35۔ 1 یہ ان اہل ایمان کا حسن انجام بیان کیا گیا ہے جو تقوے ٰ اور عمل صالح سے آراستہ ہوں گے۔ قرآن نے ایمان کے ساتھ، اکثر جگہ، عمل صالح کا ذکر ضرور کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عند اللہ ایمان وہی معتبر ہے جس کے ساتھ عمل بھی ہوگا۔
[٣٥] جنت کا دوبارہ حصول کیسے ممکن ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں بھی آدم (علیہ السلام) و ابلیس اور جنت سے آدم کے نکلنے کا قصہ بیان فرمایا تو بنی آدم کی دلجوئی کے لیے بھی آیات نازل فرمائیں۔ ابلیس نے جنت میں آدم و حوا کو بےستر کیا تھا، تو لباس اور اس کے نعمت ہونے اور اچھا لباس پہننے کے لیے کئی آیات نازل فرمائیں۔ جنت میں آدم (علیہ السلام) و حوا جنت کے پھل بافراغت کھاتے تھے صرف ایک درخت کا کھانا حرام کیا تھا تو اس دنیا کے متعلق بھی فرمایا کہ ماسوائے چند حرام کردہ اشیاء کے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لیے مباح ہے لہذا حلال اور پاکیزہ اشیاء میں سے جو چاہو کھا سکتے ہو البتہ اسراف نہ کرنا۔ فرق یہ ہے کہ جنت میں بلا مشقت کھانے پینے کی چیزیں ملتی تھیں لیکن دنیا میں مشقت اور جستجو بھی کرنا ہوگی اور اسی مشقت اور جستجو ہی میں انسان کی آزمائش ہے۔ اس طرح تقدیر کا لکھا پورا ہو کے رہا۔- اب رہا قصہ اس جنت گم گشتہ کو پھر سے حاصل کرنے کا تو اس کے متعلق فرمایا کہ تمہارے پاس تمہاری رہنمائی کے لیے میرے رسول آتے رہیں گے جو تمہیں میری ہدایات اور میرے احکام بتلاتے رہیں گے۔ پھر جس شخص نے ان رسولوں کی پیروی کی، اللہ کی نافرمانیوں سے بچا رہا اور اپنی اصلاح کرلی تو اس کے لیے وہ جنت دوبارہ حاصل کرنا کچھ مشکل نہ ہوگا۔ نہ انہیں اپنے مسقتبل کے متعلق کوئی فکر دامن گیر ہوگی اور نہ انہیں دنیا میں گزاری ہوئی زندگی پر کچھ افسوس و ندامت ہوگی لیکن جن لوگوں نے رسولوں کو اور میرے احکامات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور شیطان کی طرح اکڑ بیٹھے تو ان کے دوبارہ جنت میں جانے کی کوئی صورت ممکن نہ ہوگی۔ مزید برآں اخروی زندگی میں ان کو ہمیشہ دوزخ میں جلنا اور دکھ کا عذاب سہنا ہوگا۔
خلاصہ تفسیر - (ہم نے عالم ارواح ہی میں کہہ دیا تھا) اے اولاد آدم کی اگر تمہارے پاس پیغمبر آویں جو تم ہی میں سے ہوں گے جو میرے احکام تم سے بیان کریں گے سو (ان کے آنے پر) جو شخص (تم میں ان آیات کی تکذیب سے) پرہیز رکھے اور (اعمال کی) درستی کرے (مراد یہ کہ کامل اتباع کرے) سو ان لوگوں پر (آخرت میں) نہ کچھ اندیشہ (کی بات واقع ہونے والی) ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جو لوگ (تم میں سے) ہمارے ان احکام کو جھوٹا بتادیں گے اور ان (کے قبول کرنے) سے تکبر کریں گے وہ لوگ دوزخ (میں رہنے) والے ہوں گے (اور) وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے (جب تکذیب کرنے والوں کا مستحق وعید شدید ہونا اجمالاً معلوم ہوگیا سو اب تفصیل سنو کہ) اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے (یعنی جو بات خدا کی کہی ہوئی نہ ہو اس کو خدا کی کہی ہوئی کہے) یا اس کی آیتوں کو جھوٹا بتلا دے (یعنی جو بات خدا کی کہی ہوئی ہو اس کو بےکہی بتلا دے) ان لوگوں کے نصیب کا جو کچھ (رزق اور عمر) ہے وہ تو ان کو (دنیا میں) مل جاوے گا (لیکن آخرت میں مصیبت ہی مصیبت ہے) یہاں تک کہ (برزخ میں مرنے کے وقت تو ان کی یہ حالت ہوگی کہ) جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی جان قبض کرنے آویں گے تو (ان سے) کہیں گے کہ (کہو) وہ کہاں گئے جن کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کیا کرتے تھے (اب اس مصیبت میں کیوں نہیں کام آتے) وہ (کفار) کہیں گے کہ ہم سے سب غائب ہوگئے (یعنی واقعی کوئی کام نہ آیا) اور (اس وقت) اپنے کافر ہونے کا اقرار کرنے لگیں گے (لیکن اس وقت کا اقرار محض بےکار ہوگا، اور بعض آیات میں ایسے ہی سوال و جواب کا وقوع قیامت میں بھی مذکور ہے سو دونوں موقعوں پر ہونا ممکن ہے، اور قیامت میں ان کا یہ حال ہوگا کہ) اللہ تعالیٰ فرماوے گا کہ جو فرقے (کفار کے) تم سے پہلے گزر چکے ہیں جنّات میں سے بھی اور آدمیوں میں سے بھی ان کے ساتھ تم بھی دوزخ میں جاؤ (چنانچہ آگے پیچھے سب کفار اس میں داخل ہوں گے، اور یہ کیفیت واقع ہوگی کہ) جس وقت بھی کوئی جماعت (کفار کی) داخل (دوزخ) ہوگی اپنی جیسی دوسری جماعت کو بھی (جو انہی جیسی کافر ہوں گے اور ان سے پہلے دوزخ میں جا چکے ہوں گے) لعنت کرے گی (یعنی باہم ہمدردی نہ ہوگی، بلکہ بوجہ انکشاف حقائق کے ہر شخص دوسرے کو بری نظر سے دیکھے گا اور برا کہے گا) یہاں تک کہ جب اس (دوزخ) میں سب جمع ہوجاویں گے تو (اس وقت) پچھلے لوگ (جو بعد میں داخل ہوئے ہوں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو کفر میں دوسروں کے تابع تھے) پہلے (داخل ہونے والے) لوگوں کی نسبت (یعنی ان لوگوں کی نسبت جو بوجہ رئیس و پیشوائے کفر ہونے کے دوزخ میں پہلے داخل ہوں گے یہ) کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو ان لوگوں نے گمراہ کیا تھا، سو ان کو دوزخ کا عذاب (ہم سے) دوگنا دیجئے، (اللہ تعالیٰ ) ارشاد فرمائیں گے کہ (ان کو دوگنا ہونے سے تم کو کون سی تسلی و راحت ہوجائے گی، بلکہ چونکہ تمہارا عذاب بھی ہمیشہ آناً فاناً بڑھتا جاوے گا، اس لئے تمہارا عذاب بھی ان کے دوگنے عذاب ہی جیسا ہوگیا، پس اس حساب سے) سب ہی کا (عذاب) دوگنا ہے، لیکن (ابھی) تم کو (پوری) خبر نہیں (کیونکہ ابھی تو عذاب کی ابتداء ہی ہے، اس تزاید کو دیکھا نہیں اس لئے ایسی باتیں بنا رہے ہو جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے کے تضاعف عذاب کو اپنے لئے موجب شفاء غیظ و باعث تسلی سمجھ رہے ہو) اور پہلے (داخل ہونے والے) لوگ پچھلے (داخل ہونے والے) لوگوں سے (خدا تعالیٰ کے اس جواب سے مطلع ہوکر) کہیں گے (کہ جب سب کی سزا کی یہ حالت ہے تو) پھر تم کو ہم پر ( تخفیف عذاب کے بارے میں) کوئی فوقیت نہیں (کیوں کہ تخفیف نہ ہم کو نہ تم کو) سو تم بھی اپنے کردار (بد) کے مقابلے میں عذاب (متزاید) کا مزہ چکھتے رہو۔
وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَاسْـتَكْبَرُوْا عَنْہَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ٠ ۚ ہُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ ٣٦- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( اسعاے ل ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] - ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔
(٣٥) جس وقت تمہارے پاس تم ہی میں سے پیغمبر آئیں جو اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے منع کرنا تم سے بیان کریں، تو جو اس وقت کتاب الہی اور رسول پر ایمان لائے اور اطاعت ربانی کرے تو اسے عذاب کا کوئی خوف نہیں ہوگا۔