جنتیوں اور دوزخیوں میں مکالمہ جنتی جب جنت میں جا کر امن چین سے بیٹھ جائیں گے تو دوزخیوں کو شرمندہ کرنے کیلئے ان سے دریافت فرمائیں گے کہ ہم نے تو اپنے رب کے ان وعدوں کو جو ہم سے کئے گئے تھے صحیح پایا تم اپنی کہو ۔ ان یہاں پر منسرہ ہے قول محذوف کا اور قد تحقیق کیلئے ہے ۔ اس کے جواب میں مشرکین ندامت سے کہیں گے کہ ہاں ہم نے بھی اپنے رب کے ان وعدوں کو جو ہم سے تھے ٹھیک پایا ۔ جیسا سورۃ صافات میں فرمان ہے کہ اہل جنت میں سے ایک کہے گا کہ میرا ایک ساتھی تھا جو مجھ سے تعجب کے ساتھ سوال کیا کرتا تھا کہ کیا تو بھی ان لوگوں میں سے ہے جو قیامت کے قائل ہیں؟ کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے اور ہڈیاں ہو کر رہ جائیں گے کیا واقعہ ہی ہم دوبارہ زندہ کئے جائیں گے؟ اور ہمیں بدلے دیئے جائیں گے؟ یہ کہہ کر وہ اوپر سے جھانک کر دیکھے گا تو اپنے اس ساتھی کو بیچ جہنم میں پائے گا کہے گا قسم اللہ کی تو تو مجھے بھی تباہ کرنے ہی کو تھا اگر میرے رب کا فضل شامل حال نہ ہوتا تو میں بھی آج گرفتار عذاب ہوتا ۔ اب بتاؤ دنیا میں جو کہا کرتا تھا کیا سچا تھا کہ ہم مر کر جینے والے اور بدلہ بھگتنے والے ہی نہیں؟ اس وقت فرشتے کہیں گے یہی وہ جہنم ہے جسے تم جھوٹا مان رہے تھے اب بتاؤ کیا یہ جادو ہے؟ یا تمہاری آنکھیں نہیں ہیں؟ اب یہاں پڑے جلتے بھنتے رہو صبر اور بےصبری دونوں نتیجے کے اعتبار سے تمہارے لئے یکساں ہے ۔ تمہیں اپنے کئے کا بدلہ پانا ہی ہے ۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار قریش کے ان مقتولوں کو جو بدر میں کام آئے تھے اور جن کی لاشیں ایک کھائی میں تھیں ڈانٹا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ اے ابو جہل بن ہشام ، اے عتبہ بن ربیعہ ، اے شیبہ بن ربیعہ اور دوسرے سرداروں کا بھی نام لیا اور فرمایا کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا ؟ میں نے تو اپنے رب کے وہ وعدے دیکھ لئے جو اس نے مجھ سے کئے تھے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ آپ ان سے باتیں کر رہے ہیں جو مر کر مردار ہوگئے؟ تو آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میری بات کو تم بھی ان سے زیادہ نہیں سن رہے لیکن وہ جواب نہیں دے سکتے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اسی وقت ایک منادی ندا کر کے معلوم کرا دے گا کہ ظالموں پر رب کی ابدی لعنت واقع ہو چکی ۔ جو لوگوں کو راہ حق اور شریعت ہدیٰ سے روکتے تھے اور چاہتے تھے کہ اللہ کی شریعت ٹیڑھی کر دیں تاکہ اس پر کوئی عمل نہ کرے ۔ آخرت پر بھی انہیں یقین نہ تھا اللہ کی ملاقات کو نہیں مانتے تھے اسی لئے بےپرواہی سے برائیاں کرتے تھے ۔ حساب کا ڈر نہ تھا اس لئے سب سے زیادہ بد زبان اور بد اعمال تھے ۔
44۔ 1 یہی بات نبی نے جنگ بدر میں جو کافر مارے گئے تھے اور ان کی لاشیں ایک کنوئیں میں پھینک دی گئیں تھیں۔ انہیں خطاب کرتے ہوئے کہی تھی، جس پر حضرت عمر نے کہا تھا آپ ایسے لوگوں سے خطاب فرما رہے ہیں جو ہلاک ہوچکے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کی قسم، میں انہیں جو کچھ کہ رہا ہوں، وہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں، لیکن اب وہ جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے (صحیح مسلم)
[٤٣۔ الف ] جنت اور دوزخ میں اتنا زیادہ فاصلہ ہوگا جس کا ہمارے لیے اس دنیا میں تصور بھی ممکن نہیں اور قرآن کی اس آیت اور بعض دوسری آیات سے اہل جنت اور اہل دوزخ کا مکالمہ بھی ثابت ہے۔ جس سے کئی باتوں کا پتہ چلتا ہے مثلاً ایک یہ کہ اس دوسری زندگی میں لوگوں کو جو سمعی اور بصری قوتیں عطا کی جائیں گی وہ موجودہ زندگی سے بہت زیادہ قوی ہوں گی۔ دوسرے وہاں کا مواصلاتی نظام بھی موجودہ دنیا کے نظام سے بہت زیادہ سریع التاثیر ہوگا۔ موجودہ دور میں ہم ٹیلی ویژن پر دنیا کے دور دراز ملکوں کے لوگوں کے مکالمات سن بھی سکتے ہیں اور انہیں دیکھ بھی سکتے ہیں اور اس دوسری زندگی میں یہ ہوگا کہ اہل جنت میں سے اگر کسی کو اپنے ان ساتھیوں کا خیال آیا جو کافر اور دوزخ کے مستحق تھے اور وہ ان سے کلام کرنا چاہے گا تو ان کی اور ان کے احوال و ظروف کی تصویر ہی سامنے نہیں آئے گی بلکہ وہ اپنے اپنے مقام پر بیٹھے ہوئے ایک دوسرے سے گفتگو بھی کرسکیں گے۔- یہ سورة مکی ہے اور اس مقام پر جن اہل دوزخ کا ذکر آیا ہے اس سے مراد غالباً وہی لوگ ہیں جو مسلمانوں کو حقیر مخلوق سمجھتے تھے اور ان کے متعلق قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ ایسے لوگ کبھی اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے مستحق نہیں ہوسکتے ایسے ہی ناتواں اور نادار مسلمان جنت میں آرام پانے کے بعد اپنے ان متکبر ساتھیوں سے ہم کلام ہونا چاہیں گے جو انہیں حقیر سمجھا کرتے تھے۔ پھر ان میں وہی گفتگو ہوگی جو اس آیت میں مذکور ہے اور یہ مکالمہ ایسے لوگوں کو عبرت دلانے کے لیے اور اس دنیا میں حسرت و یاس بڑھانے کے لیے یہاں مذکور ہوا ہے اور ایسے ظالموں پر اس دنیا میں بھی لعنت ہے اور اس جہان میں بھی لعنت ہوگی۔
وَنَادٰٓي اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۔۔ : جنتی جہنمیوں کی حسرت و ندامت بڑھانے کے لیے اور اپنے دل کو ٹھنڈا کرنے اور انتقام لینے کے لیے ان سے یہ باتیں کہیں گے : (فَالْيَوْمَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُوْنَ عَلَي الْاَرَاۗىِٕكِ ۙ يَنْظُرُوْنَ ) [ المطففین : ٣٤ تا ٣٦ ] ” سو آج وہ لوگ جو ایمان لائے، کافروں پر ہنس رہے ہیں، تختوں پر ( بیٹھے) نظارہ کر رہے ہیں، کیا کافروں کو اس کا بدلہ دیا گیا جو وہ کیا کرتے تھے ؟ “ بالکل یہی الفاظ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے مشرک مقتولین سے کہے تھے، چناچہ انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن قریش کے چوبیس سرداروں کے متعلق حکم دیا، تو انھیں بدر کے ایک نہایت گندے کنویں میں پھینک دیا گیا۔ تیسرے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اونٹنی پر سوار ہو کر اس کی طرف چلے، کنویں کے کنارے پر جا کھڑے ہوئے، آپ کے صحابہ بھی ساتھ تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں ایک ایک کا نام لے کر پکارنا شروع کیا : ” اے فلاں بن فلاں اے فلاں بن فلاں کیا تمہیں پسند ہے کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول کی بات مانی ہوتی ؟ کیونکہ ہم نے تو جو ہمارے رب نے ہم سے وعدہ کیا سچا پا لیا، تو کیا تم نے بھی جو وعدہ تمہارے رب نے کیا تھا سچا پا لیا ؟ “ تو عمر (رض) نے کہا : ” آپ ایسے لاشوں سے بات کر رہے ہیں جن میں جان ہی نہیں۔ “ فرمایا : ” تم ان سے زیادہ وہ بات نہیں سن رہے جو میں انھیں کہہ رہا ہوں۔ “ قتادہ نے کہا کہ اللہ نے انھیں زندگی دی، یہاں تک کہ انھیں آپ کی بات ڈانٹنے، ذلیل کرنے، انتقام اور حسرت و ندامت کے لیے سنوا دی۔ [ بخاری، المغازی، باب قتل أبی جہل : ٣٩٧٦ ]
خلاصہ تفسیر - اور (جب اہل جنت جنت میں جا پہنچیں گے اس وقت وہ) اہل جنت اہل دوزخ کو (اپنی حالت پر خوشی ظاہر کرنے کو اور ان کی حسرت بڑھانے کو) پکاریں گے کہ ہم سے جو ہمارے رب نے وعدہ فرمایا تھا (ایمان اور اعمال صالحہ اختیار کرنے سے جنت دیں گے) ہم نے اس کو واقع کے مطابق پایا سو (تم بتلاؤ کہ) تم سے جو تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا (کہ کفر کے سبب دوزخ میں پڑو گے) تم نے بھی اس کو مطابق واقع کے پایا (یعنی اب تو حقیقت اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق اور اپنی گمراہی کی معلوم ہوئی) وہ (اہل دوزخ جواب میں) کہیں گے ہاں (واقعی سب باتیں اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ٹھیک نکلیں) پھر (ان دوزخیوں کی حسرت اور جنتیوں کی مسرت بڑھانے کو) ایک پکارنے والا (یعنی کوئی فرشتہ) دونوں (فریق) کے درمیان میں (کھڑا ہوکر) پکارے گا کہ اللہ تعالیٰ کی مار ہو ان ظالموں پر جو اللہ کی راہ (یعنی دین حق) سے اعراض کیا کرتے تھے اور اس (دین حق) میں (ہمیشہ بزعم خود) کجی (کی باتیں) تلاش کرتے رہتے تھے (کہ اس میں عیب اور اعتراض پیدا کریں) اور وہ لوگ (اس کے ساتھ) آخرت کے بھی منکر تھے (جس کا نتیجہ آج بھگت رہے ہیں، یہ کلام تو اہل جنت کا اور ان کی تائید میں اس سرکاری منادی کا مذکور ہوا، آگے اعراف والوں کا ذکر ہے) اور ان دونوں (فریق یعنی اہل جنت اور اہل دوزخ) کے درمیان آڑ (یعنی دیوار) ہوگی (جس کا ذکر سورة حدید میں ہے : (آیت) فضرب بینھم بسور الخ اس کا خاصہ یہ ہوگا کہ جنت کا اثر دوزخ تک اور دوزخ کا اثر جنت تک نہ جانے دے گی، رہا یہ کہ پھر گفتگو کیونکر ہوگی، سو ممکن ہے کہ اس دیوار میں جو دروازہ ہوگا، جیسا سورة حدید میں ہے (آیت) بسور لہ باب، اس باب میں سے یہ گفتگو ہوجاوے، یا ویسے ہی آواز پہنچ جاوے) اور (اس دیوار کا یا اس کے بالائی حصہ کا نام اعراف ہے اور اس پر سے جنتی اور دوزخی سب نظر آویں گے سو) اعراف کے اوپر بہت سے آدمی ہوں گے (جن کی حسنات اور سیئات میزان میں برابر وزن کی ہوئیں) جو لوگ (اہل جنت اور اہل دوزخ میں سے) ہر ایک کو (علاوہ جنت اور دوزخ کے اندر ہونے کی علامت کے) ان کے قیافہ سے (بھی) پہچانیں گے (قیافہ یہ کہ اہل جنت کے چہروں پر نورانیت اور اہل دوزخ کے چہروں پر ظلمت اور کدورت ہوگی، جیسا دوسری ( آیت) میں ہے وجوہ یؤ مئذ مسفرۃ ضاحکۃ الخ) اور یہ اہل اعراف اہل جنت کو پکار کر کہیں گے، السلام علیکم، ابھی یہ اہل اعراف جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے، اور اس کے امیدوار ہوں گے (چنانچہ حدیثوں میں آیا ہے کہ ان کی امید پوری کردی جاوے گی اور جنت میں جانے کا حکم ہوجاوے گا) اور جب ان کی نگاہیں اہل دوزخ کی طرف جا پڑیں گی (اس وقت ہول کھا کر) کہیں گے اے ہمارے رب ہم کو ان ظالم لوگوں کے ساتھ (عذاب میں) شامل نہ کیجئے اور (جیسے ان اہل اعراف نے اوپر اہل جنت سے سلام و کلام کیا اسی طرح) اہل اعراف (دوزخیوں میں سے) بہت سے آدمیوں کو (جو کہ کافر ہوں گے اور) جن کو ان کے قیافہ (ظلمت و کدورت چہرہ) سے پہچانیں گے (کہ یہ کافر ہیں) پکاریں گے (اور) کہیں گے کہ تمہاری جماعت اور تمہارا اپنے کو بڑا سمجھنا (اور انبیاء کا اتباع نہ کرنا) تمہارے کچھ کام نہ آیا (اور تم اسی تکبر کی وجہ سے مسلمانوں کو حقیر سمجھ کر یہ بھی کہا کرتے تھے کہ یہ بیچارے کیا مستحق فضل و کرم ہوتے، جیسا (آیت) اھوالاء من اللّٰہ علیہم من بیننا سے بھی یہ مضمون مفہوم ہوتا ہے، تو ان مسلمانوں کو اب تو دیکھو) کیا یہ (جو جنت میں عیش کر رہے ہیں) وہی (مسلمان ہیں) جن کی نسبت تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ ان پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت نہ کرے گا (تو ان پر تو اتنی بڑی رحمت ہوئی کہ) ان کو یہ حکم ہوگیا کہ جاؤ جنت میں (جہاں) تم پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ تم مغموم ہوگے (اور اس کلام میں جو رجالاً کی تخصیص کی، غالباً وجہ اس کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہنوز عصاة مؤمنین بھی دوزخ میں پڑے ہوں گے، قرینہ اس کا یہ ہے کہ جب اہل اعراف امید جنت میں ہیں مگر داخل جنت نہیں ہوئے ہوں گے، تو گنہگار لوگ جن کے سیئات اہل اعراف کے سیئات سے زیادہ ہیں، ظاہراً بدرجہ اولیٰ دوزخ سے ابھی نہ نکلے ہوں گے، مگر ایسے لوگ اس کلام کے مخاطب نہ ہوں گے، واللہ اعلم۔- معارف و مسائل - جب اہل جنت جنت میں اور دوذخ والے دوزخ میں اپنے اپنے مستقر پر پہنچ جائیں گے، اور ظاہر ہے کہ ان دونوں مقامات میں ہر حیثیت سے بعد بعید حائل ہوگا، لیکن اس کے باوجود قرآن مجید کی بہت سی آیات اس پر شاہد ہیں کہ ان دونوں مقامات کے درمیان کچھ ایسے راستے ہوں گے جن سے ایک دوسرے کو دیکھ سکے گا، اور ان کے آپس میں مکالمات اور سوال و جواب ہوں گے۔- سورة صافات میں دو شخصوں کا ذکر مفصل آیا ہے جو دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھی تھے لیکن ایک مومن دوسرا کافر تھا، آخرت میں جب مومن جنت میں اور کافر جہنم میں چلا جائے گا تو یہ ایک دوسرے کو دیکھیں گے اور باتیں کریں گے ارشاد ہے : (آیت)- فاطلع فراہ فی سواء الجحیم تا نحن بمعذبین، جس کا خلاصہ مضمون یہ ہے کہ جنتی ساتھی جھانک کر دوزخی ساتھی کو دیکھے گا تو اس کو وسط جہنم میں پڑا ہوا پائے گا، اور کہے گا کہ کمبخت تو یہ چاہتا تھا کہ میں بھی تیری طرح برباد ہوجاؤ ں، اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو آج میں بھی تیرے ساتھ جہنم میں پڑا ہوتا، اور تو جو مجھ سے یہ کہا کرتا تھا کہ اس دنیا کی موت کے بعد کوئی زندگی اور کوئی حساب کتاب یا ثواب عذاب ہونے والا نہیں، اب دیکھ لو کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ - آیات مذکورہ اور ان کے بعد بھی تقریباً ایک رکوع تک اسی قسم کے مکالمات اور سوال و جواب کا تذکرہ ہے، جو اہل جنت اور اہل جہنم کے آپس میں ہوں گے۔ - اور یہ جنت و دوزخ کے درمیان ایک دوسرے کو دیکھنے اور باتیں کرنے کے راستے بھی در حقیقت اہل جہنم کے لئے ایک اور طرح کا عذاب ہوگا کہ چار طرف سے ان پر ملامت ہوتی ہوگی، اور وہ اہل جنت کی نعمتوں اور راحتوں کو دیکھ کر جہنم کی آگ کے ساتھ حسرت کی آگ میں بھی جلیں گے، اور اہل جنت کے لئے نعمت و راحت میں ایک نئی طرح کا اضافہ ہوگا کہ دوسرے فریق کی مصیبت دیکھ کر اپنی راحت و نعمت کی قدر زیادہ ہوگی، اور جو لوگ دنیا میں دینداروں پر ہنسا کرتے تھے اور ان کا استہزاء کیا کرتے تھے، اور یہ کوئی انتقام نہ لیتے تھے، آج ان لوگوں کو ذلت و خواری کے ساتھ عذاب میں مبتلا دیکھیں گے تو یہ ہنسیں گے کہ ان کے عمل کی ان کو سزا مل گئی، قرآن کریم میں یہی مضمون سورة مطففین میں اس طرح ارشاد ہوا ہے (آیت) فالیوم الذین امنوا من الکفار یضحکون تا یفعلون۔- اہل جہنم کو ان کی گمراہی پر تنبیہ اور ان کے احمقانہ کلمات پر ملامت فرشتوں کی طرف سے بھی ہوگی، وہ ان کو مخاطب کرکے کہیں گے (آیت) ھذہ النار التی کنتم بھا تکذبون تا تبصرون ” یعنی یہ ہے وہ آگ جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے، اب دیکھو کہ کیا یہ جادو ہے یا تمہیں نظر نہیں آتا “۔- اسی طرح آیات مذکورہ میں پہلی آیت میں ہے کہ اہل جنت اہل جہنم سے سوال کریں گے کہ ہمارے رب نے ہم سے جن نعمتوں اور راحتوں کا وعدہ کیا تھا ہم نے تو ان کو بالکل سچا اور پورا پایا تم بتلاؤ کہ تمہیں جس عذاب سے ڈرایا گیا تھا وہ بھی تمہارے سامنے آگیا یا نہیں، وہ اقرار کریں گے کہ بیشک ہم نے بھی اس کا مشاہدہ کرلیا۔ - ان کے اس سوال و جواب کی تائید میں اللہ جل شانہ کی طرف سے کوئی فرشتہ یہ منادی کرے گا کہ اللہ تعالیٰ کی لعنت اور پھٹکار ہے ظالموں پر جو لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے تھے، اور یہ چاہتے تھے کہ ان کا راستہ بھی سیدھا نہ رہے، اور وہ آخرت کا انکار کیا کرتے تھے - اہل اعراف کون لوگ ہیں - جنت و دوزخ والوں کے باہمی مکالمات کے ضمن میں ایک اور بات تیسری آیت میں یہ بتلائی گئی ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو جہنم سے تو نجات پاگئے مگر ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے، البتہ اس کے امیدوار ہیں کہ وہ بھی جنت میں داخل ہوجائیں، ان لوگوں کو اہل اعراف کہا جاتا ہے۔ - اعراف کیا چیز ہے، اس کی تشریح سورة حدید کی آیات سے ہوتی ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ محشر میں لوگوں کے تین گروہ ہوں گے، ایک کھلے کافر و مشرک ان کو تو پل صراط پر چلنے کی نوبت ہی نہ آئے گی، پہلے ہی جہنم کے دروازوں سے اس میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ دوسرے مؤمنین ان کے ساتھ نور ایمان کی روشنی ہوگی۔ تیسرے منافقین، یہ چونکہ دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ لگے رہے وہاں بھی شروع میں ساتھ لگے رہیں گے، اور پل صراط پر چلنا شروع ہوں گے، اس وقت ایک سخت اندھیری سب کو ڈھانپ لے گی، مؤمنین اپنے نور ایمان کی مدد سے آگے بڑھ جائیں گے اور منافقین پکار کر ان کو کہیں گے کہ ذرا ٹھہرو کہ ہم بھی تمہاری روشنی سے فائدہ اٹھائیں، اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی کہنے والا کہے گا کہ پیچھے لوٹو وہاں روشنی تلاش کرو، مطلب یہ ہوگا کہ یہ روشنی ایمان اور عمل صالح کی ہے، جس کے حاصل کرنے کا مقام پیچھے گزر گیا، جن لوگوں نے وہاں ایمان و عمل کے ذریعہ یہ روشنی حاصل نہیں کی، ان کو آج روشنی کا فائدہ نہیں ملے گا، اسی حالت میں منافقین اور مؤمنین کے درمیان ایک دیوار کا حصار حائل کردیا جائے گا، جس میں ایک دروازہ ہوگا، اس دروازہ کے باہر تو سارا عذاب ہی عذاب نظر آئے گا، اور دروازہ کے اندر جہاں مؤمنین ہوں گے وہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا مشاہدہ اور جنت کی فضا سامنے ہوگی، یہی مضمون اس آیت کا ہے (آیت) یوم یقول المنفقون المنفقت تا قبلہ العذاب - اس آیت میں وہ حصار جو اہل جنت اور اہل دوزخ کے درمیان حائل کیا جائے گا اس کو لفظ سور سے تعبیر کیا گیا ہے، اور یہ لفظ دراصل شہر پناہ کے لئے بولا جاتا ہے، جو بڑے شہروں کے گرد غنیم سے حفاظت کے لئے بڑی مضبوط، مستحکم چوڑی دیوار سے بنائی جاتی ہے، ایسی دیواروں میں فوج کے حفاظتی دستوں کی کمین گاہیں بھی بنی ہوتی ہیں، جو حملہ آوروں سے باخبر رہتے ہیں۔
الَّذِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ وَيَبْغُوْنَہَا عِوَجًا ٠ ۚ وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ كٰفِرُوْنَ ٤٥ ۘ- صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- بغي - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى،- والبَغْيُ علی ضربین :- أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع .- والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری 42] - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ - بغی دو قسم پر ہے ۔- ( ١) محمود - یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔- ( 2 ) مذموم - ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہاے ت میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔- عوج - الْعَوْجُ : العطف عن حال الانتصاب، يقال :- عُجْتُ البعیر بزمامه، وفلان ما يَعُوجُ عن شيء يهمّ به، أي : ما يرجع، والعَوَجُ يقال فيما يدرک بالبصر سهلا کالخشب المنتصب ونحوه . والعِوَجُ يقال فيما يدرک بالفکر والبصیرة كما يكون في أرض بسیط يعرف تفاوته بالبصیرة والدّين والمعاش، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ،- ( ع و ج ) العوج - ( ن ) کے معنی کسی چیز کے سیدھا کپڑا ہونے کی حالت سے ایک طرف جھک جانا کے ہیں ۔ جیسے عجت البعیر بزمامہ میں نے اونٹ کو اس کی مہار کے ذریعہ ایک طرف مور دیا فلاں مایعوج عن شئی یھم بہ یعنی فلاں اپنے ارادے سے بار نہیں آتا ۔ العوج اس ٹیڑے پن کر کہتے ہیں جو آنکھ سے بسہولت دیکھا جا سکے جیسے کھڑی چیز میں ہوتا ہے مثلا لکڑی وغیرہ اور العوج اس ٹیڑے پن کو کہتے ہیں جو صرف عقل وبصیرت سے دیکھا جا سکے جیسے صاف میدان کو ناہمواری کو غور فکر کے بغیر اس کا ادراک نہیں ہوسکتا یامعاشرہ میں دینی اور معاشی نا ہمواریاں کہ عقل وبصیرت سے ہی ان کا ادراک ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28]( یہ ) قرآن عربی رہے ) جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ہے : - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
(٤٤۔ ٤٥) یعنی ہم نے تو ثواب اور کرامت واضح طور پر دیکھ لیا، اے اہل جہنم کیا تم نے بھی عذاب اور ذلت کو صحیح پایا۔ پھر اہل جنت اور اہل دوزخ کے درمیان ایک پکارنے والا پکارے گا کہ ان کافروں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب اور لعنت نازل ہو، جو لوگوں کو دین الہی اور اطاعت خداوندی سے روکا کرتے تھے اور دین میں کجی کی باتیں پیدا کرتے تھے اور مرنے کے بعد جینے کے بھی منکر تھے۔
آیت ٤٤ (وَنَادآی اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا) - جن نعمتوں کا اللہ نے ہم سے وعدہ کیا تھا وہ ہمیں مل گئیں۔ اللہ کا وعدہ ہمارے حق میں سچ ثابت ہوا۔ - (فَہَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّاط قالُوْا نَعَمْ ج) - اہل جہنم جواب دیں گے کہ ہاں ہمارے ساتھ بھی جو وعدے کیے گئے تھے وہ بھی سب پورے ہوگئے۔ جو وعیدیں ہمیں دنیا میں سنائی جاتی تھیں ‘ عذاب کی جو مختلف شکلیں بتائی جاتی تھیں ‘ وہ سب کی سب حقیقت کا روپ دھار کر ہمارے سامنے موجود ہیں اور اس وقت ہم ان میں گھرے ہوئے ہیں۔