5۔ 1 لیکن عذاب آجانے کے بعد ایسے اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں۔ جیسا کہ پہلے وضاحت گزر چکی ہے (فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا) 40 ۔ غافر :85) جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو اس وقت ان کا ایمان لانا، ان کے لئے نفع مند نہیں ہوا۔
[٥] یعنی اللہ کی گرفت ہمیشہ اس وقت آتی ہے جب انسان اللہ کی تنبیہات سے بےنیاز ہو کر غفلت کی نیند سو جاتا ہے پھر جب اللہ کی گرفت یا اس کا عذاب واقع ہوجاتا ہے تو اس وقت یہ اعتراف کرنے لگتا ہے کہ یہ ہمارا ہی قصور تھا جو ہم غفلت میں پڑے رہے مگر وقت گزرنے کے بعد ایسا اعتراف کوئی فائدہ نہیں دیتا، بلکہ حسرت و یاس کا سبب بن جاتا ہے اللہ تعالیٰ فرما یہ رہے ہیں کہ تمہارے سامنے بیسیوں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ پھر کیا یہ ضروری ہے کہ تم اسی وقت عبرت حاصل کرو جب تم خود عذاب میں گرفتار ہوجاؤ ؟ آخر تم گزشتہ اقوام کے انجام سے کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے ؟
فَمَا كَانَ دَعْوٰىهُمْ : ” دعویٰ “ کا معنی دعا بھی ہوتا ہے اور ادّعا بھی، یعنی اس وقت ان سے سوائے گناہ کے اعتراف کے کچھ بن نہ پڑا اور وہ اپنے بنائے ہوئے اولیاء، یعنی جھوٹے معبودوں کو بھول گئے اور اپنے تمام دعوے بھی، مثلاً یہ کہ آخرت کو بھی ہم ہی مقرب ہوں گے، مگر اس وقت کا اعتراف گناہ ان کے کس کام آسکتا تھا ؟ جب گناہ سے توبہ کا وقت تھا اس وقت تو غفلت کی نیند سوتے رہے۔ ایسے وقت میں ان کے منہ سے بےساختہ یہ الفاظ نکلنے سے صاف ظاہر ہے کہ پہلے بھی ان کے دماغ میں یہ بات ہر وقت رہتی تھی کہ تم شرک کر کے اور اللہ کے رسول کو جھٹلا کر ظلم کر رہے ہو، مگر ان کے تکبر اور عناد نے انھیں اقرار نہیں کرنے دیا۔ دیکھیے سورة انبیاء (١١ تا ١٥) اور سورة مومن ( ٨٥) ۔
فَمَا كَانَ دَعْوٰىہُمْ اِذْ جَاۗءَہُمْ بَاْسُـنَآ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اِنَّا كُنَّا ظٰلِـمِيْنَ ٥- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
آیت ٥ (فَمَا کَانَ دَعْوٰٹہُمْ اِذْ جَآءَ ہُمْ بَاْسُنَآ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیْنَ )- واقعتا ہمارے رسولوں نے تو ہماری آنکھیں کھولنے کی پوری کوشش کی تھی مگر ہم نے ہی اپنی جانوں پر زیادتی کی جو ان کی دعوت کو نہ مانا۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :5 یعنی تمہاری عبرت کے لیے ان قوموں کی مثالیں موجود ہیں جو خدا کی ہدایت سے منحرف ہو کر انسانوں اور شیطانوں کی رہنمائی پر چلیں اور آخر کار اس قدر بگڑیں کہ زمین پر ان کا وجود ایک ناقابلِ برداشت لعنت بن گیا اور خدا کے عذاب نے آکر ان کی نجاست سے دنیا کو پاک کر دیا ۔ آخری فقرے سے مقصد دو باتوں پر متنبہ کرنا ہے ۔ ایک یہ کہ تلافی کا وقت گزر جانے کے بعد کسی کا ہوش میں نہ آنا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنا بےکار ہے ۔ سخت نادان ہے وہ شخص اور وہ قوم جو خدا کی دی ہوئی مہلت کو غفلتوں اور سرشاریوں میں ضائع کردے اور داعیانِ حق کی صداؤں کو بہرے کانوں سے سُنے جائے اور ہوش میں صرف اس وقت آئے جب اللہ کی گرفت کا مضبوط ہاتھ اس پر پڑ چکا ہو ۔ دوسرے یہ کہ افراد کی زندگیوں میں بھی اور اقوام کی زندگیوں میں بھی ایک دو نہیں بے شمار مثالیں تمہارے سامنے گزر چکی ہیں کہ جب کسی کی غلط کاریوں کا پیمانہ لبریز ہو چکتا ہے اور وہ اپنی مہلت کی حد کو پہنچ جاتا ہے تو پھر خدا کی گرفت اچانک اسے آپکڑتی ہے ، اور ایک مرتبہ پکڑ میں آجانے کے بعد چھٹکارے کی کوئی سبیل اسے نہیں ملتی ۔ پھر جب تاریخ کے دوران میں ایک دو دفعہ نہیں سینکڑوں اور ہزاروں مرتبہ یہی کچھ ہو چکا ہے تو آخر کیا ضرور ہے کہ انسان اسی غلطی کا بار بار اعادہ کیے چلا جائے اور ہوش میں آنے کے لیے اسی آخری ساعت کا انتظار کرتا رہے جب ہوش میں نہ آنے کا کوئی فائدہ حسرت و اندوہ کے سوا نہیں ہوتا ۔