) الخالص ( خالص )- خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- بدأ - يقال : بَدَأْتُ بکذا وأَبْدَأْتُ وابْتَدَأْتُ ، أي : قدّمت، والبَدْءُ والابتداء : تقدیم الشیء علی غيره ضربا من التقدیم . قال تعالی: وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسانِ مِنْ طِينٍ [ السجدة 7] - ( ب د ء ) بدء ات - بکذا وابتدءات میں نے اسے مقدم کیا ۔ اس کے ساتھ ابتدا کی ۔ البداء والابتداء ۔ ایک چیز کو دوسری پر کسی طور مقدم کرنا قرآن میں ہے وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ ( سورة السجدة 7) اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٨) اور جب وہ لوگ اپنے اپنے اوپر بحیرہ، سائبہ، حام وصیلہ کو حرام کرلیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ العیاذ باللہ اللہ تعالیٰ نے بھی ہمیں ان چیزوں کا حکم دیا ہے، اے نبی کریم آپ فرما دیجیے کہ معاصی اور کھیتیوں اور جانوروں کو حرام کرلینے کا اللہ تعالیٰ حکم نہیں دیتا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ (وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْہَآ اٰبَآءَ نَا وَاللّٰہُ اَمَرَنَا بِہَا ط) ۔ - یہ لوگ جب ننگے ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتے تو اس شرمناک فعل کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتے کہ ہم نے اپنے آباء و اَجداد کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے اور یقیناً اللہ ہی نے اس کا حکم دیا ہوگا۔ یہ گویا ان کے نزدیک ایک ٹھوس ‘ قرائنی شہادت ( ) تھی کہ جب ایک ریت اور رسم چلی آرہی ہے تو یقیناً یہ سب کچھ اللہ کی مرضی اور اس کے حکم کے مطابق ہی ہو رہا ہوگا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :17 اشارہ ہے اہل عرب کے برہنہ طواف کی طرف ، جس کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں ۔ وہ لوگ اس کو ایک مذہبی فعل سمجھ کر کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ خدا نے یہ حکم دیا ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :18 بظاہر یہ ایک بہت ہی مختصر سا جملہ ہے مگر درحقیقت اس میں قرآن مجید نے ان لوگوں کے جاہلانہ عقائد کے خلاف ایک بہت بڑی دلیل پیش کی ہے ۔ اس طرزِ استدلال کو سمجھنے کے لیے دو باتیں بظور مقدمہ کے پہلے سمجھ لینی چاہییں: ایک یہ کہ اہل عرب اگرچہ اپنی بعض مذہبی رسموں میں برہنگی اختیار کرتے تھے اور اسےایک مقدس مذہبی فعل سمجھتے تھے ، لیکن برہنگی کا بجائے خود ایک شرمناک فعل ہونا خود ان کے نزدیک بھی مسلَّم تھا ، چنانچہ کوئی شریف اور ذی عزت عرب اس بات کو پسند نہ کرتا تھا کہ کسی مہذب مجلس میں ، یا بازار میں ، یا اپنے اعزّہ اور اقربا کے درمیان برہنہ ہو ۔ دوسرے یہ کہ وہ لوگ برہنگی کو شرمناک جاننے کے باوجود ایک مذہبی رسم کی حیثیت سے اپنی عبادت کے موقع پر اختیار کرتے تھے اور چونکہ اپنے مذہب کو خدا کی طرف سے سمجھتے تھے اس لیے کہ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ رسم بھی خدا ہی کی طرف سے مقرر کی ہوئی ہے ۔ اس پر قرآن مجید یہ استدلال کرتا ہے کہ جو کام فحش ہے اور جسے تم خود بھی جانتے اور مانتے ہو کہ فحش ہے اس کے متعلق تم یہ کیسے باور کر لیتے ہو کہ خدا نے اس کا حکم دیا ہوگا ۔ کسی فحش کام کا حکم خدا کی طرف سے ہرگز نہیں ہو سکتا ، اور اگر تمہارے مذہب میں ایسا حکم پایا جاتا ہے تو یہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ تمہارا مذہب خدا کی طرف سے نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

14: اس سے اسی رسم کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ عریاں ہو کر طواف کرتے تھے چونکہ یہ رسم برسوں سے چلی آتی تھی اس لئے ان کی دلیل یہ تھی کہ ہمارے باپ دادا ایسا ہی کرتے چلے آئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہوگا۔