Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 امتوں سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے پاس پیغمبر آئے تھے ؟ انہوں نے تمہیں ہمارا پیغام پہنچایا تھا ؟ وہ جواب دیں گے کہ ہاں یا اللہ تیرے پیغمبر یقینا ہمار پاس آئے تھے لیکن ہماری قسمت پھوٹی تھی کہ ہم نے ان کی پروا نہیں کی اور پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے ہمارا پیغام اپنی امتوں کو پہنچایا تھا ؟ اور انہوں نے اس کے مقابلے میں کیا رویہ اختیار کیا ؟ پیغمبر سوال کا جواب دیں گے۔ جس کی تفصیل قرآن مجید کے مختلف مقامات پر موجود ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْهِمْ : پچھلی آیت میں جس چیز سے ڈرایا گیا وہ دنیا کا عذاب تھا، اس آیت میں آخرت کے معاملات سے ڈرایا گیا ہے۔ (کبیر) یعنی ہم لوگوں سے تو یہ پوچھیں گے کہ تم نے ہمارے پیغمبروں کی دعوت کو کہاں تک قبول کیا جیسا کہ سورة قصص آیت نمبر (٦٥) میں فرمایا (وَيَوْمَ يُنَادِيْهِمْ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِيْنَ ) اور جس دن وہ انھیں آواز دے۔ پس کہنے لگا تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا اور پیغمبروں سے دریافت کریں گے کہ تم نے لوگوں تک ہمارا پیغام پہنچایا تھا یا نہیں ؟ اور پہنچایا تھا تو انھوں نے کیا جواب دیا تھا ؟ جیسا کہ سورة مائدہ آیت نمبر (١٠٩) میں فرمایا : ( يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ۭ ) جس دن اللہ رسولوں کو جمع کرے گا پھر کہے گا تمہیں کیا جواب دیا گیا مقصود کفار کو ڈانٹنا اور ذلیل کرنا ہوگا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْهِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ یعنی قیامت کے روز عوام الناس سے سوال کیا جائے گا کہ ہم نے تمہارے پاس اپنے رسول اور کتابیں بھیجی تھیں، تم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا، اور رسولوں سے پوچھا جائے گا کہ جو پیغام رسالت اور احکام الٓہیہ دے کر ہم نے آپ کو بھیجا تھا وہ آپ حضرات نے اپنی اپنی امتوں کو پہنچا دیئے یا نہیں (اخرجہ البیہقی عن ابن عباس مظہری) ۔- اور صحیح مسلم میں حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجة الوداع کے خطبہ میں لوگوں سے سوال کیا کہ قیامت کے روز تم لوگوں سے میرے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ میں نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا یا نہیں ؟ فما انتم قائلون، ” یعنی اس وقت تم اس کے جواب میں کیا کہو گے “ ؟ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ ہم کہیں گے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کا پیغام ہم تک پہنچا دیا، اور امانت خداوندی کا حق ادا کردیا، اور امت کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا، یہ سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہم اشھد ” یعنی یا اللہ آپ گواہ رہیں “۔- اور مسند احمد کی روایت میں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ مجھ سے دریافت فرماویں گے کہ کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام بندوں کو پہنچا دیا، اور میں جواب میں عرض کروں گا کہ میں نے پہنچا دیا ہے، اس لئے اب تم سب اس کا اہتمام کرو کہ جو لوگ حاضر ہیں وہ غائبین تک میرا پیغام پہنچا دیں (مظہری) - غائبین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس زمانہ میں موجود تھے مگر اس مجلس میں حاضر نہ تھے، اور وہ نسلیں بھی جو بعد میں پیدا ہوں گی، ان تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ ہر زمانے کے لوگ آنے والی نسل کو اس پیغام کے پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھیں، تاکہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام بنی آدم کو یہ پیغام پہنچ جائے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْہِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ۝ ٦ ۙ- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (فَلَنَسْءَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْءَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ ) ۔ - یہ فلسفہ رسالت کا بہت اہم موضوع ہے جو اس آیت میں بڑی جلالی شان کے ساتھ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی طرف رسول کو اس لیے بھیجتا ہے تاکہ وہ اسے خبردار کردے۔ یہ ایک بہت بھاری اور حساس ذمہ داری ہے جو رسول پر ڈالی جاتی ہے۔ اب اگر بالفرض رسول کی طرف سے اس میں ذرا بھی کوتاہی ہوگی تو قوم سے پہلے اس کی پکڑ ہوجائے گی۔ اس کی مثال یوں ہے کہ آپ نے ایک اہم پیغام دے کر کسی آدمی کو اپنے کسی دوست کے پاس بھیجا کہ وہ یہ کام کل تک ضرور کردے ورنہ بہت نقصان ہوگا ‘ لیکن آپ کے اس دوست نے وہ کام نہیں کیا اور آپ کا نقصان ہوگیا۔ اب آپ غصّے سے آگ بگولہ اپنے دوست کے پاس پہنچے اور کہا کہ تم نے میرے پیغام کے مطابق بروقت میرا کام کیوں نہیں کیا ؟ اب آپ کا دوست اگر جواباً یہ کہہ دے کہ اس کے پاس تو آپ کا پیغام لے کر کوئی آیا ہی نہیں تو اپنے دوست سے آپ کی ناراضی فوراً ختم ہوجائے گی ‘ کیونکہ اس نے کوتاہی نہیں کی ‘ اور آپ کو شدیدغصہ اس شخص پر آئے گا جس کو آپ نے پیغام دے کر بھیجا تھا۔ اب آپ اس سے باز پرس کریں گے کہ تم نے میرا اتنا اہم پیغام کیوں نہیں پہنچایا ؟ تم نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دے کر میرا اتنا بڑا نقصان کردیا۔ اسی طرح کا معاملہ ہے اللہ ‘ رسول اور قوم کا۔ اللہ نے رسول کو پیغام بر بنا کر بھیجا۔ بالفرض اس پیغام کے پہنچانے میں رسول سے کوتاہی ہوجائے تو وہ جوابدہ ہوگا۔ ہاں اگر وہ پیغام پہنچا دے تو پھر وہ اپنی ذمہ داری سے بری ہوجائے گا۔ پھر اگر قوم اس پیغام پر عمل درآمد نہیں کرے گی تو وہ ذمہ دار ٹھہرے گی۔ چناچہ آخرت میں امتوں کا بھی محاسبہ ہونا ہے اور رسولوں کا بھی۔ امت سے جواب طلبی ہوگی کہ میں نے تمہاری طرف اپنا رسول بھیجا تھا تاکہ وہ تمہیں میرا پیغام پہنچا دے ‘ تم نے اس پیغام کو قبول کیا یا نہیں کیا ؟ اور مرسلین سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے میرا پیغام پہنچایا یا نہیں ؟ اس کی ایک جھلک ہم سورة المائدۃ (آیت ١٠٩) میں (مَاذَآ اُجِبْتُمْ ط) کے سوال میں اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھ قیامت کے دن ہونے والے مکالمے کے ان الفاظ میں بھی دیکھ آئے ہیں : (وَاِذْ قَال اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ءَ اَنْتَ قُلْتَ للنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰہَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط) (آیت ١١٦) اور جب اللہ پوچھے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم کیا تم نے کہا تھا لوگوں سے کہ مجھے اور میری ماں کو بھی الٰہ بنا لینا اللہ کے علاوہ ؟ - اب ذرا حجۃ الوداع (١٠ ہجری) کے منظر کو ذہن میں لائیے۔ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک جم غفیر سے مخا طب ہیں۔ اس تاریخی موقع کے پس منظر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ٢٣ برس کی محنت شاقہ تھی ‘ جس کے نتیجے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جزیرہ نمائے عرب کے لوگوں پر اتمام حجت کر کے دین کو غالب کردیا تھا۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا : (اَلاَ ھَلْ بَلَّغْتُ ؟ ) لوگوسنو کیا میں نے پہنچا دیا ؟ اس پر پورے مجمع نے یک زبان ہو کر جواب دیا : نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ (١) ۔ ایک روایت میں الفاظ آتے ہیں : اِنَّا نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ الرِّسَالَۃَ وَاَدَّیْتَ الْاَمَانَۃَ وَنَصَحْتَ الْاُمَّۃَّ وَکَشَفْتَ الْغُمَّۃَ کہ ہاں ہم گواہ ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رسالت کا حق ادا کردیا ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امانت کا حق ادا کردیا (یہ قرآن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اللہ کی امانت تھی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم تک پہنچا دی) ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت کی خیر خواہی کا حق ادا کردیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گمراہی اور ضلالت کے اندھیروں کا پردہ چاک کردیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین دفعہ یہ سوال کیا اور تین دفعہ جواب لیا اور تینوں دفعہ انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھا کر پکارا : اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ اے اللہ تو بھی گواہ رہ ‘ یہ مان رہے ہیں کہ میں نے تیرا پیغام انہیں پہنچا دیا۔ اور پھر فرمایا : (فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَاءِبَ ) (٢) کہ اب پہنچائیں وہ لوگ جو یہاں موجود ہیں ان لوگوں کو جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ گویا میرے کندھے سے یہ بوجھ اتر کر اب تمہارے کندھوں پر آگیا ہے۔ اگر میں صرف تمہاری طرف رسول بن کر آیا ہوتا تو بات آج پوری ہوگئی ہوتی ‘ مگر میں تو رسول ہوں تمام انسانوں کے لیے جو قیامت تک آئیں گے۔ چناچہ اب اس دعوت اور تبلیغ کو ان لوگوں تک پہنچانا امت کے ذمہ ہے۔ یہی وہ گواہی ہے جس کا منظر سورة النساء میں دکھایا گیا ہے : (فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا ۔ ) ۔ پھر اس روز حجۃ الوداع کے موقع والی گواہی کا حوالہ بھی آئے گا کہ اے اللہ میں نے تو ان لوگوں کو تیرا پیغام پہنچا دیا تھا ‘ اب یہ ذمہ دار اور جواب دہ ہیں۔ چونکہ معاملہ ان پر کھول دیا گیا تھا ‘ لہٰذا اب یہ لوگ لاعلمی کے بہانے کا سہارا نہیں لے سکتے۔- آیت ٦ ( فَلَنَسْءَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْءَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ ) کی طرح اگلی آیت بھی اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت اہم ہے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :6 باز پرس سے مراد روز قیامت کی باز پرس ہے ۔ بدکار افراد اور قوموں پر دنیا میں جو عذاب آتا ہے وہ دراصل ان کے اعمال کی باز پرس نہیں ہے اور نہ وہ ان کے جرائم کی پوری سزا ہے ۔ بلکہ اس کی حیثیت تو بالکل ایسی ہے جیسے کوئی مجرم جو چھوٹا پھر رہا تھا ، اچانک گرفتار کر لیا جائے اور مزید ظلم و فساد کے مواقع اس سے چھین لیے جائیں ۔ تاریخ انسانی اس قسم کی گرفتاریوں کی بے شمار نظیروں سے بھر پڑی ہے اور یہ نظیریں اس بات کی ایک صریح علامت ہیں کہ انسان کو دنیا میں شتر بے مہار کی طرح چھوڑ نہیں دیا گیا ہے کہ جو چاہے کرتا پھرے ، بلکہ اُوپر کوئی طاقت ہے جو ایک حدِ خاص تک اسے ڈھیل دیتی ہے ، تنبیہات پر تنبیہات بھیجتی ہے کہ اپنی شرارتوں سے باز آجائے ، اور جب وہ کسی طرح باز نہیں آتا تو اسے اچانک پکڑ لیتی ہے ۔ پھر اگر کوئی اس تاریخی تجربہ پر غور کرے تو بآسانی یہ نتیجہ بھی نکال سکتا ہے کہ جو فرمان روا اس کائنات پر حکومت کر رہا ہے اس نے ضرور ایسا ایک وقت مقرر کیا ہوگا جب ان سارے مجرموں پر عدالت قائم ہوگی اور ان سے ان کے اعمال کی باز پرس کی جائے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ اُوپر کی آیت کو جس میں دنیوی عذاب کا ذکر کیا گیا ہے ، بعد والی آیت کے ساتھ”پس“ کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے ، گویا اس دنیوی عذاب کا بار بار واقع ہونا آخرت کی باز پرس سے یقیناً واقع ہونے پر ایک دلیل ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :7 اس سے معلوم ہو ا کہ آخرت کو باز پرس سراسر رسالت ہی کی بنیاد پر ہوگی ۔ ایک طرف پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے نوع انسانی تک خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے کیا کچھ کیا ۔ دوسری طرف جن لوگوں تک رسولوں کا پیغام پہنچا ان سے سوال کیا جائے گا کہ اس پیغام کے ساتھ تم نے کیا برتاؤ کیا ۔ جس شخص یا جن انسانی گروہوں تک انبیاء کا پیغام نہ پہنچا ہو ، ان کے بارے میں تو قرآن ہمیں کچھ نہیں بتاتا کہ ان کے مقدمہ کا کیا فیصلہ کیا جائے گا ۔ اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے ۔ لیکن جن اشخاص و اقوام تک پیغمبروں کی تعلیم پہنچ چکی ہے ان کے متعلق قرآن صاف کہتا ہے کہ وہ اپنے کفر و انکار اور فسق و نافرمانی کے لیے کوئی حجّت نہ پیش کر سکیں گے اور ان کا انجام اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ حسرت و ندامت کے ساتھ ہاتھ ملتے ہوئے جہنم کی راہ لیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani