برہنہ ہو کر طواف ممنوع قرار دے دیا گیا اس آیت میں مشرکین کا رد ہے وہ ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے جیسے کہ پہلے گذرا ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ ننگے مرد دن کو طواف کرتے اور ننگی عورتیں رات کو ، اس وقت عورتیں کہا کرتی تھیں کہ آج اس کے خاص جسم کا کل حصہ یا کچھ حصہ گو ظاہر ہو لیکن کسی کو وہ اس کا دیکھنا جائز نہیں کرتیں ۔ پس اس کے برخلاف مسلمانوں کو حکم ہوتا ہے کہ اپنا لباس پہن کر مسجدوں میں جاؤ ، اللہ تعالیٰ زینت کے لینے کو حکم دیتا ہے اور زینت سے مراد لباس ہے اور لباس وہ ہے جو اعضاء مخصوصہ کو چھپا لے اور جو اس کے سوا ہو مثلاً اچھا کپڑا وغیرہ ۔ ایک حدیث میں ہے کہ یہ آیت جوتیوں سمیت نماز پڑھنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن ہے یہ غور طلب اور اس کی صحت میں بھی کلام ہے واللہ اعلم ۔ یہ آیت اور جو کچھ اس کے معنی میں سنت میں وارد ہے اس سے نماز کے وقت زینت کرنا مستحب ثابت ہوتا ہے ۔ خصوصاً جمعہ کے دن اور عید کے دن اور خوشبو لگانا بھی مسنون طریقہ ہے اس لئے کہ وہ زینت میں سے ہی ہے اور مسواک کرنا بھی ۔ کیونکہ وہ بھی زینت کو پورا کرنے میں داخل ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ سب سے افضل لباس سفید کپڑا ہے ۔ جیسے کہ مسند احمد کی صحیح حدیث میں ہے حضور فرماتے ہیں سفید کپڑے پہنو وہ تمہارے تمام کپڑوں سے افضل ہیں اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دو ۔ سب سرموں میں بہتر سرمہ اثمد ہے وہ نگاہ کو تیز کرتا ہے اور بالوں کو اگاتا ہے ۔ سنن کی ایک اور حدیث میں ہے سفید کپڑوں کو ضروری جانو اور انہیں پہنو وہ بہت اچھے اور بہت پاک صاف ہیں انہی میں اپنے مردوں کو کفن دو ۔ طبرانی میں مروی ہے کہ حضرت تمیم داری نے ایک چادر ایک ہزار کو خریدی تھی نمازوں کے وقت اسے پہن لیا کرتے تھے ۔ اس کے بعد آدھی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام طب کو اور حکمت کو جمع کر دیا ارشاد ہے کھاؤ پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو ۔ ابن عباس کا قول ہے جو چاہ کھا جو چاہ پی لیکن دو باتوں سے بچ اسراف اور تکبر ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کھاؤ پیو پہنو اور پڑھو لیکن صدقہ بھی کرتے رہو اور تکبر اور اسراف سے بچتے رہو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ اپنی نعمت کا اثر اپنے بندے کے جسم پر دیکھے ۔ آپ فرماتے ہیں کھاؤ اور پہنو اور صدقہ کرو اور اسراف سے اور خود نمائی سے رکو ، فرماتے ہیں انسان اپنے پیٹ سے زیادہ برا کوئی برتن نہیں بھرتا ۔ انسان کو چند لقمے جس سے اس کی پیٹھ سیدھی رہے کافی ہیں اگر یہ بس میں نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ اپنے پیٹ کے تین حصے کر لے ایک کھانے کیلئے ایک پانی کیلئے ایک سانس کیلئے ۔ فرماتے ہیں یہ بھی اسراف ہے کہ تو جو چاہے کھائے ۔ لیکن حدیث غریب ہے ۔ مشرکین جہاں ننگے ہو کر طواف کرتے تھے وہاں زمانہ حج میں چربی کو بھی اپنے اوپر حرام جانتے تھے اللہ نے دونوں باتوں کے خلاف حکم نازل فرمایا یہ بھی اسراف ہے کہ اللہ کے حلال کردہ کھانے کو حرام کر لیا جائے ۔ اللہ کی دی ہوئی حلال روزی بیشک انسان کھائے پئے ۔ حرام چیز کا کھانا بھی اسراف ہے اللہ کی مقرر کردہ حرام حلال کی حدوں سے گزر نہ جاؤ ۔ نہ حرام کو حلال کرو نہ حلال کو حرام کہو ۔ ہر ایک حکم کو اسی کی جگہ پر رکھو ورنہ مسرف اور دشمن رب بن جاؤ گے ۔
31۔ 1 آیت میں زینت سے مراد لباس ہے۔ اس کا سبب نزول بھی مشرکین کے ننگے طواف سے متعلق ہے۔ اس لئے انہیں کہا گیا ہے کہ لباس پہن کر اللہ کی عبادت کرو اور طواف کرو۔ 31۔ 2 اِسْرَافُ ، (حد سے نکل جانا) کسی چیز میں حتیٰ کے کھانے پینے میں بھی ناپسندیدہ ہے، ایک حدیث میں نبی نے فرمایا جو چاہو کھاؤ اور جو چاہے پیو جو چاہے پہنو البتہ دو باتوں سے گریز کرو۔ اسراف اور تکبر سے (صحیح مسلم، صحیح بخاری) ، بعض سلف کا قول ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے (وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ ) 7 ۔ الاعراف :31) اس آدھی آیت میں ساری طب جمع فرما دی ہے (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں زینت سے وہ لباس مراد ہے جو آرائش کے لیے پہنا جائے۔ جس سے ان کے نزدیک نماز اور طواف کے وقت تزئین کا حکم نکلتا ہے۔ اس آیت سے نماز میں ستر عورت کے وجوب پر بھی استدلال کیا گیا ہے بلکہ احادیث کی رو سے ستر عورت گھٹنوں سے لے کر ناف تک کے حصے کو ڈھانپنا ہر حال میں ضروری ہے چاہے آدمی خلوت میں ہی ہو۔ (فتح القدیر) جمعہ اور عیدین کے دن خوشبو کا استعمال بھی مستحب ہے کہ یہ بھی زینت کا ایک حصہ ہے۔ (ابن کثیر)
[٢٩] نمازی کے لباس میں کتنے کپڑے ہوں :۔ یہاں زینت سے مراد لباس ہے اور یہ لباس صاف ستھرا اور پاکیزہ ہونا چاہیے تاکہ زینت کا باعث ہو اس لباس میں کون کون سا کپڑا شامل ہونا چاہیے ؟ اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔- ١۔ عمر و بن ابی سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے (صرف) ایک کپڑے میں نماز پڑھی۔ آپ نے اس کے دونوں کناروں کو مخالف سمتوں میں کندھوں پر ڈال لیا تھا (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ باب عقد الازار علی القفا فی الصلوۃ)- ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کوئی ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھے پر کچھ نہ ہو۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ باب اذا صلی فی الثوب الواحد فلیجعل علی عاتقیہ)- ٣۔ سیدنا انس (رض) کہتے ہیں کہ سیدۃ عائشہ (رض) کے پاس ایک پردہ تھا جسے انہوں نے اپنے گھر میں ایک طرف لٹکایا ہوا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (یہ پردہ دیکھ کر) فرمایا : یہ اپنا پردہ یہاں سے ہٹا لو اس کی تصویریں میری نماز میں حارج ہوتی ہیں۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب ان صلی فی ثوب مصلب او تصاویر۔۔ )- ٤۔ ابو مسلمہ سعید بن یزید ازدی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی جوتیوں سمیت نماز پڑھ لیتے تھے ؟ سیدنا انس (رض) نے کہا ہاں۔ (بخاری کتاب الصلوۃ باب الصلوۃ فی النعال)- ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ :۔- ١۔ کم از کم ایک کپڑے میں بھی نماز ہوسکتی ہے بشرطیکہ وہ اتنا بڑا ہو کہ مخالف سمتوں میں کندھوں پر ڈالنے کے بعد بھی دونوں طرف پنڈلیوں تک بدن ڈھانپ سکتا ہو۔ - ٢۔ دونوں کندھوں پر کپڑا ہونا ضروری ہے، سر پر کوئی کپڑا ہونا ضروری نہیں ہے۔- ٣۔ کوئی کپڑا ایسے نقش و نگار والا یا تصویروں والا نہیں ہونا چاہیے جو اللہ کی طرف سے توجہ ہٹا کر اپنی طرف مبذول کرلے۔- ٤۔ زیادہ کپڑوں کی کوئی حد نہیں، پگڑی یا ٹوپی وغیرہ کا تو ذکر کیا، جوتوں سمیت بھی نماز ادا کی جاسکتی ہے بشرطیکہ اس کا تلا صاف ستھرا ہو اور جوتوں سمیت نماز گھروں میں بھی پڑھی جاسکتی ہے اور مساجد میں بھی جیسا کہ بالخصوص نیا جوتا پہنتے وقت شکرانہ کے نوافل پڑھے جاتے ہیں۔- سنت نبوی میں ایسے واضح احکام کے باوجود بعض لوگوں نے ننگے سر نماز پڑھنے کو وجہ نزاع بنا لیا ہے ایک فریق اس انتہا کو چلا گیا کہ ننگے سر نماز ہوتی ہی نہیں اور دوسرا فریق دوسری انتہا کو چلا گیا اس نے اس مسئلے کو محض جواز تک محدود نہ رکھا بلکہ اسے اپنا شعار بنا لیا۔ پہلے فریق کی غلط روش تو واضح ہے کیونکہ حالت احرام میں ساری نمازیں اور طواف وغیرہ بھی ننگے سر ہی ادا ہوتے ہیں اگر ننگے سر نماز ہو ہی نہیں سکتی تو حالت احرام میں یقیناً سر پر کوئی کپڑا رکھنے کی تاکید کردی جاتی۔ جیسا کہ عورتوں کے لیے ایسا ہی حکم ہے رہا دوسرا فریق تو اس کی وجہ استدلال درج ذیل حدیث ہے :۔- ننگے سر نماز کا مسئلہ :۔ محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ جابر (بن عبداللہ) (رض) نے ایک تہبند میں نماز پڑھی جسے اپنی گدی پر باندھ لیا اور ان کے کپڑے تپائی پر رکھے ہوئے تھے کسی (عبادہ بن ولید) نے ان سے کہا تم (کپڑے ہوتے ہوئے) ایک تہبند میں نماز پڑھتے ہو ؟ جابر (رض) کہنے لگے یہ اس لیے کہ تیرے جیسا بیوقوف مجھے دیکھ لے اور آپ کے زمانہ میں ہم لوگوں میں سے کس کے پاس دو کپڑے تھے ؟ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ باب عقد الازار علی القفا فی الصلوۃ)- اس حدیث سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔- ١۔ سیدنا جابر بن عبداللہ (رض) جنہوں نے کپڑے پاس ہوتے ہوئے صرف ایک کپڑے میں (یعنی ننگے سر) نماز ادا کی، ان کا یہ روزمرہ کا معمول نہیں تھا۔ ورنہ سائل کو ایسا سوال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔- ٢۔ سیدنا جابر (رض) نے یہ کام عمداً اس لیے کیا کہ ناواقف لوگوں پر واضح ہوجائے کہ صرف ایک کپڑے میں بھی نماز جائز ہے اگرچہ سر ننگا ہی رہے۔- ٣۔ سیدنا جابر (رض) نے اس کی وجہ بھی بتادی کہ دور نبوی میں اکثر لوگوں کے پاس دو کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے۔- ان تصریحات کا ماحصل یہ ہے کہ جواز کی حد تک ننگے سر نماز ادا کرنے میں نہ کوئی کلام ہے اور نہ قباحت لیکن اگر ٹوپی یا عمامہ وغیرہ موجود ہو تو اسے پہننا ہی افضل ہے جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا معمول تھا کیونکہ سر ڈھانپنا بھی زینت کا ایک حصہ ہے لہذا ننگے سر نماز پڑھنا شعار نہ بنا لیا جائے۔ ہاں کپڑوں کی موجودگی میں بھی کبھی کبھار کسی ضرورت یا مصلحت کی غرض سے ننگے سر نماز ادا کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔- [٣٠] کھانے پینے میں اسراف کا نقصان :۔ بعض اطباء کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مختصر سے جملہ میں طب کا آدھا علم بیان فرما دیا ہے کیونکہ اکثر امراض خوراک کی زیادتی یا اس میں بےاحتیاطی ہی سے پیدا ہوتی ہیں۔ اسراف کا مطلب بسیار خوری بھی ہوسکتا ہے۔ وقت بےوقت کھانا اور بدپرہیزی بھی۔ یہ تو اسراف کے طبعی نقصانات ہیں اور جو اخلاقی نقصانات ہیں وہ اس سے بھی زیادہ ہیں مثلاً جو انسان اپنے ہی کھانے پینے کی فکر رکھے گا دوسروں سے احسان کرنا تو درکنار وہ دوسروں کے جائز حقوق بھی ادا کرنے کے قابل نہ رہے گا۔ پھر مال کے ضیاع سے اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں شدت سے منع فرمایا ہے اور اس کے نتائج بڑے دوررس ہوتے ہیں۔
خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ ۔۔ : زینت سے مراد لباس ہے، یعنی طواف اور نماز میں پردے کی چیزوں کو چھپانا فرض ہے، مرد کے لیے کمر سے گھٹنوں تک ( اور نماز میں اس کے ساتھ کندھے پر کچھ لباس کا ہونا) اور عورت کے لیے چہرہ اور ہاتھوں کے سوا سارا بدن۔ باریک کپڑا جس سے بدن اور بال نظر آئیں معتبر نہیں، یعنی نہ ہونے کے برابر ہے۔ (موضح) البتہ جمعہ کے دن خاص طور پر غسل، خوش بو اور اپنے بہترین لباس پہننے کا حکم دیا۔ جمعہ مسلمانوں کی ہفتہ وار عید ہے۔ عید الفطر اور عید الاضحی سالانہ عیدیں ہیں، ان میں تو بدرجہ اولیٰ اس کا اہتمام ہونا چاہیے۔ - ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ عورت بیت اللہ کا طواف ننگی ہو کر کرتی تھی اور کہتی کہ کون مجھے طواف کے لیے کپڑا دے گا، اس کو وہ شرم گاہ پر ڈال لیتی اور کہتی : - اَلْیَوْمَ یَبْدُوْ بَعْضُہٗ أَوْ کُلُّہٗ- وَمَا بَدَا مِنْہُ فَلَا اُحِلُّہٗ- ” آج اس کا کچھ حصہ یا سارے کا سارا ظاہر ہوجائے گا اور اس میں سے جو ظاہر ہوگا میں اسے حلال نہیں کروں گی۔ “ [ مسلم، التفسیر، باب فی قولہ تعالیٰ : ( خذوا زینتکم عند کل مسجد ) : ٣٠٢٨ ] کئی مرد بھی ننگے طواف کرتے تھے۔ ابوہریرہ (رض) بیان فرماتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے اس حج ( یعنی ٩ ہجری) میں، جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع سے پہلے ان کو امیر بنا کر بھیجا تھا، مجھے قربانی کے دن چند آدمیوں کے ہمراہ بھیجا کہ میں لوگوں میں اعلان کر دوں کہ اس سال کے بعد نہ کوئی مشرک حج کرے گا اور نہ کوئی شخص ننگا ہو کر طواف کرے گا۔ [ بخاری، الحج، باب لا یطوف بالبیت عریان۔۔ : ١٦٢٢ ]- وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ۚ: جب اوپر کی آیت میں قسط ( عدل و انصاف) کا حکم دیا، تو دوسری چیزوں کے ساتھ لباس اور کھانے پینے میں بھی ” قسط “ کا حکم ہوگیا، اس لیے ان میں بھی اسراف سے منع فرما دیا۔ (کبیر) اسراف یہ ہے کہ آدمی حلال کو حرام ٹھہرا لے، جیسا کہ مشرکین کرتے تھے، یا اہل تصوف کرتے ہیں، یا حلال سے تجاوز کر کے حرام کھائے یا حرام کام میں خرچ کرے کہ یہ تھوڑا بھی اسراف ہے۔ اسراف، یعنی حد سے نکلنا کسی بھی چیز میں ناپسندیدہ ہے، خصوصاً کھانے پینے میں بےاحتیاطی تو اکثر بیماریوں کی جڑ اور دنیا و آخرت دونوں میں نقصان دہ ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کھاؤ، پیو، پہنو اور صدقہ کرو بغیر اسراف کے اور بغیر تکبر کے۔ “ [ بخاری، اللباس، باب قول اللہ تعالیٰ : ( قل من حرم زینۃ اللہ التی۔۔ ) قبل ح : ٥٧٨٣، تعلیقًا ] جابر بن سلیم (رض) سے ایک لمبی حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اور اپنی تہ بند پنڈلی تک اٹھاؤ، اگر نہیں مانتے تو ٹخنوں تک اور تہ بند لٹکانے سے بچو، کیونکہ یہ تکبر میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔ “ [ أبو داوٗد، اللباس، باب ما جاء فی إسبال الأزار : ٤٠٨٤۔ ترمذی : ١٧٨٣ و صححہ الألبانی ] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص تکبر سے اپنا کپڑا کھینچے اللہ تعالیٰ اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔ “ [ بخاری، اللباس، باب قول اللہ تعالیٰ : ( قل من حرم زینۃ اللہ التی۔۔ ) : ٥٧٨٣، عن ابن عمر ] معلوم ہوا صرف تہ بند ہی نہیں کوئی بھی کپڑا جان بوجھ کر ٹخنوں سے نیچے لٹکانا تکبر اور حرام ہے، بےاختیار یا بےدھیانی میں لٹک جائے تو الگ بات ہے۔ - مقدام بن معدیکرب (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا : ” ابن آدم نے پیٹ سے برا کوئی برتن نہیں بھرا، ابن آدم کو چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں، اگر ضرور ہی کھانا ہے تو ایک تہائی کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے ہے۔ “ [ أحمد : ٤؍١٣٢، ح : ١٧١٩١۔ ترمذی : ٢٣٨٠، صحیح ] ہاں زیادہ دیر کا بھوکا ہو تو زیادہ کھا سکتا ہے، جیسا کہ احادیث سے بعض مواقع پر ثابت ہے۔
چوتھی آیت میں ارشاد فرمایا : ” اے اولاد آدم تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ نکلو، بیشک اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتے “۔ زمانہ جاہلیت کے عرب جیسا کہ بیت اللہ کا طواف ننگے ہو کر کرنے کو صحیح عبادت اور بیت اللہ کا احترام سمجھتے تھے اسی طرح ان میں یہ رسم بھی تھی کہ ایام حج میں کھانا پینا چھوڑ دیتے تھے، صرف اتنا کھاتے تھے جس سے سانس چلتا رہے، خصوصاً گھی، دودھ اور پاکیزہ غذاؤں سے بالکل اجتناب کرتے تھے (ابن جریر)- ان کے اس بیہودہ طریقہ کار کے خلاف یہ آیت نازل ہوئی، جس نے بتلایا کہ ننگے ہو کر طواف کرنا بےحیائی اور سخت بےادبی ہے، اس سے اجتناب کریں، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی پاکیزہ غذاؤں سے بلاوجہ اجتناب کرنا بھی دین کی بات نہیں بلکہ اس کی حلال کی ہوئی چیزوں کو اپنے اوپر حرام ٹھہرانا گستاخی اور عبادت میں حد سے تجاوز کرنا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتے، اس لئے ایام حج میں خوب کھاؤ پیو، ہاں اسراف نہ کرو، حلال غذاؤں سے بالکل اجتناب کرنا بھی اسراف میں داخل ہے، اور حج کے اصل مقاصد اور ذکر اللہ سے غافل ہو کر کھانے پینے ہی میں مشغول رہنا بھی اسراف میں داخل ہے۔ - یہ آیت اگرچہ جاہلیت عرب کی ایک خاص رسم عریانی کو مٹانے کے لئے نازل ہوئی ہے جس کو وہ طواف کے وقت بیت اللہ کی تعظیم کے نام پر کیا کرتے تھے، لیکن ائمہ تفسیر اور فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی حکم کے کسی خاص واقعہ میں نازل ہونے کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ حکم اسی واقعہ کے ساتھ خاص ہے، بلکہ اعتبار عموم الفاظ کا ہوتا ہے جو چیزیں ان الفاظ کے عموم میں شامل ہوتی ہیں سب پر یہی حکم عائد ہوتا ہے۔ - نماز میں ستر پوشی فرض ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی - اسی لئے اس آیت سے جمہور صحابہ وتابعین اور ائمہ مجتہدین نے کئی احکام نکالے ہیں، اول یہ کہ اس میں جس طرح ننگے طواف کو منع کیا گیا ہے، اسی طرح ننگے نماز پڑھنا بھی حرام اور باطل ہے، کیونکہ حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : الطواف بالبیت صلوة، اس کے علاوہ خود اسی آیت میں جب کہ لفظ مسجد سے جمہور مفسرین کے نزدیک مراد سجدہ ہے، تو بحالت سجدہ عریانی کی ممانعت خود آیت میں صراحت سے آجاتی ہے، اور جب سجدہ میں ممنوع ہوئی تو رکوع اور قیام و قعود اور نماز کے تمام افعال میں اس کا لازم ہونا ظاہر ہے۔ - پھر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات نے اس کو اور بھی واضح کردیا، ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ کسی بالغ عورت کی نماز بغیر دوپٹے کے جائز نہیں (ترمذی) - اور نماز کے علاوہ دوسرے حالات میں بھی ستر پوشی کا فرض ہونا دوسری آیات و روایات سے ثابت ہے، جن میں سے ایک آیت اسی سورت میں گزر چکی ہے، (آیت) یبنی ادم قد انزلنا علیکم لباسا یواری سواتکم - خلاصہ یہ ہے کہ ستر پوشی انسان کے لئے پہلا انسانی اور اسلامی فرض ہے جو ہر حالت میں اس پر لازم ہے نماز اور طواف میں بدرجہ اولیٰ فرض ہے۔ - نماز کے لئے اچھا لباس - دوسرا مسئلہ اس آیت میں یہ ہے کہ لباس کو لفظ زینت سے تعبیر کرکے اس طرف بھی اشارہ فرما دیا گیا ہے کہ نماز میں افضل و اولیٰ یہ ہے کہ صرف ستر پوشی پر کفایت نہ کی جائے بلکہ اپنی وسعت کے مطابق لباس پہنتے تھے، اور فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ جمال کو پسند فرماتے ہیں، اس لئے میں اپنے رب کے لئے زینت و جمال اختیار کرتا ہوں، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (آیت) خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ - معلوم ہوا کہ اس آیت سے جیسا کہ نماز میں ستر پوشی کا فرض ہونا ثابت ہوتا ہے اسی طرح بقدر استطاعت صاف ستھرا اچھا لباس اختیار کرنے کی فضیلت اور استحباب بھی ثابت ہوتا ہے۔- نماز میں لباس کے متعلق چند مسائل - تیسرا مسئلہ اس جگہ یہ ہے کہ ستر جس کا چھپانا انسان پر ہر حال میں اور خصوصاً نماز و طواف میں فرض ہے، اس کی حد کیا ہے ؟ قرآن کریم نے اجمالاً ستر پوشی کا حکم دے کر اس کی تفصیلات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالہ کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تفصیل کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ مرد کا ستر ناف سے لے کر گھٹنوں تک اور عورت کا ستر سارا بدن صرف چہرہ اور دونوں ہتھیلیاں اور قدم مستثنیٰ ہیں۔ - روایات حدیث میں یہ سب تفصیل مذکور ہے، مرد کے لئے ناف سے نیچے کا بدن یا گٹھنے کھلے ہوں تو ایسا لباس خود بھی گناہ ہے اور نماز بھی اس میں ادا نہیں ہوتی، اسی طرح عورت کا سر گردن یا بازو یا پنڈلی کھلی ہو تو ایسے لباس میں رہنا خود بھی ناجائز ہے اور نماز بھی ادا نہیں ہوتی، ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جس مکان میں عورت ننگے سر ہو وہاں نیکی کے فرشتے نہیں آتے۔ - عورت کا چہرہ اور ہتھیلیاں اور قدم جو ستر سے مستثنیٰ قرار دیئے گئے، اس کے یہ معنی ہیں کہ نماز میں اس کے یہ اعضاء کھلے ہوں تو نماز میں کوئی خلل نہیں آئے گا، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ غیر محرموں کے سامنے بھی وہ بغیر شرعی عذر کے چہرہ کھول کر پھرا کرے۔ - یہ حکم تو فریضہ ستر کے متعلق ہے، جس کے بغیر نماز ہی ادا نہیں ہوتی اور چونکہ نماز میں صرف ستر پوشی ہی مطلوب نہیں، بلکہ لباس زینت اختیار کرنے کا ارشاد ہے، اس لئے مرد کو ننگے سر نماز پڑھنا یا مونڈھے یا کہنیاں کھول کر نماز پڑھنا مکروہ ہے، خواہ قمیص ہی نیم آستین ہو یا آستین چڑھائی گئی ہو بہر حال نماز مکروہ ہے، اسی طرح ایسے لباس میں بھی نماز مکروہ ہے جس کو پہن کر آدمی اپنے دوستوں اور عوام کے سامنے جانا قابل شرم و عار سمجھے، جیسے صرف بنیان بغیر کرتے کے، اگرچہ پوری آستین بھی ہو، یا سر پر بجائے ٹوپی کے کوئی کپڑا یا چھوٹا دستی رومال باندھ لینا کہ کوئی سمجھدار آدمی اپنے دوستوں یا دوسروں کے سامنے اس ہیئت میں جانا پسند نہیں کرتا، تو اللہ رب العالمین کے دربار میں جانا کیسے پسندیدہ ہوسکتا ہے، سر، مونڈھے، کہنیاں کھول کر نماز کا مکروہ ہونا آیت قرآنی کے لفظ زینت سے بھی مستفاد ہے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصریحات سے بھی۔ - جس طرح آیت کا پہلا جملہ جاہلیت عرب کی رسم عریانی کو مٹانے کے لئے نازل ہوا، مگر عموم الفاظ سے اور بہت سے احکام و مسائل اس سے معلوم ہوئے، اسی طرح دوسرا جملہ وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا بھی اگرچہ جاہلیت عرب کی اس رسم کو مٹانے کے لئے نازل ہوا کہ ایام حج میں اچھی غذا کھانے پینے کو گناہ سمجھتے تھے، لیکن عموم الفاظ سے یہاں بھی بہت سے احکام و مسائل ثابت ہوتے ہیں۔ - کھانا پینا بقدر ضرورت فرض ہے - اول یہ کہ کھانا پینا شرعی حیثیت سے بھی انسان پر فرض و لازم ہے، باوجود قدرت کے کوئی شخص کھانا پینا چھوڑ دے، یہاں تک کہ مر جائے، یا اتنا کمزور ہوجائے کہ واجبات بھی ادا نہ کرسکے تو یہ شخص عند اللہ مجرم و گناہگار ہوگا۔ - اشیاء عالم میں اصل اباحت و جواز ہے جب تک کسی دلیل سے حرمت ممانعت ثابت نہ ہو کوئی چیز حرام نہیں ہوتی - ایک مسئلہ اس آیت سے احکام القرآن جصاص کی تصریح کے مطابق یہ نکلا کہ دنیا میں جتنی چیزیں کھانے پینے کی ہیں، اصل ان میں یہ ہے کہ وہ سب جائز و حلال ہیں، جب تک کسی خاص چیز کی حرمت و ممانعت کسی دلیل شرعی سے ثابت نہ ہوجائے ہر چیز کو جائز و حلال سمجھا جائے گا، اس کی طرف اشارہ اس بات سے ہوا کہ وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا کا مفعول ذکر نہیں فرمایا کہ کیا چیز کھاؤ پیو، اور علماء عربیت کی تصریح ہے کہ ایسے مواقع پر مفعول ذکر نہ کرنا اس کے عموم کی طرف اشارہ ہوا کرتا ہے کہ ہر چیز کھا پی سکتے ہو بجز ان اشیاء کے جن کو بالتصریح حرام کردیا گیا ہے (احکام القرآن، جصاص)- کھانے پینے میں اسراف جائز نہیں - آیت کے آخری جملہ وَلَا تُسْرِفُوْا سے ثابت ہوا کہ کھانے پینے کی تو اجازت ہے، بلکہ حکم ہے، مگر ساتھ ہی اسراف کرنے کی ممانعت ہے، اسراف کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنا، پھر حد سے تجاوز کرنے کی کئی صورتیں ہیں، ایک یہ کہ حلال سے تجاوز کرکے حرام تک پہنچ جائے، اور حرام کو کھانے پینے برتنے لگے اس کا حرام ہونا ظاہر ہے۔ - دوسرے یہ کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو بلاوجہ شرعی حرام سمجھ کر چھوڑ دے جس طرح حرام کا استعمال جرم و گناہ ہے اسی طرح حلال کو حرام سمجھنا بھی قانون الٓہی کی مخالفت اور سخت گناہ ہے۔ (ابن کثیر، مظہری، روح المعانی) - اسی طرح یہ بھی اسراف ہے کہ بھوک اور ضرورت سے زیادہ کھائے پئے، اسی لئے فقہاء نے پیٹ بھرنے سے زائد کھانے کو ناجائز لکھا ہے (احکام القرآن وغیرہ) اسی طرح یہ بھی اسراف کے حکم میں ہے کہ باوجود قدرت و اختیار کے ضرورت سے اتنا کم کھائے جس سے کمزور ہو کر ادائے واجبات کی قدرت نہ رہے، ان دونوں قسم کے اسراف کو منع کرنے کے لئے قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہے : (آیت)- ان المبذرین کانو اخوان الشیطین - ” یعنی فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں “۔- اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا : (آیت) والذین اذا انفقوا تا قواما۔- ” یعنی اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو خرچ کرنے میں تو سط اور میانہ روی رکھتے ہیں نہ حد ضرورت سے زیادہ خرچ کریں اور نہ اس سے کم خرچ کریں “۔- کھانے پینے میں اعتدال ہی نافع دین و دنیا ہے - حضرت فاروق اعظم (رض) نے فرمایا کہ بہت کھانے پینے سے بچو، کیونکہ وہ جسم کو خراب کرتا ہے، بیماریاں پیدا کرتا ہے، عمل میں سستی پیدا کرتا ہے، بلکہ کھانے پینے میں میانہ روی اختیار کرو کہ وہ جسم کی صحت کے لئے بھی مفید ہے اور اسراف سے دور ہے، اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فربہ جسم عالم کو پسند نہیں فرماتے (مراد یہ ہے کہ جو زیادہ کھانے سے اختیاری طور پر فربہ ہوگیا ہو) اور فرمایا کہ آدمی اس وقت تک ہلاک نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات کو دین پر ترجیح نہ دینے لگے (روح عن ابی نعیم)- سلف صالحین نے اس بات کو اسراف میں داخل قرار دیا ہے کہ آدمی ہر وقت کھانے پینے ہی کے دھندے میں مشغول رہے، یا اس کو دوسرے اہم کاموں میں مقدم جانے، جس سے یہ سمجھا جائے کہ اس کا مقصد زندگی یہی کھانا پینا ہے، انہی حضرات کا مشہور مقولہ ہے کہ ” خوردن برائے زیستن ست نہ زیستین برائے خوردن “۔ یعنی کھانا اس لئے ہے کہ زندگی قائم رہے، یہ نہیں کہ زندگی کھانے پینے ہی کے لئے ہو۔ - ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بھی اسراف میں داخل فرمایا ہے کہ جب کسی چیز کو جی چاہئے اس کو ضرور پورا کرلے، ان من الاسراف ان تاکل کل ما اشتھیت (ابن ماجہ عن انس)- اور بیہقی رحمة اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ دن میں دو مرتبہ کھانا تناول فرمایا، تو ارشاد فرمایا اے عائشہ کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ تمہارا شغل صرف کھانا ہی رہ جائے۔ - اور میانہ روی کا یہ حکم جو کھانے پینے کے متعلق اس آیت میں مذکور ہے صرف کھانے پینے کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ پہننے اور رہنے سہنے کے ہر کام میں درمیانی کیفیت پسند اور محبوب ہے، حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ جو چاہو کھاؤ پیو، اور جو چاہو پہنو، صرف دو باتوں سے بچو، ایک یہ کہ اس میں اسراف یعنی قدر ضرورت سے زیادتی نہ ہو، دوسرے فخر و غرور نہ ہو۔ - ایک آیت سے آٹھ مسائل شرعیہ - خلاصہ یہ ہے کہ كُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا، کے کلمات سے آٹھ مسائل شرعیہ نکلے۔ اول یہ کہ کھانا پینا بقدر ضرورت فرض ہے، دوسرے یہ کہ جب تک کسی چیز کی حرمت کسی دلیل شرعی سے ثابت نہ ہوجائے ہر چیز حلال ہے، تیسرے یہ کہ جن چیزوں کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ممنوع کردیا اس کا استعمال اسراف اور ناجائز ہے، چوتھے یہ کہ جو چیزیں اللہ نے حلال کی ہیں ان کو حرام سمجھنا بھی اسراف اور سخت گناہ ہے، پانچویں یہ کہ پیٹ بھر جانے کے بعد اور کھانا ناجائز ہے، چھٹے یہ کہ اتنا کم کھانا جس سے کمزور ہو کر ادائے واجبات کی قدرت نہ رہی، درست نہیں ہے، ساتویں یہ کہ ہر وقت کھانے پینے کی فکر میں رہنا بھی اسراف ہے، آٹھویں یہ بھی اسراف ہے کہ جب کبھی کسی چیز کو جی چاہے تو ضروری ہی اس کو حاصل کرے۔ - یہ تو اس آیت کے فوائد دینیہ ہیں اور اگر طبی طور پر غور کیا جائے تو صحت و تندرستی کے لئے اس سے بہتر کوئی نسخہ نہی، کھانے پینے میں اعتدال، ساری بیماریوں سے امان ہے۔ - تفسیر روح المعانی اور مظہری وغیرہ میں ہے کہ امیر المؤ منین ہارون رشید کے پاس ایک نصرانی طبیب علاج کے لئے رہتا تھا، اس نے علی بن حسین بن واقد سے کہا کہ تمہاری کتاب یعنی قرآن میں علم طب کا کوئی حصہ نہیں، حالانکہ دنیا میں دو ہی علم علم ہیں، ایک علم ادیان دوسرا علم ابدان جس کا نام طب ہے، علی بن حسین نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سارے فن طب و حکمت کو آدھی آیت قرآن میں جمع کردیا ہے، وہ یہ کہ ارشاد فرمایا کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ( اور تفسیر ابن کثیر میں یہ قول بعض سلف کے حوالہ سے بھی نقل کیا ہے) ، پھر اس نے کہا کہ اچھا تمہارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام میں بھی طب کے متعلق کچھ ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چند کلمات میں سارے فن طب کو جمع کردیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ معدہ بیماریوں کا گھر ہے، اور مضر چیزوں سے پرہیز دواء کی اصل ہے اور ہر بدن کو وہ چیز دو جس کا وہ عادی ہے (کشاف، روح) نصرانی طبیب نے یہ سن کر کہا کہ تمہاری کتاب اور تمہارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جالینوس کے لئے کوئی طب نہیں چھوڑی۔ - بیہقی نے شعب الایمان میں بروایت ابی ہریرہ (رض) نقل کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ معدہ بدن کا حوض ہے، سارے بدن کی رگیں اسی حوض سے سیراب ہوتی ہیں، اگر معدہ درست ہے تو ساری رگیں یہاں سے صحت مند غذا لے کر لوٹیں گی، اور وہ خراب ہے تو ساری رگیں بیماری لے کر بدن میں پھیلیں گی۔ - محدثین نے ان روایات حدیث کے الفاظ میں کچھ کلام کیا ہے، لیکن کم کھانے اور محتاط رہنے کی تاکیدات جو بیشمار احادیث میں موجود ہیں اس میں سب کا اتفاق ہے (روح)
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَۃَ اللہِ الَّتِيْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّيِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ ٠ ۭ قُلْ ہِىَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا خَالِصَۃً يَّوْمَ الْقِيٰمَۃِ ٠ ۭ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ ٣٢- حرم - الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ...- الآية [ الأنعام 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» .- وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع - وکذلک الشهر الحرام، وقیل : رجل حَرَام و حلال، ومحلّ ومُحْرِم، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] ، أي : لم تحکم بتحریم ذلک ؟ وكلّ تحریم ليس من قبل اللہ تعالیٰ فلیس بشیء، نحو : وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] ، وقوله تعالی: بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] ، أي : ممنوعون من جهة الجدّ ، وقوله : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] ، أي : الذي لم يوسّع عليه الرزق کما وسّع علی غيره . ومن قال : أراد به الکلب فلم يعن أنّ ذلک اسم الکلب کما ظنّه بعض من ردّ عليه، وإنما ذلک منه ضرب مثال بشیء، لأنّ الکلب کثيرا ما يحرمه الناس، أي : يمنعونه . والمَحْرَمَة والمَحْرُمَة والحُرْمَة، واستحرمت الماعز کناية عن إرادتها الفحل .- ( ح ر م ) الحرام - ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ الحرم کو حرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اس کے اندر بہت سی چیزیں حرام کردی ہیں جو دوسری جگہ حرام نہیں ہیں اور یہی معنی الشہر الحرام کے ہیں یعنی وہ شخص جو حالت احرام میں ہو اس کے بالمقابل رجل حلال ومحل ہے اور آیت کریمہ : يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] کے معنی یہ ہیں کہ تم اس چیز کی تحریم کا حکم کیون لگاتے ہو جو اللہ نے حرام نہیں کی کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام نہ کی ہو وہ کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوجاتی جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] اور ( بعض ) چار پائے ایسے ہیں کہ ان کی پیٹھ پر چڑھنا حرام کردیا گیا ہے ۔ میں مذکور ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] بلکہ ہم ( برکشتہ نصیب ) بےنصیب ہیں ان کے محروم ہونے سے بد نصیبی مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] مانگنے والے اور نہ مانگنے ( دونوں ) میں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خوشحالی اور وسعت رزق سے محروم ہو اور بعض نے کہا ہے المحروم سے کتا مراد ہے تو اس کے معنی نہیں ہیں کہ محروم کتے کو کہتے ہیں جیسا ان کی تردید کرنے والوں نے سمجھا ہے بلکہ انہوں نے کتے کو بطور مثال ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر کتے کو لوگ دور ہٹاتے ہیں اور اسے کچھ نہیں دیتے ۔ المحرمۃ والمحرمۃ کے معنی حرمت کے ہیں ۔ استحرمت الما ر عذ بکری نے نر کی خواہش کی دیہ حرمۃ سے ہے جس کے معنی بکری کی جنس خواہش کے ہیں ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - خلص - الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه،- وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] - ( خ ل ص ) الخالص ( خالص )- خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔- قِيامَةُ- : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة،- القیامت - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے - تفصیل - : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] - ( ف ص ل ) الفصل - التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11]
قول باری ہے خذوازینتکم عند کل مسجد) اس پر دلالت کرتا ہے کہ مسجد میں جانے کے لئے صاف ستھرا کپڑا پہن لینا جو زینت کا باعث بن جائے مستجب ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے جمعہ اور عیدین میں صاف ستھرے کپڑے پہننے کی ترغیت دی ہے جس طرح آپ نے جمعہ اور عیدین میں غسل کرنے اور خوشبو لگانے کا حکم دیا ہے۔- کھانے پینے میں اسراف کی ممانعت - قول باری ہے وکلواواشربوا ولاتسرفوا۔ اور کھائو پیو اور حد سے سے تجاوز نہ کرو) ظاہر آیت اسراف یعنی فضول خرچی کے بغیر کھانے پینے کے ایجاب کا مقتضی ہے لیکن بعض احوال میں اس حکم سے اباحت مراد ہوتی ہے اور بعض میں ایجاب۔ اگر کھانا پینا چھوڑ دینے کی بنا پر ایک شخص کو بایں معنی ضررلاحق ہونے کا اندیشہ پیدا ہوجائے کہ اس کی جان چلی جائے یا کوئی عضو بےکار ہوجائے یا کمزوری کی بنا پر اپنے فرائض ادا کرنے سے قاضر ہوجائے تو ان تمام حالتوں میں اس کے لئے اتنا کھانا پینا واجب ہوگا اس سے ا س ضرر کے لاحق ہونے کا خطرہ ٹل جائے۔ اگر کھانا پینا چھوڑنے کی بنا پر کسی ضرر کے لاحق ہونے کا خطرہ نہ ہو تو اس حالت میں کھانا پینا مباح ہوگا۔- خورونوش میں حد اعتدال - ظاہر آیت تمام ماکولات کے کھانے اور تمام مشروبات کے پینے کے جواز کا مقتضی ہے۔ بشرطیکہ اس میں اسراف نہ ہو نیز ان میں سے کسی چیز کی ممانعت کی کوئی دلیل موجود نہ ہو۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اکل و شرب کا اطلاق عدم اسراف کی شرط پر کیا ہے۔ اسراف حد استواء سے تجاوز کرجانے کا نام ہے۔ یہ بعض دفعہ حلال سے حرام کی طرف بڑھ جانے کی صورت میں ہوتا ہے اور بعض دفعہ اخراجات میں حد سے تجاوز کر جانے کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس صورت میں ایسا شخص اس قول باری کے ذیل میں آجاتا ہے ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین۔ تبذیر کرنے والے شیطانوں کے بھائی بند ہیں) اسراف اور اس کی ضد اقتاء یعنی ضرورت سے کم خرچ کرنا اور تنگی اختیار کرنا دونوں قابل مذمت باتیں ہیں۔ اور استواء میانہ روی کا نام ہے۔ اسی بنا پر یہ قول ہے کہ اللہ کا دین کوتاہی کرنے والے اور غلو کرنے والے کے وسط میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذلک قواماً ۔ اور وہ لوگ جب خرچ کرنے لگتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور اس کے درمیان کا خرچ اعتدال پر رہتا ہے) اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرمایا ولاتجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولاتبسطھا کل البسط فتقعد ملوما محسوراً ۔ اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو اور نہ ہی اسے پوری طرح پھیلا دو کہ پھر تم ملازمت زدہ اور تہی دست ہو کر بیٹھ جائو) بعض دفعہ کھانے میں اس طرح اسراف ہوتا ہے کہ ایک انسان اپنی حاجت سے زائد کھا لیتا ہے جس کی وجہ سے اسے ضرر اور تکلیف لاحق ہوجاتی ہے آیت کی رو سے اس طرح کھانے کی بھی ممانعت ہے اور اس طرح کھانا حلال نہیں ہے۔
(٣١) ہر نماز کے وقت اور طواف کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو، گوشت، چربی کھاؤ، دودھ پیو اور پاکیزہ رزق کو اپنے اوپر مت حرام کرو، حلال اشیاء کو حرام کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے۔- شان نزول : (آیت) ” یبنی ادم خذو زینتکم “۔ (الخ)- امام مسلم (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ایام جاہلیت میں عورت بیت اللہ کا ننگے طواف کیا کرتی تھی اور اس کی شرمگاہ پر ایک کپڑا ہوتا تھا اور یہ کہتی تھی کہ آج کے دن خواہ سارا جسم کھل جائے یا بعض اس کا حصہ اور جو اس سے کھل جائے اس کو میں حلال نہیں سمجھتی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت ٣١ (یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ ) - یہاں اچھے لباس کو زینت کہا گیا ہے ‘ جیسا کہ آیت ٢٦ میں لباس کو رِیْشًا فرمایا گیا تھا ‘ یعنی لباس انسان کے لیے زیب وزینت کا ذریعہ ہے۔ یہاں ایک نکتہ یہ بھی قابل غور ہے کہ ابھی جن تین آیات (٢٦ ‘ ٢٧ اور ٣١) میں لباس کا ذکر ہوا ہے ‘ ان تینوں میں بنی آدم کو مخاطب کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لباس کا معاملہ پوری نوع انسانی سے متعلق ہے۔ بہر حال اس آیت میں جو اہم حکم دیا جا رہا ہے وہ نماز کے وقت بہتر لباس زیب تن کرنے کے بارے میں ہے۔ ہمارے ہاں اس سلسلے میں عام طور پر الٹی روش چلتی ہے۔ دفتر اور عام میل ملاقات کے لیے تو عموماً بہت اچھے لباس کا اہتمام کیا جاتا ہے ‘ لیکن مسجد جانا ہو تو میلے کچیلے کپڑوں سے ہی کام چلا لیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ جب تمہیں میرے دربار میں آنا ہو تو پورے اہتمام کے ساتھ آیا کرو ‘ اچھا اور صاف ستھرا لباس پہن کر آیا کرو۔- (وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلاَ تُسْرِفُوْاج اِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ ) ۔ - بنی آدم سے کہا جا رہا ہے کہ یہ دنیا کی چیزیں تمہارے لیے ہی بنائی گئیں ہیں اور ان چیزوں سے جائز اور معروف طریقوں سے استفادہ کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے ‘ لیکن اللہ کی عطا کردہ ان نعمتوں کے بےجا استعمال اور اسراف سے اجتناب بھی ضروری ہے ‘ کیونکہ اسراف اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ یہاں ایک طرف تو اسی رہبانی نظریہ کی نفی ہو رہی ہے جس میں اچھے کھانے ‘ اچھے لباس اور زیب و زیبائش کو سرے سے اچھا نہیں سمجھا جاتا اور مفلسانہ وضع قطع اور ترک لذات کو روحانی ارتقاء کے لیے ضروری خیال کیا جاتا ہے ‘ جبکہ دوسری طرف دنیوی نعمتوں کے بےجا اسراف اور ضیاع سے سختی سے منع کردیا گیا ہے۔ - اس سلسلے میں افراط وتفریط سے بچنے کے لیے ضروریات زندگی کے اکتساب و تصرف کے معیار اور فلسفے کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک مسلمان جہاں کہیں بھی رہتا بستا ہے اس کو دو صورتوں میں سے ایک صورت حال درپیش ہوسکتی ہے۔ اس کے ملک میں یا تو دین غالب ہے یا مغلوب۔ اب اگر آپ کے ملک میں اللہ کا دین مغلوب ہے تو آپ کا پہلا فرض یہ ہے کہ آپ اللہ کے دین کے غلبے کی جدو جہد کریں اور اس کے لیے کسی باقاعدہ تنظیم میں شامل ہو کر اپنا بیشتر وقت اور صلاحیتیں اس جدوجہد میں لگائیں۔ ایسی صورت حال میں دنیوی طور پر ترقی کرنا اور پھلنا پھولنا آپ کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہونا چاہیے ‘ بلکہ آپ کی پہلی ترجیح دین کے غلبے کے لیے جدو جہد ہونی چاہیے اور آپ کا ماٹو (اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) ( الانعام) ہونا چاہیے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ مادی لحاظ سے بہت بہتر معیار زندگی کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ یہ اس لیے نہیں ہوگا کہ آپ رہبانیت یا ترک لذات کے قائل ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہوگی کہ دنیا اور دنیوی آسائشیں کمانے کے لیے نہ آپ کوشاں ہیں اور نہ ہی اس کے لیے آپ کے پاس وقت ہے۔ آپ تو شعوری طور پر ضروریات زندگی کو کم سے کم معیار پر رکھ کر اپنی تمام تر صلاحیتیں ‘ اپنا وقت اور اپنے وسائل دین کی سر بلندی کے لیے کھپا رہے ہیں۔ یہ رہبانیت نہیں ہے بلکہ ایک مثبت جہادی نظریہ ہے۔ جیسے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) نے سختیاں جھیلیں اور اپنے گھر باراسی دین کی سر بلندی کے لیے چھوڑے۔ کیونکہ اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتوں کو نازل نہیں کرے گا ‘ بلکہ یہ کام انسانوں نے کرنا ہے ‘ مسلمانوں نے کرنا ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ انقلاب کے داعی بنے ہیں انہیں قربانیاں دینا پڑی ہیں ‘ انہیں سختیاں اٹھانا پڑی ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی انقلاب قربانیوں کے بغیر نہیں آتا۔ لہٰذا اگر آپ واقعی اپنے دین کو غالب کرنے کے لیے انقلاب کے داعی بن کر نکلے ہیں تو آپ کا معیار زندگی خود بخود کم سے کم ہوتا چلا جائے گا۔ - البتہ اگر آپ کے ملک میں دین غالب ہوچکا ہے ‘ نظا مِ خلافت قائم ہوچکا ہے ‘ اسلامی فلاحی ریاست وجود میں آچکی ہے تو دین کی مزید نشر و اشاعت ‘ دعوت و تبلیغ اور نظام خلافت کی توسیع ‘ عوامی فلاح و بہبود کی نگرانی ‘ امن وامان کا قیام ‘ ملکی سرحدوں کی حفاظت ‘ یہ سب حکومت اور ریاست کی ذمہ داریاں ہیں۔ ایسی اسلامی ریاست میں ایک فرد کی ذمہ داری صرف اسی حد تک ہے جس حد تک حکومت کی طرف سے اسے مکلف کیا جائے۔ وہ کسی ٹیکس کی صورت میں ہو یا پھر کسی اور نوعیت کی ذمہ داری ہو۔ لیکن ایسی صورت حال میں ایک فرد ‘ ایک عام شہری آزاد ہے کہ وہ دین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی ذاتی زندگی اپنی مرضی سے گزارے۔ اچھا کمائے ‘ اپنے بچوں کے لیے بہتر معیار زندگی اپنائے ‘ دنیوی ترقی کے لیے محنت کرے ‘ علمی و تحقیقی میدان میں اپنی صلاحیتوں کو آزمائے یا روحانی ترقی کے لیے مجاہدہ کرے ‘ تمام راستے اس کے لیے کھلے ہیں۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :20 یہاں زینت سے مرد مکمل لباس ہے ۔ خدا کی عبادت میں کھڑے ہونے کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ آدمی محض اپنا ستر چھپا لے ، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ حسب استطاعت وہ اپنا پورا لباس پہنے جس میں ستر پوشی بھی ہو اور زینت بھی ۔ یہ حکم اس غلط رویہ کی تردید کے لیے ہے جس پر جہلا اپنی عبادتوں میں عمل کرتے رہے ہیں اور آج تک کر رہے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ برہنہ یا نیم برہنہ ہو کر اور اپنی ہیئتوں کو بگاڑ کر خدا کی عبادت کرنی چاہیے ۔ اس کے برعکس خدا کہتا ہے کہ اپنی زینت سے آراستہ ہو کو ایسی وضع میں عبادت کرنی چاہیے جس کے اندر بر ہنگی تو کیا ، ناسائستگی کا بھی شائبہ تک نہ ہو ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :21 یعنی خد اکو تمہاری خستہ حالی اور فاقہ کشی اور طیّباتِ رزق سے محرومی عزیز نہیں ہے کہ اس کی بندگی بجا لانے کےلیے یہ کسی درجہ میں بھی مطلوب ہو ۔ بلکہ اس کی عین خوشی یہ ہے کہ تم اس کے بخشے ہوئے عمدہ لباس پہنو اور پاک رزق سے متمتع ہو ۔ اس کی شریعت میں اصل گناہ یہ ہے کہ آدمی اس کی مقرر کردہ حدوں سے تجاوز کرے ، خواہ یہ تجاوز حلال کو حرام کرلینے کی شکل میں ہو یا حرام کو حلال کر لینے کی شکل میں ۔