جنت اور جہنم میں دیوار و حجاب جنتیوں اور دوزخیوں کی بات بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ جنت دوزخ کے درمیان ایک اور حجاب حد فاصل اور دیوار ہے کہ دوزخیوں کو جنت سے فاصلے پر رکھے اسی دیوار کا ذکر آیت ( فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُوْرٍ لَّهٗ بَابٌ ۭ بَاطِنُهٗ فِيْهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهٗ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَاب13 ) 57- الحديد ) ، میں ہے یعنی ان کے درمیان ایک دیوار ہائل کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہے ۔ اس کے اندر رحمت ہے اور باہر عذاب ہے ۔ اسی کا نام ( اعراف ) ہے ۔ ( اعراف ) ( عرف ) کی جمع ہے ہر اونچی زمین کو عرب میں عرفہ کہتے ہیں اسی لئے مرغ کے سر کی کلنگ کو بھی عرب میں ( عرف الدیک ) کہا جاتا ہے کیونکہ اونچی جگہ ہوتا ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ ایک اونچی جگہ ہے جنت دوزخ کے درمیان جہاں کچھ لوگ روک دیئے جائیں گے ۔ سدی فرماتے ہیں اس کا نام اعراف اس لئے رکھا گیا ہے کہ یہاں کے لوگ اور لوگوں کو جانتے پہچانتے ہیں ۔ یہاں کون لوگ ہوں گے؟ اس میں بہت سے اقوال ہیں سب کا حاصل یہ ہے کہ وہ یہ لوگ ہوں گے جن کے گناہ اور نیکیاں برباد ہوں گی بعض سلف سے بھی یہی منقول ہے ۔ حضرت حذیفہ حضرت ابن عباس حضرت ابن مسعود وغیرہ نے یہی فرمایا ہے ۔ یہی بعد والے مفسرین کا قول ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے لیکن سنداً وہ حدیث غریب ہے اور سند سے مروی ہے کہ حضور سے جب ان لوگوں کی بابت جن کی نیکیاں بدیاں برابر ہوں اور جو اعراف والے ہیں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ نافرمان لوگ ہیں جو اپنے باپ کی اجازت بغیر پھر اللہ کی راہ میں قتل کر دیئے گئے اور روایت میں ہے کہ یہ لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے اور اپنے والدین کے نافرمان تھے تو جنت میں جانے سے باپ کی نافرمانی نے روک دیا اور جہنم میں جانے سے شہادت نے روک دیا ۔ ابن ماجہ وغیرہ میں بھی یہ روایتیں ہیں ۔ اب اللہ ہی کو ان کی صحت کا علم ہے بہت ممکن ہے کہ یہ موقوف روایتیں ہوں ۔ بہر صورت ان سے اصحاب اعراف کا حال معلوم ہو رہا ہے ۔ حضرت حذیفہ سے جب ان کی بابت سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں بدیاں برابر برابر تھیں ۔ برائیوں کی وجہ سے جنت میں نہ جا سکے اور نیکیوں کی وجہ سے جہنم سے بچ گئے پس یہاں آڑ میں روک دیئے جائیں گے یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ ان کے بارے میں سرزد ہو اور آیت میں آپ سے مروی ہے کہ یہ دوزخیوں کو دیکھ دیکھ کر ڈر رہے ہوں گے اور اللہ سے نجات طلب کر رہے ہوں گے کہ ناگاہ انکا رب ان کی طرف دیکھے گا اور فرمائے گا جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ میں نے تمہیں بخشا ۔ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں قیامت کے دن لوگوں کا حساب ہو گا ایک نیکی بھی اگر برائیوں سے بڑھ گئی تو داخل جنت ہو گا اور ایک برائی بھی اگر نیکیوں سے زیادہ ہو گئی تو دوزخ میں جائے گا پھر آپ نے آیت ( فمن ثقلت موازینہ ) سے دو آیتوں تک تلاوت کیں اور فرمایا ایک رائی کے دانے کے برابر کی کمی زیادتی ہے میزان کا پلڑا ہلکا بھاری ہو جاتا ہے اور جن کی نیکیاں بدیاں برابر برابر ہوئیں یہ اعراف والے ہیں یہ ٹھہرا لئے جائیں گے اور جنتی دوزخی مشہور ہو جائیں گے یہ جب جنت کو دیکھیں گے تو اہل جنت پر سلام کریں گے اور جب جہنم کو دیکھیں گے تو اللہ سے پناہ طلب کریں گے ۔ نیک لوگوں کو نور ملے گا جو ان کے آگے اور ان کے داہنے موجود رہے گا ہر انسان کو وہ مرد ہوں خواہ عورتیں ہوں ایک نور ملے گا لیکن پل صراط پر منافقوں کا نور چھین لیا جائے گا اس وقت سچے مومن اللہ سے اپنے نور کے باقی رہنے کی دعائیں کریں گے ۔ اعراف والوں کا نور چھینا نہیں جائے گا وہ ان کے آگے آگے موجود ہو گا انہیں جنت میں جانے کی طمع ہو گی ، لوگوں ایک نیکی دس گنی کر کے لکھی جاتی ہے اور برائی اتنی ہی لکھی جاتی ہے جتنی ہو ، افسوس ان پر جن کی اکائیاں دہائیوں پر غالب آ جائیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ اعراف ایک دیوار ہے جو جنت دوزخ کے درمیان ہے اصحاب اعراف وہیں ہوں گے ۔ جب انہیں عافیت دینے کا اللہ کا ارادہ ہو گا تو حکم ملے گا انہیں ہر حیات کی طرف لے جاؤ اس کے دونوں کناروں پر سونے کے خیمے ہوں گے جو موتیوں سے مرصع ہوں گے اس کی مٹی مشک خالص ہو گی اس میں غوطہ لگاتے ہی ان کی رنگتیں نکھر جائیں گی اور ان کی گردنوں پر ایک سفید چمکیلا نشان ہو جائے گا جس سے وہ پہچان لئے جائیں یہ اللہ کے سامنے لائے جائیں گے اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو چاہو مانگو یہ مانگیں گے یہاں تک کہ ان کی تمام تمنائیں اللہ تعالیٰ پوری کر دے گا پھر فرمائے گا ان جیسی ستر گنا اور نعمتیں بھی میں نے تمہیں دیں ۔ پھر یہ جنت میں جائیں گے ، وہ علامت ان پر موجود ہو گی جنت میں ان کا نام مساکین اہل جنت ہو گا ، یہی روایت حضرت مجاہد کے اپنے قول سے بھی مروی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ایک حسن سند کی مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراف والوں کی نسبت دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ان کا فیصلہ سب سے آخر میں ہو گا ، رب العالمیں جب اپنے بندوں کے فیصلے کر چکے گا تو ان سے فرمائے گا کہ تم لوگوں کو تمہاری نیکیوں نے دوزخ سے تو محفوظ کر لیا لیکن تم جنت میں جانے کے حقدار ثابت نہیں ہوئے اب تم کو میں اپنی طرف سے آزاد کرتا ہوں جاؤ جنت میں رہو سہو اور جہاں چاہو کھاؤ پیو ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ زنا کی اولاد ہیں ۔ ابن عساکر میں فرمان نبی ہے کہ مومن جنوں کو ثواب ہے اور ان میں سے جو برے ہیں انہیں عذاب بھی ہو گا ، ہم نے ان کے ثواب اور ان کے ایمانداروں کے بابت حضور سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا وہ اعراف میں ہوں گے جنت میں میری امت کے ساتھ نہ ہوں گے ہم نے پوچھا یا رسول اللہ اعراف کیا ہے؟ فرمایا جنت کا ایک باغ جہاں نہریں جاری ہیں اور پھل پک رہے ہیں ( بیہقی ) حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ صالح دینار فقہاء علما لوگ ہوں گے ابو مجاز فرماتے ہیں یہ فرشتے ہیں جنت دوزخ والوں کو جانتے ہیں پھر آپ نے ان آیتوں کے تلاوت کی اور فرمایا سب جنتی جنت میں جانے لگیں گے تو کہا جائے گا کہ تم امن و امان کے ساتھ بےخوف و خطر ہو کر جنت میں جاؤ ۔ اس کی سند گو ٹھیک ہے لیکن یہ قول بہت غریب ہے کیونکہ روانی عبارت بھی اس کے خلاف ہے اور جمہور کا قول ہی مقدم ہے کیونکہ آیت کے ظاہری الفاظ کے مطابق ہے ۔ حضرت مجاہد کا قول بھی جو اوپر بیان ہوا غرابت سے خالی نہیں واللہ اعلم ۔ قرطبی رحمتہ اللہ علیہ نے اس میں بارہ قول نقل کئے ہیں ۔ صلحاء ، انبیاء ، ملائیکہ وغیرہ ۔ یہ جنتیوں کو ان کے چہرے کی رونق اور سفیدی سے اور دوزخیوں کو ان کے چہرے کی سیاہی سے پہچان لیں گے یہ یہاں اسی لئے ہیں کہ ہر ایک کا امتیاز کرلیں اور سب کو پہچان لیں یہ جنتیوں سے سلام کریں گے جنتیوں کو دیکھ دیکھ کر اللہ کی پناہ چائیں گے اور طمع رکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں بھی بہشت بریں میں پہنچا دے یہ طمع ان کے دل میں اللہ نے اسی لئے ڈالا ہے کہ اس کا ارادہ انہیں جنت میں لے جانے کا ہو چکا ہے ۔ جب وہ اہل دوزخ کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پروردگار ہمیں ظالموں میں سے نہ کر ۔ جب کوئی جماعت جہنم میں پہنچائی جاتی ہے تو یہ اپنے بچاؤ کی دعائیں کرنے لگتے ہیں جہنم سے ان کے چہرے کوئلے جیسے ہو جائیں گے لیکن جب جنت والوں کو دیکھیں گے تو یہ چیز چہروں سے دور ہو جائے گی جنتیوں کے چہروں کی پہچان نورانیت ہو گی اور دوزخیوں کے چہروں پر سیاہی اور آنکھوں میں بھینگا پن ہو گا ۔
46۔ 1 ان دونوں کے درمیان سے مراد جنت دوزخ کے درمیان یا کافروں اور مومنوں کے درمیان ہے۔ حِجَاب، ُ (آڑ) سے وہ فصیل (دیوار) مراد ہے جس کا ذکر سورة حدید میں ہے : (فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُوْرٍ لَّهٗ بَابٌ) 57 ۔ الحدید :13) پس ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی، جس میں ایک دروازہ ہوگا یہی اعراف کی دیوار ہے۔ 46۔ 2 یہ کون ہونگے ؟ ان کی تعین میں مفسرین کے درمیان خاصا اختلاف ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ وہ لوگ ہونگے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی۔ ان کی نیکیاں جہنم میں جانے سے اور برائیاں جنت میں جانے سے مانع ہونگی اور یوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قطعی فیصلہ ہونے تک وہ درمیان میں معلق رہیں گے۔ 46۔ 3 سیماء کے معنی علامت کے ہیں جنتیوں کے چہرے روشن اور جہنمیوں کے چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلی ہونگی۔ اس طرح وہ دونوں قسم کے لوگوں کو پہچان لیں گے۔ 46۔ 4 یہاں یَطْمَعُوْنَ کے معنی بعض لوگوں نے یَعْلَمُوْن کے کئے ہیں یعنی ان کو علم ہوگا کہ وہ عنقریب جنت میں داخل کر دئے جائیں گے۔
[٤٥] اعراف کیا ہے ؟ اعراف جنت اور دوزخ کے درمیان ایک اوٹ ہے سورة حدید میں اس اوٹ کی یہ تفصیل ملتی ہے کہ وہ ایک دیوار ہوگی جس میں ایک دروازہ ہوگا اس کے بیرونی طرف تو عذاب ہوگا اور اندرونی طرف رحمت (٥٧ : ١٣) یعنی یہ دیوار جنت کے لذائذ اور خوشیوں کو جہنم کی طرف جانے سے اور جہنم کی کلفتوں کو اور آگ کی لپیٹ اور گرمی اور دھوئیں کو جنت کی طرف جانے سے روک دے گی۔- [٤٦] اعراف اور اہل اعراف :۔ اصحاب اعراف کون لوگ ہیں ؟ اس کے متعلق بہت سے اقوال ہیں جن میں سے راجح تر یہی قول ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر برابر ہوں گی وہ اس مقام پر مقیم ہوں گے ان کے ایک طرف اہل جنت ہوں گے جنہیں وہ ان کے نورانی چہروں کی بدولت پہچانتے ہوں گے اور دوسری طرف اہل دوزخ ہوں گے جن کی رو سیاہی اور کالی کلوٹی رنگت کی بنا پر انہیں بھی پہچانتے ہوں گے۔- [٤٧] اس آیت کے دو مطلب بیان کیے گئے ہیں ایک یہ کہ جو لوگ جنت میں داخل ہوچکے ہوں گے انہیں دیکھ کر اصحاب اعراف انہیں سلام علیکم کہیں گے اور ان اصحاب اعراف کی اپنی کیفیت یہ ہوگی کہ وہ بھی جنت میں داخل ہونے کی توقع رکھتے ہوں گے دوسرے یہ کہ کئی اہل جنت ابھی حساب و کتاب سے فارغ نہ ہوئے ہوں گے مگر اصحاب اعراف ان کے نورانی چہرے دیکھ کر پہچان لیں گے کہ وہ جنتی ہیں تو انہیں سلام علیکم کے بعد جنت کی خوشخبری دیں گے اور ان حساب کتاب میں مشغول لوگوں کی اپنی کیفیت یہ ہوگی کہ گو وہ ابھی تک جنت میں داخل نہ ہوئے ہوں گے تاہم وہ اس کی امید ضرور رکھتے ہوں گے۔- جنت میں دیدار الٰہی :۔ اہل جنت اور اہل دوزخ کے درمیان مکالمہ، اصحاب اعراف کا ان سے مکالمہ اور ان کو بعید مقامات سے دیکھ کر پہچان لینے اور ایک دوسرے کی آوازیں سن کر ان کا جواب دینے کو اور روز محشر کے احوال کو موجودہ قوتوں اور عقل سے جانچنا درست نہیں اور اس کی تائید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے فرمایا کہ اس دن تم اپنے پروردگار کو اس طرح بلاتکلف دیکھ سکو گے جس طرح چاند کو دیکھ رہے ہو اور تمہیں کوئی رکاوٹ محسوس نہ ہوگی (بخاری۔ کتاب التوحید باب ( وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ 22ۙ ) 75 ۔ القیامة :22) حالانکہ اس دنیا میں موجودہ آنکھوں سے دیدار الٰہی ناممکن ہے۔
وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ: جو جنت اور جہنم کے درمیان ایک دیوار ہوگی، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ( فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُوْرٍ ) [ الحدید : ١٣ ] یعنی جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان ایک دیوار بنادی جائے گی، جس کے اندر کی طرف اللہ کی رحمت ہوگی اور باہر کی طرف عذاب۔ شاہ ولی اللہ (رض) فرماتے ہیں : ” وآں مسمی ب اعراف است۔ “ یعنی اس دیوار کو ” اعراف “ کہا جاتا ہے۔ (فتح الرحمن) - وَعَلَي الْاَعْرَافِ رِجَالٌ: ” الْاَعْرَافِ “ یہ ” عُرْفٌ“ کی جمع ہے اور لغت میں ” عَرَفَ یَعْرِفُ مَعْرِفَۃً “ پہچاننے کو اللہ ” عُرْفٌ“ بلند جگہ کو کہتے ہیں، کیونکہ بلند چیز ممتاز ہونے کی وجہ سے آسانی سے پہچانی جاتی ہے اسی سے مرغ کی کلغی اور گھوڑے کی گردن کے بلند حصے کے بالوں کو ” عُرْفٌ“ کہتے ہیں، کیونکہ بلندی کی وجہ سے وہ پہچان میں ممتاز ہوتے ہیں، لہٰذا ” الاعراف “ سے مراد جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان دیوار کی بلندیاں ہیں، جہاں ٹھہرنے والوں کو ایک طرف جنتی اور دوسری طرف جہنمی لوگ نظر آئیں گے، اکثر مفسرین یہی فرماتے ہیں۔ - يَّعْرِفُوْنَ كُلًّاۢ بِسِيْمٰىهُمْ ۚ: ” سِیْمَا “ کا معنی نشانی ہے، مثلاً جنتیوں کے چہرے سفید اور نورانی ہوں گے اور جہنمیوں کے کالے سیاہ، یا امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وضو کے اعضاء چمک رہے ہوں گے۔ ” الاعراف “ میں کون لوگ ہوں گے، اس بارے میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں۔ قرطبی نے دس قول ذکر کیے ہیں، ان میں سب سے مشہور قول جسے جمہور مفسرین نے کثرت روایات کی بنا پر ترجیح دی ہے، یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی، اس لیے وہ بیچ میں دیوار پر ہوں گے۔ اس کا ایک قرینہ یہ جملہ بھی ہے : ( ۣ لَمْ يَدْخُلُوْهَا وَهُمْ يَطْمَعُوْنَ ) ” وہ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے اور اس کی طمع رکھتے ہوں گے۔ “- وَهُمْ يَطْمَعُوْنَ : یعنی جنت میں جانے کی امید رکھتے ہوں گے، اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ اعراف والے ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے، مگر امید رکھتے ہوں گے کہ انھیں آئندہ جنت نصیب ہوگی۔ دوسرے یہ کہ اعراف والے ان لوگوں کو پکاریں گے جن کا جنتی ہونا ان کی علامات دیکھ کر معلوم ہوجائے گا، حالانکہ وہ ابھی حساب کتاب میں مشغول ہونے کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے۔ (ابن کثیر) - ابن کثیر میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اصحاب الاعراف کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ وہ لوگ ہیں جو نافرمانی کرتے ہوئے ماں باپ کی اجازت کے بغیر چلے گئے اور اللہ کی راہ میں قتل ہوگئے، اب انھیں جنت میں داخلے سے ماں باپ کی نافرمانی نے روک دیا اور آگ میں داخل ہونے سے انھیں اللہ کی راہ میں قتل ہونے نے روک دیا۔ “ حافظ ابن کثیر (رض) نے ان روایات کے غیر معتبر ہونے کی طرف یہ کہہ کر اشارہ فرمایا کہ مرفوع روایات کی صحت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اور ابن کثیر کی تخریج ” ہدایۃ المستنیر “ میں ان تمام روایات کا غیر معتبر ہونا تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔
سورة اعراف کی آیت مذکورہ میں ہے (آیت) وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَي الْاَعْرَافِ رِجَالٌ يَّعْرِفُوْنَ كُلًّاۢ بِسِيْمٰىهُمْ ، ابن جریر اور دوسرے ائمہ تفسیر کی تحریر کے مطابق اس آیت میں لفظ حجاب سے وہی حصار مراد ہے جس کو سورة حدید کی آیت میں لفظ سور سے تعبیر کیا گیا ہے، اس حصار کے بالائی حصہ کا نام اعراف ہے، کیونکہ اعراف عرف کی جمع ہے، اور عرف ہر چیز کے اوپر والے حصہ کو کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ دور سے معروف و ممتاز ہوتا ہے، اس تشریح سے معلوم ہوا کہ جنت و دوزخ کے درمیان حائل ہونے والے حصار کے بالائی حصہ کا نام اعراف ہے، اور آیت اعراف میں یہ بتلایا گیا ہے کہ محشر میں اس مقام پر کچھ لوگ ہوں گے جو جنت و دوزخ دونوں طرف کے حالات کو دیکھ رہے ہوں گے، اور دونوں طرف رہنے والوں سے مکالمات اور سوال و جواب کریں گے۔ - اب یہ کہ یہ کون لوگ ہوں گے اور اس درمیانی مقام میں ان کو کیوں روکا جائے گا اس میں مفسرین کے اقوال مختلف اور روایات حدیث متعدد ہیں، لیکن صحیح اور راجح جمہور مفسرین کے نزدیک یہ ہے کہ یہ وہ لوگ جن کے حسنات اور سیئات کے دونوں پلے میزان عمل میں برابر ہوجائیں گے، اپنے حسنات کے سبب جہنم سے تو نجات پالیں گے، لیکن سیئات اور گناہوں کے سبب ابھی جنت میں ان کا داخلہ نہ ہوا ہوگا، اور بالآخر رحمت خداوندی سے یہ لوگ بھی جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ - صحابہ کرام میں سے حضرت حذیفہ، ابن مسعود، ابن عباد (رض) کا اور دوسرے صحابہ وتابعین کا یہی قول ہے، اور اس میں تمام روایات حدیث بھی جمع ہوجاتی ہیں، جو مختلف عنوانات سے منقول ہیں، امام ابن جریر رحمة اللہ علیہ نے بروایت حذیفہ (رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اہل اعراف کے متعلق پوچھا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی، اس لئے جہنم سے تو نجات ہوگئی، مگر جنت میں ابھی داخل نہیں ہوئے، ان کو اس مقام اعراف پر روک لیا گیا، یہاں تک کہ تمام اہل جنت اور اہل دوزخ کا حساب اور فیصلہ ہوجانے کے بعد ان کا فیصلہ کیا جائے گا، اور بالآخر ان کی مغفرت ہوجائے گی، اور جنت میں داخل کئے جائیں گے (ابن کثیر)- اور ابن مردویہ نے بروایت حضرت جابر بن عبداللہ (رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ اھل اعراف کون لوگ ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے والدین کی مرضی اور اجازت کے خلاف جہاد میں شریک ہوگئے، اور اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے، تو ان کو جنت کے داخلہ سے ماں باپ کی نافرمانی نے روک دیا اور جہنم کے داخلہ سے شہادت فی سبیل اللہ نے روک دیا۔- اس حدیث اور پہلی حدیث میں کوئی تضاد نہیں، بلکہ یہ حدیث ایک مثال ہے ان لوگوں کی جن کی نیکیاں اور گناہ برابر درجہ کے ہوں، کہ ایک طرف شہادت فی سبیل اللہ اور دوسری طرف ماں باپ کی نافرمانی، دونوں پلّے برابر ہوگئے۔ (کذا قالہ ابن کثیر)- سلام کا مسنون لفظ - اہل اعراف کی تشریح اور تعریف معلوم ہونے کے بعد اب اصل آیت کا مضمون دیکھئے، جس میں ارشاد ہے : اہل اعراف اہل جنت کو آواز دے کر کہیں گے سَلٰمُ عَلَیکُم یہ لفظ دنیا میں بھی باہمی ملاقات کے وقت بطور تحفہ و اکرام کے بولا جاتا ہے اور مسنون ہے اور بعد موت کے قبروں کی زیارت کے وقت بھی، اور پھر محشر اور جنت میں بھی، لیکن آیات اور روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں تو السلام علیکم کہنا مسنون ہے اور اس دنیا سے گذرنے کے بعد بغیر الف لام کے سلام علیکم کا لفظ مسنون ہے زیارت قبور کے لیے جو کلمہ قرآن مجید میں مذکور ہے وہ بھی (آیت) سلم علیکم بماصبرتم فنعم عقبی الدار۔ آیا ہے اور فرشتے جب اہل جنت کا اسقبال کریں گے اس وقت بھی یہ لفظ اسی عنوان سے آیا ہے (آیت) سلم علیکم طبتم فادخلوھا خالدین، اور یہاں بھی اہل اعراف اہل جنت کو اسی لفظ کے ساتھ کلام کریں گے۔
وَاِذَا صُرِفَتْ اَبْصَارُہُمْ تِلْقَاۗءَ اَصْحٰبِ النَّارِ ٠ ۙ قَالُوْا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِـمِيْنَ ٤٧ ۧ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- صرف - الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152]- ( ص ر ف ) الصرف - کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے :- ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ - بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ - لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
(٤٦) اور جنت اور دوزخ کے درمیان ایک آڑ ہوگی اور اس آڑ اور دیوار (اعراف) پر بہت لوگ ہوں گے جن کی حسنات اور سیئات میزان میں برابر ہوں گی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے عالم فقہا ہوں گے جو رزق کے معاملے میں شک کرتے تھے۔- یہ لوگ دونوں جماعتوں کو یعنی اہل جنت میں اور اہل دوزخ کو ان کے قیافہ سے پہچان لیں گے کیوں کہ دوزخیوں کی صورتیں سیاہ اور ان کی آنکھیں نیلی ہوں گی، اور جنت میں داخل ہونے والوں کے چہرے سفید، چمک دار، اور نورانی ہوں گے۔- اور اصحاب اعراف اہل جنت کو کہیں گے السلام علیکم مگر یہ ابھی تک جنت میں داخل نہیں ہوں گے اور اس کے امیدوار ہوں گے۔
آیت ٤٦ (وَبَیْنَہُمَا حِجَابٌ ج) ۔ - اہل جنت اور اہل جہنم کے درمیان ہونے والی اس نوعیت کی گفتگو کا نقشہ زیادہ واضح طور پر سورة الحدید میں کھینچا گیا ہے۔ وہاں (آیت نمبر ١٣ میں) فرمایا گیا ہے : (فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُوْرٍ لَّہٗ بَابٌ ط) یعنی ایک طرف جنت اور دوسری طرف دوزخ ہوگی اور درمیان میں فصیل ہوگی جس میں ایک دروازہ بھی ہوگا۔- (وَعَلَی الْاَعْرَافِ رِجَالٌ یَّعْرِفُوْنَ کُلاًّمبِسِیْمٰٹہُمْ ج ) ۔ - یہ اصحاب اعراف اہل جنت کو بھی پہچانتے ہوں گے اور اہل جہنم کو بھی۔ قلعوں کی فصیلوں کے اوپر جو برجیاں اور جھروکے بنے ہوتے ہیں جہاں سے تمام اطراف و جوانب کا مشاہدہ ہو سکے ‘ انہیں عرف (جمع اعراف) کہا جاتا ہے۔ دوزخ اور جنت کی درمیانی فصیل پر بھی کچھ برجیاں اور جھروکے ہوں گے جہاں سے جنت و دوزخ کے مناظر کا مشاہدہ ہو سکے گا۔ ان پر وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں بین بین کے لوگ تھے ‘ یعنی کسی طرف بھی یکسو ہو کر نہیں رہے تھے۔ ان کے اعمال ناموں میں نیکیاں اور بد اعمالیاں برابر ہوجائیں گی ‘ جس کی وجہ سے ابھی انہیں جنت میں بھیجنے یا جہنم میں جھونکنے کا فیصلہ نہیں ہوا ہوگا اور انہیں اعراف پر ہی روکا گیا ہوگا۔- (وَنَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْقف لَمْ یَدْخُلُوْہَا وَہُمْ یَطْمَعُوْنَ ) ۔ - وہ اہل جنت کو دیکھ کر انہیں بطور مبارک باد سلام کہیں گے اور ان کی اپنی شدید خواہش اور آرزو ہوگی کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی جلد از جلد جنت میں داخل کر دے ‘ جو آخر کار پوری کردی جائے گی۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :34 یعنی یہ اصحاب الاعراف وہ لوگ ہوں گے جن کی زندگی کا نہ تو مثبت پہلو ہی اتنا قوی ہوگا کہ جنت میں داخل ہو سکیں اور نہ منفی پہلو ہی اتنا خراب ہوگا کہ دوزخ میں جھونک دیے جائیں ۔ اس لیے وہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک سرحد پر رہیں گے ۔
25: یوں تواعراف والے جنت اور جہنم دونوں کا خود نظارہ کررہے ہوں گے، اس لئے انہیں جنتیوں اور دوزخیوں کو پہچاننے کے لئے کسی علامت کی ضرورت نہیں ہوگی ؛ لیکن یہاں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ لوگ جنت اور دوزخ والوں کو دنیا میں بھی ان کی علامتوں سے پہچانتے تھے اور چونکہ یہ لوگ صاحب ایمان تھے، اس لئے انہیں دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ نے اتنی حس عطا فرمادی تھی کہ یہ متقی پرہیزگار لوگوں کے چہروں سے پہچان لیتے تھے کہ یہ نیک لوگ ہیں اور کافروں کے چہروں سے پہچان لیتے تھے کہ یہ کافر ہیں۔ تفسیر کبیر امام رازی.