آخر کار مومن ہی اللہ کی رحمت کا سزا وار ٹھہرا کھانے پینے پہننے کی ان بعض چیزوں کو بغیر اللہ کے فرمائے حرام کر لینے والوں کی تردید ہو رہی ہے اور انہیں ان کے فعل سے روکا جا رہا ہے ۔ یہ سب چیزیں اللہ پر ایمان رکھنے والوں اور اس کی عبادت کرنے والون کے لئے ہی تیار ہوئی ہیں گو دنیا میں ان کے ساتھ اور لوگ بھی شریک ہیں لیکن پھر قیامت کے دن یہ الگ کر دیئے جائیں گے اور صرف مومن ہی اللہ کی نعمتوں سے نوازے جائیں گے ۔ ابن عباس راوی ہیں کہ مشرک ننگے ہو کے اللہ کے گھر کا طواف کر تے تھے سیٹیاں اور تالیاں بجاتے جاتے تھے پس آیتیں اتریں ۔
32۔ 1 مشرکین نے جس طرح طواف کے وقت لباس پہننے کو ناپسندیدہ قرار دے رکھا تھا، اسی طرح حلال چیزیں بھی بطور تقرب الٰہی اپنے اوپر حرام کرلی تھیں نیز بہت سی حلال چیزیں اپنے بتوں کے نام وقف کردینے کی وجہ سے حرام گردانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لوگوں کی زینت کے لئے (مثلاً لباس وغیرہ) اور کھانے کی عمدہ چیزیں بنائی ہیں۔ گو کفار بھی ان سے فیض یاب اور فائدہ اٹھا لیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ دینوی چیزوں اور آسائشوں کے حصول میں وہ مسلمانوں سے زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں لیکن یہ بالتبع اور عارضی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی تکوینی مشیت اور حکمت ہے تاہم قیامت والے دن یہ نعمتیں صرف اہل ایمان کے لیے ہوں گی کیونکہ کافروں پر جس طرح جنت حرام ہوگی، اسی طرح ماکولات ومشروبات بھی حرام ہوں گے۔
[٣١] ترک دنیا کی مذمت :۔ اللہ تعالیٰ نے تو لباس اور زینت اور کھانے پینے کی سب حلال چیزیں اپنے بندوں کے فائدہ اٹھانے ہی کے لیے پیدا کی ہیں، اب جو لوگ گدڑی پہنتے، کم سے کم خوراک کھاتے، لذائذ دنیا کو ترک کرتے، راتوں کو ریاضتیں کرتے اور نکاح سے اس لیے پرہیز کرتے ہیں کہ یہ ان کے روحانی ارتقاء میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے تو ایسے روحانی ارتقاء کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام میں روحانی ارتقاء کا راستہ ترک دنیا پر قطعاً منحصر نہیں ہے بلکہ یہ راستہ معاملات دنیا کو احسن طریقے پر ادا کرتے ہوئے اسی دنیا سے آگے چلتا ہے جس میں جسم کی بھی پرورش ہو اور روح کی بھی۔ اور جو لوگ ترک دنیا کی راہ اختیار کر کے روحانی ارتقاء چاہتے ہیں تو یہ پابندیاں اللہ نے قطعاً نہیں لگائیں یہ ان کی اپنی خودساختہ ہیں اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اس نے کسی شخص پر جو انعام کیے ہیں ان کا اثر اس کے طرز زندگی سے ظاہر ہونا چاہیے اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث بھی ملاحظہ فرمائیے۔- سیدنا انس (رض) سے روایت ہے کہ تین آدمی (عمرو بن عا ص (رض) علی (رض) اور عثمان بن مظعون (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کے گھروں کے قریب آئے اور ازواج مطہرات سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کا حال پوچھا جب انہیں آپ کی عبادت کی خبر دی گئی تو انہوں نے اسے کمتر سمجھا اور کہا کہاں ہم اور کہاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی تو اگلی پچھلی سب لغزشیں معاف ہو چکیں۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا میں ہمیشہ ساری رات قیام کیا کروں گا۔ دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزے رکھا کروں گا، افطار نہ کروں گا تیسرے نے کہا میں عورتوں سے علیحدہ رہوں گا کبھی نکاح نہ کروں گا۔ اتنے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تشریف لے آئے اور آپ کو ان کی گفتگو کی خبر دی گئی۔ آپ نے ان سے کہا تم ہی ہو جنہوں نے ایسا اور ایسا کہا تھا ؟ سنو اللہ کی قسم میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور سب سے زیادہ متقی ہوں لیکن میں روزے رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں میں رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں اب جس شخص نے میری سنت (طریقے) سے بےرغبتی کی اس کا مجھ سے کوئی سروکار نہیں۔ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب الترغیب فی النکاح)- [٣٢] اس لیے کہ جو لوگ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر بجا لاتے ہیں وہی نمک حلال ہوتے ہیں اور وہی مزید نعمتوں کے مستحق ہوتے ہیں اور جو اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کریں اس کی نعمتوں کے حقدار نہیں ہوسکتے لیکن چونکہ یہ دنیا دارالامتحان ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نمک حراموں کو بھی رزق دیئے جاتا ہے بلکہ بسا اوقات زیادہ بھی دیتا ہے تاہم آخرت میں اللہ کی نعمتیں صرف اللہ کے فرمانبرداروں ہی کے لیے مخصوص ہوں گی۔
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللّٰهِ ۔۔ : اس آیت میں ” َ زِيْنَةَ اللّٰهِ “ سے عمدہ لباس اور وہ تمام چیزیں مراد ہیں جن سے انسان کو حسن و جمال حاصل ہوتا ہے اور ” َالطَّيِّبٰتِ “ سے عمدہ قسم کے لذیذ کھانے مراد ہیں۔ اس آیت میں ان لوگوں کی سخت تردید ہے جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کے ترک استعمال کو درویشی سمجھتے ہیں اور گھٹیا قسم کا کھانا کھانے اور لباس پہننے ہی کو بڑی نیکی سمجھتے ہیں اور ان صوفیوں کی بھی تردید ہے جو خود ساختہ وظیفے بتانے کے ساتھ ہی ہر جان دار کا اور جان دار سے حاصل ہونے والی چیز، مثلاً دودھ، گھی اور شہد کا کھانا منع کردیتے ہیں اور اسے ترک حیوانات جلالی و جمالی کا نام دے رکھا ہے جو دراصل ہندو سادھوؤں اور جوگیوں کا مذہب ہے، اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کوئی نعمت عطا فرماتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کا اثر اس پر ظاہر ہو۔ “ [ ترمذی، الأدب، باب ما جاء أن اللہ یحب۔۔ : ٢٨١٩، و صححہ الألبانی ] شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی منع کام میں خرچ نہ کرے، باقی کھانا پینا سب روا ہے، جو نعمت ہے مسلمان کے واسطے پیدا ہوئی ہے، دنیا میں کافر بھی شریک ہوگئے، آخرت میں صرف انھی کے لیے ہے۔ “ مزید دیکھیے سورة احقاف ( ٢٠) ۔
خلاصہ تفسیر - (جو لوگ اللہ کی حلال کی ہوئی چیزیں ملبوسات اور مطعومات و مشروبات کو بےدلیل بلکہ خلاف دلیل حرام سمجھ رہے ہیں ان سے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیجئے کہ (یہ بتلاؤ) اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے کپڑوں کو جو اس نے اپنے بندوں کے (استعمال کے) واسطے بنائے ہیں اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو (جن کو اللہ نے حلال قرار دیا ہے) کسی شخص نے حرام کیا ہے (یعنی حلال و حرام قرار دینا تو خالق ومالک کائنات کا کام ہے، تم اپنی طرف سے کسی چیز کو حلال یا حرام کہنے والے کون ہو ؟ آیات مذکورہ میں لباس اور کھانے پینے کی چیزوں کو انعام خدا وندی قرار دیا ہے، اس سے کفار کو یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ یہ انعام تو ہمیں خوب مل رہا ہے، اگر اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہوتا اور ہمارے عقائد و اعمال اس کے خلاف ہوتے تو یہ انعام ہمیں کیوں ملتا، اس شبہ کے جواب کیلئے فرمایا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے یہ کہہ دیجئے کہ (انعامات الٓہیہ کے متعلق استعمال کی اجازت دلیل مقبولیت نہیں، ہاں جس استعمال کے بعد کوئی وبال نہ ہو وہ استعمال کرتے ہیں اتنا ہی ان کا وبال اور عذاب آخرت بڑھتا رہتا ہے، اس لئے فرمایا کہ) یہ اشیاء (لباس اور کھانے پینے کی چیزیں) اس طور پر کہ قیامت کے روز (بھی کدورات سے اور عذاب سے) خالص رہیں دنیوی زندگی میں خاص اہل ایمان ہی کے لئے ہیں (بخلاف کفار کے کہ گو دنیا میں انہوں نے اللہ کی نعمتوں کو استعمال کرکے عیش و عشرت میں بسر کیا، مگر چونکہ ان نعمتوں کا شکر ایمان و اطاعات کے ذریعہ ادا نہیں کیا، اس لئے وہاں یہ نعمتیں وبال اور عذاب بن جاویں گی) ہم اسی طرح تمام آیات کو سمجھداروں کے واسطے صاف صاف بیان کرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان سے یہ بھی) فرمائیے کہ (تم نے جن حلال چیزوں کو بلا وجہ حرام سمجھ رکھا ہے وہ تو اللہ نے حرام نہیں کی) البتہ میرے رب نے صرف (ان چیزوں کو جن میں سے اکثر میں تم مبتلا ہو) حرام کیا ہے (مثلاً ) تمام فحش باتوں کو ان میں جو علانیہ ہیں وہ بھی (جیسے ننگے ہو کر طواف کرنا) اور ان میں جو پوشیدہ ہیں وہ بھی (جیسے بدکاری) اور ہر گناہ کی بات کو (حرام کیا ہے) اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو (حرام کیا ہے) اور اس بات کو (حرام کیا ہے) کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک (عبادت) ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند (اور دلیل) نازل نہیں فرمائی (نہ کلیاً نہ جزئیاً ) اور اس بات کو (حرام کیا ہے) کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کے ذمے ایسی بات لگا دو جس کی تمہارے پاس کوئی سند نہ ہو (جس طرح (آیت) قل امر ربی بالقسط میں تمام مامورات جن پر عمل کرنا مشروع ہے داخل ہوگئے، اسی طرح اِنَّمَا حَرَّمَ میں تمام منہیات جن کی ممانعت ہے شامل ہوگئے) اور (اگر ان محرمات کے ارتکاب کرنے والوں کو فوراً سزا نہ ہونے سے ان کی تحریم میں کسی کو شبہ ہوجاوے تو اس کا جواب یہ ہے کہ علم الٰہی میں) ہر گروہ (کے ہر فرد کی سزا) کے لئے (بمقتضائے حکمت) ایک میعاد معیّن ہے سو جس وقت ان کی (وہ) میعاد معین (نزدیک) آ جاوے گی اس وقت ایک ساعت نہ (اس سے) پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے (بلکہ فوراً ہی سزا جاری ہوجاوے گی اس میعاد کے قبل سزا نہ ہونا اس کی دلیل نہیں کہ ان محرکات پر سزا نہ ہوگی)- معارف و مسائل - پہلی آیت میں ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے جو عبادات میں غلو اور خود ایجاد تنگیاں پیدا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں سے پرہیز کرنے اور اپنے اوپر حرام قرار دینے کو عبادت و اطاعت سمجھتے ہیں جیسے مشرکین مکہ ایام حج میں بوقت طواف لباس پہننا ہی جائز نہ سمجھتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کی حلال اور اچھی غذاؤں سے پرہیز کرنے کو عبادت جانتے تھے۔ - ایسے لوگوں کو زجر اور سرزش کے انداز میں تنبیہ کی گئی کہ اللہ کی زینت یعنی عمدہ لباس جو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا فرمایا ہے، اور پاکیزہ عمدہ غذائیں جو اللہ نے عطا فرمائی ہیں ان کو کس نے حرام کیا۔ - عمدہ لباس اور لذیز کھانے سے پرہیز اسلام کی تعلیم نہیں - مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کو حلال و حرام ٹھہرانا صرف اس ذات پاک کا حق ہے جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے، کسی دوسرے کی اس میں مداخلت جائز نہیں، اس لئے وہ لوگ قابل عتاب و عذاب ہیں جو اللہ کی حلال کی ہوئی عمدہ پوشاک یا پاکیزہ اور لذیز خوراک کو حرام سمجھیں، وسعت ہوتے ہوئے پھٹے حالوں گندہ پراگندہ رہنا نہ کوئی اسلام کی تعلیم ہے، نہ کوئی اسلام میں پسندیدہ چیز ہے، جیسا کہ بہت سے جاہل خیال کرتے ہیں۔ - سلف صالحین اور ائمہ اسلام میں بہت سے اکابر جن کو اللہ تعالیٰ نے مالی وسعت عطا فرمائی تھی اکثر عمدہ اور پیش قیمت لباس استعمال فرماتے تھے، خواجہ دوعالم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی جب وسعت ہوئی عمدہ سے عمدہ لباس بھی زیب تن فرمایا ہے، ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بدن مبارک پر ایسی چادر تھی جس کی قیمت ایک ہزار درہم تھی، امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے کہ چار سو گنّی کی قیمت کی چادر استعمال فرمائی، اسی طرح حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ ہمیشہ نفیس اور عمدہ لباس استعمال فرماتے تھے، ان کے لئے تو کسی صاحب نے سال بھر کے لئے تین سو ساٹھ جوڑوں کا سالانہ انتظام اپنے ذمہ لیا ہوا تھا، اور جو جوڑا امام رحمة اللہ علیہ کے بدن پر ایک مرتبہ پہنچتا تھا دوبارہ استعمال نہ ہوتا تھا، کیونکہ صرف ایک روز استعمال کرکے کسی غریب طالب علم کو دیدتے تھے۔ - وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو اپنی نعمت اور وسعت عطا فرماویں تو اللہ تعالیٰ اس کو پسند فرماتے ہیں کہ اس کی نعمت کا اثر اس کے لباس وغیرہ میں دیکھا جائے، اس لئے کہ اظہار نعمت بھی ایک قسم کا شکر ہے، اس کے بالمقابل وسعت ہوتے ہوئے پھٹے پرانے یا میلے کچیلے کپڑے استعمال کرنا ناشکری ہے۔ - ہاں ضروری بات یہ ہے کہ دو چیزوں سے بچے، ایک ریاء و نمود، دوسرے فخر و غرور، یعنی محض لوگوں کو دکھلانے اور اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لئے لباس فاخر استعمال نہ کرے، اور ظاہر ہے کہ سلف صالحین ان دونوں چیزوں سے بری تھے۔ - اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سلف صالحین میں حضرت فاروق اعظم (رض) اور بعض دوسرے صحابہ سے جو عام حالات میں معمولی قسم کا لباس یا پیوند زدہ کپڑے استعمال کرنا منقول ہے اس کی دو وجہ تھیں، ایک تو یہ کہ اکثر جو کچھ مال آتا وہ فقراء، مساکین اور دینی کاموں میں خرچ کر ڈالتے تھے، اپنے لئے باقی ہی نہی رہتا تھا، جس سے عمدہ لباس آسکے، دوسرے یہ کہ آپ مقتدائے خلائق تھے، اس سادہ اور سستی پوشاک کے رکھنے سے دوسرے امراء کو اس کی تلقین کرنا تھا، تاکہ عام غرباء فقراء پر ان کی مالی حیثیت کا رعب نہ پڑے۔ - اسی طرح صوفیائے کرام جو مبتدیوں کو لباس زینت اور عمدہ لذیز کھانوں سے روکتے ہیں، اس کا منشاء بھی یہ نہیں کہ ان چیزوں کو دائمی طور پر ترک کرنا کوئی کار ثواب ہے، بلکہ نفس کی خواہشات پر قابو پانے کے لئے ابتداء سلوک میں ایسے مجاہدے بطور علاج ودواء کے کردیئے جاتے ہیں، اور جب وہ اس درجہ پر پہنچ جائے کہ خواہشات نفسانی پر قابو پالے کہ اس کا نفس اس کو حرام و ناجائز کی طرف نہ کھینچ سکے، تو اس وقت تمام صوفیائے کرام عام سلف صالحین کی طرح عمدہ لباس اور لذیز کھانوں کو استعمال کرتے ہیں، اور اس وقت یہ طیبات رزق ان کے لئے معرفت خداوندی اور درجات قرب میں رکاوٹ کے بجائے اضافہ اور تقرّب کا ذریعہ بنتے ہیں۔- خوراک و پوشاک میں سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خوراک و پوشاک کے بارے میں خلاصہ سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ وتابعین کا یہ ہے کہ ان چیزوں میں تکلف نہ کرے، جیسی پوشاک و خوراک بآسانی میسر ہو اس کو شکر کے ساتھ استعمال کرے، موٹا کپڑا، خشک غذا ملے تو یہ تکلف نہ کرے کہ کسی نہ کسی طرح اچھا ہی حاصل کرے خواہ قرض لینا پڑے، یا اس کی فکر میں اپنے آپ کو کسی دوسری مشکل میں مبتلا کرنے کی نوبت آئے۔ - اسی طرح عمدہ نفیس لباس یا لذیز کھانا میسر آئے تو یہ تکلف نہ کرے کہ اس کو جان بوجھ کر خراب کرلے یا اس کے استعمال سے پرہیز کرے، جس طرح بڑھیا لباس اور غذا کی جستجو تکلف ہے اسی طرح بڑھیا کو خراب کرنا یا اس کو چھوڑ کر گھٹیا استعمال کرنا بھی تکلف و مذموم ہے۔ - آیت کے اگلے جملہ میں اس کی ایک خاص حکمت یہ بتلائی گئی کہ دنیا کی تمام نعمتیں نفیس اور عمدہ لباس، پاکیزہ اور لذیز غذائیں دراصل اطاعت شعار مؤمنین ہی کے لئے پیدا کی گئی ہیں، دوسرے لوگ ان کے طفیل میں کھا پی رہے ہیں، کیونکہ یہ دنیا دار العمل ہے، دار الجزاء نہیں یہاں کھڑے کھوٹے اور اچھے برے کا امتیاز دنیا کی نعمتوں میں نہیں کیا جاسکتا، بلکہ رحمن دنیا کی نعمتوں کا یہ دسترخوان عام یہاں سب کے لئے یکساں کھلا ہوا ہے، بلکہ دنیا میں عادة اللہ یہ ہے کہ اگر مومن و فرمانبردار بندوں سے اطاعت شعاری میں کچھ کمی ہوجاتی ہے تو دوسرے لوگ ان پر غالب آکر دنیوی نعمتوں کے جزائن پر قابض ہوجاتے ہیں اور یہ فقر و فاقہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔- مگر یہ قانون صرف اسی دار العمل دنیا کے اندر ہے، اور آخرت میں ساری نعمتیں اور راحتیں صرف اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اطاعت شعار بندوں کے لئے مخصوص ہوں گی، یہی معنی ہیں آیت کے اس جملہ کے (آیت) قُلْ هِىَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ، یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ دنیا کی سب نعمتیں حیات دنیا میں بھی دراصل مؤمنین ہی کا حق ہیں، اور قیامت کے دن تو خالص انہی کے ساتھ مخصوص ہوں گی۔- اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے اس جملہ کا یہ مطلب قرار دیا ہے کہ دنیا کی ساری نعمتیں اور راحتیں اس خاص کیفیت کے ساتھ کہ وہ آخرت میں وبال جان نہ بنیں صرف فرمانبردار مؤمنین کا حصہ ہے، بخلاف کفار و فجار کے کہ گو دنیا میں نعمتیں ان کو بھی ملتی ہیں بلکہ زیادہ ملتی ہیں، مگر ان کی یہ نعمتیں آخرت میں وبال جان اور عذاب دائمی بننے والی ہیں، اس لئے نتیجہ کے اعتبار سے ان کے لئے یہ کوئی عزت و راحت کی چیز نہ ہوئی۔ - اور بعض حضرات مفسرین نے اس کے یہ معنی قرار دئیے کہ دنیا میں ساری نعمتوں اور راحتوں کے ساتھ محنت و مشقت اور پھر زوال کا خطرہ اور پھر طرح طرح کے رنج و غم لگے ہوئے ہیں، خالص نعمت اور خالص راحت کا یہاں وجود ہی نہیں، البتہ قیامت میں جس کو یہ نعمتیں ملیں گی وہ خالص ہو کر ملیں گی، نہ ان کے ساتھ کوئی محنت و مشقت ہوگی، اور نہ ان کے زوال یا نقصان کا کوئی خطرہ، اور نہ ان کے بعد کوئی رنج و مصیبت، تینوں مفہوم آیت کے اس جملہ میں کھپ سکتے ہیں، اور اسی لئے مفسرین صحابہ وتابعین نے ان کو اختیار کیا ہے۔ - آخر آیت میں فرمای آكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ ، ” یعنی ہم اپنی قدرت کامل کی نشانیاں سمجھدار لوگوں کے لئے اسی طرح تفصیل و وضاحت سے بیان کیا کرتے ہیں “۔ جس سے ہر عالم و جاہل سمجھ لے، اس آیت میں لوگوں کے غلو اور ان جاہلانہ خیالات کی تردید تھی کہ اچھا لباس اور اچھا کھانا ترک کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں۔
قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا بِاللہِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ٣٣- إثم - الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات .- ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ - بغي - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى،- والبَغْيُ علی ضربین :- أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع .- والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری 42] - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ - بغی دو قسم پر ہے ۔- ( ١) محمود - یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔- ( 2 ) مذموم - ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہاے ت میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- سلط - السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] ،- ( س ل ط ) السلاطۃ - اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔
زینت اور طیبات کا حکم - قول باری ہے قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ و الطیبات من الرزق۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہو کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کردیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لئے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کردیں ؟ ) حسن اور قتادہ سے مروی ہے کہ عرب کے لوگ بحیرہ اور سائبہ (ان جانوروں کی تفصیل سورة انعام میں گزر چکی ہے) وغیرہ جانوروں کو اپنے اوپر حرا م کرلیتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی سدی کا قول ہے کہ عرب کے لوگ حالت احرام میں گھی اور دوسرے روغنیات کے استعمال کو حرام سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ نے ا ن کے اس قول کی تردید میں یہ آیت نازل فرمائی۔ اس آیت میں اباحت کے اس حکم کی تاکید ہے جو سابقہ آیت خذوازینتکم عند کل مسجد) میں گزر چکا ہے۔ قول باری والطیبات من الرزق) کی تفسیر میں دو وجوہ بیان کئے گئے ہیں۔ اول اس میں وہ تمام ماکولات و مشروبات شامل ہیں جو انسا ن کو پسند آئیں اور اس کی لذت کام و دہن کا ذریعہ نہیں۔ اس طرح یہ قول باری تمام ماکولات اور مشروبات کی اباحت کا مقتضی ہوگا ان سے صرف وہی چیزیں خارج ہوں گی جن کی تحریم کی دلالت قائم ہوچکی ہو دوم ان سے رزق حلال مراد ہے۔ قول باری ہے قلھی للذین امنوا فی الحیوۃ الدنیا خالصۃ یو مالقیامۃ۔ کہو یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لئے ہیں اور قیامت کے روز تو خالصۃ انہیں کے لئے ہوں گی) یعنی اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے ان چیزوں کو مباح کردیا ہے اور قیامت کے دن یہ چیزیں انہیں تکدرو تفعض کی تمام آلائشوں سے پاک صاف ملیں گی۔ ایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن یہ چیزیں خالصۃ ان ہی کے لئے ہوں گے مشرکین کو ان میں سے کوئی چیز نہیں ملے گی۔
(٣٢) کفار مکہ ایام جاہلیت میں ایام حج میں اپنے اوپر گوشت اور چربی کو حرام کرلیتے تھے اور حرم شریف میں مرد اور عورتیں رات کے وقت ننگے داخل ہوتے تھے اور بیت اللہ شریف کا ننگے طواف کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو منع کردیا کہ اس کی پیدا کردہ چیزوں کو کس لیے حرام کیا ہے۔- اور آپ یہ بھی فرما دیجیے کہ یہ پاکیز چیزیں دنیاوی زندگی میں خالص اہل ایمان کے لیے ہیں، اس طرح ہم ایسے لوگوں کے لیے جو منجانب اللہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں، بذریعہ قرآن کریم حلال و حرام کو بیان کرتے ہیں ،
آیت ٣٢ (قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِط قُلْ ہِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط) ۔ - دُنیا میں رہتے ہوئے تو بیشک اللہ کے منکرین بھی اس کی نعمتوں میں سے کھا پی لیں ‘ استفادہ کرلیں مگر آخرت میں یہ تمام پاکیزہ چیزیں اور نعمتیں اہل ایمان اور اہل جنت کے لیے مختص ہوں گی اور کفار کو ان میں سے کوئی چیز نہیں ملے گی۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :22 مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تو دنیا کی ساری زینتیں اور پاکیزہ چیزیں بندوں ہی کے لیے پیدا کی ہیں ، اس لیے اللہ کا منشاء تو بہر حال یہ نہیں ہو سکتا کہ انہیں بندوں کے لیے حرم کر دے ۔ اب اگر کوئی مذہب یا کوئی نظام اخلاق و معاشرت ایسا ہے جو نہیں حرام ، یا قابلِ نفرت ، یا ارتقائے روحانی میں سدِّ راہ قرار دیتا ہے تو اس کا یہ فعل خود ہی اس بات کا کُھلا ثبوت ہے کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہے ۔ یہ بھی ان حجتوں میں سے ایک اہم حجت ہے جو قرآن نے مذاہب باطلہ کے رد میں پیش کی ہیں ، اور اس کو سمجھ لینا قرآن کے طرزِ استدلال کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :23 یعنی حقیقت کے اعتبار سے تو خدا کی پیدا کردہ تمام چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی اہل ایمان ہی کے لیے ہیں ، کیونکہ وہی خدا کی وفادار رعایا ہیں اور حقَ نمک صرف نمک حلالوں ہی کو پہچانتا ہے ۔ لیکن دنیا کا موجودہ انتظام چونکہ آزمائش اور مہلت کے اصول پر قائم کیا گیا ہے ، اس لیے یہاں اکثر خدا کی نعمتیں نمک حراموں پر بھی تقسیم ہوتی رہتی ہیں اور بسا اوقات نمک حلالوں سے بڑھ کر انہیں نعمتوں سے نواز دیا جاتا ہے ۔ البتہ آخرت میں ( جہاں کا سارا انتظام خالص حق کی بنیاد پر ہوگا ) زندگی کی آرائشیں اور رزق کے طیبات سب کے سب محض نمک حلالوں کے لیے مخصوص ہوں گے اور وہ نمک حرام ان میں سے کچھ نہ پاسکیں گے جنہوں نے اپنے رب کے رزق پر پلنے کے بعد اپنے رب ہی کے خلاف سرکشی کی ۔
16: جس طرح ان عرب قبائل نے طواف کے وقت کپڑے پہننے کو حرام سمجھا ہوا تھا، اسی طرح جاہلیت کے لوگوں نہ بہت سی غذاؤں کو بلا وجہ حرام قرار دیا ہوا تھا، جس کا مفصل تذکرہ سورۂ انعام میں گزرا ہے، نیز حمس کے قبائل نے گوشت کی بعض قسموں کو اپنی امتیازی حیثیت ظاہر کرنے کے لئے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا کوئی حکم نہیں آیا تھا۔ 17:: یہ دراصل کفار مکہ کی ایک بات کا جواب ہے وہ کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو ہمارا موجودہ طریقہ پسند نہیں ہے تو وہ ہمیں رزق کیوں دے رہا ہے ؟ جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس دنیا میں تو اللہ تعالیٰ کے رزق کا دستر خوان ہر شخص کے لئے بچھا ہوا ہے چاہے وہ مومن ہو یا کافر، لیکن آخرت میں یہ نعمتیں صرف مومنوں کے لئے خاص ہیں، اس لئے یہ سمجھنا غلط ہے کہ اگر دنیا میں کسی کو خوشحالی میسر ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی دلیل ہے اور اسے آخرت میں بھی خوشحالی ضرور میسر آئے گی۔