آخری حقیقت جنت اور دوزخ کا مشاہدہ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے کل عذر ختم کر دیئے تھے اپنے رسولوں کی معرفت اپنی کتاب بھیجی جو مفصل اور واضح تھی ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( الۗرٰ ۣ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ Ǻۙ ) 11-ھود:1 ) ، اس قرآن کی آیتیں مضبوط اور تفصیل وار ہیں ۔ اس کی جو تفصیل ہے وہ بھی علم پر ہے جیسے فرمان ہے آیت ( انزلہ بعلمہ ) اسے اپنے علم کے ساتھ اتارا ہے ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ آیت اسی آیت پر جاتی ہے جس میں فرمان ہے آیت ( كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِيْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَذِكْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ Ą ) 7- الاعراف:2 ) ، یہ کتاب تیری طرف نازل فرمائی گئی ہے پس اس سے تیرے سینے میں کوئی حرج نہ ہونا چاہئے ۔ یہاں فرمایا آیت ( ولقد جئناہم بکتاب ) الخ ، لیکن یہ محل نظر ہے اس لئے کہ فاصلہ بہت ہے اور یہ قول بےدلیل ہے درحقیقت جب ان کے اس خسارے کا ذکر ہوا جو انہیں آخرت میں ہو گا تو بیان فرمایا کہ دنیا میں ہی ہم نے تو اپنا پیغام پہنچا دیا تھا رسول بھی کتاب بھی ۔ جیسے ارشاد ہے کہ جب تک ہم رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا ۔ انہیں تو اب جنت دوزخ کے اپنے سامنے آنے کا انتظار ہے ۔ یا یہ مطلب کہ اس کی حقیقت یکے بعد دیگرے روشن ہوتی رہے گی یہاں تک کہ آخری حقیقت یعنی جنت دوزخ ہی سامنے آ جائیں گی اور ہر ایک اپنے لائق مقام میں پہنچ جائے گا قیامت والے دن یہ واقعات رونما ہو جائیں گے اب جو سن رہے ہیں اس وقت دیکھ لیں گے اس وقت اسے فراموش کر کے بیٹھ رہنے والے عمل سے کورے لوگ مان لیں گے کہ بیشک اللہ کے انبیاء سچے تھے رب کی کتابیں برحق تھیں کاش اب کوئی ہمارا سفارشی کھڑا ہو اور ہمیں اس ہلاکت سے نجات دلائے یا ایسا ہو کہ ہم پھر سے دنیا کی طرف لوٹا دیئے جائیں تو جو کام کئے تھے اب ان کے خلاف کریں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ 27 ) 6- الانعام:27 ) کاش کہ ہم پھر دنیا میں لوٹائے جاتے ، اپنے رب کی آیتوں کو نہ جھٹلاتے اور مومن بن جاتے ۔ اس سے پہلے جو وہ چھپا رہے تھے اب ظاہر ہو گیا حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ دوبارہ دنیا میں بھیجے بھی جائیں تو جس چیز سے روکے جائیں گے وہی دوبارہ کریں گے اور جھوٹے ثابت ہوں ۔ انہوں نے آپ ہی اپنا برا کیا اللہ کے سوا اوروں سے امیدیں رکھتے رہے آج سب باطل ہو گئیں نہ کوئی ان کا سفارشی نہ حمایتی ۔
52۔ 1 یہ اللہ تعالیٰ جہنمیوں کے ضمن میں ہی فرما رہا ہے کہ ہم نے تو اپنے علم کامل کے مطابق ایسی کتاب بھیج دی تھی جس میں ہر چیز کو کھول کر بیان کردیا تھا۔ ان لوگوں نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا، تو ان کی بدقسمتی، ورنہ جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئے، وہ ہدایت و رحمت الٰہی سے فیض یاب ہوئے گویا ہم نے تو (وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا) 17 ۔ الاسراء :15) جب تک ہم رسول بھیج کر اتمام حجت نہیں کردیتے، ہم عذاب نہیں دیتے کے مطابق اہتمام کردیا تھا۔
[٥١] کتاب اللہ رحمت کیسے :۔ یعنی ہم نے اپنے علم کی بنا پر یہ بتلا دیا ہے کہ نیکوکاروں کا انجام ایسا ہوگا اور بدکاروں کا ایسا روز آخرت بھی یقینی ہے اور ہر عمل کی جزا و سزا بھی مل کے رہے گی۔ بدکاروں پر اس دنیا میں بھی عذاب آتا ہے اور آخرت میں تو عذاب یقینی ہے۔ غرض ہر طرح کی تفصیل اس کتاب میں مذکور ہے۔ مگر اس کتاب سے فائدہ صرف وہی لوگ اٹھاتے ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں۔ ایمان لاتے ہی ان کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی شروع ہوجاتی ہے۔ ان کے اخلاق سنور جاتے ہیں وہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے اور ان کی بھلائی کی باتیں سوچنے لگتے ہیں۔ ان کی زندگی انتہائی ذمہ دارانہ زندگی بن جاتی ہے پھر ان کی آخرت بھی سنور جاتی ہے اس طرح یہ کتاب ان کی دنیوی زندگی میں بھی ہدایت اور رحمت ثابت ہوتی ہے اور آخرت میں بھی۔
وَلَقَدْ جِئْنٰهُمْ بِكِتٰبٍ ۔۔ : یعنی یہ کفار یہ عذر نہیں کرسکتے کہ ہمیں معلوم نہ تھا، کیونکہ ہم نے ان کی طرف یہ کتاب بھیج کر ہر بات کھول کر بیان کردی تھی اور ہمارا طریقہ ہی نہیں کہ پیغام پہنچائے بغیر عذاب دیں، فرمایا : ( وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا) [ بنی إسرائیل : ١٥ ] ” اور ہم کبھی عذاب دینے والے نہیں، یہاں تک کہ کوئی پیغام پہنچانے والا بھیجیں۔ “
ہَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِيْلَہٗ ٠ ۭ يَوْمَ يَاْتِيْ تَاْوِيْلُہٗ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ نَسُوْہُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ٠ ۚ فَہَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَاۗءَ فَيَشْفَعُوْا لَنَآ اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ ٠ ۭ قَدْ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ ٥٣ ۧ- هَلْ- : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم 98] . وقوله :- هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ- [ البقرة 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته .- ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔- تأويل - من الأول، أي : الرجوع إلى الأصل، ومنه : المَوْئِلُ للموضع الذي يرجع إليه، وذلک هو ردّ الشیء إلى الغاية المرادة منه، علما کان أو فعلا، ففي العلم نحو : وَما يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ [ آل عمران 7] ، وفي الفعل کقول الشاعر :- وللنّوى قبل يوم البین تأويل وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ [ الأعراف 53] أي : بيانه الذي غایته المقصودة منه . وقوله تعالی: ذلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا [ النساء 59] قيل : أحسن معنی وترجمة، وقیل : أحسن ثوابا في الآخرة .- والأَوْلُ : السیاسة التي تراعي مآلها، يقال : أُلْنَا وإِيلَ علینا - التاویل ۔ یہ بھی اول سے مشتق ہے جس کے معنی چیز کے اصل کی طرف رجوع ہونے کے ہیں اور جس مقام کی طرف کوئی چیز لوٹ کر آئے اسے موئل ( جائے بازگشت) کہا جاتا ہے ۔ پس تاویل کسی چیز کو اس غایت کی طرف لوٹانا کے ہیں جو اس سے بلحاظ علم علم یا عمل کے مقصود ہوتی ہے ۔ چناچہ غایت علمیٰ کے متعلق فرمایا :۔ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ ( سورة آل عمران 7) حالانکہ اس کی مراد اصلی خدا گے سوا کوئی نہیں جانتا یا وہ لوگ جو علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں اور غایت عملی کے متعلق شاعر نے کہا ہے ۔ (35) ، ، وللنوی ٰ قبل یوم البین تاویل ، ، اور جدائی کے دن سے پہلے جدائی کا انجام کا ( اور اس کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں ۔ اور قرآن میں ہے هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ ( سورة الأَعراف 53) اب صرف وہ اس کی تاویل یعنی وعدہ عذاب کے انجام کار کا انتظار کر رہے ہیں جس دن اس وعدہ عذاب کے نتائج سامنے آجائیں گے ۔ یعنی اس دن سے جو غایت مقصود ہے وعملی طور پر ان کے سامنے ظاہر ہوجائے گی ۔ اور آیت کریمہ :۔ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ( سورة النساء 59) میں بعض نے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے ( احسن تاویلا ہونا مراد لیا ہے اور بعض نے آخرت میں بلحاظ ثواب کے احسن ہونا مراد لیا ہے ۔ الاول ( ن) کے معنی ہیں مآل اور نتیجہ پر نظر رکھتے ہوئے سیاست اور انتظام کرنا ۔ اسی سے کہا جاتا ہے قد النا وبل علینا ۔ ہم نے حکومت کی اور ہم پر حکومت کی گئی - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- شَّفَاعَةُ- : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم 87] ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» - الشفاعۃ - کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ اور اسی سے (علیہ السلام) کافرمان ہے «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی - رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی - صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔ - فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) الفری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔
(٥٢) اور ہم نے ان لوگوں کی طرف رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا قرآن حکیم دے کر بھیجا ہے، جسے ہم نے اپنے علم کامل سے بہت ہی واضح کیا ہے، وہ گمراہی سے ذریعہ ہدایت اور عذاب سے ذریعہ رحمت ہے، ایسے حضرات کے لیے جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہوں۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :36 یعنی اس میں پوری تفصیل کے ساتھ بتا دیا گیا ہے کہ حقیقت کیا ہے اور انسان کے لیے دنیا کی زندگی میں کونسا رویّہ درست ہے اور صحیح طرزِ زندگی کے بنیادی اصول کیا ہیں ۔ پھر یہ تفصیلات بھی قیاس یا گمان یا وہم کی بنیاد پر نہیں بلکہ خالص علم کی بنیاد پر ہیں ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :37 مطلب یہ ہے کہ اوّل تو اس کتاب کے مضامین اور اس کی تعلیمات ہی بجائے خود اس قدر صاف ہیں کہ آدمی اگر ان پر غور کرے تو اس کے سامنے راہِ حق واضح ہو سکتی ہے ۔ پھر اس پر مزید یہ ہے کہ جو لوگ اس کتاب کو مانتے ہیں ان کی زندگی میں عملاً بھی اس حقیقت کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ انسان کی کیسی صحیح رہنمائی کرتی ہے اور کتنی بڑی رحمت ہے کہ اس کا اثر قبول کرتے ہی انسان کی ذہنیت ، اس کے اخلاق اور اس کی سیرت میں بہترین انقلاب شروع ہو جاتا ہے ۔ یہ اشارہ ہے ان حیرت انگیز اثرات کی طرف جو اس کتاب پر ایمان لانے سےصحابہ کرام کی زندگیوں میں ظاہر ہو رہے تھے ۔