Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 انصاف سے مراد یہاں بعض کے نزدیک لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یعنی توحید ہے۔ 29۔ 2 امام شوکانی نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اپنی نمازوں اپنا رخ قبلے کی طرف کرلو، چاہے تم کسی بھی مسجد میں ہو اور امام ابن کثیر نے اس سے استقامت بمعنی متابعت رسول مراد لی ہے اور اگلے جملے سے اخلاص اللہ اور کہا ہے کہ ہر عمل کی مقبولیت کے لئے ضروری ہے کہ وہ شریعت کے مطابق ہو اور دوسرے خالص رضائے الٰہی کے لئے ہو آیت میں ان باتوں کی تاکید کی گئی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٧] مشرکوں نے طواف کعبہ کے دوران اللہ کے ساتھ اپنے دوسرے معبودوں کو پکارنے اور ننگا طواف کرنے کی رسوم ایجاد تو خود کرلی تھیں اور ذمے اللہ کے لگا رکھی تھیں اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ اللہ نے جو حکم نہیں دیا وہ تو تم اس کے ذمے لگاتے ہو اور جو حکم دیا ہے وہ کرتے نہیں۔ اس نے حکم یہ دیا ہے کہ جو بات کرو انصاف کی کرو، خواہ مخواہ جرم کسی اور کے ذمے نہ لگاؤ اپنی زندگی عدل اور راستی پر استوار کرو جب بھی عبادت کے لیے کسی مسجد میں جاؤ تو تمہاری توجہ صرف اللہ ہی کی طرف ہونا چاہیے، خالصتاً اسی کی عبادت کرو اس میں دوسروں کو شریک نہ بناؤ اور یہ ملحوظ رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا و سزا دینے کا پورا اختیار رکھتا ہے نیز یہ کہ جس طرح تم اکیلے اکیلے دنیا میں آئے تھے بعینہٖ اسی طرح حساب و کتاب کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور اکیلے اکیلے حاضر کیے جاؤ گے وہاں تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس بھی ہوگی اور جزا و سزا بھی ملے گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اَمَرَ رَبِّيْ بالْقِسْطِ ۣ: لہٰذا تم اس کی پیروی کرو۔ یہاں ” اَلْقِسْطُ “ (انصاف) سے مراد توحید ہے، پھر بےحیائی اور بدکاری سے بچنا ہے، کیونکہ سب سے بڑا ظلم اللہ کے ساتھ شرک ہے، فرمایا : (اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ) [ لقمان : ١٣ ] ” بیشک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔ “ پھر کسی انسان کی جان، مال یا آبرو برباد کرنا بڑا ظلم ہے اور سب سے بڑا انصاف اللہ تعالیٰ کی توحید کی شہادت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے : (شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بالْقِسْطِ ۭ ) [ آل عمران : ١٨ ] ” اللہ نے گواہی دی کہ بیشک حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، اس حال میں کہ وہ انصاف پر قائم ہے۔ “ - ۣوَاَقِيْمُوْا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ : ” ِ مَسْجِدٍ “ سے مصدر میمی، ظرف زمان اور ظرف مکان تینوں مراد ہوسکتے ہیں۔ مصدر میمی ہو تو اس کا معنی سجدہ بھی ہے اور نماز بھی، جیسے ” رَکْعَۃٌ“ کا معنی رکوع بھی ہے اور نماز میں قیام، رکوع، قومہ، سجدہ اور قراءت وغیرہ کے مجموعہ کو بھی ” رَکْعَۃٌ“ کہا جاتا ہے اور سجدہ بھی اور قیام بھی۔ یعنی جز بول کر کل مراد لیا جاتا ہے، تو معنی ہوگا ہر نماز میں۔ اگر مراد زمان ہو تو ہر سجدے یا نماز کے وقت اور مکان ہو تو ہر سجدے یا نماز کی جگہ اپنے رخ سیدھے کرلو، یعنی قبلہ کی طرف، یا جیسے اللہ کے رسول نے حکم دیا ہے اس طرح اپنے چہروں، یعنی اپنے آپ کو سیدھا کرلو اور ان کے بتائے ہوئے طریقے پر نماز پڑھو۔ - وَّادْعُوْهُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڛ : ” الدِّيْن “ کا معنی یہاں عبادت ہے، یعنی خالصتاً اس کی عبادت کرو اور اس کو پکارنے اور اس کی عبادت کرنے میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرو، مراد ریا سے بچنا ہے۔ الغرض اس آیت میں تین باتوں کا حکم دیا ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ جو عبادت شرک یا ممنوع چیزوں، مثلاً ننگے ہونے یا ریا وغیرہ پر مشتمل ہو وہ فواحش میں داخل ہے۔ (رازی) خلاصہ یہ کہ ہر عبادت کے لیے توحید، اتباع رسول اور اخلاص (ریا سے پاک ہونا) تینوں چیزیں ضروری ہیں، ورنہ وہ مردود ہوگی۔ - كَمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَ : یعنی جس طرح تم پہلے کچھ نہ تھے، اللہ نے کسی مشکل کے بغیر تمہیں پیدا فرمایا، اسی طرح تمہارے مرجانے کے بعد وہ تمہیں دوبارہ نہایت آسانی سے زندہ کر دے گا اور جس طرح تم پیدا ہوئے تو تمہارے پاس کچھ نہ تھا اور بغیر ختنے اور لباس کے تھے، ایسے ہی دوبارہ زندہ ہوتے وقت ہو گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری آیت میں رشاد فرمایا (آیت) قُلْ اَمَرَ رَبِّيْ بالْقِسْطِ ، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف ننگے طواف کے جائز کرنے کی غلط نسبت کرنے والے جاہلوں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ تو ہمیشہ قسط کا حکم دیا کرتے ہیں، قسط کے اصلی معنی انصاف و اعتدال کے ہیں، اور اس جگہ قسط سے مراد وہ عمل ہے جو افراط وتفریط سے خالی ہو یعنی نہ اس میں کوتاہی ہو اور نہ مقررہ حد سے تجاوز ہو، جیسا کہ تمام احکام شرعیہ کا یہی حال ہے، اس لئے لفظ قسط کے مفہوم میں تمام عبادات اور طاعات اور عام احکام شرعیہ داخل ہیں (روح المعانی) - اس آیت میں قسط یعنی انصاف و اعتدال کا حکم بیان کرنے کے بعد ان لوگوں کی گمراہی اور بےراہی کے مناسب احکام شرعیہ سے دو حکم خصوصیت کے ساتھ بیان فرمائے گئے، ایک (آیت) ۣوَاَقِيْمُوْا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ ، اور دوسرا وَّادْعُوْهُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ، پہلا حکم انسان کے ظاہری افعال سے متعلق ہے، اور دوسرا اس کے قلب اور باطن سے تعلق رکھتا ہے، پہلے حکم میں لفظ مسجد اکثر مفسرین کے نزدیک بمعنی سجدہ و عبادت آیا ہے، اور معنی یہ ہیں کہ ہر عبادت و نماز کے وقت اپنا رخ سیدھا رکھاکرو، اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ نماز کے وقت اپنا رخ سیدھا ٹھیک قبلہ کی طرف کرنے کا اہتمام کرو، اور رخ سیدھا کرنے کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ اپنے ہر قول و فعل اور ہر عمل میں اپنا رخ اپنے رب کے حکم کے تابع رکھو، اس سے ادھر ادھر نہ ہونے پاوے، اس معنی کے لحاظ سے یہ حکم صرف نماز کے لئے خاص نہیں، بلکہ تمام عبادات و معاملات پر حاوی ہے۔ - اور دوسرے حکم کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس طرح پکارو کہ عبادت خالص اسی کی ہو اس میں کسی دوسرے کی شرکت کسی حیثیت سے نہ ہو، یہاں تک کہ شرک خفی یعنی ریاء ونمود سے بھی پاک ہو۔ - ان دونوں حکموں کو ساتھ ذکر کرنے سے اس طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ انسان پر لازم ہے کہ اپنے ظاہر و باطن دونوں کو احکام شریعت کے مطابق درست کرے، نہ صرف ظاہری اطاعت بغیر اخلاص کے کافی ہے، اور نہ محض اخلاص باطنی بغیر ظاہری اتباع شریعت کے کافی ہوسکتا ہے، بلکہ ہر شخض پر لازم ہے کہ اپنے ظاہر کو بھی شریعت کے مطابق درست کرے اور باطن کو بھی صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص رکھے، اس سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہوتی ہے جو شریعت و طریقت کو مختلف طریقے سمجھتے ہیں، اور خیال کرتے ہیں کہ طریقت کے مطابق باطن کو درست کرلینا کافی ہے، گو شریعت کے خلاف کرتے رہیں، یہ کھلی گمراہی ہے۔- آخر آیت میں ارشاد فرمایا كَمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے جس طرح تمہیں اول پیدا فرمایا تھا اسی طرح قیامت کے روز دوبارہ تمہیں زندہ کرکے کھڑا کردیں گے، اس کی قدرت کامل کے آگے یہ کوئی مشکل چیز نہیں، اور شاید اسی آسانی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے یعیدکم کے بجائے تَعُوْدُوْنَ فرمایا کہ دوبارہ پیدا ہونے کے لئے کسی خاص عمل وسعی کی ضرورت نہیں (روح)- اس جملہ کو اس جگہ لانے کا ایک فائدہ بھی ہے کہ احکام شرعیہ پر پوری طرح قائم رہنا انسان کے لئے آسان ہوجائے، کیونکہ عالم آخرت اور قیامت اور اس میں اچھے برے اعمال کی جزاء و سزاء کا تصور ہی وہ چیز ہے جو انسان کے لئے ہر مشکل کو آسان اور ہر تکلیف کو راحت بنا سکتی ہے، اور تجربہ شاہد ہے کہ جب تک انسان پر یہ خوف مسلط نہ ہو کوئی وعظ وپند اس کو سیدھا کرسکتا ہے، اور نہ کسی قانون کی پابندی اس کو جرائم سے روک سکتی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَرِيْقًا ہَدٰي وَفَرِيْقًا حَقَّ عَلَيْہِمُ الضَّلٰلَۃُ۝ ٠ ۭ اِنَّہُمُ اتَّخَذُوا الشَّيٰطِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۝ ٣٠- فریق - والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین،- قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] - ( ف ر ق ) الفریق - اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی - صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔ - أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - اهْتِدَاءُ- يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] ، - الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

نماز با جماعت - قول باری ہے واقیمواوجوھکم عند کل مسجد۔ اور ہر عبادت میں اپنا رخ ٹھیک رکھو) مجاہد اور سدی سے مروی ہے کہ ” نماز میں مسجد کے قبلے کی طرف اپنا رخ ٹھیک رکھو “۔ ربیع بن انس کا قول ہے کہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی طرف اپنا رخ کرلو، نہ کسی بت کی طرف اور نہ کسی اور چیز کی طرف “۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں آیت میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں اول یہ کہ قبلے کی طرف اس طرح رخ ٹھیک رکھنا کہ اس کی سمت رخ ہٹا ہوا نہ ہو۔ دوم یہ کہ مسجد میں جا کر نماز ادا کرنا۔ یہ بات مسجد میں جماعت کے ساتھ فرض نمازوں کی ادائیگی کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے کہ مساجد جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے لئے تعمیر کی جاتی ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جماعت کے ساتھ نماز ادا نہ کرنے والے کے لئے وعید کی روایتیں منقول ہیں۔ ایسی روایتیں بھی منقول ہیں جن میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔- ترک جماعت پر وعید - ترک جماعت کی نہی کی مقتضی روایات میں سے چند یہ ہیں۔ آپ کا ارشاد ہے من سمع النداء فلم یجب فلا صلاۃ لہ۔ جس شخص نے اذان کی آواز سن لی اور پھر وہ نماز کے لئے مسجد میں نہیں گیا اس کی کوئی نماز نہیں) حضرت عبداللہ بن ام مکتوم نے عرض کیا کہ میرا گھر مسجد سے دور ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا ۔” اذان کی آواز سنتے ہو ؟ “ انہوں میں اثبات میں جواب دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا لااجدلک عذراً ۔ پھر تو مجھے تمہارے لئے کوئی عذر نظر نہیں آتا) آپ کا ارشاد ہے لقد ھممت ان امور جلایصلی بالناس ثم امر بحطب فیحرق علی المتخلفین عن المجاعۃ بیوتھم۔ میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ کسی شخص کو جماعت کرانے کے لئے کہوں اور خود لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں اور پھر جماعت سے پیچھے رہ جانے والوں کے گھروں کو آگ لگا دوں) اسی مضمون کی دیگر روایتیں بھی موجود ہیں۔ جماعت سے نماز ادا کرنے کی ترغیب کے سلسلے میں ایک روایت ہے کہ جماعت کے ساتھ ادا کی جانیوالی نماز تنہا پڑھی جانے والی نماز سے پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے “۔ نیز یہ کہ فرشتے پہلی صف میں نماز ادا کرنے والوں کے لئے رحمت کی دعائیں مانگتے ہیں “ نیز آپ ؐ کا ارشاد ہے بشرالمشائین فی ظلال اللیل الی اسماجد بالنور التام یوم القیامۃ۔ رات کی تاریکی میں مساجد کی طرف چل کر آنے والوں کو قیامت کے دن کامل روشنی کی بشارت سنا دو ) ہمارے شیخ ابوالحسن کرخی فرمایا کرتے تھے کہ میرے نزدیک نماز باجماعت فرض کفایہ ہے۔ جس طرح مردوں کا غسل، ان کی تدفین اور ان کی نماز جنازہ فرض کفایہ ہے کہ جب کچھ لوگ اس کی ادائیگی کرلیں تو باقی ماندہ لوگوں سے اس کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ آیت نماز کے اندر ستر عورت کی فرضیت پر دلالت کرتی ہے۔ اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، زفر، امام محمد اور حسن بن زیاد کا قول ہے کہ ستر عورت نماز میں فرض ہے اگر کوئی شخص امکان کے باوجود اس کا تارک ہوگا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ امام شافعی کا بھی یہی قول ہے امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ کشف عورت کے ساتھ نماز جائز ہوتی جاتی ہے۔ تاہم وقت کے اندر اس کا اعادہ واجب ہوگا ان دونوں حضرات کے نزدیک وقت کے اندر نماز کا اعادہ استجباب کے طور پر ہوگا۔ نماز میں ستر عورت کی فرضیت پر اس آیت کی کئی وجوہ سے دلالت ہو رہی ہے ایک تو یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا خذواذینتکم عندکل مسجد۔ ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ ہو) اور اپنے حکم کو مسجد کے ساتھ معلق کردیا تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس سے نماز کے لئے ستر عورت مراد ہے اگر یہ بات نہ ہوتی تو مسجد کے ذکر کا کوئی فائدہ نہ ہوتا اس طرح مفہوم کے لحاظ سے عبارت یہ ہوگئی خذوازینتکم فی الصلوۃ (نماز کے اندر اپنا لباس پہن لو) اگر لوگوں کی نظروں سے اس کا چھپانا مراد ہوتا تو خصوصیت کے ساتھ مسجد کا ذکر نہ کیا جاتا اس لئے کہ مسجد کی بہ نسبت بازاروں میں لوگ زیادہ ہوتے ہیں۔ مسجد کا ذکر کر کے یہ بتادیا کہ نماز کے اندر ستر عورت واجب ہے اس لئے کہ مسجد نماز کے لئے مخصوص ہوتی ہے۔ نیز جب اللہ تعالیٰ نے مسجد میں ستر عورت کو واجب کردیا تو ظاہر آیت سے مسجد میں ادا کی جانے والی نماز میں ستر عورت واجب ہوگیا جب ایسی نماز میں ستر عورت واجب ہوگیا تو دوسری جگہوں پر ادا کی جانے والی نمازوں میں بھی ستر عورت واجب ہوگیا۔ اس لئے کہ کسی نے مسجد میں ادا کی جانے والی اور غیر مسجد میں ادا کی جانیوالی نمازوں میں کوئی فرق نہیں کیا ہے نیز لفظ مسجد اگر سجدہ کے مفہوم کی تعبیر ہوجائے تو اس کی گنجائش موجود ہے جس طرح یہ قول باری ہے وان المساجد اللہ اور مساجد اللہ کے لئے ہیں) جب بات اس طرح ہے تو آیت سجدہ کرتے وقت ستر عورت کے لزوم کی مقتضی ہوگی جب سجدے میں ستر عورت لازم ہوگا تو نماز کے دوسرے ارکان میں بھی اس کا لزوم ہوجائے گا اس لئے کہ کسی نے بھی ان دونوں کے درمیان فرق نہیں کیا ہے حضرت ابن عباس (رض) ابراہیم، مجاہد، طائوس اور زہری سے مروی ہے کہ مشرکین برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی خذوازینتکم عندکل مسجد۔- نماز میں ستر کا حکم - ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ مشرکین برہنہ حالت میں بیت اللہ کا اس لئے طواف کرتے تھے کہ ان کے خیال میں کپڑے گناہوں کی وجہ سے گندے ہوتے تھے اس لئے وہ ان کپڑوں سے اپنے آپ کو آزاد کرلیتے تھے۔ ایک قول ہے کہ وہ تفاول کے طور پر اس طرح طواف کرتے تھے یعنی ان کے خیال میں جس طرح وہ کپڑوں سے آزاد ہوگئے تھے اسی طرح گناہوں سے بھی آزاد اور پاک ہوجاتے تھے۔ امام مالک کے مسلک کے حق میں استدلال کرنے والوں کا قول ہے کہ حضرات سلف نے جب آیت کے نزول کا سبب بیان کردیا جو یہ تھا کہ مشرکین برہنہ حالت میں بیت اللہ کا طواف کرتے تھے اس کی ممانعت میں آیت نازل ہوئی تو اب ضروری ہوگیا کہ آیت کا حکم صرف طواف بیت اللہ تک محدود رکھا جائے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہمارے نزدیک بات اس طرح نہیں ہے اس لئے کہ ہم اس اصول کے قائل ہیں کہ کسی سبب کے پس منظر میں آیت کا نزول آیت کے حکم کو صاف اسی سبب تک محدود رکھنے کا موجب نہیں ہوتا اس لئے کہ ہمارے نزدیک حکم کا تعلق عموم لفظ کے ساتھ ہوتا ہے سبب کے ساتھ نہیں۔ علاوہ ازیں اگر بات اس طرح ہوتی جس طرح استدلال کرنے والے نے بیان کی ہے تو بھی اس کا استدلال نماز میں ستر عورت کے وجوب کو مانع نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ جب طواف میں ستر عورت واجب قرار دیا جائے گا تو نماز کے اندر یہ بڑھ کر واجب ہوگا اس لئے کہ کسی نے بھی ان دونوں میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔- اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اس بنا پر ستر عورت کا ترک نماز کی صحت کے لئے مانع نہیں ہونا چاہیے جس طرح اس کا ترک طواف کی صحت کے مانع نہیں ہے جس کے پس منظر میں آیت کا نزول ہوا تھا اگرچہ یہ طواف ناقص شمار کیا جائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظاہر آیت برہنہ حالت میں طواف اور نماز سب کے بطلان کا مقتضی ہے لیکن برہنہ حالت میں طواف کے جواز پر دلالت قائم ہوچکی ہے اگرچہ ساتھ ساتھ اس سے منع بھی کیا گیا ہے۔ جس طرح جسم پر کپڑوں کے ساتھ احرام کا جواز ہے اگرچہ اس سے روکا بھی گیا ہے لیکن دوسری طرف برہنہ حالت میں نماز کے جواز پر کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ نماز کے فرائض میں سے بعض کا ترک نماز کو فاسد کردیتا ہے مثلاً طہارت اور استقبال قبلہ وغیرہ۔- احرام نماز سے مضبوط ہے - احرام کے بعض فرائض کا ترک احرام کو فاسد نہیں کرتا اس لئے کہ اگر کوئی شخص وقت کے اندر احرام ترک کردیتا ہے اور پھر احرام باندھ لیتا ہے تو اس کا احرام درست ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ہمبستری کے دورا ن احرام باندھ لیتا ہے تو اس کا احرام واقع ہوجاتا ہے اس طرح احرام اپنی بقا کے لحاظ سے نماز کی بہ نسبت زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور طواف احرام کے موجبات میں سے ہے۔ اس لئے یہ ضرور ی ہوگیا کہ ستر عورت کا ترک احرام کو فاسد نہ کرے اور نہ ہی اس کے وقوع کے لئے مانع بن جائے۔- یہ آیت ہر مسجد کے لئے عام ہے - آیت میں ستر عورت کا حکم طواف تک محدود نہیں ہے بلکہ نماز بھی اس میں مراد ہے اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے اخذوازینتکم عندکل مسجد) جبکہ طواف صرف ایک مسجد یعنی مسجد حرام کے ساتھ مخصوص ہے اور کسی دوسری مسجد میں اس کی ادائیگی نہیں ہوتی۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے آیت میں نماز مراد ہے جس کی ادائیگی ہر مسجد میں درست ہوتی ہے سنت کی جہت سے بھی اس پر دلالت ہوتی ہے۔- نماز میں ستر ضروری ہے - ابوالزناد نے اعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لایصلی احد کم فی ثوب واحدلیس عل فرجہ منہ شئی۔ تم میں سے کوئی شخص ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے کہ اس کپڑے کا کوئی حصہ اس کی شرمگاہ پر نہ ہو) ۔- عورت کی نماز بغیر دوپٹہ کے قبول نہیں - محمد بن سیرین نے صفیہ بنت الحارث سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لایقبل اللہ صلوۃ حائض الابخمار۔ اللہ تعالیٰ کسی بالغ عورت کی نماز دوپٹے کے بغیر قبول نہیں کرتا) آپ نے بالغ عورت کی ننگے سرنماز کی قبولیت کی اسی طرح نفی فرما دی جس طرح طہارت کے بغیر اس کی قبولیت کی نفی کردی چناچہ آپ کا ارشاد ہے لایقبل اللہ صلوۃ بغیر طھور۔ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں کرتا) اس سے ستر عورت کا نماز کے فرائض میں ہے ہونا ثابت ہوگیا۔ نیز سب کا اس پر اتفاق سے کہ نماز میں ستر عورت کا حکم ہے۔ اسی بنا پر ہمارے مخالف برہنہ حالت میں نماز پڑھ لینے کی صورت میں وقت کے اندر اس کے اعادے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ جب نمازی کو ستر عورت کا حکم دیا گیا اور کشف عورت سے منع کردیا گیا تو اب ضروری ہوگیا کہ ستر عورت نماز کے فرائض میں داخل سمجھا جائے۔ اس لئے کہ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ فرضیت کا حکم آیت سے ماخوذ ہے اور آیت میں نماز کے اندر ستر عورت مراد ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ نہی فعل کے فساد کی مقتضی ہوتی ہے الایہ کہ اس فعل کے جواز کی کوئی دلالت قائم ہوجائے۔- ستر عورت کا کوئی بدل نہیں - اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ ستر عورت اگر نماز کے فرائض میں داخل ہوتا تو ضرورت کے وقت اس کے بغیر نماز اسی صورت میں جائز ہوتی جب اس کا کوئی بدل اس کے قائم مقام پر ہوجاتا جس طرح تیمم وضو کے قائم مقام ہوجاتا ہے جب ضرورت کے وقت ایک برہنہ انسان کی نماز جائز ہوجاتی ہے اور ستر عورت کا کوئی بدل نہیں ہوتا تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ستر عورت نماز کے فرائض میں داخل نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ ایک فضول سا اعتراض ہے۔ اس لئے کہ نماز میں قرات فرض ہے لیکن ان پڑھ اور گونگے کی نماز کے جواز پر سب کا اتفاق ہے جبکہ قرات کا کوئی بدل نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود قرات نماز کے فرائض سے خارج نہیں ہے۔ امام مالک کے مسلک کے حق میں استدلال کرنے والے ایک صاحب کا خیال ہے کہ اگر لباس نماز کے اعمال اور اس کے فرائض میں داخل ہوتا تو نماز کے لئے کپڑا پہنتے وقت نماز کی نیت ضروری ہوتی ہے جس طرح ایک شخص تکبیر تحریمہ کے وقت یہ نیت کرتا ہے کہ یہ تحریمہ فلاں نماز کے لئے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ ایک واہیات اعتراض اور فاسد کلام ہے اس کلام کے نہ الفاظ درست ہیں اور نہ معنی۔ وہ اس لئے کہ کپڑا نہ تو نماز کے اعمال میں سے ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے فرائض میں داخل ہوتا ہے لیکن ستر عورت نماز کی شرائط میں شامل ہے جن کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی۔ جس طرح قبلے کی طرف رخ کرنا اس کی شرائط میں داخل ہے۔ اب ظاہر ہے کہ استقبال قبلہ کے لئے کسی نیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح طہارت نماز کی ایک شرط ہے اور ہمارے نزدیک اس میں بھی نیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح قدرت رکھنے والے شخص کے لئے نماز کے افتتاح کی حالت میں قیام نماز کے فرائض میں شامل ہے لیکن اس قیام کے لئے نیت ضروری نہیں ہوتی۔ اسی طرح افتتاح صلوۃ کے بعد قیام قرات رکوع اور سجود سب نماز کے فرائض میں داخل ہیں لیکن ان میں سے کسی فرض کے لئے نیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ افتتاح صلوۃ کے بعد درج بالا امور کے لئے تجدید نیت کی اس لئے ضرورت نہیں پڑتی کہ نماز کی نیت کافی ہوجاتی ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اسی طرح نماز کی نیت ستر عورت کی نیت کے لئے کافی ہوجائے گی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٩) اس نے تو توحید اور ہر ایک نماز کے وقت اپنا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف کرنے کا حکم دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو کہ توحید کے ساتھ اس عبادت کو خالص اللہ تعالیٰ ہی کے لیے رکھا کرو۔- میثاق کے دن جس طریقہ پر تمہیں نیک وبد، عارف ومنکر، مصدق ومکذب پیدا کیا ہے، اسی طرح لوٹ جاؤ گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ (قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بالْقِسْطِقف وَاَقِیْمُوْا وُجُوْہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ ) - مسجد اسم ظرف ہے اور یہ ظرف زمان بھی ہے اور ظرف مکان بھی۔ بطور ظرف مکان سجدے کی جگہ مسجد ہے اور بطور ظرف زمان سجدے کا وقت مسجد ہے۔- (وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ط) - یعنی اللہ کو پکارنے ‘ اس سے دعا کرنے کی ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ اس کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم کیا جائے۔ جیسا کہ سورة البقرۃ آیت ١٨٦ میں روزے کے احکام اور حکمتوں کو بیان کرنے کے بعد فرمایا : (اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ ) کہ میں تو ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں ‘ اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں ‘ لیکن انہیں بھی تو چاہیے کہ میرا کہنا مانیں ۔۔ اور یہ کہنا ماننا یا اطاعت جزوی طور پر قابل قبول نہیں ‘ بلکہ اس کے لیے (اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص) (البقرۃ : ٢٠٨) کا معیار سامنے رکھنا ہوگا ‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں پورے پورے داخل ہونا ہوگا۔ لہٰذا اس حوالے سے یہاں فرمایا گیا کہ اپنی اطاعت کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے اسے پکارو۔ یعنی اس کی اطاعت کے دائرے کے اندر کلی طور پر داخل ہوتے ہوئے اس سے دعا کرو۔ یہاں یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ انسان کو اپنی زندگی میں بیشمار اطاعتوں سے سابقہ پڑتا ہے ‘ والدین کی اطاعت ‘ اساتذہ کی اطاعت ‘ الوالامر کی اطاعت وغیرہ۔ تو اس میں بنیادی طور پر جو اصول کارفرما ہے وہ یہ ہے کہ لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ ۔ یعنی مخلوق میں سے کسی کی ایسی اطاعت نہیں کی جائے گی جس میں خالق حقیقی کی معصیت لازم آتی ہو۔ اللہ کی اطاعت سب سے اوپر اور سب سے برتر ہے۔ اس کی اطاعت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے باقی سب اطاعتیں ہوسکتی ہیں ‘ مگر جہاں کسی کی اطاعت میں اللہ کے کسی حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہو تو ایسی اطاعت ناقابل قبول اور حرام ہوگی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :19 مطلب یہ ہے کہ خدا کے دین کو تمہاری ان بیہودہ رسموں سے کیا تعلق ۔ اس نے جس دین کی تعلیم دی ہے اس کے بنیادی اصول تو یہ ہیں کہ : ( ١ ) انسان اپنی زندگی کو عدل ور استی کی بنیاد پر قائم کرے ، ( ۲ ) عبادت میں اپنا رخ ٹھیک رکھے ، یعنی خدا کے سوا کسی اور کی بندگی کا شائبہ تک اس کی عبادت میں نہ ہو ، معبود حقیقی کے سوا کسی دوسرے کی طرف اطاعت و غلامی اور عجز و نیاز کارُخ ذرا نہ پھرنے پائے ، ( ۳ ) رہنمائی اور تائید و نصرت اور نگہبانی و حفاظت کے لیے خدا ہی سے دُعا مانگے ، مگر شرط یہ ہے کہ اس چیز کی دُعا مانگنے والا آدمی پہلے اپنے دین کو خدا کے لیے خالص کر چکا ہو ۔ یہ نہ ہو کہ زندگی کا سارا نظام تو کفر و شرک اور معصیّت اور بندگیِ اغیار پر چلا یا جا رہا ہو اور مدد خدا سے مانگی جائے کہ اے خدا ، یہ بغاوت جو ہم تجھ سے کر رہے ہیں اس میں ہماری مدد فرما ۔ ( ٤ ) اور اس بات پر یقین رکھے کہ جس طرح اس دنیا میں وہ پیدا ہوا ہے اسی طرح ایک دوسرے عالم میں بھی اس کو پیدا کیا جائے گا اور اسے اپنے اعمال کا حساب خدا کو دینا ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

15: شاید مذکورہ بالا سیاق و سباق میں انصاف کا ذکر اس لیے بھی کیا گیا ہے کہ ’’ حمس‘‘ کے لوگوں نے اپنی جو امتیازی خصوصیات طے کر رکھی تھیں، ان میں سے بعض انصاف کے تقاضوں کے بھی خلاف تھیں۔ مثلاً یہ بات کہ صرف وہی کپڑے پہن کر طواف کرسکتے ہیں، دوسرے لوگ نہیں، حالانکہ اگر دوسرے لوگ گناہ کرسکتے تھے تو یہ لوگ بھی گناہوں سے پاک تو نہیں تھے ۔