Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

موت کی ساعت طے شدہ ہے ۔ اور اٹل ہے ہر زمانے اور ہر زمانے والوں کے لئے اللہ کی طرف سے انتہائی مدت مقرر ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی ۔ ناممکن ہے کہ اس سے ایک منٹ کی تاخیر ہو یا ایک لمحے کی جلدی ہو ۔ انسانوں کو ڈراتا ہے کہ جب وہ رسولوں سے ڈرانا اور رغبت دلانا سنیں تو بدکاریوں کو ترک کر دیں اور اللہ کی اطاعت کی طرف جھک جائیں ۔ جب وہ یہ کریں گے تو وہ ہر کھٹکے ، ہر ڈر سے ، ہر خوف اور ناامیدی سے محفوظ ہو جائیں گے اور اگر اس کے خلاف کیا نہ دل سے مانا نہ عمل کیا تو وہ دوزخ میں جائیں گے اور وہیں پڑے جھلستے رہیں گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 میعاد معین سے مراد وہ مہلت عمل ہے جو اللہ و تبارک و تعالیٰ ہر گروہ کو آزمانے کے لئے عطا فرماتا ہے کہ وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے یا اس کی بغاوت و سرکشی میں مزید اضافہ ہوتا ہے یہ مہلت بعض دفعہ ان کی پوری زندگیوں تک محدود ہوتی ہے۔ یعنی دینوی زندگی میں وہ گرفت نہیں فرماتا بلکہ صرف آخرت میں ہی سزا دے گا ان کی اجل مسمی قیامت کا دن ہی ہے اور جن کو دنیا میں وہ عذاب سے دوچار کردیتا ہے، ان کی اجل مسمٰی وہ ہے۔ جب ان کا مواخذہ فرماتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٤] عذاب کے وقت میں تقدیم و تاخیر ناممکن ہے :۔ اس آیت میں تقدیم کا لفظ تاخیر ہی کی تاکید کے لیے لایا گیا ہے اجل جب آگئی تو تقدیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے کوئی گاہک دکاندار سے کسی چیز کی قیمت پوچھنے کے بعد کہتا ہے کوئی کمی بیشی ؟ تو دکاندار کہتا ہے قیمت میں نے پہلے ہی ٹھیک بتلائی ہے کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ حالانکہ اس گفتگو میں گاہک اور دکاندار دونوں کا کمی بیشی کے لفظ سے مراد صرف کمی ہوتا ہے بیشی نہیں ہوتا اسی طرح یہاں بھی یہی مراد ہے کہ جب کسی شخص کی موت یا کسی قوم کے خاتمہ کا وقت آجاتا ہے تو پھر اس میں قطعاً تاخیر نہیں ہوسکتی۔ قوم کی اجل کا وقت آتا کب ہے ؟ اس کے لیے اللہ نے ایک ضابطہ مقرر کر رکھا ہے یعنی ہر قوم کے عروج وزوال کا ایک ضابطہ ہے جیسا کہ اقبال نے کہا ہے میں تجھ کو بتاتا ہوں کہ تقدیر امم کیا ہے۔۔ شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر - اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ جب کسی قوم (کے گناہوں) کا ڈول بھر جاتا ہے تو یہی وقت اس کی تباہی کا وقت ہوتا ہے اور اس کا تعلق مدت یا عرصے سے نہیں بلکہ فساد فی الارض اور گناہوں کی رفتار پر ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ ۚ ۔۔ : پہلی آیت میں بیان فرمایا کہ ہر ایک کے لیے ایک وقت مقرر ہے جو آگے پیچھے نہیں ہوسکتا، دوسری آیت میں بتایا کہ جو لوگ فرماں بردار ہوں گے مرنے کے بعد ان پر کسی قسم کا خوف اور حزن نہیں ہوگا، مگر جو سرکش ہوں گے وہ سخت عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ اسی قسم کا خطاب سورة بقرہ میں آدم (علیہ السلام) کے قصے کے آخر میں بھی مذکور ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٣٦) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

پہلی اور دوسری دونوں آیتوں میں مشرکین و مجرمین کے دو غلط کاموں کا ذکر تھا، ایک حلال کو حرام ٹھہرانا دوسرے حرام کو حلال قرار دینا، تیسری آیت میں ان کے انجام بد اور آخرت کی سزا و عذاب کا بیان ہے، ارشاد فرمایا (آیت) وَلِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ یعنی یہ مجرمین جو ہر طرح کی سرکشی کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں پل رہے ہیں، اور دنیا میں بظاہر ان پر کوئی عذاب آتا نظر نہیں آتا اس عادة اللہ سے غافل نہ رہیں کہ اللہ تعالیٰ مجرموں کو اپنی رحمت سے ڈھیل دیتے رہتے ہیں، کہ کسی طرح یہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے علم میں اس ڈھیل اور مہلت کی ایک میعاد معین ہوتی ہے، جب وہ میعاد آپہنچتی ہے تو ایک گھڑی بھی آگے پیچھے نہیں ہوتی، اور یہ عذاب میں پکڑ لئے جاتے ہیں، کبھی دنیا ہی میں کوئی عذاب آجاتا ہے اور اگر دنیا میں عذاب نہ آیا تو مرتے ہی عذاب میں داخل ہوجاتے ہیں۔ - اس آیت میں میعاد معیّن سے آگے پیچھے نہ ہونے کا جو ذکر ہے یہ ایسا ہی محاورہ ہے جیسے ہمارے عرف میں خریدار ودکاندار سے کہتا ہے کہ قیمت میں کچھ کمی زیادتی ہو سکتی ہے ؟ ظاہر ہے کہ قیمت کی زیادتی اس کو مطلوب نہیں صرف کمی کو پوچھتا ہے، مگر تبعاً اس کے ساتھ زیادتی کا ذکر کیا جاتا ہے، اسی طرح یہاں اصل مقصد تو یہ ہے کہ میعاد معیّن کے بعد تاخیر نہیں ہوگی، اور تقدیم کا ذکر تاخیر کے ساتھ بطور محاورہ عوام کے کردیا گیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ۝ ٠ ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ہُمْ يَحْزَنُوْنَ۝ ٣٥- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - قصص - الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص 11] - ( ق ص ص ) القص - کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- صلح - والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] - ( ص ل ح ) الصلاح - اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٤) ہر ایک اہل دین کی ہلاکت وتباہی کا ایک وقت آنے پر نہ آنکھ جھپکنے کے بقدر ان کو چھوڑا جائے گا اور نہ وقت آنے سے پہلے بقدر آنکھ جھپکنے کے ان کو ہلاک کیا جائے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤ (وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ج) ۔ - یعنی جب بھی کبھی کسی قوم کی طرف کوئی رسول آتا ‘ تو ایک مقررہ مدت تک اس قوم کو مہلت میسرہوتی کہ وہ اس مدت مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے رسول ( علیہ السلام) کی دعوت پر لبیک کہے اور صحیح راستے پر آجائے۔ اس مقررہ مدت کے دوران اس قوم کی نافرمانیوں کو نظر انداز کیا جاتا اور ان پر عذاب نہیں آتا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد مکہ میں بھی یہی معاملہ درپیش تھا۔ اہل مکہ کو مشیت خداوندی کے تحت مہلت دی جا رہی تھی۔ دوسری طرف حق و باطل کی تھکا دینے والی کشمکش میں اہل ایمان کی خواہش تھی کہ کفار کا فیصلہ جلد از جلد چکا دیا جائے۔ اہل ایمان کے ذہنوں میں لازماً یہ سوال بار بار آتا تھا کہ آخر کفار کو اس قدر ڈھیل کیوں دی جا رہی ہے اس پس منظر میں اس فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ اہل ایمان کا خیال اپنی جگہ درست سہی ‘ لیکن ہماری حکمت کا تقاضا کچھ اور ہے۔ ہم نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا ہے تو ساتھ ہی اس قوم کے لیے مہلت کی ایک خاص مدت بھی مقرر کی ہے۔ اس مقررہ گھڑی سے پہلے ان پر عذاب نہیں آئے گا۔ ہاں جب وہ گھڑی (اجل) آجائے گی تو پھر ہمارا فیصلہ مؤخر نہیں ہوگا۔ سورة الانعام کی آیت ٥٨ میں اسی حوالے سے فرمایا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کفار پر واضح کردیں کہ اگر میرے اختیار میں وہ چیز ہوتی جس کی تم لوگ جلدی مچا رہے ہو تو میرے اور تمہارے درمیان یہ فیصلہ کب کا چکایا جاچکا ہوتا۔- (فَاِذَا جَآءَ اَجَلُہُمْ لاَ یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلاَ یَسْتَقْدِمُوْنَ ) ۔ - اب وہ بات آرہی ہے جو ہم سورة البقرۃ میں بھی پڑھ آئے ہیں۔ وہاں آدم (علیہ السلام) کو زمین پر بھیجتے ہوئے فرمایا گیا تھا : (فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ہُدًی فَمَنْ تَبِعَ ہُدَایَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ ) ۔ اسی بات کو یہاں ایک دوسرے انداز سے بیان کیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :27 مہلت کی مدت مقرر کیے جانے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ہر قوم کے لیے برسوں اور مہینوں اور دنوں کے لحاظ سے ایک عمر مقرر کی جاتی ہو اور اس عمر کے تمام ہوتے ہی اس قوم کو لازماً ختم کر دیا جاتا ہو ۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر قوم کو دنیا میں کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے اس کی ایک اخلاقی حد مقرر کردی جاتی ہے ، بایں معنی کہ اس کے اعمال میں خیر اور شر کا کم سے کم کتنا تناسُب برداشت کیا جاسکتا ہے ۔ جب تک ایک قوم کی بری صفات اس کی اچھی صفات کے مقابلہ میں تناسُب کی اس آخری حد سے فروتر رہتی ہیں اس وقت تک اسے اس کی تمام برائیوں کے باوجود مہلت دی جاتی رہتی ہے ، اور جب وہ اس حد سے گزر جاتی ہیں تو پھر اس بدکار و بدصفات قوم کو مزید کوئی مہلت نہیں دی جاتی ، اس بات کو سمجھنے کے لیے سورہ نوح علیہ السلام آیات٤ ۔ ١۰ ۔ ١۲ نگاہ میں رہیں

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani