بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ سے زیادہ غیرت والا کوئی نہیں ۔ سورۃ انعام میں چھپی کھلی بےحیائیوں کے متعلق پوری تفسیر گذر چکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر گناہ کو حرام کر دیا ہے اور ناحق ظلم و تعدی ، سرکشی اور غرور کو بھی اس نے حرام کیا ہے پس اثم سے مراد ہر وہ گناہ ہے جو انسان آپ کرے اور بغی سے مراد وہ گناہ ہے جس میں دوسرے کا نقصان کرے یا اس کی حق تلفی کرے ۔ اسی طرح رب کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا بھی حرام ہے اور ذات حق پر بہتان باندھنا بھی ۔ مثلاً اس کی اولاد بتانا وغیرہ ۔ خلاف واقعہ باتیں بھی جہالت کی باتیں ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( فاجتنبوا الرجس من الا وثان ) الخ ، بتوں کی نجاست سے بچو ، الخ ۔
33۔ 1 1 اعلانیہ فحش باتوں سے مراد بعض کے نزدیک طوائفوں کے اڈوں پر جا کر بدکاری اور پوشیدہ سے مراد کسی گرل فرینڈ سے خصوصی تعلق قائم کرنا ہے، بعض کے نزدیک اول الذکر سے مراد محرموں سے نکاح کرنا ہے جو ممنوع ہے، اس میں ہر قسم کی ظاہری بےحیائی کو شامل ہے، جیسے فلمیں، ڈرامے، ٹیوی، وی سی آر فحش اخبارات و رسائل، رقص و سرور اور مجروں کی محفلیں، عورتوں کی بےپردگی اور مردوں سے ان کا بےباکانہ اختلاط، مہندی اور شادی کی رسموں میں بےحیائی کے کھلے عام مظاہرہ وغیرہ یہ سب فواحش ظاہرہ ہیں 33۔ 2 گناہ اللہ کی نافرمانی کا نام ہے اور ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں کھٹکے اور لوگوں کے اس پر مطلع ہونے کو تو برا سمجھے، بعض کہتے ہیں گناہ وہ ہے جس کا اثر کرنے والے کی اپنی ذات تک محدود ہو اور بغی یہ ہے کہ اس کے اثرات دوسروں تک بھی پہنچیں یہاں بغی کے ساتھ بغیر الحق کا مطلب ناحق ظلم و زیادتی مثلا لوگوں کا حق غضب کرلینا، کسی کا مال ہتھیالینا ناجائز مارنا پیٹنا اور سب وشتم کر کے بےعزتی کرنا وغیرہ ہے۔
[٣٣] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پانچ حرام چیزوں کا ذکر فرمایا جن کا تعلق کھانے کی چیزوں سے نہیں بلکہ اعمال سے ہے سب سے پہلے بےحیائی کا ذکر اس لیے فرمایا کہ سیدنا آدم (علیہ السلام) کے قصے سے یہ بیان چلا آ رہا ہے کہ کس طرح شیطان نے آدم و حواعلیہا السلام کو بےستر کیا۔ پھر مشرکین مکہ کا ذکر کیا جو طواف تک برہنہ ہو کر کرتے اور اسے مذہبی تقدس کا درجہ دیتے تھے اور گناہ کا لفظ اگرچہ چھوٹے بڑے ہر طرح کے گناہ پر استعمال ہوتا ہے تاہم غالباً یہ لفظ یہاں ایسے گناہ کے لیے آیا ہے جس کا اثر اس کی ذات تک محدود رہے کسی دوسرے کو اس کا نقصان نہ پہنچ رہا ہو اور ناحق زیادتی سے مراد ایسے گناہ ہیں جن سے دوسروں کے حقوق تلف ہوتے ہوں اور شرک تو تمام حرام کاموں میں سرفہرست ہے اور اللہ کے ذمے لگانے کی اس مقام پر وہی مثال کافی ہے جو مشرک کہتے تھے کہ آیت (وَاللّٰهُ اَمَرَنَا بِهَا 28) 7 ۔ الاعراف :28)
قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ ۔۔ : اوپر کی آیت میں یہ بیان فرمایا کہ لوگوں نے اپنی طرف سے بہت سی چیزیں حرام کر رکھی تھیں، اب اس آیت میں اصل حرام چیزوں کو بیان فرما دیا۔ (رازی) ” الْفَوَاحِشَ “ یہ ” فَاحِشَۃٌ“ کی جمع ہے اور انتہائی قبیح فعل کو کہتے ہیں۔ ” َالْاِثْمَ “ سے تمام چھوٹے بڑے گناہ مراد ہیں اور شراب کو بھی ” اِثْمٌ“ کہہ لیتے ہیں اور ” وَالْبَغْيَ “ کے معنی لوگوں پر ظلم اور زیادتی کے ہیں۔ الغرض یہاں محرمات کی پانچ قسمیں بیان فرمائی ہیں اور وہ بھی ” انما “ کلمۂ حصر کے ساتھ۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے علاوہ اور کوئی چیز حرام نہیں ہے، حالانکہ بہت سی دوسری اشیاء کی حرمت بھی قرآن و حدیث میں مذکور ہے۔ رازی (رض) فرماتے ہیں کہ دراصل جنایات ( جرائم، قصور، زیادتیاں) پانچ ہی قسم کی ہیں، پہلی نسب پر جنایت ہے، اس کا سبب زنا ( اور اس سے ملتی جلتی چیزیں) ہے۔ ” الْفَوَاحِشَ “ سے یہی مراد ہے۔ دوسری عقل پر جنایت جس کے دوسرے معنی شراب نوشی کے ہیں اور ” َالْاِثْمَ “ میں اس کی طرف اشارہ ہے۔ تیسری عزت پر جنایت، چوتھی جان و مال پر جنایت اور ” َالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ “ میں ان دونوں کی حرمت کی طرف اشارہ ہے۔ پانچویں دین پر جنایت اور یہ دو قسم کی ہے : 1 توحید میں طعن کرنا جس کی طرف ( وَاَنْ تُشْرِكُوْا باللّٰهِ ) سے اشارہ فرمایا ہے۔ 2. اور بغیر علم کے اللہ کے ذمے بات لگانا اور فتویٰ دینا جس کی طرف ( َّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ) سے اشارہ فرمایا ہے۔ غرض کہ تمام جرائم اور جنایات میں یہ پانچ اصول کی حیثیت رکھتی ہیں اور باقی ان کی شاخیں اور ان کے تحت آنے والی چیزیں ہیں، اس بنا پر ” اِنَّمَا “ کے ساتھ حصر صحیح ہے اور اس پر کوئی اعتراض لازم نہیں آتا۔ (کبیر) یاد رہے کہ اللہ کے ذمے بات لگانے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے بات لگانا بھی شامل ہے کیونکہ وہ اللہ ہی کی بات ہے، اسی لیے جو جان بوجھ کر ان پر جھوٹ لگائے اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ رازی (رض) کے جواب کے لاجواب ہونے میں شک نہیں، مگر ایک سادہ جواب یہ ہے کہ ” الاثم “ میں ہر گناہ آجاتا ہے، اس لیے ” اِنَّمَا “ کے ساتھ حصر پر کوئی اعتراض لازم نہیں آتا۔
اس کے بعد دوسری آیت میں کچھ ان چیزوں کا بیان ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ ان کو ترک کرنے ہی سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے، اور اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ لوگ دوہری جہالت میں مبتلا ہیں، ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی عمدہ اور نفیس چیزوں کو اپنے اوپر بلاوجہ حرام کرکے ان نعمتوں سے محروم ہوگئے، اور دوسری طرف جو چیزیں حقیقةً حرام تھیں، اور جن کے استعمال سے اللہ تعالیٰ کا غضب اور آخرت کا عذاب نتیجہ میں آنے والا ہے، ان کے استعمال میں مبتلا ہو کر آخرت کا وبال خرید لیا، اور اس طرح دنیا و آخرت دونوں جگہ نعمتوں سے محروم ہو کر خسران دنیا و آخرت کا مورد بن گئے، ارشاد فرمایا :- اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا باللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ۔- ” یعنی جن چیزوں کو تم نے خواہ مخواہ حرام ٹھہرا لیا وہ تو حرام نہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے تمام بےحیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے خواہ وہ کھلے ہوئے ہوں یا چھپے ہوئے، اور ہر گناہ کے کام کو اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ بلا دلیل کسی کو شریک ٹھہرانے کو اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ایسی بات لگا دو جس کی تم سند نہ رکھو “۔ - اس تفصیل میں لفظ اثم کے تحت وہ تمام گناہ آگئے جن کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہے، اور بَغُی میں وہ گناہ جن کا تعلق دوسروں کے معاملات اور حقوق سے ہو، اور شرک اور افتراء علی اللہ یہ عقیدہ کا گناہ عظیم ظاہری ہے۔ - اس خاص تفصیل کا ذکر اس لئے بھی کیا گیا کہ اس میں تقریباً ہر طرح کے محرکات اور گناہ پورے آگئے، خواہ عقیدہ کے گناہ ہوں یا عمل کے، اور پھر ذاتی عمل کے گناہ ہوں یا لوگوں کے حقوق، اور اس لئے بھی کہ یہ اہل جاہلیت ان سے جرائم اور محرمات میں مبتلا تھے، اس طرح ان کی دوسری جہالت کو کھولا گیا کہ حلال چیزوں سے پرہیز کرتے اور حرام کے استعمال سے نہیں جھجکتے۔ - اور دین میں غلو اور نو ایجاد بدعات کا یہ لازمی خاصہ ہے کہ جو شخص ان چیزوں میں مبتلا ہوتے ہیں وہ دین کی اصل اور اہم ضروریات سے عادة غافل ہوجاتے ہیں، اس لئے غلو فی الدین اور بدعت کا نقصان دوہرا ہوتا ہے، ایک خود غلو اور بدعت میں مبتلا ہونا گناہ ہے، دوسرے اس کے بالمقابل صحیح دین اور سنت کے طریقوں سے محروم ہونا۔ نعوذ باللہ منہ
وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ٠ ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُہُمْ لَا يَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ ٣٤- الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] أي : كل نوع منها علی طریقة قد سخرها اللہ عليها بالطبع، فهي من بين ناسجة کالعنکبوت، وبانية کالسّرفة «4» ، ومدّخرة کالنمل ومعتمدة علی قوت وقته کالعصفور والحمام، إلى غير ذلک من الطبائع التي تخصص بها كل نوع . وقوله تعالی: كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً [ البقرة 213] أي : صنفا واحدا وعلی طریقة واحدة في الضلال والکفر، وقوله : وَلَوْ شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً واحِدَةً [هود 118] أي : في الإيمان، وقوله : وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ [ آل عمران 104] أي : جماعة يتخيّرون العلم والعمل الصالح يکونون أسوة لغیرهم، وقوله : إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ [ الزخرف 22] أي : علی دين مجتمع . قال : وهل يأثمن ذو أمّة وهو طائع وقوله تعالی: وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ [يوسف 45] أي : حين، وقرئ ( بعد أمه) أي : بعد نسیان . وحقیقة ذلك : بعد انقضاء أهل عصر أو أهل دين . وقوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّهِ [ النحل 120] أي : قائما مقام جماعة في عبادة الله، نحو قولهم : فلان في نفسه قبیلة . وروي :«أنه يحشر زيد بن عمرو بن نفیل أمّة وحده» وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران 113] أي : جماعة، وجعلها الزجاج هاهنا للاستقامة، وقال : تقدیره : ذو طریقة واحدة فترک الإضمار أولی.- الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں ۔ میں امم سے ہر وہ نوع حیوان مراد ہے جو فطری اور ت سخیری طور پر خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہو ۔ مثلا مکڑی جالا بنتی ہے اور سرفۃ ( مور سپید تنکوں سے ) اپنا گھر بناتی ہے اور چیونٹی ذخیرہ اندوزی میں لگی رہتی ہے اور چڑیا کبوتر وغیرہ وقتی غذا پر بھروسہ کرتے ہیں الغرض ہر نوع حیوان اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق ایک خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہے اور آیت کریمہ :۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة البقرة 213) ( پہلے تو سب ) لوگ ایک امت تھے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تما لوگ صنف واحد اور ضلالت و کفر کے ہی کے مسلک گامزن تھے اور آیت کریمہ :۔ وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة المائدة 48) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ہی شریعت پر کردیتا ۔ میں امۃ واحدۃ سے وحدۃ بحاظ ایمان مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ( سورة آل عمران 104) کے معنی یہ ہیں کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے جو علم اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرے اور دوسروں کے لئے اسوۃ بنے اور آیت کریمہ ؛۔ إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ ( سورة الزخرف 22 - 23) ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک متفقہ دین پر پایا ہے ۔ میں امۃ کے معنی دین کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہی ع (25) وھل یاثمن ذوامۃ وھوطائع ( طویل ) بھلا کوئی متدین آدمی رضا اور رغبت سے گناہ کرسکتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ ( سورة يوسف 45) میں امۃ کے معنی حین یعنی عرصہ دارز کے ہیں اور ایک قرات میں بعد امہ ( ربالھاء ) ہے یعنی نسیان کے بعد جب اسے یاد آیا ۔ اصل میں بعد امۃ کے معنی ہیں ایک دور یا کسی ایک مذہب کے متبعین کا دورگزر جانے کے بعد اور آیت کریمہ :۔ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا ( سورة النحل 120) کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم عبادت الہی میں ایک جماعت اور قوم بمنزلہ تھے ۔ جس طرح کہ محاورہ ہے ۔ فلان فی نفسہ قبیلۃ کہ فلاں بذات خود ایک قبیلہ ہے یعنی ایک قبیلہ کے قائم مقام ہے (13) وروی انہ یحشر زیدبن عمرابن نفیل امۃ وحدہ اورا یک روایت میں ہے کہ حشر کے دن زید بن عمر و بن نفیل اکیلا ہی امت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ - لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ ( سورة آل عمران 113) وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ ( حکم خدا پر ) قائم بھی ہیں ۔ میں امۃ بمعنی جماعت ہے زجاج کے نزدیک یہاں قائمۃ بمعنی استقامت ہے یعنی ذو و طریقہ واحدۃ تو یہاں مضمر متردک ہے - أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- لایستاخرون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب ( باب استفعال) وہ دیر نہیں کرسکتے۔ وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔- لا یستقدمون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب وہ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ وہ پہلے نہیں ہوسکتے ( باب استفعال)
فواحش سے مراد - قول باری ہے قل انما حرم ربی الفواحش ماظھرمنھا وما بطن ولاثم والبغی بغیر الحق۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ان سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں، بےشرمی کے کام خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی) مجاہد کا قول ہے کہ فواحش سے زنا مراد ہے یہ سری خواحش ہے اور برہنہ حالت میں طواف کرنا جہری فواحش ہے۔ ایک قول ہے کہ بےشرمی کے تمام کام فواحش ہیں۔ شروع میں اجمالاً ان کا ذکر کیا پھر ان کی مختلف صورتوں کی تفصیل بیان کردی اور یہ فرمایا کہ گناہ حق کے خلاف زیادتی اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانا فواحش کی صورتیں ہیں۔ یعنی لوگوں پر ناحق اور بزور قوت غلبہ جمانے اور بالادستی قائم کرنے کا نام ہے۔ قول باری ولاثم کا ذکر شراب اور جوئے کے سلسلے میں ایک اور مقام پر بھی کیا گیا ہے چناچہ ارفاد ہے یسئلونک عن الخمرو المیسرقل فیھما اثم کبیر۔ لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دو کہ ان دونوں چیزوں میں بھاری گنا ہ ہے) شراب اور جوئے کو گناہ کی صفت سے موصوف کرنا شراب اور جوئے کی تحریم کا مقتضی ہے۔
(٣٣) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرما دیجیے زنا اور اجنبیہ کے ساتھ خلوت اور اثم یعنی شراب جیسا کہ شاعر کہتا ہے کہ میں نے شراب اتنی پی کہ میری عقل جاتی رہی، اسی طرح شراب عقل کو ختم کردیتی ہے، میں نے شراب اعلانیہ فنجانوں میں پی اور اے مخاطب تو ہمارے میں ہتک عزت کا مشاہدہ کررہا ہے۔- نیز ناحق کسی پر ظلم کرنے کو اور بغیر سند اور دلیل کے شرک کرنے کو اور خود کھیتیوں جانوروں پاکیزہ چیزوں اور لباسوں کو اپنے اوپر حرام کرنے کو اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے۔
آیت ٣٣ (قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ ) - بے حیائی خواہ چھپی ہوئی بھی ہو ‘ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :24 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انعام ، حواشی ١۲۷و١۳١ ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :25 اصل میں لفظ اِثْمٌ استعمال ہوا ہے جس کے اصل معنی کوتاہی کے ہیں ۔ اٰثِمَہ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو تیز چل سکتی ہو مگر جان بوجھ کو سُست چلے ۔ اسی سے اس لفظ میں گناہ کا مفہوم پیدا ہوا ہے ، یعنی انسان کا اپنے رب کی اطاعت و فرماں برداری میں قدرت و استطاعت کے باوجود ، کوتاہی کرنا اور اس کی رضا کو پہنچنے میں جان بوجھ کر قصور دکھانا ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :26 یعنی اپنی حد سے تجاوز کرکے ایسے حدود میں قدم رکھنا جن کے اندر داخل ہونے کا آدمی کو حق نہ ہو ۔ اس تعریف کی رو سے وہ لوگ بھی باغی قرار پاتے ہیں جو بندگی کی حد سے نکل کر خدا کے ملک میں خود مختیارانہ رویّہ اختیار کرتے ہیں ، اور وہ بھی جو خد ا کی خدائی میں اپنی کبریائی کے ڈنکے بجاتے ہیں ، اور وہ بھی جو بندگانِ خدا کے حقوق پر دست درازی کرتے ہیں ۔
18: یوں توکسی بھی شخص کی طرف کوئی غلط بات منسوب کرنا ہر اعتبار سے ایک ناجائز اور غیر اخلاقی فعل ہے لیکن اگر یہ جرم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا جائے تو اس کی سنگینی انسان کو کفر تک لے جاتی ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی بات منسوب کرتے وقت انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے اور جب تک انسان کو یقینی علم حاصل نہ ہو، ایسی نسبت کا اقدام ہرگز نہیں کرنا چاہئے، عرب کے بت پرستوں نے اپنی طرف سے باتیں گھڑ گھڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر رکھی تھیں جن کی بنیاد کسی علم پر نہیں تھی بلکہ اپنے بے بنیاد اندازوں پر تھی جن کی حقیقت کا خود انہیں بھی علم حاصل نہیں تھا۔